Popular Posts

Saturday, November 5, 2022

Green سبز خون کی رنگت ہونا

 

خون سفید ہونا بھی ایک محاورہ ہے۔ جسکی تفضیل ظاہر ہے ایک   سائنسی گروپ میں نہیں ملے گی۔ لیکن حیرانی کی بات ہے کہ واقعی بعض جانداروں کا خون سفید ہی ہوتا ہے۔بعض حشرات الارض اور مچھیلیوں کے خون میں ہیموگلوبین نامی سرخ مادہ نہیں ہوتا، اس لیے انکا خون سفید ہی ہوتا ہے۔ بالکل اسی طرح بعض جانوروں کا خون نیلا اور بنفشی بھی ہوسکتا ہے۔ لیکن زیادہ تر جاندار سرخ رنگ کا خون رکھتے ہیں کیونکہ آکسیجن اور دوسرے مادوں کی جسم میں ترسیل کے لیے یہ ایک بہت کارگر سسٹم ہوتا ہے ۔ لیکن اس پوسٹ میں ہم بات کریں گے سبز خون ہونے کی، جو کسی جانور کا نہیں بلکہ ایک انسان کا بھی ہوسکتا ہے ، اور میڈیکل تاریخ میں ایسے کافی ریکارڈ ہوچکے ہیں جس میں کسی انسان کا خون سبز یا ہر ا پایا گیا۔ تو آئیے اسکے متعلق جانتے ہیں۔

یہ ایک نایاب طبی حالت ہے جس میں خون میں شامل ہمارے سرخ مادے جسکو ہیموگلوبین کہا جاتا ہے، اس میں  اضافی سلفیموگلوبن (SulfHb) ہوتا ہے۔ جب ہائیڈروجن سلفائیڈ (H₂S) یا سلفائیڈ آئن اور فیرک آئن خون میں اکٹھے ہو جاتے ہیں تو ایسا  خون آکسیجن لے جانے کے قابل نہیں ہوتا۔

سلفہیموگلوبن ایک مستحکم, قیام پزیراور  سبز رنگت والا مالیکیول ہے، جو عام طور پر کسی زندہ  جسم میں موجود نہیں ہوتا ہے۔ یہ ہیموگلوبن میں آئرن کے آکسیکرن سے فیرک حالت میں ادویات اور کیمیکلز کے ذریعے بنایا جاتا ہے جس میں سلفر ہوتا ہے۔ سلفر ہیموگلوبن مالیکیول کی پورفرین  رنگ سے جڑ سکتا ہے، جو سلفہیموگلوبن بناتا ہے۔عام طور پر خون میں موجود سرخ رنگت اس میں پائے جانے والے ہیمو گلوبین میں آئرن کی موجودگی کی وجہ سے ہوتی ہے، لیکن اگر ہیموگلوبین آئرن کے ساتھ ساتھ سلفر (گندھک ) کے ایٹموں سے بھی بانڈ بنالے تو ہیموگلوبین کی رنگت سبز مائل کی ہوجاتی ہے۔

یہ سبزرنگت والا پگمنٹ  ہیموگلوبن (Hb)  ایک سبز رنگ کا  اخذ شدہ مرکب  ہے جس کی سلفر کی جذب کرنے کی شدت  628 نینو میٹر تک کی ہے، لیکن اسے تبدیل شدہ Hb کو معمول کے کام  پر نہیں لایا جا سکتا

یہ اخذ شدہ سلفیم آکسیجن کے مالیکیول  O₂ کی طرف مقامی پروئینز کے مقابلے میں کم وابستگی کا مظاہرہ کرتے ہیں  اور خون میں اسطرح کم سے کم آکسیجن کو جذب کرتے ہیں۔  سرخ خلیوں میں قدرتی میکانزم کے ذریعہ عام فعال پروٹین کی طرف واپس نہیں جا سکتے۔اسطرح اگر خون  سلفہیموگلوبن سے متاثر ہوگا، تو وہ مختلف اعضاء تک اکسیجن کی سپلائی نہیں کرسکے گا اور حتی الامکان جاندار موت کی طرف جانے لگے گا

خون میں یہ مادہ کہاں سے آتا ہے؟

لفہیموگلوبینیمیا عام طور پر کسی  منشیات  یا کسی مخصوص دوا کی زیادہ مقدار لے لینے کی وجہ سے ہوتا ہے۔ یہ ایسی دوائیں لینے سے ہو سکتا ہے جن میں سلفونامائڈز (Sumatriptan)، سلفاسالازین وغیرہ جیسی دوائیں ہوتی ہیں۔ ان ادویات میں سلفر کے ایٹم ہوتے ہیں جن کی ضرورت سے زیادہ مقدار خون میں سلفیموگلوبن کی تشکیل کا باعث بنتی ہے۔

ہائیڈروجن سلفائیڈ H₂S گیس کی مقدار سے زیادہ کسی جسم میں انجذاب بھی مبینہ طور پر سلفہیموگلوبینیمیا کی ایک وجہ ہے ، چاہے غیر ارادی طور پر کیوں نہ ہو ۔ اسکے علاوہ  کسی صنعتی فضلے کے اخراج یا سیوریج سے وابستہ H₂S گیس کی شدید آلودگی یا اخراج کا ہونا ۔ ان عوامل کی وجہ سےغیر مستحکم سلفر پر مشتمل مرکبات سے ضرورت سے زیادہ ماحولیاتی آلودگی والے شہر کی آبادی میں سلفہیموگلوبینیمیا کے اعلی واقعات رپورٹ ہوئے۔

اس کنڈیشن میں متبلا کسی مریض کا علاج کیسے کیا جائے؟

سلفہیموگلوبینیمیا Sulfhemoglobinemiaجسم کے اندرونی  اعضاء کو ختم کرنے اور انسانی یا کسی جاندار کی  موت کا باعث بن سکتا ہے جب کسی کے خون میں   Sulf-Hb کی انتہائی سطح تک پہنچ جائے، تقریباً 60% کی حد فائنل مانی جاتی ہے۔

مریض کے علاج کے لیے اسکے جسم میں موجود مشتبہ اور زپرہلے کیمیکل ایجنٹ کی معطلی و اخراج کا عمل، بیرونی زریعے سے  O₂ کی فراہمی اور  کسی سنگین صورتحال میں مریض کو میں خون کی منتقلی شامل  ہوسکتی ہے، کیونکہ سبز خون جسم میں آکسیجن کی سپلائی کا کام بالکل نہیں کرسکتا


ریفرنس

https://www.mcgill.ca/oss/article/did-you-know-health/theres-condition-can-cause-human-blood-turn-green#:~:text=In%20sulfhemoglobin%2C%20the%20sulphur%20atom,blueish%20tinge%20to%20their%20skin.

تحریر و تحقیق:

#حمیر_یوسف

Monday, October 24, 2022

ARSHID SHAREEFارشد شریف کون تھے ؟


ارشد شریف نے تحقیقاتی صحافت میں اپنا لوہا منوایا ، ارشد شریف کے والد محمد شریف پاکستان نیوی میں کمانڈر تھے ، انہیں بہادری اور شاندار کارکردگی پر تمغہ امتیاز ملا تھا ، 2011 میں وہ 79 سال کی عمر میں حرکت قلب بند ہو جانے سے انتقال کر گئے تھے ۔ والد کے انتقال کی خبر سن کر ارشد شریف کے بھائی اشرف شریف ( پاکستان آرمی میں میجر) بنوں کنٹونمنٹ سے بغیر پروٹوکول کے روانہ ہوئے ، گھر پہنچنے پر ان پر حملہ ہوا اور وہ بھی شہید ہو گئے ۔


میجر اشرف شریف کی عمر35 سال تھی ۔ میجر اشرف شریف کو والد کے جنازے کو کندھا دینے سے پہلے ہی شہید کر دیا گیا ۔ ایک گھر میں دو جنازے اٹھے ۔ میجر اشرف شریف کو پورے فوجی اعزاز کے ساتھ ملٹری قبرستان میں سپرد خاک کیا گیا ۔اس وقت کے آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی سمیت حکومتی شخصیات نے ارشد شریف کے گھر آنے سے اس افسوسناک واقعے پر گہرے دکھ اور افسوس کا اظہار کیا ۔


ارشد شریف 22 فروری 1973 کو کراچی میں پیدا ہوئے ، جب کہ راولپنڈی کے گارڈن کالج سے بی اے اور قائداعظم یونیورسٹی سے ایم اے کیا ۔ پڑھائی کے دنوں میں ہی فری لانس جرنلسٹ بن گئے اور اس کے بعد عملی طور پر صحافت سے وابستہ ہوئے ، انہوں نے روئٹرز ڈان نیوز اور آج نیوز اور اس کے بعد دنیا نیوز کے ساتھ وابستہ رہ کر بطور صحافی اور اینکر پرسن اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا ۔


دنیا نیوز پر انہوں نے اپنا پروگرام ’’ کیوں ‘‘ شروع کیا ، لیکن اصل شہرت انہیں اے آر وائی پر ان کے پروگرام ’’ پاور پلے ‘‘ کے ذریعے ملی ۔ سال 2019 میں حکومت پاکستان نے ان کو پرائیڈ آف پرفارمنس کا ایوارڈ دیا ۔ اس کے علاوہ وہ انٹرنیشنل سطح پر آگاہی ایوارڈ ، ایشین انویسٹیگیٹو میڈیا ایوارڈ اور وار کور سپونڈنٹ ایوارڈ سمیت متعدد اعزازات حاصل کر چکے ہیں ۔ وہ خوشگوار شادی شدہ زندگی گزار رہے تھے ۔


ارشد شریف پاکستان کے علاوہ لندن ، پیرس ، اسٹراسبورگ اور کیل سے بھی رپورٹنگ کر چکے تھے ۔ انہیں علاقائی حالات اور انٹرنیشنل چیلنجوں کے بارے میں پوری طرح ادراک تھا ۔ اور وہ ہر طرح کے حالات میں بہترین کام کرنے کا تجربہ رکھتے تھے ۔ ویسے تو اس شریف کے کریڈٹ پر بے شمار سنسنی خیز اور چونکا دینے والی اسٹوریاں ہیں لیکن خاص طور پر جب انہوں نے موٹروے کے ایک منصوبے اور سابق سربراہ احتساب بیورو سیف الرحمان کے حوالے سے اسٹوری کی تھی تو ان کو خاصی شہرت حاصل ہوئی تھی ۔ اس کے علاوہ جب انہوں نے مسلم کمرشل بینک اور میاں منشاء کے نشاط گروپ کے حوالے سے اسٹوریز کرنا شروع کیں تو وہ توجہ کا مرکز رہے ۔

 ارشد شریف نے پانامہ لیک کو پاکستانی میڈیا میں بریک کیا تھا۔وہ انوسٹیگیشن رپورٹنگ میں خاصے ماہر تصور کیئے جاتے تھے ۔اور جان دار تجزیئوں اور بے باک صحافت میں ایک اعلی مقام رکھتے تھے۔


سابق وزیراعظم نواز شریف کے دور حکومت میں ہونے والے مختلف اقدامات پر انہوں نے تحقیقاتی سٹوریاں کیں ، اس کے علاوہ سینٹ جیمز ہوٹل لندن کی خریداری میں نشاط گروپ کے حوالے سے ان کی اسٹوری کو زبردست مقبولیت حاصل ہوئی ۔ ارشد شریف کسی ایک خاص سیاسی گروپ یا سیاسی جماعت کے حامی نہیں تھے ۔ انہوں نے مختلف ادوار میں مختلف سیاسی جماعتوں حکومتوں اداروں اور شخصیات کے حوالے سے جو شاندار رپورٹنگ اور تحقیقاتی اسٹوریا میڈیا کے ذریعے عوام تک پہنچائیں ، وہ پاکستانی میڈیا کی تاریخ کا ایک حصہ بن چکی ہیں ، پاکستان کی اعلیٰ عدالتوں نے اہم مقدمات میں ارشد شریف کے پروگراموں اور تحقیقاتی رپورٹس کا حوالہ بھی دیا ہے ۔ ارشد شریف بنیادی طور پر دھیمے لہجے میں بات کرنے کے عادی ہیں اور دلیل کے ساتھ بات کرتے ہیں ۔


عمران خان کے اقتدار کے خاتمے کے بعد وہ پاکستان چھوڑ کر بیرون ملک منتقل ہوگئے تھے ۔


ارشد شریف پر مقدمات کیوں کرائے گئے ؟


ارشد شریف نے جب مسلم لیگ ن کے خلاف پروگرام کئے ، اس کے بعد انہوں نے اسٹبلشمنٹ کے خلاف بھی پروگرام کئے، جس کے بعد ملک بھر میں ارشد شریف کے خلاف مقدمات درج کئے گئے تھے ۔ مقدمات درج کرانے والوں میں اکثر مدعی خود کرمنل ریکارڈ کے حامل تھے جس کے باوجود پولیس نے ان کی مدعیت میں مقدمات درج کئے تھے ۔


ان میں مٹیاری کا مدعی طیب حسین بھٹی جعلی وکیل تھا ، ایرانی ڈیزل چوری اور اسمگلنگ کے مقدمے میں ملوث رہا ، جب کہ دادو کے مدعی عامرعلی لغاری کی مجرمانہ سرگرمیوں پرتھانہ اے سیکشن میں مقدمات قائم ہیں ۔ چمن میں نعمت اللہ مقدمہ درج کرایا تھا ، طیب حسین بھٹی نے حیدرآباد جبکہ ملیر کراچی میں عبدالرؤف نے مقدمہ درج کرایا تھا ، جن میں دفعات131، 153اور 505 شامل کی گئی تھیں ۔


اللہ کریم  ان کی مغفرت فرمائے ۔آمین

Monday, October 10, 2022

Sleep Paralysis)

 ایک رات دوران نیند میں نے محسوس کیا کہ میرے سینے پر کوئی بھاری مخلوق چڑھ کر مجھے دبوچ رہی ہے، وہ میرا گلہ دبا کے مجھے مارنا چاہتی ہے، میں نے اس مخلوق سے خود کو چھڑانے کی بھرپور کوشش کی اور پھر کچھ مزاحمت کے بعد بالآخر میں کامیاب ہوگیا، اور وہ مخلوق ہوا میں کہیں اڑ کر غائب ہوگئی، میں نے اپنی آنکھیں کھولیں، لیکن اس وقت تک میرا جسم مفلوج ہوچکا تھا، میں نے سوچا کہ جس سے میں نے مزاحمت کی کیا وہ بھوت کا سایہ تھا؟ یا محض ڈراؤنا خواب یا پھر کچھ اور؟

میں نے اس معاملے کو یہیں نہیں چھوڑا، میں نے اس کی چھان بین کی، جس کے بعد مجھ پر ایک انتہائی دلچسپ حقیقت عیاں ہوئی، پتہ چلا کہ میری طرح اکثر لوگوں کو دوران نیند کچھ ایسی ہی مزاحمت کرنی پڑتی ہے اور انہیں بھی اپنا جسم مکمل مفلوج محسوس ہوتا ہے، اوراس کیفیت کے دوران ان کے جسم کے تمام مسلز حرکت کرنا چھوڑ دیتے ہیں اور مفلوج ہوجاتے ہیں،اس کے علاوہ اکثر لوگوں کو دوران نیند اپنے سینے پر بہت بھاری پن محسوس ہونے لگتا ہے، اور اپنے بستر سے اٹھنے کی ہمت تک نہیں ہوتی۔

یہ عمل دراصل انگریزی میں ’سلیپ پیرالیسز‘ (Sleep Paralysis) کہلاتا ہے، یہ دوران نیند ایک انتہائی خوفناک قسم کا تجربہ ہوتا ہے، جو ایک عام کیفیت یا عمل ہے، اس عمل کے دوران انسان خود کو ہوش میں تو محسوس کرتا ہے، مگر حرکت نہیں کرپاتا۔

اس عمل کو عام لوگ متاثرہ شخص پر جنات کا اثر سمجھتے ہیں، لیکن در حقیقت یہ ایک بیماری ہے۔

سلیپ پیرالیسز اکثر یا تو نیند میں ہوتا ہے، یا پھر جب آدمی نیند سے بیدار ہونے والا ہوتا ہے اس وقت ہوتا ہے،اس کیفیت کے دوران آدمی اپنے جسم پر ایک شدید قسم کا دباؤ محسوس کرتا ہے، اسے لگتا ہے جیسے کوئی اس کا گلا دبا رہا ہو، یا پھر ایک بہت خوفناک شکل کی مخلوق اس کے جسم پر چڑھ بیٹھی ہے، جو اس پر مختلف طریقوں سے حملے کر رہی ہے، لیکن یہ سب کچھ اس وقت تک ہی ہوتا، جب تک اس شخص کی آنکھیں بند ہوتی ہیں، جیسے ہی وہ آنکھیں کھولتا ہے، سب کچھ بدل جاتا ہے، یہ کیفیت چند سیکنڈز سے لیکر چند منٹ تک رہ سکتی ہے، بعض مرتبہ کچھ طویل بھی ہوجاتی ہے.

سلیپ پیرالیسز کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں، جیسے کوئی صدمہ، اضطرابی کیفیت، اور ذہنی دباؤ، اکثر ان وجوہات کی بناء پر سلیپ پیرالیسز کا زیادہ امکان ہوتا ہے۔

دوران نیند انسانی جسم مختلف مراحل سے گزرتا ہے، نیند کے ان مراحل میں ایک مرحلہ ’آر آئی ایم‘ کہلاتا ہے، جس میں تقریبا ڈیڑھ سے 2 گھنٹے کے بعد خواب آنا شروع ہوجاتے ہیں، اس عمل کے دوران آدمی بے حس و حرکت پڑا رہتا ہے اور اپنے دماغ میں ہونے والے واقعات کو دیکھ رہا ہوتا ہے، دلچسپ امر یہ ہے کے اس عمل کے دوران قدرتی طور پر ہمارا جسم مفلوج ہوجاتا ہے، تاکہ دوران خواب ہم اپنے آپ کو کوئی نقصان نہ پہنچا دیں، جسم کا مفلوج ہونا قدرتی ہے، جو ہمارے لیے ایک تحفہ بھی ہے۔

مگر جب آدمی (آر ای ایم: ) نیند کے دوران خواب بینی کے مرحلے کے ختم ہونے سے پہلے بیدار ہوجاتا ہے تو اس وقت سلیپ پیرالیسز ہوتا ہے.

اس دوران ہمارے جسم کے مسلز کی حرکت بند ہو جاتی ہے، اور یہ اس لیے ہوتا ہے کہ دوران خواب آدمی خود کو نقصان نہ پہنچائے، جب آدمی کا دماغ اس ریپڈ آئی موومنٹ فیز سے پہلے ہی نکل آتا ہے تو سلیپ پیرالیسز ہوجاتا ہے، لیکن اس وقت تک جسم حرکت نہیں کرپاتا، بہت سارے افراد دوران سلیپ پیرالیسز فریب خیال (ہلوسنشن) محسوس کرتے ہیں، اور یہ اس وجہ سے ہوتا ہے کہ آدمی کا دماغ ابھی تک خواب کی حالت میں ہوتا ہے۔

انسان دوران سلیپ پیرالیسز عجیب و غریب شکلیں وغیرہ دیکھتا ہے، دوران سلیپ پیرالیسز فریب خیال کی کئی اقسام ہوتی ہیں، جن میں سے ایک انٹرووڈر فنومینن (مخل مظہر ) کہلاتا ہے، جس میں سلیپ پیرالیسز، محسوس کرنے والا آدمی کچھ عجیب و غریب مخلوق کو اپنے گرد اپنے کمرے میں محسوس کرتا ہے، دوسری طرح فریب خیال کو انکیوبس (بھیانک سپنا) کہتے ہیں، جس میں آدمی اپنے جسم پہ کوئی عجیب مخلوق بیٹھی ہوئی محسوس کرتا ہے، اسے لگتا ہے کہ وہ مخلوق اس کا گلہ دبا رہی ہوتی ہے، یا اس کے جسم کو زور سے جکڑ رہی ہے، اسی وجہ کئی منٹ تک آدمی اٹھ نہیں پاتا۔

یہ کیفیت زیادہ تر 10 سے 25 سال تک کی عمر کے افراد میں ہوتی ہے، سلیپ پیرالیسز کا کوئی مخصوص علاج نہیں ہے، لیکن اس کیفیت کی شدت کی صورت میں مریض کو اینٹی ڈپریشن کی میڈیسن دی جاتی ہے، تاہم مختلف ماہرین صحت اس کا علاج اپنے حساب سے مختلف طریقوں سے کرتے ہیں، اس کے لیے cognitive تھراپی ٹیکنیکس بھی استعمال کی جاتی ہیں، جن سے آدمی اپنی نیند میں اپنی سلیپ پیرالیسز پر کنٹرول حاصل کر سکتا ہے

منقول

Thursday, September 29, 2022

سریا خریدتے وقت فراڈ سے کیسے بچیں....؟

 

سریے کی مِقدار چیک کرنے کا ایک آسان سا کُلیہ...

