Popular Posts

Monday, September 5, 2022

پلوٹونیم کا تفصیلی تعارف Platinum



پلوٹونیم ایک ایسی دھات جو یورینیم سے بھی زیادہ خطرناک اور تباہ کن ہے۔اسکو یورینیم کی طرح جوہری ہتھیار(ایٹم بم) میں بطور فیول استعمال کیا جاتا ہے۔اسکو نہ صرف ایٹم بم بلکہ نیوکلیر پاور پلانٹس میں استعمال کر کے اس سے پیدا ہونے والی حرارت سے بجلی بھی پیدا کی جاتی ہے۔


پلوٹونیم(Pu-239) کے ایک کلوگرام سے آٹھ ہزار میگا واٹ بجلی پیدا کی جاسکتی ہے۔پاکستان کے سب سے بڑے ڈیم یعنی تربیلا ڈیم کی کپیسٹی 3478 میگاواٹ ہے۔اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ پلوٹونیم بجلی پیدا کرنے کا کس قدر سستا اور مفید ذریعہ ہے۔


اس سے واضع ہوتا ہے کہ نیوکلیر انرجی کو نہ صرف تباہی بلکہ کارآمد مقاصد جیسے بجلی پیدا کرنے کے لیے بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔لیکن یہ بات بھی سچ ہے کہ پلوٹونیم کا سب سے پہلا استعمال ایٹم بم کیا گیا تھا۔یہ 9 اگست 1945 کی بات ہے جب امریکہ نے پہلی بار پلوٹونیم کو ایٹم بم میں استعمال کیا تھا۔یہ ایٹم بم جسکا نام”Fat Man“ رکھا گیا تھا,امریکہ نے 9 اگست 1945 کو جاپان کے شہر ناگا ساکی پر گرایا تھا۔اس ایٹم بم کی بھیانک تباہی سے 80 ہزار لوگ موقع پر جاں بحق ہوگۓ جبکہ بعد میں مرنے والوں کی تعداد بھی ہزاروں میں جو اسکی تابکاری سے متاثر ہوۓ تھے۔”فیٹ مین“ میں 6.4 کلو گرام پلوٹونیم استعمال کی گٸ تھی جس میں اسکے صرف 20 فیصد حصے کی ہی فشن ہوسکی۔اس سے اندازہ لگاٸیں کہ اگر تمام پلوٹونیم کی فشن ہوجاتی تو اسکے نتاٸج کس قدر تباہ کن ہوتے۔ اس ایٹم بم کی طاقت 21 کلو ٹن TNT تھی جبکہ ہیروشیما پر گراۓ جانے والے ایٹم بم”Little Boy“ میں 64 کلوگرام یورینیم استعمال کی گٸ تھی جسکی طاقت 15 کلو ٹن TNT تھی۔یہاں سے واضع ہوتا ہے کہ پلوٹونیم,یوینیم سے کیوں زیادہ تباہ کن اور ایفیشنٹ ایلیمنٹ ہے۔


پلوٹونیم ایک ایسا ایلیمنٹ ہے جو زمین میں قدرتی طور پر نہیں پایا جاتا۔پلوٹونیم کو خاص قسم کی لیبارٹریز میں مصنوعی طریقہ سے بنایا جاتا ہے۔یورینیم(U-238) پر جب نیوٹرانز پارٹیکلز کی بوچھاڑ کی جاتی ہے تو یہ پلوٹونیم میں تبدیل ہوجاتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ نیوکلیر ری ایکٹرز میں اسے یورینیم کی نیوکلیر فشن(ایسا عمل جس میں یورینیم 235 کے نیوکلیس پر جب نیوٹرانز کی بوچھاڑ کی جاتی ہے تو یہ ٹوٹ جاتا ہے) کے نتیجہ میں waste کے طور پر حاصل کیا جاتا ہے۔ساٸنسدانوں کا خیال ہے اسکی پیداٸش سپر نووا کے وقت ہوٸ تھی۔چونکہ یہ ایک تابکار ایلیمنٹ ہے لہذا وقت گزرنے کے ساتھ یہ ڈیکے ہوتا گیا یہاں تک کہ تمام پلوٹونیم ڈیکے کے پراسس سے گزر کر کسی دوسرے ایلیمنٹس میں تبدیل ہوگیا۔یہی وجہ ہے کہ زمین پر اسکی مقدار نہ ہونے کے برابر ہے یعنی زمین پر قدرتی طور پر موجود نہیں ہے۔


