Popular Posts

Wednesday, January 1, 2025

BOEING 747 کا عروج اور زوال

 


بوئنگ 747، جسے "جمبو جیٹ" کے نام سے بھی جانا جاتا

 ہے، ہوا بازی کی تاریخ میں ایک مشہور طیارہ ہے۔ یہ دنیا کا پہلا وائیڈ باڈی ایئرکرافٹ تھا اور 20ویں صدی میں ہوا بازی کے ایک نئے دور کا آغاز کیا۔ اس کی تاریخ کو تین اہم ادوار میں تقسیم کیا جا سکتا ہے: عروج، زوال، اور موجودہ استعمال۔

عروج (1969 - 1990 کی دہائی

1. ڈیزائن اور پہلا اڑان: بوئنگ 747 کی پہلی پرواز 9 فروری 1969 کو ہوئی۔ اسے بڑی مسافت کے لیے زیادہ مسافروں کو لے جانے کے مقصد سے ڈیزائن کیا گیا تھا۔ اس کی خاص بات اس کا دو منزلہ ڈیزائن اور بڑی گنجائش تھی، جو ایک وقت میں 400 سے زیادہ مسافروں کو لے جا سکتی تھی۔


2. ایئر لائنز کی مقبولیت: بوئنگ 747 نے ہوائی سفر کو عام عوام کے لیے سستا اور قابل رسائی بنایا۔ 1970 کی دہائی میں پین ایم (Pan Am) جیسی ایئر لائنز نے اس کا بڑے پیمانے پر استعمال کیا۔ یہ طیارہ خاص طور پر طویل فاصلوں کے لیے مثلاً نیویارک سے لندن یا ٹوکیو کی پروازوں کے لیے موزوں تھا۔


3. انقلابی ٹیکنالوجی: بوئنگ 747 نے جدید انجن، زیادہ گنجائش، اور ایندھن کی کفایت کا امتزاج فراہم کیا۔ اس کی آمد نے ہوائی سفر میں انقلاب برپا کر دیا اور اسے "آسمان کی ملکہ" کا لقب دیا گیا۔


زوال (1990 کی دہائی - 2020 کی دہائی)


1. نئے طیاروں کی آمد: 1990 کی دہائی میں ایئربس A330 اور بوئنگ 777 جیسے طیارے متعارف ہوئے، جو زیادہ ایندھن کے کفایت شعار اور معاشی ثابت ہوئے۔ ان طیاروں نے کم مسافروں کے ساتھ بھی پرواز کرنا آسان بنایا، جس نے بوئنگ 747 کی مقبولیت کو کم کیا۔

2. ایندھن کی لاگت اور دیکھ بھال کے مسائل: بوئنگ 747 کا بڑا سائز اور چار انجن زیادہ ایندھن خرچ کرتے تھے۔ بڑھتے ہوئے ایندھن کے اخراجات اور ماحولیاتی قوانین نے اسے غیر معاشی بنا دیا۔


3. COVID-19 کا اثر: 2020 میں COVID-19 وبا کے دوران ہوائی سفر میں کمی آئی، اور ایئر لائنز نے بڑی گنجائش والے طیاروں جیسے بوئنگ 747 کو ریٹائر کرنا شروع کر دیا۔


4. پیداوار کا اختتام: بوئنگ نے 2022 میں 747 کی پیداوار کو باضابطہ طور پر ختم کر دیا۔ آخری 747-8 طیارہ جنوری 2023 میں ڈیلیور کیا گیا۔


موجودہ استعمال (2020 کے بعد.