 جو کہ تجربہ کار لوگوں کا بنا ہُوا ہے، شاید نئے گھر بنانے والوں کو میری تحریر سے فائدہ ہو سکے، 

سب سے پہلے تو یاد رکھیئے کہ جِس سریے پر چھوٹی چھوٹی شاخیں سی نِکلی ہوں گی، جان لیجیے کہ وہ سریا کچرے سے بنا ہُوا ہے وہ ہرگِز مت خریدیں،

 اِس کے علاوہ سریے کی ہر لینتھ کے اوپر ایک کونے پر اسکی تفصیل لکھی ہوتی ہے اسے غور سے پڑھیں کیونکہ 60 گریڈ کا سریا 40 گریڈ کے سرہے سے مہنگا ہوتا ہے تو کہیں ایسا تو نہیں کہ آپکو 60 کا بتا کر 40 پکڑایا جارہا ہے،،


اب آتے ہیں سریے کے وزن کو جاننے کے کُلیے کی طرف!!!!


 پاکِستان میں 3 سُوتر سے 8 سُوتر تک کا سریا استعمال ہوتا ہے، ان میں سے بھی عام گھروں میں3اور4 ہی زیادہ استعمال ہوتا ہے، 3اور4 سُوترکا سریا چھت، سیڑھی، چھوٹے کالمز، چھوٹے بیمز وغیرہ میں جبکہ بڑے بیم یا بڑے کالمز میں 6 سُوتر کا سریا اِستعمال ہوتا ہے، 


تین سُوتر کی ایک 40فُٹ لینتھ کا کُل وزن 6.8 کلو ہوتا ہے یعنی 6 کلو اور 800 گرام، جبکہ3سُوتر کے سریے کے ایک فُٹ ٹُکڑے کا وزن 170 گرام ہوتا ہے،

4سُوتر کی40فُٹ لینتھ کا وزن 12.10 کلو یعنی 12کلو اور 100 گرام جبکہ ایک فٹ کے پیس کا وزن 302 گرام ہوتا ہے،

پانچ سُوتر کی ایک 40 فٹ لینتھ کا وزن 18.90 یعنی 18کلو اور 900گرام جبکہ ایک فُٹ کے پیس کا وزن 476 گرام ہوتا ہے،

چھے سُوتر کی 40 فٹ لینتھ کا کُل وزن 27.22 یعنی 27کلو اور 220 گرام جبکہ ایک فٹ پیس کا وزن 680 گرام ہوتا ہے،

سات سُوتر کی 40فٹ لینتھ کا کُل وزن 37.05 یعنی 37کلو اور 050 گرام جبکہ ایک فٹ کے پیس کا وزن 930گرام ہوتا ہے،

آٹھ سُوتر کی 40فٹ لینتھ کا کُل وزن 48.39 یعنی 48کلو 390گرام اور ایک فُٹ کے پیس کا وزن 1.21 یعنی 1کلو 210گرام ہوتا ہے،


اب آپ جب بھی سریہ خریدیں تو وزن کرا لینے کے بعد اسکے لینتھ گِنیں مثال کے طور پر آپ 4 سُوتر کی 10لینتھ لیں ہیں جن میں سے ہر ایک کی لمبائی 40 فٹ ہے، انکے وزن کا کلیہ/فارمولا آپکے پاس موجود ہے 12.10x10 = 121کلو۔

اب اگر یہ 121 کلو ہے پھر تو ٹھیک یے یا اس میں زیادہ سے زیادہ 4 سے 5 کلو اوپر نیچے ہوجانے کی رعایت موجود ہے (وجہ سریے کی میکنگ اور پڑے پڑے تھوڑا زنگ لگ جانے کی صُورت میں معمولی وزن کا کم ہونا) لیکن اگر 4 سوتر کی 40فُٹی 10 لینتھ کا وزن 100کلو بن رہا ہے تو سمجھ جائیں آپکو چُونا لگایا جارہا ہے، اور یہ سریے کے ٹھیے یا فیکٹری والا رانگ نمبر ہے اُلٹے قدموں واپس بھاگ جائیں.


یہ پوسٹ سب کو تو نہیں لیکن چند لوگوں کے بہت کام کی ہے، اس طریقے کو فالو کر کے سریے والوں کے فراڈ سے کافی حد تک بچا جا سکتا ہے، باقی اینٹ، بلاک، بجری والوں کو اللہ تعالیٰ ہدایت دے کہ وہ مقدار برابر رکھیں۔آمین

Tuesday, September 20, 2022

ٹرانس جینڈر ایکٹ Trance gender Act

 

(اردو متن)


اسے ٹرانس جینڈر پرسنز (پروٹیکشن آف رائیٹس) ایکٹ 2018 کہا جا سکتا ہے۔ 

اِس کا اطلاق پاکستان میں ہر جگہ ہو گا۔

اِس کا اطلاق فوری ہو گا۔


چیپٹر نمبر ایک:

تعاریف (Definitions)

تعریف یا ڈیفینیشنز میں ایکٹ برائے جینڈر پروٹیکشن رائیٹس، سی این آئی سی یعنی شناختی کارڈ، کمپلینینٹ یعنی شکایت کُنندہ، سی آر سی مطلب بچوں کا رِجسٹریشن فارم یا فارم ب / بی، جینڈر ایکسپریشن کا مطلب کِسی شخص کی صنفی شِناخت وُہ خُود یا دُوسرے کیسے کرتے ہیں، جینڈر آئیڈینٹیٹی یعنی صنفی شِناخت کا مطلب کہ وہ شخص اندر سے خُود کو کیسا محسوس کرتا ہے، بطور مرد، عورت، کُچھ کُچھ دونوں یا کُچھ بھی نہیں۔ یہ شناخت پیدائش کے وقت دِی گئی صنفی شِناخت سے مُطابقت رکھ سکتی ہے اور نہیں بھی رکھ سکتی۔ اِس کے بعد گورنمنٹ یعنی حکومت سے مُراد وفاقی حکومت ہے۔

ہراسمنٹ سے مُراد یا ہراسمنٹ میں جِنسی، جِسمانی، ذہنی اور نفسیاتی ہراسمنٹ مُراد ہے جِس کا مطلب یہ ہے کہ سیکس کے لیے متشدد رویے، دباؤ، ناپسندیدہ سیکشوئل ایڈوائس، دعوت دینا وغیرہ سمیت ایسے تمام رویے جو اِس ضِمن میں آتے ہیں وہ ہراسمنٹ کہلائے جائیں گے۔

نادرا کا مطلب شِناختی کارڈ و اعداد و شمار کی رجسٹریشن کا اِدارہ ہے۔ نوٹیفیکیشن جو گزٹ میں پبلش ہُوا ہو۔ پی ڈی ایم سی یعنی پاکستان میڈیکل این ڈینٹل ایسوسی ایشن، پی ڈی ایم سی آرڈینینس 1962۔

پرسکرائیبڈ مطلب وفاقی حکومت نے جو قوانین اِس ایکٹ میں بنائے / پاس کیے ہیں۔ رُولز مطلب جو قوانین اِس میں شامِل ہیں۔

ٹرانس جینڈر پرسن مطلب؛

درمیانی جِنس (خنسہ) مردانہ و زنانہ جِنسی اعضا کے ساتھ یا پیدائشی جِنسی ابہام، خواجہ سرا ایسا میل چائلڈ جو بوقت پیدائش میل درج کِیا گیا ہو لیکن جِنسی طور پر ناکارہ / خصی ہو گیا ہو، ایک ٹرانس جینڈر مرد یا عورت جِس کی صنفی، جِنسی شِناخت یا شِناخت کا اِظہار معاشرے کی عُمومی اقدار سے ہٹ کر ہو یا اُس صنفی شناخت سے ہٹ کر ہو جو اُنھیں بوقتِ پیدائش دِی گئی تھی۔

کوئی ایسا لفظ یا الفاظ جِس کی تعریف اِس ایکٹ میں نہیں کی گئی یا لِکھی گئی اُس کا مطلب وُہی لِیا جائے گا جو سی آر پی سی ( ضابطہ فوجداری 1898 ) یا پی پی سی ( 1860 ) تعزیراتِ پاکستان میں درج ہے۔


چیپٹر نمبر دو

1۔ 

ایک ٹرانس جینڈر کو اپنی جِنسی / صنفی شِناخت اُس شِناخت کے مُطابق درج کروانے کا حق ہوگا جو صنفی / جِنسی شِناخت وُہ خُود کو تصور کرتا ہے۔ 

ایک ٹرانس جینڈر اپنے آپ کو سب سیکشن وَن کے تحت اپنی تصور کردہ شِناخت یعنی self perceived identity کے مُطابق تمام نادرا یا دیگر حکومتی اِداروں میں درج کروا سکتا ہے۔ 

3۔ 

ہر ٹرانس جینڈر اپنے آپ کو نادرا آرڈینینس 2000 یا دیگر متعلقہ قوانین کے مُطابق اٹھارہ سال کی عُمر ہونے پر سیلف پرسِیوڈ جینڈر آئیڈینٹیٹی کے مُطابق شِناختی کارڈ، پاسپورٹ یا ڈرائیونگ لائسنس بنوا سکتا ہے۔

ایک ٹرانس جینڈر جس کا شناختی کارڈ پہلے ہی بن چُکا ہے وہ بھی نادرا آرڈینینس 2000 کے مُطابق his or her سیلف پرسِیوڈ آئیڈینٹٹی کو اپنے شناختی کارڈ، پاسپورٹ یا ڈرائیونگ لائسنس پر درج کروا سکتا ہے۔


چیپٹر نمبر تین: 

تعلیمی، صحت یا دیگر اِداروں میں تعلیم یا سروسز سے منع کرنا، ختم کروانا، نااِنصافی پر مبنی رویہ، نوکری کرنے پر مجبور کرنا یا چھوڑنے سے زبردستی روکنا یا امتیازی سلوک منع ہے، غیرقانونی ہے۔ جو عوامی سہولیات ہیں، جو عوام کو دستیاب ہیں اُن سے روکنا، اُن کے استعمال سے روکنا، سفری سہولیات سے روکنا، عوامی سفری سہولیات استعمال کرنے سے منع کرنا، رہائش اختیار کرنے روکنا، جائیداد کی خرید و فروخت، کرایے پر عمارت لینے یا وراثتی منقولہ و غیر منقولہ جائیداد سے محروم کرنے یا حق سے اِنکار کرنا بالکل غیر قانُونی ہوگا۔ اُنھیں جِنسی، جِسمانی طور پر گھر یا گھر سے باہر ہراساں کرنا بھی منع ہے۔ 


چیپٹر نمبر چار:

برائے حکومتی فرائض و ذمہ داریاں: 

6۔ 

حکومت کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وُہ ٹرانس جینڈرز کی معاشرے اور سماج میں مکمل اور محفوظ شمولیت کو مُمکن بنائے۔ اِن کے لیے ری ہیب سینٹرز سمیت دیگر پناہ گاہیں بنائے، میڈیکل سہولیات مُہیا کرے، نفسیاتی علاج و مدد سمیت تعلیم بالغاں کا بندوبست کرے۔ 

ٹرانس جینڈرز جو جَرائم میں ملوث ہوں اِن کے لیے الگ جیل خانہ جات، حوالہ جات و حوالات بنائے جائیں۔ 

تمام اِدارے جیسے کہ صحت کا اِدارہ یا دیگر اِداروں میں ٹرانس جینڈر ایشیو کے لیے وقتاً فوقتاً آگاہی دِی جائے۔ 

اِنھیں ووکیشنل ٹریننگ دِی جائے تاکہ یہ اپنی روزی روٹی کا اِنتظام کر سکیں۔ اِنھیں آسان قرضے یا امداد دے کر چھوٹے کاروبار کرنے پر تیار کیا جائے۔

اِن تمام معاملات کو مکمل کرنا ہی اِس ایکٹ کا مقصد ہے۔


چیپٹر نمبر پانچ:

ٹرانس جینڈرز کے حقوق کا تحفظ:

7۔ 

وراثتی جائیداد یا وراثت سے بے دخل نہیں کِیا جا سکتا یا امتیازی سلوک نہیں روا رکھا جا سکتا۔ جو شناخت یہ اپنے آئی ڈی کارڈ پر درج کروائیں گے اُس کے مُطابق وراثتی حق مِلے گا۔ بطور مَرد اندراج والے کو مَرد کا اور بطور عورت اندراج کو بطور عورت وراثتی حق مِلے گا۔ 

جو اپنی مردانہ یا زنانہ شِناخت بارے ابہام کا شکار ہیں اُن پر درج ذیل اطلاق ہو گا۔

اٹھارہ سال کی عمر ہونے پر جِن کا اندراج بطور مَرد ہے / ہو گا اُنھیں بطور مَرد جب کہ بطور عورت اندراج ہونے پر بطور عورت وراثتی حق مِلے گا / دِیا جائے گا لیکن پھر بھی اگر کِسی کو صنفی ابہام ہو گا تو دو الگ الگ اشخاص یعنی مرد اور عورت کے وراثتی حقوق کا اوسط / ایوریج حِصہ دِیا جائے گا۔ اٹھارہ سال سے کم عُمر یعنی نا بالغ ہونے کی صُورت میں میڈیکل آفیسر کی رائے کے مُطابق طے ہو گا۔


8۔ حقِ تعلیم

اگر کوئی ٹرانس جینڈر کِسی سرکاری یا پرائیویٹ تعلیمی اِدارے کی باقی شرائط پر پُورا اُترتا ہے تو اُس کو تعلیم کے حق سے محروم نہیں رکھا جا سکتا یا امتیازی سلوک نہیں کِیا جا سکتا۔ اُنھیں تفریحی سہولیات یا کھیلوں میں شمولیت سے منع نہیں کِیا جا سکتا۔

حکومت اِسلامی جمہوریہ پاکستان کے اُنّیس سو تہتر کے آئین کے آرٹیکل پچیس اے کے مُطابق ٹرانس جینڈرز کو لازمی اور فری تعلیم کی ضمانت دینے اور سہولیات مُہیا کرنے کے اقدامات کرے گی۔

جِنسی و صنفی امتیاز پر مبنی رویے غیر قانونی ہوں گے۔ اُنھیں اِس بنیاد پر تعلیمی اِداروں میں داخلہ دینے سے منع کرنا، روکنا یا کِسی ٹریننگ پروگرام میں حِصہ لینے سے روکنا یا کِسی سہولت کو اِستعمال کرنے سے روکنا غیر قانونی ہو گا۔


9۔ نوکری کا حق

اِسلامی جمہوریہ پاکستان کے اُنّیس سو تہتر کے آئین کا آرٹیکل اٹھارہ جو اِن کے لیے جائز ذریعہ آمدنی، کاروبار یا نوکری کی ضمانت دیتا ہے اُس کا اطلاق کروایا جائے۔ کوئی بھی اِدارہ، محکمہ یا تنظیم نوکری، ترقی، تقرری، تبادلے یا متعلقہ معاملات میں امتیازی سلوک نہیں کر سکتا۔ جِنسی یا صنفی بنیادوں پر امتیازی سلوک غیر قانونی ہو گا۔ اِس بنیاد پر نوکری دینے یا پیشکش کرنے، اُن کی کِسی جگہ آمد و رفت یا پیش رفت ، ترقی ، ٹریننگ یا ایسے ہی فوائد کے حصول سے روکنا یا محدود کرنا غیر قانونی ہو گا۔ امتیازی سلوک برائے برخاستگی وغیرہ بھی غیر قانُونی ہے / ہو گا۔

 

10۔ ووٹنگ کا حق

کِسی ٹرانس جینڈر کو ووٹ کے حق سے محروم نہیں کِیا جا سکتا وہ بمطابق اپنے شناختی کارڈ ووٹ ڈال سکتا ہے۔ 


11۔ رائیٹ ٹُو ہولڈ پبلک آفس

عوامی عہدے کے اگر کوئی الیکشن میں حِصہ لینا چاہے تو اُسے نہیں روکا جا سکتا۔


12۔ صحت کا حق

حکومت کو چاہیے کہ وہ میڈیکل نصاب کا دوبارہ جائزہ لے، جو ریسرچ ڈاکٹرز اور نرسنگ سٹاف کو ٹرانس جینڈرز کی صحت کے مسائل بارے ہے اُس کو مزید بہتر کیا جائے۔ اِن کو ہسپتالوں اور دیگر صحت کے مراکز پر سہولیات فراہم کی جائیں۔ اِن کو جِسمانی و نفسیاتی عِلاج، معالجے یا مدد کی فراہمی کی ہر ممکن کوشش کی جائے۔ جِنس کے تعین یا correction میں مدد دِی جائے۔ 


13۔ اکٹھے ہونے کا حق

بمطابق اُنّیس سو تہتر کے آئین کے آرٹیکل نمبر سولہ کے تحت دِیا جائے۔ حفاظت کا معقول بندوبست کِیا جائے۔ امتیازی سلوک نہ کِیا جائے۔ 


14۔ پبلک پلیسز میں داخلے کی سہولت 

اِس کے مُطابق ٹرانس جینڈرز کو پبلک پلیس میں داخلے، سہولیات کے استعمال سے جِنسی یا صنفی وجوہات پر روکا نہین جا سکتا، امتیازی سلوک کا نشانہ نہیں بنایا جا سکتا۔ اِن کو روکنا یا امتیازی سلوک آئین کے آرٹیکل چھبیس کی خِلاف ورزی ہو گا۔ 


15۔ جائیداد کا حق

جائیداد کی خرید و فروخت، لِیزنگ یا کرائے پر حصول سے بوجوہ جِنس / صنف روکا نہیں جا سکتا۔ یہ غیر قانونی ہے۔

 

16۔ بنیادی حقوق کی ضمانت

آئین میں دیے گئے تمام بُنیادی حقوق کی ضمانت دِی جائے۔ یہ حکومتی ذمہ داری ہے کہ وہ کسی بھی قِسم کے امتیازی سلوک سے روک تھام اور بچنے کے اقدامات کرے۔


 17۔ جَرائم اور سزائیں

جو بھی ٹرانس جینڈرز کو بھیک مانگنے پر رکھتا یا مجبور کرے گا اُس کو چھ ماہ تک کی جیل کی سزا یا پچاس ہزار روپے جرمانہ یا دونوں سزائیں دی جا سکتی ہیں۔


چیپٹر نمبر سات:

18۔ اینفورسمینٹ میکنزم

آئینِ پاکستان، تعزیراتِ پاکستان اور ضابطہ فوجداری میں درج و دستیاب "remedies" کے ساتھ ساتھ متاثرہ ٹرانس جینڈر کو اگر کسی جگہ اُن حقوق سے محروم رکھا گیا یا جائے گا جو اُنھیں آئین دیتا ہے تو اُسے وفاقی محتسب، نیشنل کمیشن فار سٹیس آف ویمن یا نیشنل کمیشن آف ہیومن رائٹس کو درخواست دینے کا حق حاصل ہو گا۔

 

چیپٹر نمبر سات:

19۔ متفرق


19 : Act having over-riding effect to any other law : 

اِس ایکٹ میں موجود پروژنز پہلے سے موجود قوانین سے متصادم ہونے کی صورت میں اُن پر بالا تصور ہوں گی یعنی اِن کی روشنی میں مزید معاملات برائے ٹرانس جینڈر دیکھے جائیں گے۔ 

20۔ 

حکومتی اختیار میں یہ شامل ہے وہ رولز بنائے، نوٹیفیکیشن جاری کرے یا اِس ایکٹ کے عمل درآمد کے لیے قوانین بنائے۔

21۔ 

حکومت کے پاس اختیار اور طاقت ہے کہ اگر اِس کے عمل درآمد میں کوئی مسائل یا مشکلات ہیں تو ایسے احکامات جاری کرے یا سرکاری گزٹ میں پبلش کرے۔ مسائل کو سامنے لا کر انھیں حل کرے تا کہ جلد از جلد رکاوٹ یا مشکل کو دُور کیا جا سکے۔ یہ سب دو سال کے اندر کیا جائے گا۔


22۔

Statement of Objects and Reasons

ٹرانس جینڈرز کی کمیونٹی کو سماجی بے دخلی اور امتیازی سلوک کے مسائل ہیں۔ تعلیمی سہولیات کی کم یابی، بے روزگاری، صحت کی سہولیات کی کمی اور اِسی طرح کے متعدد مسائل دَرپیش ہیں۔ سپریم کورٹ آف پاکستان نے دو ہزار نو میں ایک رولنگ پاس کی تھی کہ خواجہ سراؤں کو اُن کے بُنیادی حقوق سے کوئی قانون محروم نہیں رکھ سکتا۔ پاکستان کے آئین کے آرٹیکل چھبیس اور ستائیس کی شِق نمبر ایک کے تحت تمام شہری قانون کی نظر میں مساوی ہیں۔ آرٹیکل اُنّیس آزادی رائے کی آزادی ہر شہری کو دیتا ہے لیکن پھر بھی ٹرانس جینڈرز کو امتیازی سلوک کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور مظالم ڈھائے جاتے ہیں۔


ٹرانس جینڈر پرسنز پروٹیکشن (پروٹیکشن آف رائیٹس) بِل، دو ہزار سترہ:

ٹرانس جینڈر کو ڈیفائین کرتا ہے 

امتیازی سلوک سے روکتا ہے

اُسے شناخت کا حق / حقوق دیتا ہے، جو وہ خود کو کہتا یا مانتا ہے اُسے وہی شناخت دینے کی ضمانت دیتا ہے۔ 

کوئی اِدارہ اُسے نوکری، ترقی، تعلیم یا دیگر معاملات میں امتیازی سلوک کا نِشانہ نہ بنائے۔ 