پلوٹونیم ایک ریڈیو ایکٹو ایلیمنٹ ہے۔ریڈیو ایکٹو ایلیمنٹ سے مراد ایسا ایلیمنٹ ہوتا ہے جسکا نیوکلیس سٹیبل نہیں ہوتا اور خود کو سٹیبل کرنے کے لیے اس کے نیوکلیس میں سے خطرناک ریڈی ایشنز(الفا,بیٹا اور گیما) خارج ہوتی ہیں۔اسکے نتیجہ میں ایک ریڈیو ایکٹو ایلیمنٹ وقت گزرنے کے ساتھ کسی دوسرے ایلیمنٹ میں تبدیل ہوجاتا ہے۔یعنی ریڈیو ایکٹو ایلیمنٹ ایک انسٹیبل ایلیمنٹ ہوتا ہے جو وقت گزرنے کے ساتھ ڈیکے کر جاتا ہے یعنی ختم ہوجاتا ہے یعنی کسی دوسرے ایلیمنٹ میں تبدیل ہوجاتا ہے۔اگرچہ یہ پراسس بہت سست ہوتا ہے۔مثال کے طور پر یورینیم(U-235) ایک ریڈیو ایکٹو ایلیمنٹ ہے اور اسکی ہاف لاٸف 7 کروڑ سال ہے۔اسکا مطلب یہ ہے کہ اگر آج سے سات کروڑ سال پہلے ایک کلوگرام یورینیم موجود تھا تو آج اسکا آدھا حصہ باقی ہوگا اور آدھا حصہ کسی دوسرے ایلیمنٹ میں تبدیل ہوچکا ہوگا۔جس ایلیمنٹ کی ہاف لاٸف جتنی کم ہوگی اس میں سے نکلنے والی ریڈی ایشنز کی مقدار اتنی ہی زیادہ ہوگی۔مثال کے طور پر پلوٹونیم کی ہاف لاٸف چوبیس ہزار ہے,جسکا مطلب ہے کہ اگر اب ایک کلوگرام پلوٹونیم(Pu-239) موجود ہے تو 24000 سال کے بعد اسکا آدھا حصہ کسی دوسرے ایلیمنٹ میں تبدیل ہوجاۓ گا۔چونکہ پلوٹونیم(Pu-239) کی ہاف لاٸف یورینیم(U-235) کی نسبت کم ہے لہذا پلوٹونیم زیادہ ریڈیو ایکٹو ہے جسکا مطلب ہے کہ اس میں سے نکلنے والی ریڈی ایشنز کی مقدار یورینیم کے مقابلے میں زیادہ ہے۔


کیا آپ جانتے ہیں کہ پلوٹونیم کی دریافت کو پانچ سال تک پبلش نہیں کیا گیا,بالآخر 1946 میں میں اسکی دریافت کا اعلان کیا گیا۔اسکی وجہ یہ ہے کہ جنگ عظیم دوم کے دوران کٸ دوسرے ممالک جیسے روس,جرمنی اور جاپان بھی ریڈیو ایکٹو ایلیمنٹس پر تجربات کررہے تھے۔اگر اس وقت پلوٹونیم کی دریافت کو راز میں نہ رکھا جاتا تو دوسرے ممالک پلوٹونیم بنانے میں کامیاب ہوجاتے, جس سے امریکہ کو ناقابل معافی نقصان اٹھانا پڑ سکتا تھا۔


پلوٹونیم کو پہلی بار دسمبر 1940 میں یونیورسٹی آف کیلیفورنیا, برکلے میں چار ساٸنسدانوں جن میں گلین سیبورگ، آرتھر واہل، جوزف کینیڈی اور ایڈون میک ملن شامل تھے ,نے بنایا تھا۔انہوں نے جب یورینیم(U-238) پر ڈیوٹیرون(ہاٸیڈروجن کا ایک آٸسوٹوپ یعنی ڈیوٹریم جس میں ایک پروٹان اور ایک نیوٹران پایا جاتا ہے,اگر اس میں سے الیکٹرانز نکال دیے جاٸیں تو حاصل ہونے والے میٹریل کو ڈیوٹیرون کہتے ہیں) کی بمباری کرواٸ تو بالآخر پلوٹونیم میں تبدیل ہوگیا۔


