Popular Posts

Saturday, September 7, 2024

The Golden Sparrow سونے کی چڑیا 🐦🐦




برصغیر پاکستان اور ہندوستان جب ایک تھے تو اس کو سونے کی چڑیا کہہ کر بہت سارے حملہ آور آئے۔ ذرا دیکھیں یہ سونے کی چڑیا کیسے بنی۔ 

شمال میں کوہِ ہمالیہ ماونٹ ایورسٹ  دنیا کا بلند ترین اور اونچا پہاڑی سلسلہ۔۔ قراقرم۔۔ھندوکش اس سے جڑی۔۔۔سو اونچی پہاڑی چوٹیاں۔  ایوسٹ۔ اور کے ٹو جیسی اونچی کوہ پیما ان کو سارا سال سر کرتے ہیں۔کوہ ہمالیہ  کے پیچھےدنیا کی چھت تبت ۔وادیوں کی ماں ہے

 تبت کی جھیل مانسرور  سے بڑے دریا نکلتے ہیں سندھ۔۔گنگا۔۔برہم پتر۔ ستلج ۔ دریائے زرد 

دریاوں کی وادیوں میں بسنے والے ملک پاکستان۔بھارت ۔چین۔تبت۔افغانستان ۔بنگلہ دیش۔بھوٹان۔تھائی لینڈ ۔لاوس۔۔ویتنام۔۔میانمار۔اور ملائیشیا۔وغیرہ ہیں۔ 

دنیا کی آدھی ابادی تین ارب لوگوں کو بسائے ہوے یہ ملک ہیں۔مغرب میں  وادی سندھ مسلمانوں کا پاک وطن۔ 

انہی چوٹیوں کے دامن میں اسلام کے علاوہ بدھ مت۔۔ھندو مت۔۔سکھ مت پروان چڑھا۔

تبت کی جھیل مانسرور ۔ 

دریائے سندھ کا سر چشمہ۔۔۔

چینی علاقے تبت میں ہمالیہ کا ایک زیلی پہاڑی سلسلہ کیلاش ہے۔ کیلاش کے بیچوں بیچ کیلاش نام کا ایک پہاڑ بھی ہے جس کے کنارے پر جھیل مانسرور ہے۔ جسے دریائے سندھ کا منبع مانا جاتا ہے۔ اس جھیل میں سے دریائے سندھ سمیت برصغیر میں بہنے والے 4 اہم دریا نکلتے ہیں۔ 

ستلج ہاتھی کے منہ سے نکل کر مغربی سمت میں بہتا ہے۔ گنگا مور کی چونچ سے نکل کر جنوبی سمت میں بہتا ہےدریائے سندھ  اور دریائے ستلج تبت کی جھیل مانسرور سے نکلتے ہیں۔ ایک دریائے سندھ  مغرب کی طرف پھرتا ہوا پاکستان  میں داخل ہوتا ہے اور لمبا سفر کرتا ہوا بحیرہ عرب میں گرتا ہے ۔دریائے ستلج مشرق کی طرف جاتا ہے اور انڈیا سے ہو کر قصور کے قریب پاکستان میں داخل ہو کر بہلول پورا سے آگے  دریائے سندھ  میں مل جاتا ہے۔ساریے دریا پنج ند  کے مقام پر اکٹھے ہوتے ہیں اور بحیرہ عرب  میں گرتے ہیں۔ 

سمندر میں گرمی کی وجہ سے پانی بخارات میں تبدیل ہو کر پھر ہمالیہ اور دوسرے علاقوں میں بارش کا سبب بنتا ہے پھر دریاؤں میں بہتا ہوا بحیرہ عرب  میں جاتا ہے۔پانیوں کا یہ کھیل صدیوں سے جاری ہے۔   برہم پتر گھوڑے کے منہ سے نکل کر مشرقی سمت میں بہتا ہے۔ اور دریائے سندھ شیر کے منہ سے نکل کر شمالی سمت میں بہتا ہے۔ 