حکومت کو چاہیے کہ وُہ اِن کی فلاح کے لیے اقدامات کرے۔

یہ بِل مندرجہ بالا گُزارشات کے حصول کے لیے ہے۔


پیش کردہ:

سینیٹر روبینہ خالد

سینیٹر روبینہ عِرفان

سینیٹر  ثمینہ سعید

سینیٹر کلثوم پروین

سینیٹر کریم احمد خواجہ بنایا گیا ۔ 


بلوچستان کے مایہ علم دوست شخصیت محترم عابد میر کی Wall سے اس قانون کا "متن" یہاں پر دیا جارہا ہے ۔ آپ اس بل کے الفاظ کو غور سے پڑھیں ۔ اگر چاہیں تو Google سے قومی اسمبلی کی "ویب سائٹ" سے بھی خود مطالعہ کرسکتے ہیں ۔ 


ٹرانس جینڈر ایکٹ 

(اردو متن)


اسے ٹرانس جینڈر پرسنز (پروٹیکشن آف رائیٹس) ایکٹ 2018 کہا جا سکتا ہے۔ 

اِس کا اطلاق پاکستان میں ہر جگہ ہو گا۔

اِس کا اطلاق فوری ہو گا۔


چیپٹر نمبر ایک:

تعاریف (Definitions)

تعریف یا ڈیفینیشنز میں ایکٹ برائے جینڈر پروٹیکشن رائیٹس، سی این آئی سی یعنی شناختی کارڈ، کمپلینینٹ یعنی شکایت کُنندہ، سی آر سی مطلب بچوں کا رِجسٹریشن فارم یا فارم ب / بی، جینڈر ایکسپریشن کا مطلب کِسی شخص کی صنفی شِناخت وُہ خُود یا دُوسرے کیسے کرتے ہیں، جینڈر آئیڈینٹیٹی یعنی صنفی شِناخت کا مطلب کہ وہ شخص اندر سے خُود کو کیسا محسوس کرتا ہے، بطور مرد، عورت، کُچھ کُچھ دونوں یا کُچھ بھی نہیں۔ یہ شناخت پیدائش کے وقت دِی گئی صنفی شِناخت سے مُطابقت رکھ سکتی ہے اور نہیں بھی رکھ سکتی۔ اِس کے بعد گورنمنٹ یعنی حکومت سے مُراد وفاقی حکومت ہے۔

ہراسمنٹ سے مُراد یا ہراسمنٹ میں جِنسی، جِسمانی، ذہنی اور نفسیاتی ہراسمنٹ مُراد ہے جِس کا مطلب یہ ہے کہ سیکس کے لیے متشدد رویے، دباؤ، ناپسندیدہ سیکشوئل ایڈوائس، دعوت دینا وغیرہ سمیت ایسے تمام رویے جو اِس ضِمن میں آتے ہیں وہ ہراسمنٹ کہلائے جائیں گے۔

نادرا کا مطلب شِناختی کارڈ و اعداد و شمار کی رجسٹریشن کا اِدارہ ہے۔ نوٹیفیکیشن جو گزٹ میں پبلش ہُوا ہو۔ پی ڈی ایم سی یعنی پاکستان میڈیکل این ڈینٹل ایسوسی ایشن، پی ڈی ایم سی آرڈینینس 1962۔

پرسکرائیبڈ مطلب وفاقی حکومت نے جو قوانین اِس ایکٹ میں بنائے / پاس کیے ہیں۔ رُولز مطلب جو قوانین اِس میں شامِل ہیں۔

ٹرانس جینڈر پرسن مطلب؛

درمیانی جِنس (خنسہ) مردانہ و زنانہ جِنسی اعضا کے ساتھ یا پیدائشی جِنسی ابہام، خواجہ سرا ایسا میل چائلڈ جو بوقت پیدائش میل درج کِیا گیا ہو لیکن جِنسی طور پر ناکارہ / خصی ہو گیا ہو، ایک ٹرانس جینڈر مرد یا عورت جِس کی صنفی، جِنسی شِناخت یا شِناخت کا اِظہار معاشرے کی عُمومی اقدار سے ہٹ کر ہو یا اُس صنفی شناخت سے ہٹ کر ہو جو اُنھیں بوقتِ پیدائش دِی گئی تھی۔

کوئی ایسا لفظ یا الفاظ جِس کی تعریف اِس ایکٹ میں نہیں کی گئی یا لِکھی گئی اُس کا مطلب وُہی لِیا جائے گا جو سی آر پی سی ( ضابطہ فوجداری 1898 ) یا پی پی سی ( 1860 ) تعزیراتِ پاکستان میں درج ہے۔


چیپٹر نمبر دو

1۔ 

ایک ٹرانس جینڈر کو اپنی جِنسی / صنفی شِناخت اُس شِناخت کے مُطابق درج کروانے کا حق ہوگا جو صنفی / جِنسی شِناخت وُہ خُود کو تصور کرتا ہے۔ 

ایک ٹرانس جینڈر اپنے آپ کو سب سیکشن وَن کے تحت اپنی تصور کردہ شِناخت یعنی self perceived identity کے مُطابق تمام نادرا یا دیگر حکومتی اِداروں میں درج کروا سکتا ہے۔ 

3۔ 

ہر ٹرانس جینڈر اپنے آپ کو نادرا آرڈینینس 2000 یا دیگر متعلقہ قوانین کے مُطابق اٹھارہ سال کی عُمر ہونے پر سیلف پرسِیوڈ جینڈر آئیڈینٹیٹی کے مُطابق شِناختی کارڈ، پاسپورٹ یا ڈرائیونگ لائسنس بنوا سکتا ہے۔

ایک ٹرانس جینڈر جس کا شناختی کارڈ پہلے ہی بن چُکا ہے وہ بھی نادرا آرڈینینس 2000 کے مُطابق his or her سیلف پرسِیوڈ آئیڈینٹٹی کو اپنے شناختی کارڈ، پاسپورٹ یا ڈرائیونگ لائسنس پر درج کروا سکتا ہے۔


چیپٹر نمبر تین: 

تعلیمی، صحت یا دیگر اِداروں میں تعلیم یا سروسز سے منع کرنا، ختم کروانا، نااِنصافی پر مبنی رویہ، نوکری کرنے پر مجبور کرنا یا چھوڑنے سے زبردستی روکنا یا امتیازی سلوک منع ہے، غیرقانونی ہے۔ جو عوامی سہولیات ہیں، جو عوام کو دستیاب ہیں اُن سے روکنا، اُن کے استعمال سے روکنا، سفری سہولیات سے روکنا، عوامی سفری سہولیات استعمال کرنے سے منع کرنا، رہائش اختیار کرنے روکنا، جائیداد کی خرید و فروخت، کرایے پر عمارت لینے یا وراثتی منقولہ و غیر منقولہ جائیداد سے محروم کرنے یا حق سے اِنکار کرنا بالکل غیر قانُونی ہوگا۔ اُنھیں جِنسی، جِسمانی طور پر گھر یا گھر سے باہر ہراساں کرنا بھی منع ہے۔ 


چیپٹر نمبر چار:

برائے حکومتی فرائض و ذمہ داریاں: 

6۔ 

حکومت کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وُہ ٹرانس جینڈرز کی معاشرے اور سماج میں مکمل اور محفوظ شمولیت کو مُمکن بنائے۔ اِن کے لیے ری ہیب سینٹرز سمیت دیگر پناہ گاہیں بنائے، میڈیکل سہولیات مُہیا کرے، نفسیاتی علاج و مدد سمیت تعلیم بالغاں کا بندوبست کرے۔ 

ٹرانس جینڈرز جو جَرائم میں ملوث ہوں اِن کے لیے الگ جیل خانہ جات، حوالہ جات و حوالات بنائے جائیں۔ 

تمام اِدارے جیسے کہ صحت کا اِدارہ یا دیگر اِداروں میں ٹرانس جینڈر ایشیو کے لیے وقتاً فوقتاً آگاہی دِی جائے۔ 

اِنھیں ووکیشنل ٹریننگ دِی جائے تاکہ یہ اپنی روزی روٹی کا اِنتظام کر سکیں۔ اِنھیں آسان قرضے یا امداد دے کر چھوٹے کاروبار کرنے پر تیار کیا جائے۔

اِن تمام معاملات کو مکمل کرنا ہی اِس ایکٹ کا مقصد ہے۔


چیپٹر نمبر پانچ:

ٹرانس جینڈرز کے حقوق کا تحفظ:

7۔ 

وراثتی جائیداد یا وراثت سے بے دخل نہیں کِیا جا سکتا یا امتیازی سلوک نہیں روا رکھا جا سکتا۔ جو شناخت یہ اپنے آئی ڈی کارڈ پر درج کروائیں گے اُس کے مُطابق وراثتی حق مِلے گا۔ بطور مَرد اندراج والے کو مَرد کا اور بطور عورت اندراج کو بطور عورت وراثتی حق مِلے گا۔ 

جو اپنی مردانہ یا زنانہ شِناخت بارے ابہام کا شکار ہیں اُن پر درج ذیل اطلاق ہو گا۔

اٹھارہ سال کی عمر ہونے پر جِن کا اندراج بطور مَرد ہے / ہو گا اُنھیں بطور مَرد جب کہ بطور عورت اندراج ہونے پر بطور عورت وراثتی حق مِلے گا / دِیا جائے گا لیکن پھر بھی اگر کِسی کو صنفی ابہام ہو گا تو دو الگ الگ اشخاص یعنی مرد اور عورت کے وراثتی حقوق کا اوسط / ایوریج حِصہ دِیا جائے گا۔ اٹھارہ سال سے کم عُمر یعنی نا بالغ ہونے کی صُورت میں میڈیکل آفیسر کی رائے کے مُطابق طے ہو گا۔


8۔ حقِ تعلیم

اگر کوئی ٹرانس جینڈر کِسی سرکاری یا پرائیویٹ تعلیمی اِدارے کی باقی شرائط پر پُورا اُترتا ہے تو اُس کو تعلیم کے حق سے محروم نہیں رکھا جا سکتا یا امتیازی سلوک نہیں کِیا جا سکتا۔ اُنھیں تفریحی سہولیات یا کھیلوں میں شمولیت سے منع نہیں کِیا جا سکتا۔

حکومت اِسلامی جمہوریہ پاکستان کے اُنّیس سو تہتر کے آئین کے آرٹیکل پچیس اے کے مُطابق ٹرانس جینڈرز کو لازمی اور فری تعلیم کی ضمانت دینے اور سہولیات مُہیا کرنے کے اقدامات کرے گی۔

جِنسی و صنفی امتیاز پر مبنی رویے غیر قانونی ہوں گے۔ اُنھیں اِس بنیاد پر تعلیمی اِداروں میں داخلہ دینے سے منع کرنا، روکنا یا کِسی ٹریننگ پروگرام میں حِصہ لینے سے روکنا یا کِسی سہولت کو اِستعمال کرنے سے روکنا غیر قانونی ہو گا۔


9۔ نوکری کا حق

اِسلامی جمہوریہ پاکستان کے اُنّیس سو تہتر کے آئین کا آرٹیکل اٹھارہ جو اِن کے لیے جائز ذریعہ آمدنی، کاروبار یا نوکری کی ضمانت دیتا ہے اُس کا اطلاق کروایا جائے۔ کوئی بھی اِدارہ، محکمہ یا تنظیم نوکری، ترقی، تقرری، تبادلے یا متعلقہ معاملات میں امتیازی سلوک نہیں کر سکتا۔ جِنسی یا صنفی بنیادوں پر امتیازی سلوک غیر قانونی ہو گا۔ اِس بنیاد پر نوکری دینے یا پیشکش کرنے، اُن کی کِسی جگہ آمد و رفت یا پیش رفت ، ترقی ، ٹریننگ یا ایسے ہی فوائد کے حصول سے روکنا یا محدود کرنا غیر قانونی ہو گا۔ امتیازی سلوک برائے برخاستگی وغیرہ بھی غیر قانُونی ہے / ہو گا۔

 

10۔ ووٹنگ کا حق

کِسی ٹرانس جینڈر کو ووٹ کے حق سے محروم نہیں کِیا جا سکتا وہ بمطابق اپنے شناختی کارڈ ووٹ ڈال سکتا ہے۔ 


11۔ رائیٹ ٹُو ہولڈ پبلک آفس

عوامی عہدے کے اگر کوئی الیکشن میں حِصہ لینا چاہے تو اُسے نہیں روکا جا سکتا۔


12۔ صحت کا حق

حکومت کو چاہیے کہ وہ میڈیکل نصاب کا دوبارہ جائزہ لے، جو ریسرچ ڈاکٹرز اور نرسنگ سٹاف کو ٹرانس جینڈرز کی صحت کے مسائل بارے ہے اُس کو مزید بہتر کیا جائے۔ اِن کو ہسپتالوں اور دیگر صحت کے مراکز پر سہولیات فراہم کی جائیں۔ اِن کو جِسمانی و نفسیاتی عِلاج، معالجے یا مدد کی فراہمی کی ہر ممکن کوشش کی جائے۔ جِنس کے تعین یا correction میں مدد دِی جائے۔ 


13۔ اکٹھے ہونے کا حق

بمطابق اُنّیس سو تہتر کے آئین کے آرٹیکل نمبر سولہ کے تحت دِیا جائے۔ حفاظت کا معقول بندوبست کِیا جائے۔ امتیازی سلوک نہ کِیا جائے۔ 


14۔ پبلک پلیسز میں داخلے کی سہولت 

اِس کے مُطابق ٹرانس جینڈرز کو پبلک پلیس میں داخلے، سہولیات کے استعمال سے جِنسی یا صنفی وجوہات پر روکا نہین جا سکتا، امتیازی سلوک کا نشانہ نہیں بنایا جا سکتا۔ اِن کو روکنا یا امتیازی سلوک آئین کے آرٹیکل چھبیس کی خِلاف ورزی ہو گا۔ 


15۔ جائیداد کا حق

جائیداد کی خرید و فروخت، لِیزنگ یا کرائے پر حصول سے بوجوہ جِنس / صنف روکا نہیں جا سکتا۔ یہ غیر قانونی ہے۔

 

16۔ بنیادی حقوق کی ضمانت

آئین میں دیے گئے تمام بُنیادی حقوق کی ضمانت دِی جائے۔ یہ حکومتی ذمہ داری ہے کہ وہ کسی بھی قِسم کے امتیازی سلوک سے روک تھام اور بچنے کے اقدامات کرے۔


 17۔ جَرائم اور سزائیں

جو بھی ٹرانس جینڈرز کو بھیک مانگنے پر رکھتا یا مجبور کرے گا اُس کو چھ ماہ تک کی جیل کی سزا یا پچاس ہزار روپے جرمانہ یا دونوں سزائیں دی جا سکتی ہیں۔


چیپٹر نمبر سات:

18۔ اینفورسمینٹ میکنزم

آئینِ پاکستان، تعزیراتِ پاکستان اور ضابطہ فوجداری میں درج و دستیاب "remedies" کے ساتھ ساتھ متاثرہ ٹرانس جینڈر کو اگر کسی جگہ اُن حقوق سے محروم رکھا گیا یا جائے گا جو اُنھیں آئین دیتا ہے تو اُسے وفاقی محتسب، نیشنل کمیشن فار سٹیس آف ویمن یا نیشنل کمیشن آف ہیومن رائٹس کو درخواست دینے کا حق حاصل ہو گا۔

 

چیپٹر نمبر سات:

19۔ متفرق


19 : Act having over-riding effect to any other law : 

اِس ایکٹ میں موجود پروژنز پہلے سے موجود قوانین سے متصادم ہونے کی صورت میں اُن پر بالا تصور ہوں گی یعنی اِن کی روشنی میں مزید معاملات برائے ٹرانس جینڈر دیکھے جائیں گے۔ 

20۔ 

حکومتی اختیار میں یہ شامل ہے وہ رولز بنائے، نوٹیفیکیشن جاری کرے یا اِس ایکٹ کے عمل درآمد کے لیے قوانین بنائے۔

21۔ 

حکومت کے پاس اختیار اور طاقت ہے کہ اگر اِس کے عمل درآمد میں کوئی مسائل یا مشکلات ہیں تو ایسے احکامات جاری کرے یا سرکاری گزٹ میں پبلش کرے۔ مسائل کو سامنے لا کر انھیں حل کرے تا کہ جلد از جلد رکاوٹ یا مشکل کو دُور کیا جا سکے۔ یہ سب دو سال کے اندر کیا جائے گا۔


22۔

Statement of Objects and Reasons

ٹرانس جینڈرز کی کمیونٹی کو سماجی بے دخلی اور امتیازی سلوک کے مسائل ہیں۔ تعلیمی سہولیات کی کم یابی، بے روزگاری، صحت کی سہولیات کی کمی اور اِسی طرح کے متعدد مسائل دَرپیش ہیں۔ سپریم کورٹ آف پاکستان نے دو ہزار نو میں ایک رولنگ پاس کی تھی کہ خواجہ سراؤں کو اُن کے بُنیادی حقوق سے کوئی قانون محروم نہیں رکھ سکتا۔ پاکستان کے آئین کے آرٹیکل چھبیس اور ستائیس کی شِق نمبر ایک کے تحت تمام شہری قانون کی نظر میں مساوی ہیں۔ آرٹیکل اُنّیس آزادی رائے کی آزادی ہر شہری کو دیتا ہے لیکن پھر بھی ٹرانس جینڈرز کو امتیازی سلوک کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور مظالم ڈھائے جاتے ہیں۔


ٹرانس جینڈر پرسنز پروٹیکشن (پروٹیکشن آف رائیٹس) بِل، دو ہزار سترہ:

ٹرانس جینڈر کو ڈیفائین کرتا ہے 

امتیازی سلوک سے روکتا ہے

اُسے شناخت کا حق / حقوق دیتا ہے، جو وہ خود کو کہتا یا مانتا ہے اُسے وہی شناخت دینے کی ضمانت دیتا ہے۔ 

کوئی اِدارہ اُسے نوکری، ترقی، تعلیم یا دیگر معاملات میں امتیازی سلوک کا نِشانہ نہ بنائے۔ 

حکومت کو چاہیے کہ وُہ اِن کی فلاح کے لیے اقدامات کرے۔

یہ بِل مندرجہ بالا گُزارشات کے حصول کے لیے ہے۔


پیش کردہ:

سینیٹر روبینہ خالد

سینیٹر روبینہ عِرفان

سینیٹر  ثمینہ سعید

سینیٹر کلثوم پروین

سینیٹر کریم احمد خواجہ


Heart دل_تھکتا_کیوں_نہیں


جب ہم کوئی سخت محنت والا کام کرتے ہیں، وزن اٹھاتے ہیں، بھاگتے ہیں، ورزش کرتے ہیں تو تھکاوٹ کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ہمارے جسم کے اکثر مسلز تھک جاتے ہیں، لیکن کیا کبھی آپ نے سوچا ہے کہ اپکا دل جو آپکے پیدا ہونے سے پہلے کا دھڑک رہا ہے اور پوری زندگی دھڑکتا ہے، وہ کیوں نہیں تھکتا. ایک اندازے کے مطابق 80 سال کی عمر میں آپکا دل تقریباً 3,363,840,000 بار دھڑکتا ہے۔ مگر پھر بھی دل کے مسلز (،جن سے دل بنا ہے) تھکتے نہیں، جبکہ وہ مسلز جو ہمیں حرکت کرواتے ہیں، اور جن کو ہم اپنی مرضی سے کنٹرول کرسکتے ہیں، یعنی ہمارے skeletal_muscles تھک جاتے ہیں

سکیلٹل_مسلز_کیوں_تھکتے_ہیں

سب ہی زندہ خلیوں کی طرح، مسلز کے خلیوں کو بھی کام کرنے کے لیے توانائی کی ضرورت ہوتی ہے، خلیوں کی توانائی ATP کی صورت میں ہوتی ہے، خلیہ اپنی توانائی (ATP) بنانے کے لیے زیادہ تر گلوکوز کا استعمال کرتا ہے اور اس عمل کو ہم cellular_respiration کہتے ہیں۔ اگر خلیہ گلوکوز سے توانائی بناتے ہوئے آکسیجن کا استعمال کرے تو اس عمل کو aerobic_respiration کہیں گے، اور اسی aerobic respiration کے لیے خون آکسیجن لے کر خلیوں تک پہنچاتا ہے۔ اگر خلیہ توانائی کے لیے اکسیجن کا استعمال نہ کرے تو اسے anerobic_respiration کہیں گے۔ aerobic respiration میں خلیے کو زیادہ ATPs ملتے ہیں (حسابی طور پر 36) جبکہ anerobic respiration میں صرف 2 ATPs ملتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ anerobic respiration کے دوران lactic_acid نام کا ایک کیمکل بھی بنتا ہے۔ توانائی بنانے کہ اس عمل کے لیے خلیہ کے پاس ایک آرگنیلی ہوتی ہے جسے مائٹوکونڈریا (mitochondria) کہتے ہیں۔ 

جب آپ اپنے سکیلٹل مسلز سے کوئی سخت کام لیتے ہیں تو ان مسلز کی توانائی کی ضرورت بڑھ جاتی ہے، لیکن خون اتنی تیزی سے ان مسلز کے خلیوں کو آکسیجن دے نہیں پاتا، اور پھر یہ خلیہ آکسیجن کے بغیر ہی توانائی بنانے لگتے ہیں یعنی کہ anerobic respiration شروع کر دیتے ہیں، جس کے نتیجے میں lactic acid بنتا ہے جو مسلز میں اکھٹا ہوجاتا ہے، اور 