پلوٹنیم کی تیاری کے کٸ مراحل ہیں۔مثلاً جب یورینیم(U-238) کے نیوکلیس پر نیوٹرانز پارٹیکل کی بوچھاڑ کی جاتی ہے تو یہ نیوٹران جذب کر لیتا ہے اور یورینیم-239 میں تبدیل ہوجاتا ہے۔یورینیم-239 ایک بہت غیر مستحکم(Unstable) آٸسوٹوپ ہے جس کا مطلب ہے کہ یہ بہت جلد ڈیکے کر جاتا ہے اور نٸے ایلیمنٹ میں تبدیل ہوجاتا ہے۔یورینیم-239 میں بیٹا ڈیکے ہوتا ہے جس کے نتیجہ میں یہ ایک نٸے ایلیمنٹ نیپٹونیم(Z-93) وجود میں آتا ہے۔بیٹا ڈیکے ایسا پراسس ہوتا ہے جس میں جب نیوٹرانز کسی ایٹم کے نیوکلیس میں داخل ہوتا ہے تو یہ پروٹان میں تبدیل ہوجاتا ہے اور اسکے نتیجہ میں نیوکلیس میں سے ایک پازیٹو الیکٹران یعنی بیٹا پارٹیکل کا اخراج ہوتا ہے,جب ایسا ہوتا ہے تو ایٹم کے نیوکلیس میں ایک پروٹان کا اضافہ ہوجاتا ہے۔جس طرح یورینیم میں بیٹا ڈیکے کا پراسس ہوتا ہے اور چونکہ یورینیم کا اٹامک نمبر 92(جس سے مراد یہ ہے کہ یورینیم کے ہر ایٹم کے نیوکلیس میں 92 پروٹانز پاٸے جاتے ہیں) ہے ,لہذا بیٹا ڈیکے کے نتیجہ میں اسکے نیوکلیس میں مزید ایک پروٹان کا اضافہ ہوجاتا ہے یعنی ایک ایسا ایلیمنٹ وجود میں آتا ہے جس کے نیوکلیس میں 93 پروٹانز موجود ہوتے ہیں اور ہم جانتے ہیں کہ نیپٹونیم ایسا ایلیمنٹ ہے جس کے ایٹمز کے نیوکلیس میں 93 پروٹانز پاۓ جاتے ہیں۔نیپٹونیم بھی ایک بہت ہی غیر مستحکم ایلیمنٹ ہے اور اس میں دوبارہ بیٹا ڈیکے کے پراسس کے نتیجہ میں ایک نیا ایلیمنٹ وجود میں آتا ہے جسکا اٹامک نمبر 94 ہے۔ساٸنسدانوں نے اس ایلیمنٹ کا نام پلوٹو سیارے کے نام پر پلوٹونیم رکھا۔باقی دو ایلیمنٹس یعنی یورینیم اور نیپٹونیم کے نام بھی یورینس اور نیپچون سیاروں کے ناموں پر رکھے گۓ تھے۔


چونکہ نیپٹونیم کی ہاف لاٸف تقریباً دو دن ہوتی ہے۔کسی بھی ریڈیو ایکٹو ایلیمنٹ کی ہاف لاٸف سے مراد وہ عرصہ ہے جس میں اسکے آدھے حصے کو دوسرے ایلیمنٹ میں تبدیل ہونے میں جتنا وقت لگتا ہے۔جس طرح بیان کیا گیا ہے کہ نیپٹونیم کی ہاف لاٸف دو دن ہے,اسکا مطلب یہ ہے کہ اگر سو گرم نیپٹونیم موجود ہو تو دو دن کے بعد اسکا آدھا حصہ رہ جاۓ گا اور آدھا حصہ کسی دوسرے حصے میں تبدیل ہوجاۓ گا۔باقی رہنے والا نیپٹونیم چونکہ اب پچاس گرام ہے سو دو دن گزرنے کے بعد موجود نیپٹونیم(50 گرام) کا آدھا حصہ یعنی پچیس گرام باقی رہ جاۓ گا اور باقی کسی دوسرے تابکار عنصر یعنی ریڈیو ایکٹو ایلیمنٹ میں تبدیل ہوجاۓ گا۔۔یورینیم کے نتیجہ میں بننے والا نیپٹونیم چونکہ بہت کم مقدار میں تھا,لہذا پلوٹونیم کی مکمل طور پر شناخت میں کٸ مہنوں کا وقت لگا۔