ایک زمانے تک دریائے سندھ کی تحقیق جھیل مانسرور تک ہی سمجھی جاتی رہی۔ حتی کہ 1811 میں ولیم مور کرافٹ نے اس علاقے میں جا کر بتایا کہ سندھ کا نقطہ آغاز جھیل مانسرو  اس  جھیل میں جنوب سے آ کر ملنے والی ندیاں ہیں۔ ۔ جہاں بہنے والی ندی گارتنگ یا گارتانگ ہی جھیل مانسرو کو پانی مہیا کرتی ہے۔ اس لئے تبت سے بحیرہ عرب تک  سندھ طاس اور اس کے معاون دریا کوہ ہمالیہ  کے پہاڑی سلسلے  سے نکلتے دریا راوی۔ چناب۔ جہلم ۔ دریائےسوات دریائے کابل۔ دریائے سوہان اور کئی ندی نالے  اس میں شامل ہو کر اس کو دنیا کا عظیم دریا بناتے ہیں  دریائے سندھ کا ڈیلٹا بحیرہ عرب میں گرتا ہے۔ ۔۔۔۔مشرق میں دریائے گنگا۔ ہمالیہ سے نکلتا ہے  دریاجمنا بھی اس میں شامل ہو کر وادی گنگا کو زرخیز  کرتا ہے ۔برہم پتر تبت سے نکلتا اور کوہ ہمالیہ  سے پیچھے سے پھر کر بنگلہ دیش میں گنگا سے مل کر خلیج بنگال تک دنیا کا بڑا طاس ڈیلٹا۔بناتا ہے۔ 

اور مشرق میں ٹھنڈی ہوائیں ائیر وادی عظیم ہمالیہ  نے روک کر رخ تبدیل کر کے تبت سے  بحیرہ انڈیمان تک جاتی ہیں ۔۔برصغیر کو سائیبیریا کی خون جمانے والی سرد ھواوں بچاتا  کوہ ہمالیہ کا بلند سلسلہ۔خشک ہوتا ھوا سے بنتا صحرا گوبی ۔ جہاں سے اٹھنے والے خانہ بدوش منگول چنگیز خان کی  سربراہی میں دنیا کا بڑا حصہ یورپ تک فتح کرتے رہے۔

صحرائےگوبی چین کے شمال میں منگول قوم کا ملک منگولیا آباد ہے۔ چنگیز خان کا تعلق بھی صحرائے گوبی منگولیا سے تھا۔ چنگیز خان کو خان اعظم بھی کہا جاتا ہے۔ سب سے پہلے خان کا لقب چنگیز خان نے استعمال کیا۔ اسکے بعد اسکے جانشین قبلائی خان تاتار خان ہلاکو خان ۔ 

اسکے بعد خان کا لقب عام لوگ بھی استعمال کرنے لگ گئے۔ لیکن مغل تیمور اور چنگیز خان کی نسل سے تھے۔ 

جب مسلمان ہوئے تو خان کا لقب استعمال نہیں کیا۔ 

منگول قوم کے خانہ بدوش گھوڑے اور بھیڑ بکریاں پالتے تھے ۔ گھوڑی کا دودھ اور گھوڑے کا گوشت کھانے والے  لوگ جنگجو تھے ، ڈاکو، لٹیرے اور کبھی کبھی یہاں کے حکمران بھی جب بھی موقع ملتا، چین پر حملہ آور ہو جاتے اور اہل چین کا امن تہس نہس کر دیتے۔ چین کے حکمرانوں نے اس کا تدارک اس طرح سوچا کہ چین کے شمال میں ایک طویل دیوار تعمیر کی جائے۔

اب تو نیازی بھی خان اور شاہ رخ خان۔ سلیمان خان۔ عامر خان۔ یوسف خان۔ وغیرہ۔ خان تو چنگیز کا لقب تھا۔ اس کو خان اعظم کہتے تھے۔ 

سعودی عرب میں کوئی خان کا لقب استعمال نہیں  کرتا۔ کیونکہ چنگیز خان سعودی عرب کے صحرا میں کبھی نہیں  گیا۔ 

 چنگیز خان تو درندہ تھا۔ کھوپڑیوں کا محل بنانے والا۔ وہ مسلمان بھی نہیں تھا۔ ایک دفعہ ترکی میں اس کو کسی نے اسلام کی دعوت دی تو اس کا جواب تھا۔