یہ lactic_acid_مسلز_میں_تھکاوٹ_کا_باعث_بنتا_ہے۔ 

اس lactic acid کو ختم کرنے کے لیے، یہ lactic acid خون کے ساتھ مسلز سے جگر میں پہنچ جاتا ہے، جہاں اسے دوبارہ گلوکوز میں بدل دیا جاتا ہے۔ (cori_cycle)۔ 

کھلیاں کیوں پڑتی ہیں

یہ ایک عام غلط فہمی ہے کہ مسلز میں کھلیاں بھی lactic acid کی وجہ سے ہوتی ہیں۔ اصل میں کھلیوں اور ورزش کے کچھ دن بعد رہنے والے تناؤ (DOMS) کی وجہ مسلز میں آنے والے چھوٹی چھوٹے کریک ہوتے ہیں، جو سخت ورزش کی وجہ سے آتے ہیں۔ 

دل کےمسلزکیوں نہیں تھکتے

دل کے مسلز (cardiac_muscles) کے نہ تھکنے کی وجوہات یہ ہیں کہ

👈 دل کے مسلز میں مائٹوکونڈریا_کی_زیادہ_تعداد ہوتی ہے، دل کے مسلز میں سکیلٹل مسلز کی نسبت تقریباً 35 فیصد زیادہ مائٹوکونڈریا ہوتے ہیں۔ جن سے زیادہ توانائی بنتی ہے اور زیادہ anerobic respiration نہیں ہوتی۔

👈 دل کو خون_کی_اچھی_سپلائی ملتی ہے، جس سے زیادہ آکسیجن ملتا ہے اور زیادہ aerobic respiration ہوتی ہے۔ 

👈 دل کے مسلز میں جو کچھ anerobic respiration ہوتی ہے، اور lactic acid بنتا ہے، اس کو دوبارہ pyruvate میں بدل دیا جاتا ہے(وہ کیمکل جس سے lactic acid بنا تھا)۔ 

اس کام کے لیے ان مسلز کے پاس isoenzyme ہوتا ہے۔ 

👈 دل کے مسلز میں عام طور پر DOMS کا شکار نہیں ہوتے، کیونکہ ان پر سکیلٹل مسلز کی طرح وزنی تناؤ نہیں پڑتا

_______________________________________________

DOMS (Delayed-onset muscle soreness)

 سخت ورزش کرنے سے سکیلٹل مسلز فائبر  میں چھوٹے چھوٹے کریک پڑ جاتے ہیں، پھر وہاں پر inflamation کی وجہ سے درد ہوتا ہے۔ جو 24 سے 72 گھنٹے رہتا ہے۔


تحریر: وارث علی

Monday, September 19, 2022

Nikkah نکاح اور اس میں موجود کالمز کی تفصیل و اہمیت

 


نکاح ایک سماجی معاہدہ ہے۔ جو فریقین کے درمیان ایجا

ب وقبول کے عمل سے مکمل ہو جاتا ہے۔ نکاح نامہ ایک قانونی دستاویز ہے۔ اس کے ذریعے حقوق و فرائض کا تعین ہوتا ہے۔


اکثر لوگ نکاح نامہ کی اہمیت سے واقف نہیں ہیں اس لیے ضروری ہے کہ نکاح نامہ کی ضرورت کا احساس دلایا جائے کیوں کے عورت کو مذہب اورقانون نے اپنے مستقبل کے بارے میں جن تحفظات کویقینی بنانے کی اجازت دے رکھی ہے


وہ نکاح نامہ کے کالم صحیح کرنے سے ہی ممکن ہے۔ اس لئے نکاح نامہ کے کالم انتہائی احتیاط سے پر کرنے کی ضرورت ہے۔


عام معلومات ( کالم 1 تا 12)


ان کالموں میں دولہا٬ دولہن کا نام ولدیت٬ ضلع٬ عمر٬ یونین کونسل٬ فریقین کی طرف سے وکیل٬ گواہ٬ شادی کی تاریخ اور یہ کی دلہن کنواری٬ بیوہ یا مطلقہ ہے درج کرنا ہوتا ہے


حق مہر (کالم 13تا16)


حق مہر کا نکاح نامہ میں اندراج ضروری ہے۔ جو عورت کا مذہبی اور قانونی حق ہے۔ ارشادات رسول اور عمل رسول کا خلاصہ ہے کہ جو حق مہر شوہر آسانی کے ساتھ ادا کرسکے اور بیوی بھی اس پر راضی ہو وہ شرعی حق مہر ہے ۔


نکاح کے کالم نمبر 14 میں اسکی نوعیت لکھی جاتی ہے کہ وہ معجل ہے یا مؤجل۔


اس طرح اگر مہر کا کچھ حصہ شادی کے موقع پر ادا کیا گیا ہو تو کالم نمبر 15 میں اس کی مقدار درج کی جاتی ہے۔


اگر حق مہر کے عوض کوئی جائیداد وغیرہ دی گئی ہو تو کالم نمبر 16میں اس کی مکمل تفصیل اس کے آگے اور پیچھے کیا ہے۔ اور اس وقت اس کی قیمت کیا ہے درج کی جاتی ہے۔ تاکہ بعد میں دھوکا نہ ہو۔


حق مہر کی اقسام


(1)مہر مؤجل


اگر مہر یا اس کے کسی حصے کی ادائیگی مستقبل میں کسی خاص مدت کے بعد دیاجانا طے پائے تو اس کو مہر مؤجل کہتے ہیں۔


(2)مہر معجل


ماہر معجل سے مراد مہر کا وہ حصہ جسے فورا ادا کرنا ہوتا ہے یعنی مہر کو نکاح کے وقت ادا کیا جاتا ہے یا جب بیوی طلب کریں تو اس کو فوری ادا کرے گا۔


خاص شرائط ( کالم نمبر 17)


کالم نمبر 17 خاص شرائط سے متعلق ہے جس کی خاص اہمیت ہے اس میں ناچاقی کی صورت میں نان و نفقہ کس طرح ادا ہوگا


اور رہائش کے بارے میں بھی لکھا جا سکتا ہے کہ شادی کے بعد دیہات میں رہائش ہو گی یا شہر میں اور شادی کے بعد تعلیم یا ملازمت جاری رکھنے کی اجازت ہوگی یا نہیں وغیرہ اس میں درج کی جاتی ہیں۔


اس شق میں جہیز کی تفصیل بھی درج کی جاسکتی ہے۔


طلاق تفویض (کالم نمبر 18)


اس شق میں عورت مرد سے طلاق کا حق مانگ سکتی ہے اور اگر شوہر نے بیوی کو طلاق کا حق دے دیا ہے اور اس بارے میں کوئی شرائط مقرر کی ہیں تو وہ بھی اس خانہ میں درج کی جائیں گی۔


اور عورت جب چاہے مقررہ شرائط کو پورا کر کے اس حق کو استعمال کرتے ہوئے اپنے آپ کو شوہر کی زوجیت سے آزاد کر سکتی ہے۔


عورت کو اس کا نوٹس چیئرمین ثالثی کونسل کو دینا ضروری ہے کے اس نے طلاق تفویض کا حق استعمال کیا ہے۔


شوہر کے حق طلاق پر پابندی( کالم نمبر 19)


اس کالم میں شوہر کے حق کے طلاق پر شرائط مقرر مقرر کی جاتی ہیں۔ مثلا حق مہر کی فوری ادائیگی اور بچوں کی حفاظت کی ذمہ داری ماں کی ہوگی وغیرہ


حق مہر اور نان و نفقہ کی دستاویز کا اندراج (کالم نمبر 20)


اگر شادی کے موقع پر حق مہر اور نان و نفقہ کے بارے میں کوئی دستاویز تیار کی گئی ہو تو اس کا اندراج کالم نمبر 20 میں کیا جاتا ہے


دوسری شادی کیلئے اجازت نامہ( کالم نمبر 21٬22)


دوسری شادی کی صورت میں عائلی قوانین کے تحت پہلی بیوی اور چیئرمین ثالثی کونسل کا اجازت نامہ لینا ضروری ہے


اور دوسری شادی کی صورت میں بوقت نکاح کالم نمبر21 کو ضروری پر کرنا چاہیے اس میں دوسری شادی کی اجازت ملنے کی تاریخ درج کرنی ہوتی ہے۔


نکاح نامہ کو نکاح رجسٹرار مکمل کرکے یونین کونسل میں رجسٹرڈ کرواتا ہے..

Thanks for Article..

https://www.facebook.com/100051593451613/posts/pfbid06AaeZHCUGarccE4D5WZcS8m6GXf4dJSGGQaQTnwaWaqh82mLTN3hepfxGBQf9WDtl/

Friday, September 16, 2022

شاہراہ قراقرم Karakorm HighWay

 شاہراہ قراقرم  کی تعمیر کا آغاز 1966 میں ہوا اور تکمیل 1978 میں ہوئی۔ شاہراہ قراقرم کی کُل لمبائی 1,300 کلومیٹر ہے جسکا 887 کلو میٹر حصہ پاکستان میں ہے اور 413 کلومیٹر چین میں ہے۔ یہ شاہراہ پاکستان میں حسن ابدال سے شروع ہوتی ہے اور ہری پور ہزارہ, ایبٹ آباد, مانسہرہ, بشام, داسو, چلاس, جگلوٹ, گلگت, ہنزہ نگر, سست اور خنجراب پاس سے ہوتی ہوئی چائنہ میں کاشغر کے مقام تک جاتی ہے۔


اس سڑک کی تعمیر نے دنیا کو حیران کر دیا کیونکہ ایک عرصے تک دنیا کی بڑی بڑی کمپنیاں یہ کام کرنے سے عاجز رہیں۔ ایک یورپ کی مشہور کمپنی نے تو فضائی سروے کے بعد اس کی تعمیر کو ناممکن قرار دے دیا تھا۔ موسموں کی شدت, شدید برف باری اور لینڈ سلائڈنگ جیسے خطرات کے باوجود اس سڑک کا بنایا جانا بہرحال ایک عجوبہ ہے جسے پاکستان اور چین نے مل کر ممکن بنایا۔ایک سروے کے مطابق اس کی تعمیر میں 810 پاکستانی اور 82 چینی اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ رپورٹ کے مطابق شاہراہ قراقرم کے سخت اور پتھریلے سینے کو چیرنے کے لیے 8 ہزار ٹن ڈائنامائیٹ استعمال کیا گیا اور اسکی تکمیل تک 30 ملین کیوسک میٹر سنگلاخ پہاڑوں کو کاٹا گیا۔یہ شاہراہ کیا ہے؟ بس عجوبہ ہی عجوبہ!کہیں دلکش تو کہیں پُراسرار, کہیں پُرسکون تو کہیں بل کھاتی شور مچاتی, کہیں سوال کرتی تو کہیں جواب دیتی۔ اسی سڑک کنارے صدیوں سے بسنے والے لوگوں کی کہانیاں سننے کا تجسس تو کبھی سڑک کے ساتھ ساتھ پتھروں پر سر پٹختے دریائے سندھ کی تاریخ جاننے کا تجسس !!شاہراہ قراقرم کا نقطہ آغاز ضلع ہزارہ میں ہے جہاں کے ہرے بھرے نظارے اور بارونق وادیاں "تھاکوٹ" تک آپ کا ساتھ دیتی ہیں۔تھاکوٹ سے دریائے سندھ بل کھاتا ہوا شاہراہ قراقرم کے ساتھ ساتھ جگلوٹ تک چلتا ہے پھر سکردو کی طرف مُڑ جاتا ہے۔تھاکوٹ کے بعد کوہستان کا علاقہ شروع ہوجاتا ہے جہاں جگہ جگہ دور بلندیوں سے اترتی پانی کی ندیاں سفر کو یادگار اور دلچسپ بنانے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔کوہستان کے بعد چلاس کا علاقہ شروع ہوتا ہے جوکہ سنگلاخ پہاڑوں پر مشتمل علاقہ ہے۔ چلاس ضلع دیا میر کا ایک اہم علاقہ ہے اسکو گلگت بلتستان کا دروازہ بھی کہا جاتا ہے۔ ناران سے بذریعہ بابو سر ٹاپ بھی چلاس تک پہنچا جا سکتا ہے۔ چلاس کے بعد شاہراہ قراقرم نانگا پربت کے گرد گھومنے لگ جاتی ہے اور پھر رائے کوٹ کا پُل آجاتا ہے یہ وہی مقام ہے جہاں سے فیری میڈوز اور نانگا پربت بیس کیمپ جانے کے لیے جیپیں کرائے پر ملتی ہیں۔ رائے کوٹ کے بعد نانگا پربت, دریائے سندھ اور شاہراہ قراقرم کا ایک ایسا حسین امتزاج بنتا ہے کہ جو سیاحوں کو کچھ وقت کے لیے خاموش ہونے پر مجبور کر دیتا ہے۔اس کے بعد گلگت ڈویژن کا آغاز ہوجاتا ہے جس کے بعد پہلا اہم مقام جگلوٹ آتا ہے جگلوٹ سے استور, دیوسائی اور سکردو بلتستان کا راستہ جاتا ہے۔ جگلوٹ کے نمایاں ہونے میں ایک اور بات بھی ہے کہ یہاں پر دنیا کے تین عظیم ترین پہاڑی سلسلے کوہ ہمالیہ, کوہ ہندوکش اور قراقرم اکھٹے ہوتے ہیں اور دنیا میں ایسی کوئی جگہ نہیں جہاں تین بڑے سلسلے اکھٹے ہوتے ہوں۔جگلوٹ کے بعد شمالی علاقہ جات کے صدر مقام گلگت شہر کا آغاز ہوتا ہے جو تجارتی, سیاسی اور معاشرتی خصوصیات کے باعث نمایاں حیثیت رکھتا ہے۔ نلتر, اشکومن, غذر اور شیندور وغیرہ بذریعہ جیپ یہیں سے جایا جاتا ہے۔ گلگت سے آگے نگر کا علاقہ شروع ہوتا ہے جس کی پہچان راکا پوشی چوٹی ہے۔ آپکو اس خوبصورت اور دیوہیکل چوٹی کا نظارہ شاہراہ قراقرم پر جگہ جگہ دیکھنے کو ملے گا۔ نگر اور ہنزہ شاہراہ قراقرم کے دونوں اطراف میں آباد ہیں۔ یہاں پر آکر شاہراہ قراقرم کا حُسن اپنے پورے جوبن پر ہوتا ہے میرا نہیں خیال کہ شاہراہ کے اس مقام پر پہنچ کر کوئی سیاح حیرت سے اپنی انگلیاں دانتوں میں نہ دباتا ہو۔ "پاسو کونز" اس بات کی بہترین مثال ہیں۔ہنزہ اور نگر کا علاقہ نہایت خوبصورتی کا حامل ہے۔ بلند چوٹیاں, گلیشیئرز, آبشاریں اور دریا اس علاقے کا خاصہ ہیں۔ اس علاقے کے راکاپوشی, التر, بتورہ, کنیانگ کش, دستگیل سر اور پسو نمایاں پہاڑ ہیں۔عطاآباد کے نام سے 21 کلومیٹر لمبائی رکھنے والی ایک مصنوعی لیکن انتہائی دلکش جھیل بھی ہے جو کہ پہاڑ کے گرنے سے وجود میں آئی۔سست کے بعد شاہراہ قراقرم کا پاکستان میں آخری مقام خنجراب پاس آتا ہے۔سست سے خنجراب تک کا علاقہ بے آباد, دشوار پہاڑوں اور مسلسل چڑھائی پر مشتمل ہے۔ خنجراب پاس پر شاہراہ قراقرم کی اونچائی 4,693 میٹر ہے اسی بنا پر اسکو دنیا کے بلند ترین شاہراہ کہا جاتا ہے۔ خنجراب میں دنیا کے منفرد جانور پائے جاتے ہیں جس میں مارکوپولو بھیڑیں, برفانی چیتے, مارموٹ, ریچھ, یاک, مارخور اور نیل گائے وغیرہ شامل ہیں۔اسی بنا پر خنجراب کو نیشنل پارک کا درجہ مل گیا ہے۔اس سڑک پر آپکو سرسبز پہاڑوں کے ساتھ ساتھ پتھریلے و بنجر پہاڑی سلسلے اور دیوقامت برفانی چوٹیوں, دریاؤں کی بہتات, آبشاریں, چراگاہیں اور گلیشیئر سمیت ہر طرح کے جغرافیائی نظارے دیکھنے کو ملتے ہیں جو نا صرف آپکا سفر خوبصورت بناتے ہیں بلکہ آپ کے دل و دماغ پر گہرا اثر چھوڑتے ہیں۔ شاہراہِ قراقرم محض ایک سڑک نہیں ہے بلکہ یہ دنیا کا آٹھواں عجوبہ ہے.

Tuesday, September 13, 2022

ہپناگوگیا Hypnagogia

 



ہپناگوگیا وہ نیورولوجیکل فینومینا ہے جس میں خواب اور جاگنے کی حالتیں آپس میں مکس ہو جاتی ہیں اور یوں غیرمعمولی تجربات جنم لیتے ہیں اور انہیں اکثر لوگ غلط فہمی کی وجہ سے پیرانارمل یا مارورائی سمجھ لیتے ہیں۔

۔۔

ایک انٹرویو میں اداکارہ جیسیکا البا نے اپنے خوفناک تجربہ کو کچھ یوں بیان کیا:

"میرے والدین کے پرانے گھر میں ضرور کوئی چیز موجود تھی۔۔۔ کسی چیز نے میرے اوپر سے چادر کھینچ لی اور میں بلکل بھی بستر سے اٹھ نہیں پا رہی تھی۔۔ مجھے اس کا وزن محسوس ہوا اور میں اٹھ نا پائی، نا ہی چیخ سکتی تھی، نا ہی بات کر سکتی تھی، میں کچھ بھی نہیں کر پا رہی تھی۔۔ میں نہیں جانتی کہ یہ کیا تھا۔ میں اس کی وضاحت نہیں کر سکتی"


جیسیکا البا کا یہ واقعہ غیر معمولی تو ضرور ہے تاہم یہ منفرد بلکل بھی نہیں۔ شائد آپ کو بھی اس کا تجربہ ہوا ہو۔ میرے ساتھ ایسے قصے متعدد مرتبہ رونما ہوئے اور عموما اس وقت جب نیند کی شدید قلت ہوئی ہو۔ ایک لمحے میں آپ گہری نیند میں ہیں، اور ساتھ ہی دوسرے لمحے آپ کسی آواز یا احساس یا ایسی خوشبو کی وجہ سے اٹھ گئے ہیں جو درست نہیں لگ رہی۔ آپ جب آپ جاگ گئے ہیں آپ خود کو حرکت کرنے کے قابل نہیں پاتے۔ آپ اپنے بازو نہیں اٹھا سکتے یا سر کو نہیں ہلا سکتے۔ آپ محسوس کرتے ہیں کہ کمرے میں کوئی چیز ہے، بن بلائی، غیر دوستانہ اور شریر قسم کا کوئی وجود موجود ہے۔ آپ گہرا سانس لینے کی کوشش کرتے ہیں مگر ایسا لگتا ہے کہ آپ کے سینے پر کوئی سوار ہے اور آپ کے اس سانس لینے کے عمل میں دشواری پیدا کر رہا ہے تا کہ آپ مدد کے لیے کسی کو بلا نا سکیں۔ آپ چاہے جتنی بھی کوشش کریں آپ آواز نہیں نکال سکتے۔ آپ خود کو کمزور اور اس چیز کے مقابلے میں بے یارومددگار پاتے ہیں جو آپ سے آپ کی طاقت چھین رہی ہے۔


یہ ایک خوفناک تجربہ ہے اور لاکھوں لوگوں کے ساتھ رونما ہوتا ہے۔ زیادہ اہم بات یہ ہے کہ اس فینومینا کے بارے میں اچھی طرح سمجھا جا چکا ہے اور اس کے لیے کسی قسم کے پیرانارمل یا سوڈوسائنٹفک وضاحت کی کوئی ضرورت نہیں۔


ہپنوگوگیا ایسا نیورولوجیکل فینومینا ہے جو یا تو اس وقت رونما ہوتا ہے جب انسان نیند سے بیدار ہو رہا ہو (hypnopompic) یا پھر سونے ہی لگا ہو (hypnagogic)۔ یہ ایسی درمیانی حالت ہے جہاں انسان نا پوری طرح بیدار ہوتا ہے اور نا ہی مکمل نیند میں ہوتا ہے۔ اس حالت میں بہت حقیقی قسم کی آوازوں اور تصاویر کا تجربہ ہو سکتا ہے۔ اگرچہ بصری یا سماعتی دھوکہ بہت عام ہیں تاہم آپ کو اپنے نام کی سرگوشی سننے سے لیکر اور کئی حسیات بشمول چھوئے جانے کا تجربہ بھی ممکن ہے۔ حقیقت میں یہ تجربات خواب ہیں جو آپ کو نیم بیدار حالت میں نظر آ رہے ہیں۔ یہ جاگتی حالت میں دیکھے گئے ان خواب کا تجربہ بہت عجیب اور خوفناک ہو سکتا ہے۔