پلوٹونیم(Pu-239)پر تحقیق کرنے سے معلوم ہوا کہ یہ یورینیم(U-235) کی طرح ایک fissile میٹریل ہے یعنی اسکو ایٹم بم میں نیوکلیر انرجی پیدا کرنے کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے۔یعنی جب اس پر تھرمل نیوٹرانز کی بوچھاڑ کی جاتی ہے تو اسکا نیوکلیس ٹوٹ جاتا ہے اور اسکے نتیجہ میں بہت زیادہ مقدار میں نیوکلیر انرجی(ہیٹ) خارج ہوتی ہے اور اسکے ساتھ پیدا ہونے والے نیوٹرانز مزید پلوٹونیم ایٹمز کی فشن کرتے ہیں۔اسطرح یہ پراسس جاری رہتا ہے اور سیکنڈ کے ہزاوریں حصے میں بے پناہ انرجی پیدا ہوجاتی ہے۔اس پراسس کو چین ری ایکشن کہتے ہیں۔چین ری ایکشن میں پیدا ہونے والی انرجی کو اگر کنٹرول نہ کیا جاۓ تو یہ ہر طرف تباہی مچادیتی ہے اور ایٹم بم میں بالکل یہی تو ہوتا ہے۔سو اگر ہم کس طرح سے چین ری ایکشن کو کنٹرول کرلیں تو پیدا ہونے والی انرجی کو کٹرول کرسکتے ہیں۔اور اس کنٹرول شدہ انرجی کو اپنے فاٸدے جیسے بجلی پیدا کرنے کے لیے استعمال کرسکتے ہیں۔اس مقصد کے لیے ایک ڈیواٸس استعمال کیا جاتا ہے جسکا کام نیوکلیر فشن کے نتیجہ میں پیدا ہونے والی نیوکلیر انرجی کو کنٹرول کرنا ہے,اس ڈیواٸس کو نیوکلیر ری ایکٹر کہتے ہیں جس میں کٹرول راڈز کا استعمال کیا جاتا ہے۔کٹرول راڈز کو گاڑی کی بریک سے تشبیہ دے سکتے ہیں۔مثلاً جب گاڑی کی رفتار زیادہ ہو تو ناگہانی صورتحال میں گاڑی کی بریک اسکی سپیڈ کو کم کرنے کا کام کرتی ہے یا بالکل روک دیتی ہے۔بالکل اسی طرح کنٹرول راڈز کا کام نیوکلیر فشن کے نتیجہ میں خارج ہونے والے نیوٹرانز کو جذب کرنا ہے تاکہ خارج ہونے والے تمام نیوٹرانز مزید پلوٹونیم کی فشن نہ کرسکیں۔اس طرح کنٹرول راڈز کا استعمال کر کے پیدا ہونے والی نیوکلیر انرجی(ہیٹ) کو کنٹرول کیا جاتا ہے۔اس حرارت کو نیوکلیر ری ایکٹر میں موجود پانی(کولنٹ) کو گرم کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے تاکہ سٹیم بناٸ جاسکے۔پیدا ہونے والی سٹیم سے ٹرباٸن کو گھمایا جاتا ہے اور ٹرباٸن جنریٹر کو گمھاتا ہے اور یوں جنریٹر بجلی پید کرتا ہے جسے ہم اپنے گھروں میں استعمال کرتے ہیں۔تھرمل پاور پلانٹس اور نیوکلیر پاور پلانٹس میں فرق صرف اتنا ہے کہ نیوکلیر پاور پلانٹس میں نیوکلیر انرجی کو استعمال کر کے سٹیم بناٸ جاتی ہے جکہ تھرمل پاور پلانٹس میں فوسل فیولز جیسے کوٸلہ کو جلا کر اس سے پیدا ہونے والی حرارت سے سٹیم بناٸ جاتی ہے۔


پلوٹونیم کے بیس کے قریب آٸسوٹوپس پاٸے جاتے ہیں جو کہ سب کے سب ریڈیو ایکٹو ہیں۔ان سب میں سب سے زیادہ استعمال ہونے والے آٸسوٹوپس میں Pu-239 اور پلوٹونیم-238 ہیں۔پلوٹونیم 239 نیوکلیر ہتھیار اور نیوکلیر پاور پلانٹس میں استعمال کیا جاتا ہے جبکہ پلوٹونیم 238 کو خلاٸ تحقیق میں ہیٹ انرجی کے سورس کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔پلوٹونیم 238,پلوٹونیم 239 سے زیادہ ریڈیو ایکٹو ہے جس سے مراد یہ ہے کہ اسمیں سے خارج ہونے والی ریڈی ایشنز پلوٹونیم 239 کی نسبت زیادہ ہیں۔یہ اتنا گرم ہوتا ہے کہ اسکوچھونےسے آپ کو گرمی کا احساس ہوگا۔