میں کسی ایک مذہب کو مان کر دوسرے مذہب کے خداوں کو ناراض نہیں  کرنا چاہتا۔ 

 کچھ لوگ خان کا لقب  فخریہ استعمال کرتے ہیں ۔ یہ کوئی ذات یا قبیلہ نہیں۔ 

اب تو کچھ عورتیں بھی خان کا لفظ استعمال کرنے لگی ہیں۔ 

 کوہ ہمالیہ کی رکاوٹ سے ہندوستان چنگیز کے حملوں سے محفوظ رہا۔ لیکن چنگیز خان دریائے سندھ تک آیا اور واپس چلا گیا۔ البتہ  تاجکستان ۔ کرغزستان۔ قازخستان ۔  ازبکستان۔ عراق شام ترکی اور روس تک منگول سلطنت میں شامل تھے۔ 

اسکی نسل سے تیمور لنگ اور مغل ہندوستان میں آئے ۔  

 کوہ ہمالیہ  میں بنتے اس کے گلیشیر جیسے سیاچن کئی چھوٹے ھزاروں کی تعداد  میں ہیں۔

دل کرتا ھے کہ اس پہ بہت کچھ لکھوں۔کوہ ہمالیہ اور اس کی  چوٹیاں صدیوں سے  سائیبیریا کی سرد ہواؤں سے بچاتی بر صغیر کو سونے کی چڑیا بنا دیتی ہے۔   ہمارے اجداد کے زمانے سے بہتے دریا اور عظیم ہمالیہ کے دامن میں دنیا کی بڑی تہذیبوں نے پرورش پائی۔ موہنجوداڑو  ہڑپہ  کی تہذیبیں دریاسندھ کے  ساتھ بہتی ھمیں اور ھمارے شجر زرخیز مٹی بناتے ہوئے  ایک بحر بحیرہ عرب اور دوسری بحر۔خلیج بنگال  میں کھو جاتی ھے۔

سطح مرتفع  تبت (tibetan plateau) اور اسکی اہمیت 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مشرقی ایشیا کا ایک عظیم سطح مرتفع، جو تبت اور چین کے صوبہ چنگھائی اور کشمیر کے علاقے لداخ تک پھیلا ہوا ہے۔ اسے "دنیا کی چھت" بھی کہا جاتا ہے کیونکہ اس سطح مرتفع کی اوسط بلندی 4500 میٹر ہے۔ یہ دنیا کا سب سے بڑا اور سب سے اونچا سطح مرتفع ہے جس کا رقبہ 25 لاکھ مربع کلو میٹر ہے۔ یہ برف سے ڈھکے پہاڑوں اور دنیا کے بلند ترین سطح مرتفع پر مشتمل ہے۔ ماؤنٹ ایورسٹ جنوبی تبت سے بلندی کی طرف جاتی ہے۔ دنیا کے بلند ترین قصبات میں سے کچھ تبت میں ہیں۔ تبت دنیا کا بلند ترین خطہ ہے جو سطح سمندر سے اوسطاً 16 ہزار فٹ اونچا ہے۔ تبت اس وقت چین کا ایک صوبہ قرار دیا جانے والا علاقہ ہے۔ یہ سارا علاقہ بلند پہاڑوں اور ایک سرد اور برفیلے سطح مرتفع پر مشتمل ہے۔ اس کے ساتھ کوہ ہمالیہ ہے۔ یہ سطح مرتفع 55 ملین سال قبل ہند-آسٹریلوی پرت اور یوریشین پرت کے آپس میں ٹکرانے سے وجود میں آیا اور یہ عمل اب بھی جاری ہے۔