ہیپناگوگیا سے متعلقہ چیز وقتی فالج بھی ہے جسے اکثر sleep paralysis کہا جاتا ہے۔ نارمل نیند کے دوران REM (ریپد آئی موومنٹ) کے وقفے آتے ہیں جن میں ہمارا دماغ ہماری سپائنل کالم کے موٹر نیورونز کو روکتا ہے اور یوں سوائے آنکھوں کے اور کوئی حرکت نہیں ہو پاتی۔ ایسا صرف گہری خواب آور نیند کے دوران ہوتا ہے۔ اس کی بظاہر وجہ ہماری اپنی حفاظت ہے۔ اس سیف گارڈ کی غیرموجودگی میں ہم جس چیز کا خواب دیکھ رہے ہیں اسی پر عمل کرنا بھی شروع کر دیں گے اور یوں ممکنہ طور پر خود کو نقصان پہنچا لیں گے۔ نیند میں چلنے والوں کا یہی مسئلہ ہوتا ہے۔ ہپناگوگیا کے جاگتے ہوئے خواب کے دوران یہ فالج برقرار رہتا ہے کیونکہ جو نیورونز متاثر ہوئے ہیں وہ ابھی مکمل طور پر بحال نہیں ہوئے ہوتے۔ اسی لیے یہ جاگتے خواب درحقیقت مکمل جاگتی شعوری حالت اور خواب آور نیند کا مکسچر ہیں۔ ہم واقعی جاگ رہے ہوتے ہیں، مگر یہ فالج اور خواب کی وجہ سے عجیب و غریب تصاویر ابھی ہمارے ذہن میں موجود ہوتے ہیں اور ان کا اثر ابھی زائل نہیں ہوا ہوتا۔


یہ ہپناگوگیا یا sleep paralysis کتنا عام ہے؟ 2011 میں ایک ریسرچ پیپر میں Brian Sharpless اور Jacques Barber نے تیس سے زیادہ سٹڈیز کو اکٹھا کیا جو sleep paralysis پر تھیں اور ان کا تعلق مختلف کلچرز اور گروپس سے تھا۔ ان کا مشترکہ سامپل سائز چھتیس ہزار سے زائد ہو گیا۔ انہوں نے نتیجہ اخذ کیا کہ تقریبا آتھ فیصد لوگوں کو sleep paralysis کا تجربہ ہوتا ہے جو کہ ہائی رسک گروپس میں اٹھائس فیصد تک بڑھ جاتا ہے (وہ لوگ جو کم کا ٹکڑوں میں نیند لیتے ہیں جیسا کہ طلباء) اور ان لوگوں میں یہ پینتیس فیصد تک دیکھا گیا ہے جو انگزائٹی اور ڈپریشن کا شکار ہوتے ہیں۔ یہ آبادی کی بہت بڑا حصہ ہیں۔


اندرونی بمقابلہ بیرونی تجربہ

تنقیدی سوچ رکھنے والوں کے لیے یہان اہم سبق یہ بھی بھی ہے کہ ہم دنیا کے بارے میں تجربات حاصل کرنے کے لیے اپنے دماغ کو استعمال کرتے ہیں مگر ہمارے دماغ کبھی کبھار غلطی یا glitch کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ہپنوگوگیا کے واقعات ایسے دماغی اغلاط کا نتیجہ ہی ہیں جہاں وہ دو سٹیٹ کے درمیان پھنسا ہوتا ہے۔ سب سے بڑا مسئلہ اسی وجہ سے ہوتا ہے کہ یہ فرض کر لیا جاتا ہے ہے کہ یہ فینومینا کسی بیرونی عنصر کی وجہ سے رونما ہوا ہے جبکہ وہ دماغ کا اندرونی واقعہ ہی ہوتا ہے۔


خود کئی ہپنوگوگیا کے واقعات کا شکار ہونے کے بعد میں آپ کو بتا سکتا ہوں کہ یہ بہت ڈرامائی اور ڈرا دینے والا تجربہ ہوتا ہے چاہے آپ ان سے واقف بھی ہوں کہ یہ کیا چیز ہیں۔ اس لیے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ جب کوئی ان سے گزرتا ہے تو وہ غیر معمولی وضاحتوں کی تلاش کیوں کرتا ہے۔ 


ہم یہ جانتے ہیں کہ یہ تاریخ میں ہمیشہ ہوتا چلا آیا ہے اور اس کے کئی تاریخی ریکارڈز حتی کہ پینٹنگز موجود ہیں جن میں ہپناگوگیا کے واقعات کو بیان کیا گیا ہے۔ لوگوں نے ان عجیب تجربات کو اپنے اپنے کلچرز کے تحت بیان کیا ہے۔ قرون وسطی کے یورپ میں لوگ سمجھتے تھے کہ اس دوران بدروحیں ان کے سینوں پر بیٹھی ہیں اور اپنی کالی طاقتوں سے ان کی جسمانی قوت سلب کر لی ہے۔ جب بھوت زیادہ مشہور تھے اس طرح کے واقعات اس سے منسوب تھے کہ وہ طاقت چرا کر لے جاتے ہیں۔ درحقیقت انگریزی کے لفظ nightmare (ڈراونے خواب) ایسے اعتقادات سے ہی نکلا ہے جس میں "maere" کا مطلب ایک زنانہ بدروح ہے جو نیند میں لوگوں کا گلا گھونٹتی ہے۔

جدید کلچرز میں لوگ اب بدروحوں پر یقین کم ہی رکھتے ہیں تو ایسے واقعات کے پیچھے ان میں سے کئی "ایلینز" کو ذمہ دار سمجھتے ہیں۔ شائد اس کی مشہور مثال مصنف Whitley Strieber ہے جو یہ یقین رکھتا ہے کہ اسے ایلینز نے اغوا کیا تھا اور اپنے اس تجربہ کو اپنی کتاب Communion: A True Story میں بیان کرتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ وہ نیند سے اٹھا تو اس نے کمرے میں کسی کی موجودگی کو محسوس کیا اور وہ اسی وقت فالج کا سا شکار ہو گیا۔ وہ جانتا تھا کہ وہ جاگا ہوا ہے اور خواب نہیں دیکھ رہا۔ یہ تفصیلات واضح طور پر ہپنوگوگیا کو بیان کر رہی ہیں۔ وہ کئی اور لوگوں کے دعوے تحریر کرتا ہے جو "اغوا" ہوائے اور ان میں سے اکثریت کے تجربات ویسے ہی ہیں جیسے ان نے اپنے بتائے۔


واضح طور پر ہپنوگوگیا کی وجہ نیورولوجیکل ہے اور اس میں کسی بیرونی وضاحت یعنی بھوت، بدروح، ہیگ یا ایلین کی کوئی ضرورت نہیں۔ درحقیقت جب بھی کوئی شخص ایسا عجیب و غریب تجربہ بیان کرے جو نیند کے قریب رونما ہوا ہو تو آپ کو تشکیک کا استعمال کرنا چاہیے۔


جیسا کہ دماغ کئی طریقوں سے غلطی یا glitch کا شکار ہو سکتا ہے اور ہم سب کسی نا کسی سطح پر دھوکہ اور فریب کاری کا شکار ہو سکتے ہیں۔ ہمارے دماغ ایکسٹریم جذبات اور حتی کہ نیند کی کچھ کمی کی وجہ سے ہی غلطی کر سکتے ہیں۔ ہم اپنی توجہ کیسے مرکوز کرتے ہیں اس میں غلطیاں رونما ہو سکتی ہیں اور انہیں جان بوجھ کر کوئی اور رخ بھی دیا جا سکتا ہے (جیسا کے سٹیج کے میجک شوز میں ہوتا ہے)


ہپنوگوگیا کے علم سے ہمارے لیے اصل سبق یہ ہے کہ ہم یہ فرض نہیں کر سکتے کہ ہمارے دماغ ہمیشہ بے عیب طور پر کام کرتے ہیں اور جو ہم سوچیں کہ ہم نے محسوس کیا ہے اور اصل ہی ہو۔ اور بسا اوقات بھوتوں والی کہانی ۔۔۔ محض کہانی ہی ہے۔ 


--------------------

(ترجمہ و تلخیص)


کتاب کا نام:

The Skeptics' Guide to the Universe

Dr. Steven Novella

Monday, September 5, 2022

پلوٹونیم کا تفصیلی تعارف Platinum



پلوٹونیم ایک ایسی دھات جو یورینیم سے بھی زیادہ خطرناک اور تباہ کن ہے۔اسکو یورینیم کی طرح جوہری ہتھیار(ایٹم بم) میں بطور فیول استعمال کیا جاتا ہے۔اسکو نہ صرف ایٹم بم بلکہ نیوکلیر پاور پلانٹس میں استعمال کر کے اس سے پیدا ہونے والی حرارت سے بجلی بھی پیدا کی جاتی ہے۔


پلوٹونیم(Pu-239) کے ایک کلوگرام سے آٹھ ہزار میگا واٹ بجلی پیدا کی جاسکتی ہے۔پاکستان کے سب سے بڑے ڈیم یعنی تربیلا ڈیم کی کپیسٹی 3478 میگاواٹ ہے۔اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ پلوٹونیم بجلی پیدا کرنے کا کس قدر سستا اور مفید ذریعہ ہے۔


اس سے واضع ہوتا ہے کہ نیوکلیر انرجی کو نہ صرف تباہی بلکہ کارآمد مقاصد جیسے بجلی پیدا کرنے کے لیے بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔لیکن یہ بات بھی سچ ہے کہ پلوٹونیم کا سب سے پہلا استعمال ایٹم بم کیا گیا تھا۔یہ 9 اگست 1945 کی بات ہے جب امریکہ نے پہلی بار پلوٹونیم کو ایٹم بم میں استعمال کیا تھا۔یہ ایٹم بم جسکا نام”Fat Man“ رکھا گیا تھا,امریکہ نے 9 اگست 1945 کو جاپان کے شہر ناگا ساکی پر گرایا تھا۔اس ایٹم بم کی بھیانک تباہی سے 80 ہزار لوگ موقع پر جاں بحق ہوگۓ جبکہ بعد میں مرنے والوں کی تعداد بھی ہزاروں میں جو اسکی تابکاری سے متاثر ہوۓ تھے۔”فیٹ مین“ میں 6.4 کلو گرام پلوٹونیم استعمال کی گٸ تھی جس میں اسکے صرف 20 فیصد حصے کی ہی فشن ہوسکی۔اس سے اندازہ لگاٸیں کہ اگر تمام پلوٹونیم کی فشن ہوجاتی تو اسکے نتاٸج کس قدر تباہ کن ہوتے۔ اس ایٹم بم کی طاقت 21 کلو ٹن TNT تھی جبکہ ہیروشیما پر گراۓ جانے والے ایٹم بم”Little Boy“ میں 64 کلوگرام یورینیم استعمال کی گٸ تھی جسکی طاقت 15 کلو ٹن TNT تھی۔یہاں سے واضع ہوتا ہے کہ پلوٹونیم,یوینیم سے کیوں زیادہ تباہ کن اور ایفیشنٹ ایلیمنٹ ہے۔


پلوٹونیم ایک ایسا ایلیمنٹ ہے جو زمین میں قدرتی طور پر نہیں پایا جاتا۔پلوٹونیم کو خاص قسم کی لیبارٹریز میں مصنوعی طریقہ سے بنایا جاتا ہے۔یورینیم(U-238) پر جب نیوٹرانز پارٹیکلز کی بوچھاڑ کی جاتی ہے تو یہ پلوٹونیم میں تبدیل ہوجاتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ نیوکلیر ری ایکٹرز میں اسے یورینیم کی نیوکلیر فشن(ایسا عمل جس میں یورینیم 235 کے نیوکلیس پر جب نیوٹرانز کی بوچھاڑ کی جاتی ہے تو یہ ٹوٹ جاتا ہے) کے نتیجہ میں waste کے طور پر حاصل کیا جاتا ہے۔ساٸنسدانوں کا خیال ہے اسکی پیداٸش سپر نووا کے وقت ہوٸ تھی۔چونکہ یہ ایک تابکار ایلیمنٹ ہے لہذا وقت گزرنے کے ساتھ یہ ڈیکے ہوتا گیا یہاں تک کہ تمام پلوٹونیم ڈیکے کے پراسس سے گزر کر کسی دوسرے ایلیمنٹس میں تبدیل ہوگیا۔یہی وجہ ہے کہ زمین پر اسکی مقدار نہ ہونے کے برابر ہے یعنی زمین پر قدرتی طور پر موجود نہیں ہے۔


پلوٹونیم ایک ریڈیو ایکٹو ایلیمنٹ ہے۔ریڈیو ایکٹو ایلیمنٹ سے مراد ایسا ایلیمنٹ ہوتا ہے جسکا نیوکلیس سٹیبل نہیں ہوتا اور خود کو سٹیبل کرنے کے لیے اس کے نیوکلیس میں سے خطرناک ریڈی ایشنز(الفا,بیٹا اور گیما) خارج ہوتی ہیں۔اسکے نتیجہ میں ایک ریڈیو ایکٹو ایلیمنٹ وقت گزرنے کے ساتھ کسی دوسرے ایلیمنٹ میں تبدیل ہوجاتا ہے۔یعنی ریڈیو ایکٹو ایلیمنٹ ایک انسٹیبل ایلیمنٹ ہوتا ہے جو وقت گزرنے کے ساتھ ڈیکے کر جاتا ہے یعنی ختم ہوجاتا ہے یعنی کسی دوسرے ایلیمنٹ میں تبدیل ہوجاتا ہے۔اگرچہ یہ پراسس بہت سست ہوتا ہے۔مثال کے طور پر یورینیم(U-235) ایک ریڈیو ایکٹو ایلیمنٹ ہے اور اسکی ہاف لاٸف 7 کروڑ سال ہے۔اسکا مطلب یہ ہے کہ اگر آج سے سات کروڑ سال پہلے ایک کلوگرام یورینیم موجود تھا تو آج اسکا آدھا حصہ باقی ہوگا اور آدھا حصہ کسی دوسرے ایلیمنٹ میں تبدیل ہوچکا ہوگا۔جس ایلیمنٹ کی ہاف لاٸف جتنی کم ہوگی اس میں سے نکلنے والی ریڈی ایشنز کی مقدار اتنی ہی زیادہ ہوگی۔مثال کے طور پر پلوٹونیم کی ہاف لاٸف چوبیس ہزار ہے,جسکا مطلب ہے کہ اگر اب ایک کلوگرام پلوٹونیم(Pu-239) موجود ہے تو 24000 سال کے بعد اسکا آدھا حصہ کسی دوسرے ایلیمنٹ میں تبدیل ہوجاۓ گا۔چونکہ پلوٹونیم(Pu-239) کی ہاف لاٸف یورینیم(U-235) کی نسبت کم ہے لہذا پلوٹونیم زیادہ ریڈیو ایکٹو ہے جسکا مطلب ہے کہ اس میں سے نکلنے والی ریڈی ایشنز کی مقدار یورینیم کے مقابلے میں زیادہ ہے۔


کیا آپ جانتے ہیں کہ پلوٹونیم کی دریافت کو پانچ سال تک پبلش نہیں کیا گیا,بالآخر 1946 میں میں اسکی دریافت کا اعلان کیا گیا۔اسکی وجہ یہ ہے کہ جنگ عظیم دوم کے دوران کٸ دوسرے ممالک جیسے روس,جرمنی اور جاپان بھی ریڈیو ایکٹو ایلیمنٹس پر تجربات کررہے تھے۔اگر اس وقت پلوٹونیم کی دریافت کو راز میں نہ رکھا جاتا تو دوسرے ممالک پلوٹونیم بنانے میں کامیاب ہوجاتے, جس سے امریکہ کو ناقابل معافی نقصان اٹھانا پڑ سکتا تھا۔


پلوٹونیم کو پہلی بار دسمبر 1940 میں یونیورسٹی آف کیلیفورنیا, برکلے میں چار ساٸنسدانوں جن میں گلین سیبورگ، آرتھر واہل، جوزف کینیڈی اور ایڈون میک ملن شامل تھے ,نے بنایا تھا۔انہوں نے جب یورینیم(U-238) پر ڈیوٹیرون(ہاٸیڈروجن کا ایک آٸسوٹوپ یعنی ڈیوٹریم جس میں ایک پروٹان اور ایک نیوٹران پایا جاتا ہے,اگر اس میں سے الیکٹرانز نکال دیے جاٸیں تو حاصل ہونے والے میٹریل کو ڈیوٹیرون کہتے ہیں) کی بمباری کرواٸ تو بالآخر پلوٹونیم میں تبدیل ہوگیا۔


پلوٹنیم کی تیاری کے کٸ مراحل ہیں۔مثلاً جب یورینیم(U-238) کے نیوکلیس پر نیوٹرانز پارٹیکل کی بوچھاڑ کی جاتی ہے تو یہ نیوٹران جذب کر لیتا ہے اور یورینیم-239 میں تبدیل ہوجاتا ہے۔یورینیم-239 ایک بہت غیر مستحکم(Unstable) آٸسوٹوپ ہے جس کا مطلب ہے کہ یہ بہت جلد ڈیکے کر جاتا ہے اور نٸے ایلیمنٹ میں تبدیل ہوجاتا ہے۔یورینیم-239 میں بیٹا ڈیکے ہوتا ہے جس کے نتیجہ میں یہ ایک نٸے ایلیمنٹ نیپٹونیم(Z-93) وجود میں آتا ہے۔بیٹا ڈیکے ایسا پراسس ہوتا ہے جس میں جب نیوٹرانز کسی ایٹم کے نیوکلیس میں داخل ہوتا ہے تو یہ پروٹان میں تبدیل ہوجاتا ہے اور اسکے نتیجہ میں نیوکلیس میں سے ایک پازیٹو الیکٹران یعنی بیٹا پارٹیکل کا اخراج ہوتا ہے,جب ایسا ہوتا ہے تو ایٹم کے نیوکلیس میں ایک پروٹان کا اضافہ ہوجاتا ہے۔جس طرح یورینیم میں بیٹا ڈیکے کا پراسس ہوتا ہے اور چونکہ یورینیم کا اٹامک نمبر 92(جس سے مراد یہ ہے کہ یورینیم کے ہر ایٹم کے نیوکلیس میں 92 پروٹانز پاٸے جاتے ہیں) ہے ,لہذا بیٹا ڈیکے کے نتیجہ میں اسکے نیوکلیس میں مزید ایک پروٹان کا اضافہ ہوجاتا ہے یعنی ایک ایسا ایلیمنٹ وجود میں آتا ہے جس کے نیوکلیس میں 93 پروٹانز موجود ہوتے ہیں اور ہم جانتے ہیں کہ نیپٹونیم ایسا ایلیمنٹ ہے جس کے ایٹمز کے نیوکلیس میں 93 پروٹانز پاۓ جاتے ہیں۔نیپٹونیم بھی ایک بہت ہی غیر مستحکم ایلیمنٹ ہے اور اس میں دوبارہ بیٹا ڈیکے کے پراسس کے نتیجہ میں ایک نیا ایلیمنٹ وجود میں آتا ہے جسکا اٹامک نمبر 94 ہے۔ساٸنسدانوں نے اس ایلیمنٹ کا نام پلوٹو سیارے کے نام پر پلوٹونیم رکھا۔باقی دو ایلیمنٹس یعنی یورینیم اور نیپٹونیم کے نام بھی یورینس اور نیپچون سیاروں کے ناموں پر رکھے گۓ تھے۔


چونکہ نیپٹونیم کی ہاف لاٸف تقریباً دو دن ہوتی ہے۔کسی بھی ریڈیو ایکٹو ایلیمنٹ کی ہاف لاٸف سے مراد وہ عرصہ ہے جس میں اسکے آدھے حصے کو دوسرے ایلیمنٹ میں تبدیل ہونے میں جتنا وقت لگتا ہے۔جس طرح بیان کیا گیا ہے کہ نیپٹونیم کی ہاف لاٸف دو دن ہے,اسکا مطلب یہ ہے کہ اگر سو گرم نیپٹونیم موجود ہو تو دو دن کے بعد اسکا آدھا حصہ رہ جاۓ گا اور آدھا حصہ کسی دوسرے حصے میں تبدیل ہوجاۓ گا۔باقی رہنے والا نیپٹونیم چونکہ اب پچاس گرام ہے سو دو دن گزرنے کے بعد موجود نیپٹونیم(50 گرام) کا آدھا حصہ یعنی پچیس گرام باقی رہ جاۓ گا اور باقی کسی دوسرے تابکار عنصر یعنی ریڈیو ایکٹو ایلیمنٹ میں تبدیل ہوجاۓ گا۔۔یورینیم کے نتیجہ میں بننے والا نیپٹونیم چونکہ بہت کم مقدار میں تھا,لہذا پلوٹونیم کی مکمل طور پر شناخت میں کٸ مہنوں کا وقت لگا۔