1. کارگو فلائٹس: بوئنگ 747 اب بھی کارگو طیارے کے طور پر بڑے پیمانے پر استعمال ہوتا ہے۔ اس کی بڑی گنجائش اور طویل فاصلہ طے کرنے کی صلاحیت اسے فریٹ کمپنیوں جیسے FedEx اور UPS کے لیے مثالی بناتی ہے۔


2. وی آئی پی اور گورنمنٹ یوز: کچھ ممالک اس طیارے کو سرکاری مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر، امریکہ میں "ایئر فورس ون" کا مخصوص ماڈل بوئنگ 747 ہے۔

3. چارٹرڈ پروازیں اور عجائب گھروں میں تحفظ: کچھ بوئنگ 747 ایئر لائنز چارٹرڈ پروازوں کے لیے استعمال کر رہی ہیں، جبکہ کئی ریٹائرڈ طیارے ہوا بازی کے عجائب گھروں میں محفوظ کر دیے گئے ہیں۔

اختتامیہ


بوئنگ 747 کا عروج ایک دور کی علامت تھا جس نے ہوائی سفر کو نئی بلندیوں تک پہنچایا۔ تاہم، بدلتی ہوئی ٹیکنالوجی، معاشی ضروریات، اور ماحولیاتی عوامل نے اس کے زوال کو ناگزیر بنا دیا۔ آج، یہ طیارہ تاریخ کا حصہ بن چکا ہے لیکن کارگو اور خصوصی مقاصد کے لیے اپنی اہمیت برقرار رکھے ہوئے ہے۔

حیدر سولنگی ۔

Monday, December 30, 2024

واخان پٹی Wa Khan Corridor

   


‏صرف چند کلومیٹر کی اس  

"واخان پٹی" پر اگر پاکستان اپنا کنٹرول حاصل کر لے تو پاکستان ۔براستہ تاجکستان۔۔روس(ماسکو) تک زمینی رسائی حاصل کر سکتا ہے۔

چین،تاجکستان،افغانستان اور پاکستان سے یہ گھری پٹی

پاکستان کی"نہر سویز"یا"پانامہ کینال"بن سکتی ہے۔


  واخان راہداری کو وہی اہمیت حاصل ہے جو سمندر میں نہر پانامہ ،نہر سوئیز کوحاصل ہے واخان کی پٹی کو انگریزوں نے افغانستان کی دُم بھی کہا ہے واخان راہداری پاکستان کے انتہائی شمالی علاقے، چینی سنکیانگ، افغانی بدخشاں اور تاجکستان کے درمیان واقع ہے یہ اصل میں ایسا پہاڑی علاقہ ہے جو ان ممالک کے درمیان تنگ دروں پر مشتمل ہے اس پورے علاقے کو واخان راہداری، واخان پٹی یا واخان کوریڈور کہتے ہیں یہاں رہنے والے لوگ وخی ہیں جن کی زبان بھی وخی ہے لوگوں کی ثقافت مشترکہ ہے اور آپس میں رشتہ داریاں بھی ہیں 

اس پٹی کی لمبائی مشرق سے مغرب تک 310 کلومیٹر اور چوڑائی 15 کلومیٹر ہے مشرق کی طرف کوہ بابا تنگی کے دامن میں چوڑائی سکڑ کے 10 کلومیٹر رہ جاتی ہے یہی علاقہ ہے جو سوختہ ،رباط اور سوماتاش کے راستے چینی صوبہ سنکیانگ سے مل جاتا ہے، سرحدِ واخان کا یہ حصہ پامیر میں افغان کرغیز علاقے کے ساتھ متصل واقع ہے۔ واخان کا دریا آبِ پنجہ کہلاتا ہے جو واخجیر گلیشیر سے نکلتا ہے اور روشن کے مقام پر دریائے آمو سے جاملتا ہے یہ دونوں دریامشرق سے مغرب کی طرف بہتے ہیں۔ واخان کے شمالی حصے کو پامیر کہتے ہیں جہاں واخی اور پامری قوم آباد ہے۔ 