سطح مرتفع تبت کے شمالی اور شمال مغربی علاقے زیادہ سرد اور خشک ہیں اور انتہائی شمال مغربی علاقہ سطح سمندر سے 5 ہزار میٹر (16500 فٹ) بلند ہے جہاں فضا میں سطح سمندر کے مقابلے میں صرف 60 فیصد آکسیجن پائی جاتی ہے اور سال کا اوسط درجہ حرارت 4 ڈگری سینٹی گریڈ ہے جبکہ سردیوں میں درجہ حرارت منفی 40 ڈگری سینٹی گریڈ تک گر جاتا ہے۔ اس قدر سخت موسم کے باعث اس سطح مرتفع کا انتہائی شمال مغربی علاقہ براعظم ایشیا کا سب سے کم آباد اور انٹارکٹیکا اور شمالی گرین لینڈ کے بعد دنیا کا تیسرا سب سے کم آباد علاقہ ہے۔

دنیا کے کئی عظیم دریاؤں کا منبع اسی سطح مرتفع میں ہے جن میں مندرجہ ذیل دریا شامل ہیں:


دریائے یانگزے چین میں بہتا ہے

دریائے زرد چین میں بہتا ہے

دریائے سندھ اور اس کے معاون دریا پاکستان میں بہتے ہیں۔ 

دریائے گنگا اور جمنا بھی ہمالیہ سے نکلتے ہیں اور انڈیا میں بہتے ہیں

دریائے ستلج انڈیا سے ہوتا ہوا پاکستان  میں بہتا ہے۔

دریائے برہم پتر۔ ہمالیہ کے پیچھے سے ہوتا ہوا دریائے گنگا سے مل کر بنگلہ دیش میں بہتا ہے اور خلیج بنگال میں ڈیلٹا بناتا ہے۔ 

دریائے میکانگ

دریائے اراوتی

ایک محتاط اندازے کے مطابق دنیا کی 46 فیصد آبادی کا انحصار انہیں تبت سے نکلے والے دریاؤں سے ہوتا ہے۔

قیامت کے نشانات

 1500 سال پہلے رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے جو صحیح 70 نشانیاں بیان کی تھیں وہ سچ ہوئیں ان میں سے کچھ نیچے آپ سب سے اس کو پڑھنے کی امید ہے۔


1: مرد کم اور عورتیں زیادہ ہوں گی۔


2: لوگ موسیقی کی شکل میں قرآن مجید کی تلاوت کریں گے۔


3: مال کی محبت کی وجہ سے بیوی بھی شوہر کے ساتھ کاروبار میں حصہ لے گی


4: ہر کوئی اپنے آپ کو موٹا اور مضبوط بنانا چاہتا ہے۔


5: نماز اور زندگی میں لوگوں کا سکون ختم ہو جائے گا۔


6: سود کا کاروبار عام ہو جائے گا۔


7. منافق پیدا ہونگے آبادان میں لوگ عبادت کریں گے منافقت اور شہرت پانے کے لیے


٨: فتنے بڑھیں گے اور دینی علم میں کمی آئے گی۔


9: لوگ قرآن کو تنخواہ کا ذریعہ بنائیں گے


10: جھوٹ عام ہو جائے گا اور لوگ جھوٹ کی گواہی دیں گے۔


11: لوگ صحیح احادیث کا انکار کریں گے اور غلط احادیث بیان کریں گے۔


12: مسلمان امیر ہو جائیں گے لیکن مذہبی پیشوا نئے ہو جائیں گے


13: کفر آسان ہوگا انسان صبح مسلمان اور شام کو کافر اور شام کو مسلمان اور صبح کافر 


14: آنے والی ہر نسل پچھلی نسل سے بدتر ہوگی۔


15: لوگ اسلام پر چلنے والوں پر حیران رہ جائیں گے اور وہ نئی چیزیں دیکھیں گے۔


16: قتل و غارت بڑھتے جائیں گے قاتل اور مقتول کو پتہ نہیں چلے گا کہ میں کیوں قتل کرتا ہوں اور کیوں مارا جارہا ہوں


17 کافر مسلمانوں پر غالب آئیں گے مسلمان زیادہ ہوں گے لیکن غلام ہوں گے کیونکہ وہ دنیا سے پیار کریں گے اور موت سے ڈریں گے