پلوٹونیم(Pu-239)پر تحقیق کرنے سے معلوم ہوا کہ یہ یورینیم(U-235) کی طرح ایک fissile میٹریل ہے یعنی اسکو ایٹم بم میں نیوکلیر انرجی پیدا کرنے کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے۔یعنی جب اس پر تھرمل نیوٹرانز کی بوچھاڑ کی جاتی ہے تو اسکا نیوکلیس ٹوٹ جاتا ہے اور اسکے نتیجہ میں بہت زیادہ مقدار میں نیوکلیر انرجی(ہیٹ) خارج ہوتی ہے اور اسکے ساتھ پیدا ہونے والے نیوٹرانز مزید پلوٹونیم ایٹمز کی فشن کرتے ہیں۔اسطرح یہ پراسس جاری رہتا ہے اور سیکنڈ کے ہزاوریں حصے میں بے پناہ انرجی پیدا ہوجاتی ہے۔اس پراسس کو چین ری ایکشن کہتے ہیں۔چین ری ایکشن میں پیدا ہونے والی انرجی کو اگر کنٹرول نہ کیا جاۓ تو یہ ہر طرف تباہی مچادیتی ہے اور ایٹم بم میں بالکل یہی تو ہوتا ہے۔سو اگر ہم کس طرح سے چین ری ایکشن کو کنٹرول کرلیں تو پیدا ہونے والی انرجی کو کٹرول کرسکتے ہیں۔اور اس کنٹرول شدہ انرجی کو اپنے فاٸدے جیسے بجلی پیدا کرنے کے لیے استعمال کرسکتے ہیں۔اس مقصد کے لیے ایک ڈیواٸس استعمال کیا جاتا ہے جسکا کام نیوکلیر فشن کے نتیجہ میں پیدا ہونے والی نیوکلیر انرجی کو کنٹرول کرنا ہے,اس ڈیواٸس کو نیوکلیر ری ایکٹر کہتے ہیں جس میں کٹرول راڈز کا استعمال کیا جاتا ہے۔کٹرول راڈز کو گاڑی کی بریک سے تشبیہ دے سکتے ہیں۔مثلاً جب گاڑی کی رفتار زیادہ ہو تو ناگہانی صورتحال میں گاڑی کی بریک اسکی سپیڈ کو کم کرنے کا کام کرتی ہے یا بالکل روک دیتی ہے۔بالکل اسی طرح کنٹرول راڈز کا کام نیوکلیر فشن کے نتیجہ میں خارج ہونے والے نیوٹرانز کو جذب کرنا ہے تاکہ خارج ہونے والے تمام نیوٹرانز مزید پلوٹونیم کی فشن نہ کرسکیں۔اس طرح کنٹرول راڈز کا استعمال کر کے پیدا ہونے والی نیوکلیر انرجی(ہیٹ) کو کنٹرول کیا جاتا ہے۔اس حرارت کو نیوکلیر ری ایکٹر میں موجود پانی(کولنٹ) کو گرم کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے تاکہ سٹیم بناٸ جاسکے۔پیدا ہونے والی سٹیم سے ٹرباٸن کو گھمایا جاتا ہے اور ٹرباٸن جنریٹر کو گمھاتا ہے اور یوں جنریٹر بجلی پید کرتا ہے جسے ہم اپنے گھروں میں استعمال کرتے ہیں۔تھرمل پاور پلانٹس اور نیوکلیر پاور پلانٹس میں فرق صرف اتنا ہے کہ نیوکلیر پاور پلانٹس میں نیوکلیر انرجی کو استعمال کر کے سٹیم بناٸ جاتی ہے جکہ تھرمل پاور پلانٹس میں فوسل فیولز جیسے کوٸلہ کو جلا کر اس سے پیدا ہونے والی حرارت سے سٹیم بناٸ جاتی ہے۔


پلوٹونیم کے بیس کے قریب آٸسوٹوپس پاٸے جاتے ہیں جو کہ سب کے سب ریڈیو ایکٹو ہیں۔ان سب میں سب سے زیادہ استعمال ہونے والے آٸسوٹوپس میں Pu-239 اور پلوٹونیم-238 ہیں۔پلوٹونیم 239 نیوکلیر ہتھیار اور نیوکلیر پاور پلانٹس میں استعمال کیا جاتا ہے جبکہ پلوٹونیم 238 کو خلاٸ تحقیق میں ہیٹ انرجی کے سورس کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔پلوٹونیم 238,پلوٹونیم 239 سے زیادہ ریڈیو ایکٹو ہے جس سے مراد یہ ہے کہ اسمیں سے خارج ہونے والی ریڈی ایشنز پلوٹونیم 239 کی نسبت زیادہ ہیں۔یہ اتنا گرم ہوتا ہے کہ اسکوچھونےسے آپ کو گرمی کا احساس ہوگا۔


پلوٹونیم(Pu-238) کو خلاٸ تحقیق میں ایٸرکرافٹس میں ہیٹ انرجی کے سورس کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔یہ ایسے خلاٸ جہاز ہوتے ہیں جن میں ایک خاص قسم کا انجن لگا ہوتا ہے جسے ریڈیو آٸسوٹوپ تھرموالیکٹرک جنریٹر(RTGs) کہتے ہیں۔RTGs تابکار عناصر(ریڈیو ایکٹو ایلیمنٹس) بالخصوص پلوٹونیم کی تابکاری سے پیدا ہونے والی ہیٹ کو استعمال کر کے بجلی پیدا کرتے ہیں۔عام طور پر زیادہ تر سپیس کرافٹس سولر پینل استعمال کرتے ہیں۔تاہم اگر کسی سپیس کرافٹ کو سولر سسٹم سے بہت دور کسی خلاٸ مشن پر بھیجنا مقصود ہو جہاں سورج کی روشنی بہت کم پہچتی ہو تو ایسی جگہ پر سولر پینل استعمال کرنے کے قابل نہیں ہوتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ ایسی جگہوں پر RTGs کا استعمال ہی بہترین آپشن ہے۔

آر ٹی جی ایس کا استعمال امریکی اپولو قمری مشن اور unmanned تحقیقات جیسے کیسینی ہیوگینز کے دوران کیا گیا تھا۔


پلوٹونیم کم مقدار میں ہینڈل کرنے کے لیے درحقیقت محفوظ ہے۔ تاہم، پلوٹونیم کو نگلنے یا اسکی دھول میں سانس لینے سے بہت زیادہ خطرہ لاحق ہوتا ہے۔ اس لیے جو لوگ اس ایلیمنٹ کے ارد گرد کام کرتے ہیں وہ حفاظتی دستانے اور سوٹ پہنتے ہیں۔


پلوٹونیم کا فی الحال کوئی طبی استعمال نہیں ہے۔ 1970 کی دہائی کے اوائل سے لے کر 1980 کی دہائی کے وسط تک، پلوٹونیم پیس میکر(پیس میکر ایک چھوٹا سا آلہ ہے جو دل کی دھڑکن کو کنٹرول کرنے میں مدد کرنے کے لیے سینے میں لگایا جاتا ہے۔ یہ دل کو بہت آہستہ دھڑکنے سے روکنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے) کو پاور دینے کے لیے استعمال کیا جاتا تھا، لیکن اب اس مقصد کے لیے استعمال نہیں کیا جاتا ہے۔ 2003 تک، پچاس سے ایک سو کے درمیان ایسے تھے جن کے پاس اب بھی پلوٹونیم پیس میکر موجود تھے۔ پیس میکر رکھنے والے شخص کی موت ہو جاتی تو ، پیس میکر کو ہٹا کر لاس الاموس، نیو میکسیکو میں واقع لاس الاموس نیشنل لیبارٹری بھیج دیا جاتا تاکہ بقیہ پلوٹونیم برآمد کیا جا سکے۔


پلوٹونیم ایک الفا امیٹر ہے یعنی یہ الفا ریڈی ایشنز خارج کرتا ہے,جو ہماری صحت کے لیے اتنی زیادہ نقصاندہ نہیں ہیں کیونکہ ہماری جلد ان ریڈی ایشنز کو روک سکتی ہے۔تاہم اگر پلوٹونیم زیادہ مقدار میں ہو پھر حفاظتی تدابیر انتہاٸ ضروری ہیں۔بہت سی تحقیقات سے واضع ہوتا ہے کہ اگر پلونوٹینم ساٸنس کے ذریعے جسم کے اندر چلی جاٸ یا نگل لی جاۓ تو اس صورت میں یہ جسم کے لیے انتہاٸ نقصاندہ ہے۔پلوٹونیم کا زیادہ عرصہ تک جسم میں رہنے سے پھیپھڑوں اور ہڈیوں کے کینسر(لیکیومیا)کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔البتہ یہ بھی سچ ہے کہ ابھی تک پلوٹونیم کی تابکاری کی وجہ سے کسی بھی انسان کی موت نہیں ہوٸ۔اسکی وجہ شاید یہ ہوسکتی ہے کہ یہ دھات ہر جگہ نہیں پاٸ جاتی بلکہ نیوکلیر ری ایکٹرز میں as waste اور پارٹیکلز ایکسلریٹرز میں پیدا کی جاتی ہے ,جہاں کام کرنے والے لوگ بہت زیادہ محتاط اور پروٹیکشن کا خاص خیال رکھتے ہیں۔

Amazon


#ایمزون کا #جنگل_دنیا کے 9 #ممالک تک پھیلا ہوا ہے، جس میں #سرفہرست #برازیل ہے۔

اس کا کل #رقبہ_55_لاکھ_مربع_کلومیٹر پر محیط ہے، جبکہ #پاکستان کا #رقبہ_7_لاکھ_95_ہزار_مربع_کلومیٹر ہے....

یہ جنگل #ساڑھے_پانچ_کروڑ_سال_پرانا ہے....

ایمزون ایک #یونانی_لفظ ہے جسکا مطلب #لڑاکو_عورت ہے

#زمین کی 20 #فیصد_آکسیجن صرف ایمزون کے #درخت اور #پودے پیدا کرتے ہیں....

دنیا کے 40 #فیصد_جانور ، #چرند، #پرند، #حشرات_الارض ایمزون میں پائے جاتے ہیں....

یہاں 400 سے زائد #جنگلی_قبائل آباد ہیں، انکی آبادی کا #تخمینہ_45_لاکھ کے قریب بتایا گیا ہے۔ یہ لوگ #اکیسیوں_صدی میں بھی #جنگلی_سٹائل میں زندگی گذاررہے ہیں۔۔۔

اسکے کچھ علاقے اتنے #گھنے ہیں کہ وہاں #سورج کی #روشنی نہیں پہنچ سکتی اور دن میں بھی رات کا #سماں ہوتا ہے۔۔۔

یہاں ایسے #زیریلے_حشرات_الارض بھی پائے جاتے ہیں کہ اگر کسی انسان کو کاٹ لیں تو وہ چند سیکنڈ میں مرجائے

ایمزون کا دریا پانی کے حساب سے دنیا کا سب سے بڑا دریا ہے, اسکی #لمبائ_7ہزار_کلومیٹر ہے،

دریائے ایمزون میں #مچھلیوں_کی_30_ہزار_اقسام پائ جاتی ہیں۔۔۔

ایمزون کے جنگلات میں 60 فیصد جاندار ایسے ہیں جو ابھی تک بے نام ہیں

یہاں کی مکڑیاں اتنی بڑی اور طاقتور ہوتی ہیں کہ پرندوں تک کو دبوچ لیتی ہیں

یہاں پھلوں کی 30 ہزار اقسام پائ جاتی ہیں

مہم جو اور ماہر حیاتیات ابھی تک اس جنگل کے محض 10 فیصد حصے تک ہی جاسکے ہیں

اگر آپ ایمزون کے گھنے جنگلات مین ہوں اور موسلا دھار بارش شرع ہوجائے تو تقریبا 12 منٹ تک آپ تک بارش کا پانی نہیں پہنچے گا.

carbohydratesکاربوہائیڈریٹ کیا ہیں؟


کاربوہائیڈریٹ وہ شوگر ہے جو ہم۔اپنی خوراک سے استعمال کرتے ہیں۔


 جب ہم کھانا کھاتے ہیں تو ہمارا جسم کھانے کو مختلف غذائی اجزاء میں توڑ دیتا ہے۔ 


یہ غذائی اجزاء کاربوہائیڈریٹ، پروٹین اور چکنائی ہیں۔


 جسم توانائی کے لیے کاربوہائیڈریٹ کو استعمال کرتا ہے۔


بہت زیادہ کاربوہائیڈریٹ کے ساتھ کھانے میں شامل ہیں:


● روٹی، پاستا، چاول، اور اناج


●پھل اور نشاستہ دار سبزیاں


●دودھ اور دیگر ڈیری کھانے


● اضافی چینی کے ساتھ کھانے (جیسے بہت سی کوکیز اور کیک)


کچھ کھانوں میں کاربوہائڈریٹ کے ساتھ فائبر بھی موجود ہوتا ہے ۔  


📌فائبر کیا ہے ؟


یہ ایک غذائی ریشہ ہے  اور کاربوہائیڈریٹ  کی ایک قسم ہے جو

 اصل میں ہضم نہیں ہوتی ۔


فائبر خون میں شوگر کو نہیں بڑھاتا۔


 بہت زیادہ فائبر والی غذائیں انسان کے خون میں شوگر کو کنٹرول کرنے میں مدد کر سکتی ہیں۔ 


اگر کسی کھانے میں 5 گرام (g) سے زیادہ فائبر ہو، اس خوراک کے لیے کم انسولین کی ضرورت ہوتی ہے ۔


👈بہت سی غذائیں، جیسے تازہ پھل اور سبزیاں اناج خاص کر جو کا آٹا فائبر کی بہترین مثال ہے۔


📌ہمیں کاربوہائیڈریٹ کیسے لینے چاہیے؟


● اپنے کاربوہائیڈریٹ کو روزانہ 3 بڑے کھانے کے بجائے 4 سے 6 چھوٹے کھانوں پر پھیلائیں۔

ہر کھانے میں ایک ہی تعداد میں کاربوہائیڈریٹ کھائیں۔ مثال کہ طور پر ہر کھانے میں ایک کاربوہائیڈریٹ کی سروینگ لازمی رکھیں۔


● اپنا کھانا ہر روز ایک ہی وقت میں کھائیں۔


● وقت سے پہلے اپنے کھانے کی منصوبہ بندی کریں۔


●کھانے سے پہلے اور کھانے کے 1 گھنٹہ بعد اپنا بلڈ شوگر چیک کریں۔


 اس سے آپ کو یہ جاننے میں مدد مل سکتی ہے کہ بعض غذائیں آپ کے بلڈ شوگر کو کیسے متاثر کرتی ہیں۔


 آپ گھر پر گلوکومیٹر سے اپنی شوگر لازمی چیک کریں۔


اپنے کھانے اور بلڈ شوگر کی سطح کا ریکارڈ رکھیں۔ 


ماہر غذائیت سے اپنا مکمل چارٹ بنوائیں۔۔


Sunday, September 4, 2022

روڈیم Rodium

 


پیشکش: سائنسی معلومات😎
تحریر محمد شاہ

45)روڈیم:دنیا کی سب سے قیمتی دھات

🌟تعارف

یہ تو ہم سبھی جانتے ہیں کہ سونا ,چاندی,پلاٹینم پلاڈیم دنیا کی قیمتیں دھاتیں ہیں,لیکن کیا آپ جانتے ہیں کہ دنیا میں ان سے بھی قیمتی ایک دھات پاٸ جاتی ہے, جی ہاں میں بات کررہا ہوں روڈیم کے بارے میں جو دنیا کی سب سے قیمتی دھات ہے۔اس وقت(2021)روڈیم کے ایک اونس کی قیمت 14000 ڈالر ہے۔اس کے مقابلے میں سونے کے ایک اونس کی قیمت 1783 ڈالر,پلاٹینم کے ایک اونس کی قیمت 959 ڈالر اور پلاڈیم کے ایک اونس کی قیمت 1866 ڈالر ہے۔ایک اونس 28.35 گرام کے برابر ہوتا ہے۔

روڈیم  سخت,چمکدار(Lustre) اور سلوری رنگ کی ایک خوبصورت دھات ہے جسکا تعلق پلاٹینم گروپ میٹلز سے ہے۔پلاٹینم گروپ میٹلز(PGMs) میں پلاٹینم,پلاڈیم,اوسمیم,روتھینیم,روڈیم اور اریڈیم شامل ہیں۔یہ بہت ہی نایاب دھاتیں ہیں زیادہ تر زمین کی پرت میں ایک ساتھ پاٸ جاتی ہیں۔ان دھاتوں کو انرٹ میٹلز کہا جاتا ہے کیونکہ یہ دوسرے ایلیمنٹس کے ساتھ باآسانی ری ایکٹ نہیں کرتی۔یہ بہت زیادہ زنگ مزاحم(Corrosion resistive) ہوتی ہیں جسکا مطلب ہے کہ ان پر ہوا(آکسیجن) کا اثر نہیں پڑتا۔یہی وجہ ہے کہ یہ دوسری میٹلز جیسے لوہے اور چاندی وغیرہ کی طرح ہوا میں داغدار(turnish) نہیں ہوتی ہیں۔

🌟دریافت(Discovery)

روڈیم کی دریافت 1803 میں ایک  ساٸنسدان ولیم وولسٹن نے کی تھی۔وہ ایک دوسرے ساٸنسدان Smithson Tennant کے ساتھ مل کر پلاٹینم کی ایک کچ دھات(یعنی ایسا منرل جس میں پلاٹینم زیادہ مقدار میں پاٸ جاتی ہو اور تجارتی پیمانے اس سے پلاٹینم نکالنا منافع بخش ہو) سے پلاٹینم کی تیاری میں مصروف تھے,تاکہ اسے تجارتی پیمانے پر فروخت کیا جاسکے۔اس مقصد کے لیے سب سے پہلے انہوں نے  پلاٹینم کی کچ دھات کو ایکوا ریجیا(ہاٸیڈروکلورک ایسڈ اور ناٸٹرک ایسڈ کا مکسچر) میں تحلیل کیا۔انہوں نے نوٹس کیا کہ تمام پلاٹینم سلوشن میں تحلیل نہیں ہوا بلکہ اسکا کچھ حصہ(جو کہ سیاہ رنگ کا تھا) باقی رہ گیا ہے۔ٹیننٹ نے اس باقیات کی چھان بین کی اور اس سے اس نے آخر کار دو ایلیمنٹس یعنی اسمیم اور اریڈیم کو الگ تھلگ کردیا۔
وولسٹن نے جب تحلیل شدہ پلاٹینم پر مزید تحقیق کی تو اسمیں دو ایلیمنٹس موجود تھے یعنی پلاڈیم اور پلاٹینم جنکو سلوشن سے کسی طریقہ سے الگ کرلیا گیا۔جسکے بعد اسے سلوشن میں  گہرے سرخ  رنگ کا ایک  خوبصورت کرسٹل ملا۔یہ کرسٹل دراصل سوڈیم روڈیم کلوراٸیڈ(Na3RhCl6) تھا۔آخرکار اس میں سے روڈیم کو الگ کرلیا گیا۔وولسٹن  گہرے سرخ پاڈر سے روڈیم نکالنے کے لیے اسکا ہاٸیڈروجن گیس کے ملایا یعنی کیمکل ری ایکشن کروایا۔

🌟طبعی خصوصیات(Physical Propeties)

روڈیم ایک سلوری چکمدار دھات ہے۔یہ بجلی اور ہیٹ کی اچھی کنڈکٹر ہے۔اس کے میلٹنگ اور بواٸلنگ پواٸنٹس بالترتیب 1970 ڈگری سیلسیس 3727 ڈگری سیلسیس ہیں۔اس کا اٹامک نمبر 45 جبکہ ریلٹو ماس نمبر 102.906 ہے۔اسکی کثافت پانی سے بارہ گنا زیادہ ہے یعنی یہ پانی سے بارہ گنا بھاری ہے۔اسکا کیمکل سمبل Rh ہے۔

🌟کیمیاٸ خصوصیات(Chemical Properties)

روڈیم کو عموماً ایک ان ایکٹو دھات سمجھا جاتا ہے جسکا مطلب ہے کہ یہ باآسانی دوسرے ایلیمنٹس کے ساتھ کیمیاٸ تعامل نہیں کرتی۔عام درجہ حرارت پر اس پر ہوا(آکسیجن) کا اثر نہیں ہوتا یعنی یہ آکسیجن کے ساتھ کیمیاٸ تعامل نہیں کرتی۔البتہ جب اسکا درجہ حرارت 600 ڈگری سیلسیس تک ہوتا ہے تو یہ آکسیجن کے ساتھ کیمیاٸ تعامل کرتی ہے۔جس طرح لوہا وقت گزرنے ساتھ اپنی چمک دمک کھودیتا ہے کیونکہ آکسیجن اس کے ساتھ باآسانی کیمیاٸ تعامل کرسکتی ہے۔اس کے نتیجہ میں لوہا کی سطح پر آٸرن آکساٸیڈ کی تہہ بن جاتی ہے اور یوں لوہا داغدار(turnish) ہوجاتا ہے۔روڈیم کے ساتھ آکسجن چونکہ بآسانی کمکل ری ایکشن نہیں کرسکتی لہذا اسکی چمک دمک وقت گزرنے کے باوجود ماند نہیں پڑتی۔

روڈیم زیادہ تر ایسڈز حتی کہ ایکوا ریجیا میں کے ساتھ بھی ری ایکٹ نہیں کرتی۔تاہم یہ بہت گرم اور کنسٹریٹڈ سلفیورک ایسڈ کے ساتھ ری ایکٹ کرسکتی ہیں۔

🌟بہتات(Occurrence in Nature)