پاکستان کے ہنزہ سے اوپری علاقے گلمت، پسو، شمشال، سوست اور چہ پرسان کا علاوہ والی ثقافت کا حامل ہے۔ زمانہ قدیم میں ان ملکوں کی سرحدوں پر آباد قبائل اس راہداری کو ایک دوسرے کے ساتھ تجارت کے لیے استعمال کرتے تھے، پاکستان کو ملانے والا دروازہ پاس افغانستان میں سویت یونین کی مداخلت کے بعد تجارت کیلئے بند ہوگیا لیکن چہ پرسان اور واخان کے درمیان تعلق برقرار رہا اور اس کی وجہ ارشاد پاس جیسے چند قدیم راستے ہیں جن پر لوگ سفر کرنے کی جرات کرتے ہیں۔ ان لوگوں کو ایک دوسرے ملک میں جانے پر کوئی سرحدی پابندیاں نہیں ہیں۔

واخان راہداری کا علاقہ جہاں ختم ہوتا ہے اس سے کچھ اوپر تاجکستان اور کرغیزستان کی سرحدی پٹی شروع ہوجاتی ہے جس میں واقع “پامیر ہائی وے” کو دنیا کی خطرناک، ویران اور اکیلی ترین سڑک کہا جاتا ہے۔ یہ سڑک افغانستان، تاجکستان، ازبکستان اور کرغیزستان میں واقع ہے۔ 

وسطی ایشیا کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک کرغزستان کے شہر اوش سے تاجکستان کے شہر دوشنبہ تک 1200 کلومیٹر طویل سڑک دنیا کے اعلیٰ ترین مناظر بھی پیش کرتی ہے جس کے دوران ویران دشت، بلند و بالا صحرا، برف سے ڈھکی چوٹیاں اور 4000 میٹر سے بلند دروں سے واسطہ پڑتا ہے۔ یہ وہ علاقہ ہے جہاں انسانوں سے زیادہ برفانی چیتوں اور مارکوپولو شیپ جیسے نایاب جانوروں کی بود و باش ہے۔

سلسلہ ہائے کوہ پامیر کو دنیا کی چھت بھی کہا جاتا ہے اور یہاں کئی ایسی چوٹیاں ہیں جن کی بلندی7000 ہزار میٹر سے متجاوز ہے۔ دنیا میں ہمالیہ، قراقرم، اور ہندوکش سلسلوں کو چھوڑ کر کہیں اتنے بلند پہاڑوں کی بہتات نہیں ہے۔ یہ علاقہ زلزلوں کی آماج گاہ ہے جس کے باعث یہاں کے پہاڑی سلسلے غیر مستحکم ہیں اور مٹی کے تودے گرنا روزمرہ کا معمول ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سنسنی کے متلاشی موٹر سائیکل سوار پامیر ہائی وے کی طرف کھنچے چلے آتے ہیں۔

یہ سڑک 19ویں صدی کے وسط میں روسیوں نے اس وقت تعمیر کی تھی جب برطانوی اور روسی سلطنتوں کے درمیان وسطی ایشیا پر غلبہ حاصل کرنے کے لیے 'گریٹ گیم' اپنے عروج پر تھی۔ اسی سڑک سے شاہراہِ ریشم کی ایک حصہ بھی گزرتا ہے اور آپ اب بھی پہاڑیوں کی چوٹیوں پر قدیم قلعوں کے کھنڈر دیکھ سکتے ہیں جنھیں تجارتی گزرگاہ کی حفاظت کے لیے تعمیر کیا گیا تھا۔

20ویں صدی میں سوویت یونین نے سڑک کی مرمت کروائی لیکن اب بھی اس کے بڑے حصے بجری اور کچی مٹی پر مشتمل ہیں اور پکے حصے کب کے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو گئے ہیں۔

سڑک کا بڑا حصہ اس علاقے سے گزرتا ہے جسے واخان کی پٹی کہا جاتا ہے۔ سڑک خاصی دور تک افغانستان اور تاجکستان کی سرحد پر واقع تند و تیز دریائے پنج کے ساتھ ساتھ سفر کرتی ہے۔ دریا کے دونوں کناروں پر اسماعیلیوں کی چھوٹی چھوٹی بستیاں ہیں۔یہ علاقہ قدرتی طور پر پاکستان کا حصہ ہونا چاہیے۔۔

کر گزرو۔منقول

Popular Posts