پلوٹونیم(Pu-238) کو خلاٸ تحقیق میں ایٸرکرافٹس میں ہیٹ انرجی کے سورس کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔یہ ایسے خلاٸ جہاز ہوتے ہیں جن میں ایک خاص قسم کا انجن لگا ہوتا ہے جسے ریڈیو آٸسوٹوپ تھرموالیکٹرک جنریٹر(RTGs) کہتے ہیں۔RTGs تابکار عناصر(ریڈیو ایکٹو ایلیمنٹس) بالخصوص پلوٹونیم کی تابکاری سے پیدا ہونے والی ہیٹ کو استعمال کر کے بجلی پیدا کرتے ہیں۔عام طور پر زیادہ تر سپیس کرافٹس سولر پینل استعمال کرتے ہیں۔تاہم اگر کسی سپیس کرافٹ کو سولر سسٹم سے بہت دور کسی خلاٸ مشن پر بھیجنا مقصود ہو جہاں سورج کی روشنی بہت کم پہچتی ہو تو ایسی جگہ پر سولر پینل استعمال کرنے کے قابل نہیں ہوتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ ایسی جگہوں پر RTGs کا استعمال ہی بہترین آپشن ہے۔

آر ٹی جی ایس کا استعمال امریکی اپولو قمری مشن اور unmanned تحقیقات جیسے کیسینی ہیوگینز کے دوران کیا گیا تھا۔


پلوٹونیم کم مقدار میں ہینڈل کرنے کے لیے درحقیقت محفوظ ہے۔ تاہم، پلوٹونیم کو نگلنے یا اسکی دھول میں سانس لینے سے بہت زیادہ خطرہ لاحق ہوتا ہے۔ اس لیے جو لوگ اس ایلیمنٹ کے ارد گرد کام کرتے ہیں وہ حفاظتی دستانے اور سوٹ پہنتے ہیں۔


پلوٹونیم کا فی الحال کوئی طبی استعمال نہیں ہے۔ 1970 کی دہائی کے اوائل سے لے کر 1980 کی دہائی کے وسط تک، پلوٹونیم پیس میکر(پیس میکر ایک چھوٹا سا آلہ ہے جو دل کی دھڑکن کو کنٹرول کرنے میں مدد کرنے کے لیے سینے میں لگایا جاتا ہے۔ یہ دل کو بہت آہستہ دھڑکنے سے روکنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے) کو پاور دینے کے لیے استعمال کیا جاتا تھا، لیکن اب اس مقصد کے لیے استعمال نہیں کیا جاتا ہے۔ 2003 تک، پچاس سے ایک سو کے درمیان ایسے تھے جن کے پاس اب بھی پلوٹونیم پیس میکر موجود تھے۔ پیس میکر رکھنے والے شخص کی موت ہو جاتی تو ، پیس میکر کو ہٹا کر لاس الاموس، نیو میکسیکو میں واقع لاس الاموس نیشنل لیبارٹری بھیج دیا جاتا تاکہ بقیہ پلوٹونیم برآمد کیا جا سکے۔


پلوٹونیم ایک الفا امیٹر ہے یعنی یہ الفا ریڈی ایشنز خارج کرتا ہے,جو ہماری صحت کے لیے اتنی زیادہ نقصاندہ نہیں ہیں کیونکہ ہماری جلد ان ریڈی ایشنز کو روک سکتی ہے۔تاہم اگر پلوٹونیم زیادہ مقدار میں ہو پھر حفاظتی تدابیر انتہاٸ ضروری ہیں۔بہت سی تحقیقات سے واضع ہوتا ہے کہ اگر پلونوٹینم ساٸنس کے ذریعے جسم کے اندر چلی جاٸ یا نگل لی جاۓ تو اس صورت میں یہ جسم کے لیے انتہاٸ نقصاندہ ہے۔پلوٹونیم کا زیادہ عرصہ تک جسم میں رہنے سے پھیپھڑوں اور ہڈیوں کے کینسر(لیکیومیا)کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔البتہ یہ بھی سچ ہے کہ ابھی تک پلوٹونیم کی تابکاری کی وجہ سے کسی بھی انسان کی موت نہیں ہوٸ۔اسکی وجہ شاید یہ ہوسکتی ہے کہ یہ دھات ہر جگہ نہیں پاٸ جاتی بلکہ نیوکلیر ری ایکٹرز میں as waste اور پارٹیکلز ایکسلریٹرز میں پیدا کی جاتی ہے ,جہاں کام کرنے والے لوگ بہت زیادہ محتاط اور پروٹیکشن کا خاص خیال رکھتے ہیں۔

No comments:

Popular Posts