روڈیم کا شمار انتہاٸ نایاب(rare) دھاتوں میں ہوتا ہے۔نایاب دھاتوں سے مراد ایسی دھاتیں ہیں جو زمین پر بہت کم مقدار میں پاٸ جاتی ہیں۔اسکے کمپاٶنڈ عموماً اپنے گروپ کی دوسری دھاتوں کے ساتھ زمین کی پرت میں پاۓ جاتے ہیں۔روڈیم کی اہم کچ دھاتیں روڈائٹ,sperrylite اور iridosmine  ہیں۔

سب سے زیادہ روڈیم پیدا کرنے والے ممالک میں جنوبی افریقہ سرفہرست ہے۔جنوبی افریقہ سالانہ روڈیم کی عالمی سپلائی کا 85% سے زیادہ پیدا کرتا ہے۔

🌟تیاری

روڈیم ایک نایاب دھات ہے اور اسکی دنیا میں کوٸ کان بھی موجود نہیں ہے۔چونکہ روڈیم اپنے گروپ کی دوسری دھاتوں کی کچ دھاتوں معمولی میں پاٸ جاتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ روڈیم کو دوسری دھاتوں جیسے پلاٹینم وغیرہ  کی تیاری کے دوران باۓ پراڈکٹ کے طور پر حاصل کیا جاتا ہے۔روڈیم کی عالمی سالانہ پیداوار محض 30 ٹن ہے۔

روڈیم کی پیداوار کا انحصار پلاٹینم کی قیمت پر ہے۔کیونکہ روڈیم پلوٹینم کی کچ دھات میں معمولی مقدار میں پاٸ جاتی ہے اور اسے پلاٹینم کی ریفاٸننگ کے دوران باۓ پراڈکٹ کے طور پر حاصل کیا جاتا ہے۔سو اسکی پیداوار اس وقت ہی زیادہ ہوگی جب پلاٹینم کی پیداوار زیادہ ہوگی اور پلاٹینم کی پیداوار اس وقت ہی زیادہ ہوگی جب اسکی قیمت زیادہ ہوگی۔اسکا مطلب یہ ہے کہ اگر روڈیم کی قیمت زیادہ بھی ہوجاۓ تو اسکی پیداوار میں اضافہ نہیں ہوگا۔یہ اسی صورت میں ممکن ہے اگر پلوٹینم کی زیادہ کان کنی کی جاۓ۔😏

🌟استعمالات

دوسری دھاتوں(ٹرانزیشن میٹلز) کی طرح روڈیم کو بھی زیادہ تر الوۓ حالت میں استعمال کیا جاتا ہے۔الوۓ سے مراد دو یا دو سے زیادہ دھاتوں کو آپس میں پگھلا بننے والا میٹریل ہے۔مثال کے طور پر اسکو پلاٹینم میں تھوڑی بہت مقدار میں ملایا جاتا ہے۔ایسا کرنے سے پلاٹینم کی سختی پہلے سے بڑھ جاتی ہے۔اسکی وجہ یہ ہے کہ پلاٹینم کی نسبت روڈیم زیادہ سخت دھات ہے۔روڈیم کے پلاٹینم اور پلاڈیم کے ساتھ الوۓ کو  فرنس کوائلز، ہوائی جہاز کے چنگاری پلگ کے الیکٹروڈز اور لیبارٹری کروسیبلز جیسی چیزیں بنانے کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔

روڈیم کا سب سے زیادہ(85 فیصد) استعمال کیٹالیٹک کنورٹر میں کیا جاتا ہے۔عام طور پر آٹو موبائلز جیسا کہ ٹرک اور گاڑیاں وغیرہ کے ہیٹ انجن یا پاور انجن سسٹم میں جب فیول جلتا ہے تو اس کے نتیجہ میں انرجی(ہیٹ) پیدا ہوتی ہے اور ساتھ ہائیژروکاربنز جیسا کہ کاربن ڈائ آکسائیڈ اور پانی(بخارات) پیدا ہوتے ہیں.چونکہ استعمال ہونے والا فیول جیسا کہ گیسولین میں ہائیڈروکاربنز کے علاوہ اور بھی کئ طرح کے کیمکلز ہوتے ہیں جو کہ زہریلی گیسز جیسا کہ کاربن مونو آکسائیڈ اور نائیٹروجن آکسائیڈ وغیرہ بھی خارج ہوتے ہیں.اس لیے اگر ہم چاہتے ہیں کہ ان زہریلی اور مضر گیسز کو ہوا میں نہ دیا جائے یعنی یہ ان کو سلنسر  یعنی ایگزاسٹ سسٹم میں سے گزرنے سے پہلے کم نقصان دہ گیسز جیسا کہ کاربن ڈائ آکسائیڈ وغیرہ میں تبدیل کردیا جائے تو اس کے لیے آٹو موبائلز کے ایگزاسٹ سسٹم میں ایک ڈیوائس لگایا جاتا ہے جسکا کام ان زہریلی یا پلوٹینٹ گیسز کو کم نقصان دہ گیسز میں تبدیل کرنا ہوتا ہے,اس ڈیوائس کو کیٹالیٹک کنورٹر کہا جاتا ہے.اس میں عام طور پر جو کیٹالسٹ استعمال ہوتا ہے وہ زیادہ تر پلاٹینم گروپ میٹلز(PGMs) میں سے ہوتا ہے.یعنی وہ پلاٹینم,پلاڈیم اور روڈیم کا ہوتا ہے.کیٹالسٹ درصل ایک ایسا عنصر ہوتا ہے جو کیمکل ری ایکشن کی رفتار کو کو تیز کرتا ہے مگر یہ خود کیمکل ری ایکشن میں حصہ نہیں لیتا.یہ ایسے ہی کہ ایک کوچ جو اتھلیٹس کو زیادہ تیز دوڑنے کا حکم تو دے رہا ہے مگر وہ خود اپنی جگہ پر قائم ہے.روڈیم کو بطور کیٹالسٹ استعمال استعمال کرنے کی دو بنیادی وجہ یہ ہیں:1)بہت زیادہ درجہ حرارت پر اپنی حالت برقرار رکھنا یعنی اسکا میلٹنگ پوائنٹ بہت زیادہ ہوتا ہے کیونکہ عام طور پر گاڑیوں میں جوفیول جلتا ہے وہاں ٹمپریچر بہت زیادہ ہوتا ہے جو کہ لگ بھگ 500 سے600 ڈگری سینٹی گریڈ ہوتا ہے اس لیے کیٹالسٹ اس عنصر کو لیا جاتا ہے جو بہت زیادہ درجہ حرارت پر بھی اپنی حالت برقرار رکھ سکے,2)یہت ہی زیادہ نان ایکٹو ہوتا ہے یعنی دوسرے عناصر اور مرکبات کے ساتھ بہت ہی کم کیمائ تعامل کرتا ہے مثلا یہ آکسجن کے ساتھ کیمیائ تعامل نہیں کرتا یہی وجہ ہے کہ اس کو زنگ نہیں لگتا.چونکہ کیٹالیٹک کنورٹر میں آکسیڈیشن ریڈکشن ری ایکشنز ہوتے ہیں اور اگر کوئ عنصر ان کے ساتھ کیمیائ تعامل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو تو پھر میٹل اپنی اصلی حالت بھلا کیسے برقرار رکھ سکتا ہے. پلاٹیینم گروپ کے جتنے بھی اس گروپ کے میٹلز ہیں چونکہ وہ بہت ہی کم ری ایکٹو ہوتے ہیں اس لیے زیادہ تر کیمکل ری ایکشنز میں ان کو  بطور کیٹالسٹ ترجیح دی جاتی ہے.ان کو نوبل میٹلز بھی کہا جاتا ہے کیونکہ ایک طرح سے یہ بالکل انرٹ ہوتی ہیں۔

انڈسٹری میں روڈیم کو زیادہ تر کیٹالسٹ کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔مثلاً  ناٸٹرک ایسڈ,ایسیٹک ایسڈ اور ہاٸیڈروجینیشن ری ایکشن میں اسے بطور کیٹالسٹ استعمال کیا جاتا ہے۔کیٹالسٹ سے مراد ایس شۓ ہے جو کیمکل ری ایکشن کی رفتار کو تیز  کرتی ہے مگر خود اس عمل میں حصہ نہیں لیتی۔مثال کے طور پر ہمارے جسم میں موجود اینزاٸمز کیٹالںسٹ کے طور پر کام کرتے ہیں جو کہ ہمارے جسم میں ہونے والے باٸیوکیمکل ری ایکشن کی رفتار کو بڑھاتے ہیں۔

روڈیم ایک اچھا فلیکٹر ہے یعنی روشنی کو اچھی طرح رفلیکٹ کرسکتا ہے۔اس بنا پر اس کو شیشے کی کی کوٹنگ(تہہ چڑھانا) میں استعمال کیا جاتا ہے۔روڈیم کو اسکی خوبصورتی,چمکد دمک,سختی اور زنگ مزاحم جیسی صلاحیتوں کی بنا پر جیولری میں بھی استعمال کیا جاتا ہے۔چاندی یا پلاٹینم کی طرح نظر آنے والے سستے زیورات پر اکثر روڈیم پلیٹنگ(روڈیم کی تہہ چڑھانا) کی جاتی ہے۔روڈیم کو عموماً سفید سونا بھی کہا جاتا ہے۔روڈیم جیولری کا سامان وقت گزرے کے ساتھ بھی اپنی چمک دمک برقرار رکھتا ہے کیونکہ اس پر پانی (نمی) اور ہوا(آکسیجن) کا اثر نہیں ہوتا ہے۔روڈیم زیورات کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ یہ ہاٸیپوالجینک ہوتے ہیں یعنی یہ سونے یا چاندی کی طرح جلد کی الرجی کا باعث نہیں بنتے۔

روڈیم کو زنگ مزاحم اور الیکٹریکل کنڈکٹیویٹی کی بنا پر الیکٹریکل شعبہ میں الیکٹریکل کنٹیکٹ میٹریل کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے,کیونکہ اسکی resistance بہت کم ہوتی ہے یعنی یہ اپنے میں سے بجلی کو باآسانی گزرنے کی اجازت دیتا ہے۔

صحت پر اثرات

خالص روڈیم کے انسانی جسم پر منفی اور مثبت اثرات کے حوالے سے ابھی تک کوٸ رپورٹ سامنے نہیں آٸ۔تاہم  پاوڈ حالت میں روڈیم جلد اور آنکھوں وغیرہ کی جلن کا باعث بن سکتا ہے۔روڈیم کے مرکبات(compounds) انتہاٸ خطرناک اور کارسینوجنک(کینسر پیدا کرنے والے) کے طور پر تصور کیا جاتا ہے۔

تحریر:محمد شاہ رخ

Uranium یورینیم کا تفصیلی تعارف

 


جس طرح لوہا,کاپر,ایلومینیم,کاپر اور ٹنگسٹن وغیرہ جیسی دھاتوں کو زمین سے نکالا جاتا ہے,اسی طرح یورینیم بھی ایک دھات ہے جسکو زمین سے نکالا جاتا ہے۔لیکن یہ دوسری دھاتوں کے برعکس ایک بہت خطرناک دھات ہے۔یہ اتنی زیادہ بھیانک اور تباہ کن ہے کہ اس کے ایک کلوگرام سے اتنی زیادہ انرجی پیدا کی جاسکتی ہے جس سے ایک بہت بڑے شہر کو چند لمحوں میں تباہ کیا جاسکتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ اسکو جوہری ہتھیار یعنی ایٹم بم میں فیول کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔اسکو نہ صرف ایٹم بم بلکہ نیوکلیر پاور پلانٹس میں استعمال کر کے اس سے پیدا ہونے والی حرارت سے بجلی پیدا کی جاتی ہے۔یورینیم میں وہ کونسی ایسی خوبی ہے جسکی وجہ سے اسکو ایٹم بم میں استعمال کیا جاتا ہے اور اس کے چھوٹے سے ذرے سے بے انتہا انرجی کیسے حاصل کی جاتی ہے۔اسکے علاوہ یورینیم کی خصوصیات,اسکی تاریخ,یورینیم کی انرچمنٹ سے کیا مراد ہے اور یورینیم سب سے زیادہ کہاں پاٸ جاتی ہے؟آج  ہم ان تمام سوالات کے جوابات دینے کی کوشش کریں گے۔۔۔


یورینیم ایک چاندی کی طرح  چمکدار دھات ہے جو  بھاری اور  بجلی کا ناقص کنڈکٹر(poor conductor) ہے۔اس کا میلٹنگ پواٸنٹ 1132 سیلسیس ہے جبکہ بواٸلنگ پواٸنٹ 4131 سیلسیس ہے۔اسکا اٹامک نمبر 92 جبکہ اٹامک ماس 238 ہے۔


یورینیم کی دریافت ایک جرمن کیمیا دان مارٹن کلاپروتھ (1743-1817) نے کی۔1789  میں، کلاپروتھ ایک عام اور معروف کچ دھات کا مطالعہ کر رہا تھا جسے pitchblende کہتے ہیں۔ اس وقت، سائنس دانوں کا خیال تھا کہ پچ بلینڈ لوہے اور زنک پر مشتمل ایک منرل(ore) ہے۔تاہم اپنی تحقیق کے دوران، Klaproth نے پایا کہ اس منرل کے ایک حصہ  میں لوہے یا زنک جیسی خصوصیات نہیں پاٸ جاتیں۔اس نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ ضرور اس میں ایک نیا ایلیمنٹ  ہے اور اس نے اس  ایلیمنٹ کا نام یورینیم تجویز کیا ہے۔ یہ نام یورینس کے اعزاز میں دیا گیا تھا، ایک ایسا سیارہ جو صرف چند سال پہلے 1781 میں دریافت ہوا تھا۔تاہم نصف صدی کے بعد یعنی 1841 میں  ایک فرانسیس ساٸنسدان نے پہلی مرتبہ خالص یورینیم تیار کی۔


یوینیم قدرتی طور پر پاٸ جانے والی واحد ایسی دھات ہے جس کو ایٹم بم میں بطور استعمال کیا جاتا ہے۔لیکن ایٹم بم میں استعمال کرنے سے پہلے اسے ایک پراسس سے گزرنا پڑتا ہے جسے یورینیم انرچمنٹ یا عمل افزودگی  کہتے ہیں۔یورینیم کی انرچمنٹ جاننے سے پہلے ہمیں تھوڑا بہت یورینیم کے آٸسوٹوپس کے بارے میں جاننا ہوگا۔


یوینیم کے قدرتی طور پر تین آٸسوٹوپس پاۓ جاتے ہیں اسکا مطلب یہ ہے کہ  یورینیم جو قدرتی طور پر زمین سے نکالا جاتا ہے اس میں یورینیم  238 ننانوے فیصد,یورینیم 235  زیرو اشاریہ سات(0.7) فیصد اور یورینیم 234 زیرو اشایہ زیرو زیرو زیرو پانچ(0.005)فیصد موجود ہوگا۔اسکو ایک مثال سے یوں سمجھا جاسکتا ہے  قدرتی یوینیم اگر سو گرام ہے تو اس میں یوینیم 238 نناوے گرام,یورینیم 235 تو 0.7 گرام اور یورینیم 234, 0.006 گرام موجود ہوگا۔


لیکن یورینیم 235 قدرتی طور پر پایا جانے والا واحد ایسا آٸسوٹوپ ہے جسکو ایٹم بم میں بطور فیول استعمال کیا جاتا ہے۔چونکہ یہ قدرتی یورینیم میں بہت کم مقدار میں پایا جاتا ہے لہذا اسکو ایٹم بم میں استعمال کرنے سے پہلے اسکی مقدار بڑھا جاتی ہے اور اس پراسس کو یورینیم انرچمنٹ کہتے ہیں۔ایٹم بم میں یورینیم کی انرچمنٹ نوے فیصد تک بڑھاٸ جاتی ہے۔


نوے فیصد مقدار بڑھانے کا مطلب یہ ہے کہ ایٹم بم میں استعمال ہونے والی یورینیم میں نوے فیصد یورینیم  235  ہوتی ہے جبکہ یورینیم 238 کی مقدار دس فیصد ہوتی ہے۔اسی طرح نیو کلیر پاور پلانٹس میں اسکی مقدار دو سے پانچ فیصد تک بڑھاٸ جاتی ہے۔یورینیم انرچمنٹ ایک بہت مشکل,پیچیدہ اور مہنگا پراسس ہوتا ہے۔یورییم انرچمنٹ کے حوالے سے سخت قوانین ہیں۔NPT معاٸدہ کے تحت غیر جوہری ممالک پر یورینیم نارچمنٹ 20 سے زیادہ بڑھانے کی پابندی ہے۔کیونکہ اگر کوٸ ملک ایسا کرے گا تو اسکا مطلب ہوگا کہ وہ اسکو جوہری ہتھیار بنانے میں استعمال کررہا ہے


یورینیم کو 235 کو ایٹم بم اور نیوکلیر پاور پلانٹس میں اسلیے استعمال کیا جاتا ہے کیونکہ یہ ایک fissile میٹیریل ہے, جسکا مطلب یہ ہے کہ اسکی ڈاٸریکٹ نیوکلیر فشن کی جاسکتی ہے۔نیوکلیر فشن ایک ایسا پراسس ہوتا ہے جس میں جب  ایک بڑے نیوکلیس پر نیوٹرانز پارٹیکل کی بوچھاڑ کی جاتی ہے تو یہ  دو چھوٹے نیوکلیاٸ میں ٹوٹ جاتا ہے جس کے نتیجہ میں بہت زیادہ مقدار میں انرجی پیدا ہوتی ہے۔اس پراسس کو 1938 میں دو ساٸنسدانوں اوٹانز اور فرٹز نے دریافت کیا تھا۔جب انہوں نے یورینیم کے آٸسوٹوپ 235 پر تھرمل نیوٹرانز کی بوچھاڑ کی تو یورینیم کا نیوکلیس ٹوٹ گیا جس کے نتیجہ میں دو نٸے ایلیمنٹس وجود میں آۓ اور اسکے ساتھ بہت زیادہ مقدار میں انرجی خارج ہوٸ۔


 اس کے برعکس یورینیم 238 ایک fertile میٹیریل ہے جسکا مطلب ہے کہ اسکو ڈاٸریکٹ نیوکلیر انرجی پیدا کرنے کے لیے استعمال نہیں کیا جاسکتا بلکہ اسکے لیے اسکو ایک اور ایلیمنٹ پلوٹونیم-239 میں تبدیل کیا جاتا ہے۔اس وقت تین آٸسوٹوپس fissile ہیں جسکا مطلب ہے کہ انکو ایٹم بم اور نیوکلیر ری ایکٹرز میں نیوکلیر انرجی پیدا کرنے کے لیے یعنی انکو as فیول استعمال کیا جاتا ہے جن میں U-233,U-235 اور Pu-239 ہیں۔ یورینیم 235 قدرتی طور پر پایا جانے والا واحد ایسا fisile میٹیریل ہے جسکو نیوکلیر انرجی پیدا کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔جبکہ یورینیم 233 اور پلوٹونیم 239 کو آرٹیفیشکلی طور پر بنایا جاتا ہے۔


یورینیم کی نیوکلیر فشن یعنی جب یورینیم 235 کے نیوکلیس کو سپلٹ کیا جاتا ہے تو کتنی زیادہ انرجی پیدا ہوتی ہے  اسکا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا  کہ امریکہ نے 6 اگست 1945 کو جو ایٹم بم جاپان کے شہر ہیروشیما پر گرایا تھا اس میں 64 کلوگرام یورینیم 235 استعمال کی گٸ تھی جس میں صرف ایک کلوگرام یورینیم 235 کی ہی فشن ہوسکی۔اس ایٹم بم کی تباٸ سے 70 ہزار سے زاٸد لوگ جل کر راکھ ہوگۓ,پچاس ہزار سے زاٸد عمارتیں زمین بوس ہوگٸ اور اسکے اثر سے پیدا ہونے والی ریڈی ایشنز نے کٸ ہزار لوگوں کو متاثر کیا۔آپ گمان کریں کہ اگر تمام یورینیم 235 کی فشن ہوجاتی تو اسکے نتاٸج کتنے بھیانک ہونگ تھے اور شاید پوری دنیا اسکی لپیٹ میں آسکتی تھی۔


 1896 میں ہنیری بیکرل نے ریڈیو ایکٹویٹی دریافت کی۔یہ ایک ایسا فینامنا ہوتا ہے جس میں کسی ایلیمنٹ کے نیوکلیس میں سے  ریڈی ایشنز خارج ہوتی ہے۔ان ریڈی ایشنز میں  الفا,بیٹا اور گیما ریڈی ایشنز شامل ہیں۔۔یہ پراسس جن ایلیمنٹس میں وقوع پذیر ہوتا ہے,ان ایلمنٹس کو ریڈیو ایکٹو ایلیمنٹس کہا جاتا ہے۔یوینیم پہلا ایسا ایلیمنٹ ہے جسکی ریڈیو ایکٹویٹی کے بارے میں ہمیں علم ہوا۔ہوتا کچھ یوں ہے کہ ہینری بیکرل اسکی ایک کچھ دھات یعنی پچ پلینڈ کو کاغذ میں لپٹ کر دراز میں رکھ دیتا ہے۔ساتھ ایک فوٹو گرافک پلیٹ بھی پڑی ہوتی ہے۔فوٹو گرافک پلیٹ کی خصوصیات یہ ہے کہ جب اس پر ریڈی ایشنز پڑتیں ہیں تو اس پر دھبے بن جاتے ہیں۔ہینری بیکرل نے فوٹوگرافک پلیٹ پر دھبوں کے نشانات دیکھے۔جب اس پر مزید تحقیق  ہوٸ تو   معلوم ہوا کہ  فوٹوگرافک پر ایکسپوز ہونے والی ریڈی ایشنز پچ پلینڈ میں موجود یورینیم سے نکل رہی ہیں اور یہ پراسس خود بخود ہورہا ہے۔اس پراسس کو  میری کیوری نے ریڈیو ایکٹویٹی کا نام دیا۔اس پراسس میں ایک ریڈیو ایکٹویٹو ایلیمنٹ دوسرے ایلیمنٹ میں تبدیل ہوجاتا ہے۔ 


اگرچہ ریڈیو ایکٹویٹی کی دریافت سے ہمیں یہ معلوم ہوچکا تھا کہ کچھ ایلیمنٹس ایسے بھی ہیں جو ہمیشہ کے لیے اپنا وجود برقرار نہیں رکھ سکتے ان ایلیمنٹس کو ریڈیو ایکٹو ایلیمنٹس کا نام دیا گیا۔یہ ایسے ایلیمنٹس ہوتے ہیں جن کا نیوکلیس سٹیبل نہیں ہوتا اور ان کے نیوکلیس میں سے خوبخود ریڈی ایشنز یعنی الفا,بیٹا یا گیما ریڈی ایشنز خارج ہوتی ہیں۔مثال کے طور پر یورینیم ایک ریڈیو ایکٹو ایلیمنٹ ہے جسکا مطلب یہ ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ یہ کسی دوسرے ایلیمنٹ میں تبدیل ہوجاۓ گا۔مثال کے طور پر یورینیم(U-238) کی ہاف لاٸف ساڑھے چار ارب ہے(زمین کی عمر بھی تقریباً اتنی ہی ہے)۔اسکا مطب یہ ہے کہ اگر آج سے ساڑھے چار ارب سال پہلے ایک گرام یورینیم موجود تھا تو آج اسکا  آدھا رہ جاۓ گا اور اسکا آدھا حصہ کسی دوسرے عنصر یعنی ایلیمنٹ یا آٸسوٹوپ میں تبدیل ہوچکا ہوگا۔


یورینیم کو نہ صرف ایٹم بم بلکہ اسکو نیوکلیر ری ایکٹرز میں استعمال کر کے اس سے بجلی پیدا کی جاتی ہے۔نیوکلیر ری ایکٹر دراصل ایسا ڈیواٸس ہے جو نیوکلیر پاور پلانٹ کا ہارٹ ہوتا ہے, جس میں یورینیم کی فشن ایٹم بم کے برعکس کنٹرول طریقہ سے کی جاتی ہے جس کے نتیجہ میں پیدا ہونے والی حرارت سے بجلی پیدا کی جاتی ہے۔اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے  صرف ایک ٹن  یورینیئم سے چار کروڑ کلو واٹ آور بجلی پیدا کی جا سکتی ہے۔ اتنی ہی بجلی پیدا کرنے کے لیے سولہ ہزار ٹن کوئلہ یا 80 ہزار بیرل تیل جلانا پڑتا ہے۔اس وقت پوری دنیا میں 440 نیوکلیر ری ایکٹر اپریٹٹڈ ہیں جو دنیا کی دس فیصد بجلی پیدا کررہے ہیں۔نیوکلیر ری ایکٹر بجلی پیدا کرنے کا سستا اور اور قابل تجدید ذرٸع ہے۔سطح زمین اور سمندر میں اتنا قدرتی یورینیئم موجود ہے جو دنیا بھر کی بجلی کی ضرورت کو کئی صدیوں تک پورا کر سکتا ہے۔


ورلڈ نیوکلیر ایسوسی ایشن کی 2018 کی رپوٹ کے مطابق کازقستان دنیا کی سب سے زیادہ یورینیم پیدا کرنے والاملک ہے۔اسکے بعد بالترتیب کینیڈا,آسٹریلیا,,نیمیبیا   ناٸیجر اور روس  شامل ہیں۔پوری دنیا کی 87 فیصد یورنیینم صرف یہ چھ ممالک پیدا کرتے ہیں۔اگرچہ یورنیم کی پیداوار کے لحاظ سے آسٹریلیا تیسرا بڑا ملک ہے جو پوری دنیا کی 12 فیصد یورینیم پیدا کرتا ہے تاہم  یوینیم کے سب سے زیادہ ذخاٸر اسٹریلیا میں پاۓ جاتے ہیں۔پوری دنیا میں پاٸ جانے والی یورینیم کے ایک تہاٸ ذخاٸر اسٹریلیا میں پاۓ جاتے ہیں۔اسکے بعد کازقستان,کینیڈا,نیمیبیا اور  ناٸجر میں یورینیم کے وسیع ذخاٸر موجود ہیں۔


سطح زمین کی قدرتی چٹانوں میں بہتات کے اعتبار سے یورینیئم قدرتی عناصر میں اڑتالیسویں عدد پر ہے۔ یعنی یہ اتنا بھی نایاب نہیں ہے جتنا سمجھا جاتا ہے۔ بہتات کے اعتبار سے یہ سونے کے مقابلے میں 500 گنا، چاندی سے 40 گنا، پارے سے 25 گنا اور قلع سے دگنا زیادہ ملتا ہے۔


یورینیئم جست (زنک)، بورون، کحل اور کیڈمیم سے زیادہ وافر ہے۔ سمندر کے ایک قلعئ پانی میں تقریباً 3 ملی گرام یورینیئم موجود ہوتا ہے۔ زیادہ تر چٹانوں میں ایک قلع میں دو سے چار گرام یورینیئم موجود ہوتا ہے۔ یورینیئم دنیا میں اتنا ہی ملتا ہے جتنا کہ زرنیخ، قلع، ٹنگسٹن اور مولیبڈینیم۔ اگر یورینیئم کی قیمت کچھ زیادہ بڑھ جائے تو سمندر کے پانی سے یورینیئم نکالنا سودمند ہو سکتا ہے۔


یورینیم ایک ہزار سے زاٸد مختلف دھاتوں میں پایا جاتا ہے۔تاہم یوراناٸٹ,کارنوٹاٸٹ,ٹورباناٸٹ اور آٹوناٸٹ میں یہ زیادہ مقدار میں پایا جاتا ہے۔


یورینیم کی کھدائی اسی طرح کی جاتی ہے جس طرح لوہے کی ہوتی ہے۔کچ دھات کو زمین سے نکالا جاتا ہے، اسکے بعد نائٹرک ایسڈ(HNO3) سے اسکو ملایا جاتاہے یعنی اسکا کیمیکل ری ایکشن ہوتا ہے۔اسکے نتیجہ میں یورینیل نائٹریٹ (UO2(NO3)2) بنایا جاتا ہے۔اسکے بعد یورنیم کے اس کمپاٶنڈ کو  یورینیم ڈائی آکسائیڈ (UO2) میں تبدیل ہوتا ہے۔ آخر میں، یورنیم ڈاٸ آکساٸیڈ کو ہائیڈروجن گیس کے ساتھ کیمیکل ری ایکشن کروا کر خالص یورینیم دھات میں تبدیل کیا جاتا ہے۔


تحریر:محمد شاہ رخ

اخروٹ-- WALNUT

 

تحریر وتخلیص:- یاسین 😎


﴿#نوٹ_ اگر کسی کو دیر کا اوریجنل اخروٹ چاہے تو انباکس کرے کیونکہ اج کل توڑے سستے مل رہے ہے"﴾


اپنے موبائل کو توڑنے ہی والا تھا لیکن جب یہ تصاویر لیے طمع ہونے لگا ، بتائے کیسے لگی!


 آپ کو بتاتا چلو کہ ہمارے ہاں بہت  اخروٹ ہوچکے  ہیں لیکن ایک بھی نہیں کھایا ،کیونکہ ہاتھ گندے ہوجاتے ہے اس سے جو رنگ ہاتھوں پر اتا ہے مہینے تک رہتا ہے جھوٹ نہیں بھول رہا بلکل بھی نہیں کھایا ۔۔۔😁

 گروپ میں جو  ممبرز دیر کا رہنے والا ہو وہ اچھی طرح جانتا ہے کہ اخروٹ ہم کیسے حاصلِ کرتے ہے ،یار سچ نکلوا گے چوری سے ۔۔😜


سکول کے وقت ہمیں مار بہت پڑتی اور روزانہ ٹیچرز حضرات بس یہی کہا کرتے کہ صبح جب سکول اتے ہو تو دو دانے اخروٹ کھایا کرے نالائق!

اس وقت چونکہ لڑکپن کی وجہ سے ھم دوسروں کی اخروٹ چپکے سے اٹاتے اور بہت زیادہ کھاتے اگر اس دماغ تیز ہوتا تو اج شاید آئنسٹائن مجھ سے اگے نا ہوتے۔۔۔🙄

 چلو یہ اپ سب جانتے ہیں لیکن میں اپکو اسکی اصلیت سے واقف کراتا ہوں

 لیکن یہ انفارمیشن کسی بی بی سی نیوز یا ایک انسان کی سے نہیں بلکہ مختلف سائنس ریسرچز سے لیے گئے  ہے ۔۔


#اجزاء 

جتنے بھی Nuts ہے جسمیں اخروٹ، بادام اور مونگ پلی شامل ہے اسمیںBiotins پاے جاتے ہیں اگر اسکی کیمسٹری کی بات کرے

👉Biotin

👈اسکا جنرل فارمولا C10H16N2O3N ہوتا ہے

👈اسکو وٹامنH بھی کہا جاتا ہے

👈عام طور وٹامنB7,B8 بھی کہتے پے جوکہ پانی میں حل پذیر ہوتے ہیں

👈یہ میٹابولک پراسیس میں زیادہ تر شامل ہوتے ہے

👈 جانوروں اور پودوں میں یہ زیادہ تر چربی، کاربوہائیڈریٹ اور امائینو ایسڈ کو utilizing کا کام کرتے ہیں

اسکے ساتھ 👇

👉 Alpha alganic acid 

👉L-largine

👉ellagic acid

👉Cholorogenic acid

👉 Calcium, posphorous


#نیوٹریشن


اخروٹ میں فائبرز،  وٹامن(Bs and E)، مینرل(میگنیشیم اور آئرن) وغیرہ پائے جاتے ہیں جوکہ جسم کیلئے انتہائی اہم ہوتے ہیں۔۔


#فوائد

👈 بالوں کیلئے

اج کل ہر دوسرے لڑکی /لڑکے کو یہ مسلہ ارہا ہے جس سے اسکی شادیاں بھی لیٹ ہونے جارہے ہے لیکن

جیسا کہ اپ نے Biotinکے بارے میں تفصیل سے سے پڑھا جو کہ وٹامن ہوتے ہے اگر 

اپ کے بال گررہے ہے تو Biotin اسکی گروتھ کا ذمہ دار ہوتا ہے لھذا  جسکے بال گررپے ہے یا اسکی گروتھ نہیں ہورہا تو شوق سے کھانا شروع کرے ۔


👈اینٹی آکسیڈنٹس

اگر روزانہ کی بنیاد پر اپ تین سے چار اخروٹ کھانے لگو گے تو یقیناً اپ کو بہت سے بیماریوں کا خدشہ کم ہونے لگے گا کیونکہ اخروٹ میں Cholorogenic acid پایا جاتا ہے جو کہ اینٹی آکسیڈنٹس ہوتے ہے یہ جسم سے بیماریوں والی خطرناک کیمیکل یا جراثیم کو ماردیتا ہے

لیکن cholorogenic acid کلورین نہیں ہوتا۔۔ 

 


👈 وٹامن فائبر وغیرہ

امیریکن فوڈ ڈرگ آرگنائزیشن کی سٹڈی کے مطابق 

"دنیا کی سب سے طاقتور خوراک اخروٹ ہے" 

جسمیں پروٹین،فائبر اور وٹامن شامل ہیں۔


👈 انرجی کا سورس

تقریباً سو گرام اخروٹ کھانے سے اپ کو اتنی بڑی مقدار میں انرجی ملتی ہیں


Calories: 654; Fat: 64.4 gm.; Carbohydrates: 15.6 gm.; Protein: 15.0 gm.; Vitamin A: 30 I.U.; Vitamin B: Thiamine 0.48 mg.; Niacin: 1.2 mg.; Vitamin C: 3 mg.; Vitamin E: 2.62 mg; Calcium: 83 mg.; Iron: 2.1 mg.; Phosphorus: 380 mg.; and Potassium: 225 mg. 


 #بیماریوں_سے _حفاظت_یا_خاتمہ


👈دل کیلئے

چونکہ دل انسانی جسم کا بنیادی عضو ہوتا ہے جس سے جسم کو خون فراہم ہوتا ہے

اخروٹ میں  Alpha linoleic acid ہوتا ہے جوکہ فٹی ایسڈ کی ایک  قسم ہوتی ہے 

ریسرچ سے یہ ثابت ہوا ہے یہ اخروٹ کھانے سے خون کی نالیاں کھول جاتی ہے اسکے ساتھ نالیوں سے گندگی ختم ہو جاتی ہے اور خون کی رفتار تیز ہونے لگتا ہے اسکے کھانے سے بے ترتیب دھڑکن بھی ختم ہوجاتی ہے

ہاں!  اسمیی L-largine بھی پایا جاتا ہے جسکو دل کا دوست بھی کہتے ہے جس  سے دل کی درد میں کمی اتی ہے 


👈ہارٹ اٹیک 

ایک ریسرچ کے مطابق ہفتے میں ایک ounce کی مقدار اخروٹ کھانے سے ہارٹ اٹیک کم ہونے لگتا ہے ایک اور سٹڈی کے مطابق ہفتے میں چار بار  (ایک اونس) اخروٹ کھانے سے تقریباً 48 فیصد ہارٹ اٹیک کی  چانس کم ہوتا ہے


👈خراب کولیسٹرول کا خاتمہ

ڈاکٹر جوون جو کہ  لینڈا یونیورسٹی اف کیلیفورنیا کے پروفیسر ہے اسکے  مطابق دو مہینوں تک ریگولر کے بنیاد پر اخروٹ کھانے سے خراب کولیسٹرول ختم ہوجاتا ہے 

اسکے ساتھ Pennsylvania سائنس دانوں کی ٹیم کی ریسرچ سے یہ بات سامنے ائ ہے کہ اخروٹ کھانے سے C-Reactive protein (جس سے arteries میں زخم بنتا ہے)  ختم ہوجاتے ہے


👈ہائ اینٹی آکسیڈنٹ

اسمیں موجود آکسیڈنٹس جسم سے خراب مالیکول(جس سے سلیز کو تباہ ہوتے ہے) کو ختم کرتے ہیں


👈 دماغ کی بہتری

پرانے زمانے سے اسکو دماغ کی خوراک کہا جاتا ہے چونکہ اسکے دونوں اطراف دماغ کی طرح ہوتا ہے تصویر میں خود دیکھیں۔

 کیونکہ اسمیں وٹامن بی 6 ہوتا ہے جسکو pyridoxine بھی کہتے ہے جو کہ دماغ اور ریڈ بلڈ سیلز کیلے اہم ہوتی ہے 


 👈 یاداشت کی کمزوری

 عمر گزرنے کے ساتھ ساتھ یاداشت کی کمزروی تو پکی ہے اسکی بنیادی وجہ دماغ میں بننے والے کئ کیمیکل ہوتے ہے لیکن لیبارٹری کی ٹیسٹنگ سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ  اخروٹ کھانے سے اس کیمیکل (جو یاداشت کمزور کرتا ہے) کی extraction ہوتی ہے جس سے یہ خطرہ کم ہونے لگتا  ہے


👈شوگر کا مسلہ

بہت سے لوگ یہ خیال کرتے ہے کہ اخروٹ کھانے سے وزن بڑھنے لگتا ہے لیکن ایسا بلکل نہیں بلکہ اسمیں کم کاربوہائیڈریٹ اور بہت زیادہ نیوٹریشن ہوتے ہے جوکہ شوگر کے مریض کیلئے اہم ثابت ہوئی ہے


👈چھاتی کا کینسر 

فری ریڈیکل کی وجہ سے کینسر سیلز کی گروتھ ہوتی ہے

کینسر محافظ پروگرام "ڈاکٹر گرے سٹونر" اوہیو یونیورسٹی کے مطابق اخروٹ کھانے سے چھاتی کی کینسر ختم ہو جاتی ہے کیونکہ اخروٹ میں موجود ellagic acid کی وجہ سے یہ فری ریڈیکل کمزور پڑھ جاتے ہے جس سے کینسر کا خطرہ کم ہوجاتا ہے


#اخروٹ_کیسے_استعمال_کی_جاے؟

یو ایس کیمسٹری کے پروفیسر joe Vinson کے مطابق دن میں سات اخروٹ ہفتے میں دو تین بار  نمک، شوگر اور  تیل وغیرہ کے بغیر کھانا چاہے

اگر اخروٹ سستا نا ہو تو اوپر مقدار سے کم لیا جاسکتا ہے 


#احتیاط

اگر اپکو اسکے کھانے سے الرجی ہے تو اپ اسکو کم یا نا   کھائیں کیونکہ بعض لوگوں کو اس سے خارش وغیرہ ہوجاتے ہے 

اگر اپکو گردوں کا مسلہ ہو تو تب بھی اپ زیادہ نا کھائیں کیونکہ اسمیں موجود Oxalate کی وجہ سے پتھری بن سکتی ہے

لیکن ڈرے مت چھوٹی مقدار یا جو اوپر بیان ہوا ہے اس پر عمل کرنے سے یہ اپکو اچھی صحت مل  سکتا ہے 

تو کھاتے رہے دعائیں دیتے رہے۔۔۔

Friday, September 2, 2022

Mashroom کھمبی


ایک موسمی ڈش جو برسات کے دنوں میں پایا جاتا ہے،
اک انتہائی صحت بخش جس میں مختلف اجزائیات پائی جاتی ہیں،
کھمبی زمین پہ راتوں رات اُگتی ہے اور صبح تک تیار بھی ہوجاتی ہے، یہ دنیا کا عجیب پودا ہے جس کی جڑ، تنا ، شاخیں ، پتے اور پھول نظر نہیں آتے مگر پھر بھی رات بھر میں پھل تیار ہو جاتا ہے،
کھمبی کا سالن نہایت لذیذ اور مزیدار ہوتا ہے

🌹 کھمبی ایک خود رو نبات ہے جو موسم برسات میں اگتی ہے اس کی تین قسمیں ہیں 
1 ۔سیاہ 
2۔سرخی مائل سفید 
3۔بالکل سفید 
پہلی قسم یعنی سیاہ زہریلی ہوتی ہے 
دوسری قسم یعنی سرخی مائل سفید یہ بھی نقصان دہ ہوتی ہے 
تیسری قسم جو بالکل سفید ہے یہ استعمال میں لائی جاتی ہے 
اس مبارک حدیث میں جو ذکر ہے وہ تیسری قسم والی بالکل سفید کھمبی کا ہے 
اس میں سوداوی اور بغلمی مادہ کچھ زیادہ ہوتا ہے 
اس لیے اگر پکا کر یا تل کر کھائے جائیں تو ساتھ زیرہ سیاہ دار چینی لونگ مرچ سیاہ گرم مصالہ جات کا ضرور استعمال کریں ورنہ بلغمی اور سوادوی امراض بڑنے کا اندیشہ ہے 
اس کا سالن بنا کر روٹی کے ساتھ کھایا جاۓ بہت لزیز بنتا ہے
کھمبی فری ملنے والی نبات ہے لیکن اس کے اندر اللہ تعالیٰ عزوجل نے اپنی قدرت سے کئی وٹامن اور طاقت کے خزانےاس میں رکھے ہوئے ہیں 
 تازی کا سالن بنایا جا سکتا ہے اگر سکا کے رکھے تو اس کو کبھی بھی بوائل کرکے تازی ہو جائے گی دوبارہ سالن بنایا جا سکتا ہے 
 اس کا اوپر کا سرا تھوڑا زیادہ گول اور موٹا ہوتا ہے اس کے اندر پاؤنڈر بھرا ہوتا ہے جو سفید رنگ کا ہوتا ہے اس کو سالن کے ساتھ پکایا جاسکتا ہے
کھمبی پک کر خشک ہوجانے پر پاؤڈر جو ہوتا ہے یہ زرد اور پیلے رنگ کا ہو جاتا ہے اس کو بھی حاصل کرکے رکھا جاتا یہ بہت قیمتی اور مفید ہے 

کھمبی کا خشک پاؤڈر 5 سے 10گرام مکھن ملا کر چاٹنے سے جسم کا درد چوٹ لگی ہوئی ہڈی کا کریک ھو جوڑوں کا درد ختم ہو جاتا ہے ۔
کھمبی کا پانی آنکھ کے لئے شفا ہے ۔

کھمبی کی پیداءش موسم گرما کے بارش پر ہوتی ہے 
اکثر پہاڑی اور ریگستانی علاقوں میں پائی جاتی ہے

حجاز مقدس کے ساتھ ساتھ عرب ممالک میں اور پاکستان
میں بلوچستان۔ کوہ سلیمان، سندھ کے کوھستانی۔ کاچھو ۔ تھرپارکر اچھڑو تھر ۔پنجاب میں چولستان کے علاقوں میں انڈیا کے راجھستان کے علاقے میں کثیرتعداد میں پایا جاتا ہے

Popular Posts