18: مذہب پر عمل اس آگ کے تارکول کی طرح ہوگا جو چھڑی میں پھنسا ہوا ہے۔


19: گناہ کرنا بہت آسان ہوگا اور گناہ کو گناہ قبول نہیں کیا جائے گا۔


20: دنیا کے امیر ترین لوگ کنجوس ہوں گے۔


21: عمر سے برکت ختم ہو جائے گی، سال مہینوں کی طرح، مہینہ ہفتوں کی طرح، ہفتہ دنوں کی طرح اور دن گھنٹوں کی طرح گزر جائے گا۔


22: مسلمان ہر عمل میں کافروں کی پیروی اور اطاعت کریں گے۔


23: عرب کی مٹی وسیع ہوگی اور مدینہ کی آبادی بڑھ جائے گی


24: لوگ زکوٰۃ لینے کے اہل نہیں ہوں گے اور پھر بھی زکوٰۃ مانگیں گے۔


25 عورتیں سجتی ہونگی پھر بھی ننگی ہونگی مطلب کپڑے اتنے نازک ہوں گے کہ جسم کی طرح نظر آئیں گے


26: زنا آسان ہوگا اور زنا کے اسباب میں اضافہ ہوگا۔


27: جہالت عام ہو جائے گی، لوگوں کو دنیا کا علم ہو جائے گا، مگر جہالت کی وجہ سے دینی علم سے جاہل ہوں گے۔


28: بے حیا عورتوں اور آلات موسیقی میں اضافہ ہوگا۔



Thursday, September 5, 2024

حضرت سليمانؑ کیلئے جنات کے کھودے ہوۓ کنویں۔"



سعودی عرب کا ایک دور افتادہ گاﺅں ”لینہ“ عہد قبل از تاریخ کے کئی عجائبات پر مشتمل ہے۔ یہاں حضرت سلیمان علیہ السلام کے لشکر کیلئے جنات کے کھودے ہوئے 300 کنوئیں بھی ہیں۔ ان میں سے بیشتر اگرچہ ناکارہ ہو چکے ہیں، مگر 20 کنوﺅں سے اب بھی لوگ میٹھا پانی حاصل کرتے ہیں۔ جنات نے یہ کنوئیں زمین کے بجائے سخت ترین چٹانوں کو توڑ کر بنائے تھے، جس پر اب بھی ماہرین حیران ہیں۔ ان عجائبات کو دیکھنے کیلئے دور دور سے سیاح اس علاقے کا رخ کرتے ہیں۔


العربیہ کی رپورٹ کے مطابق سعودی عرب کا یہ تاریخی گاﺅں ”لینہ“ مملکت کے شمالی شہر رفحا سے 100 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ یہ قدیم علاقہ اسٹرٹیجک اہمیت کے ساتھ متعدد آثار قدیمہ کی وجہ سے ملک بھر میں شہرت رکھتا ہے۔ یہاں ایک قدیم قلعہ بھی ہے۔ پرانے زمانے میں بیت المقدس اور یمن کے مابین پیدل سفر کا مشہور راستہ اسی گاﺅں سے گزرتا تھا۔ عدن سے عراق جانے والا ملکہ زبیدہ کی بنائی ہوئی مشہور سڑک ”درب زبیدہ“ بھی یہیں سے ہو کر جاتی تھی۔ اب بھی سیر و تفریح کے شائقین بڑی تعداد میں اس علاقے کا رخ کرتے ہیں۔ 


سعودی محقق حمد الجاسر کا کہنا ہے کہ یہ قدیم گاﺅں میں حضرت سلیمان علیہ السلام کا لشکر بھی اترا تھا۔ سلیمان علیہ السلام جب اپنا لشکر لے کر یمن جا رہے تھے تو یہاں ٹھہرے تھے۔ اس بےآب و گیاہ علاقے میں لشکر کو پانی کی ضرورت آئی تو حضرت سلیمان علیہ السلام نے جنات کو حکم دیا کہ وہ ہنگامی طور پر کنوئیں کھودیں تو جنات نے چٹانوں پر مشتمل اس سخت ترین زمین میں 300 کنوئیں کھود دیئے تھے۔ یہ انتہائی گہرے کنوئیں اب بھی اصلی حالت پر موجود ہیں۔ جنہیں زمین پر اب بھی اپنا وجود رکھنے والا معجزہ قرار دیا جاتا ہے۔ جنات نے چٹانوں کو کاٹنے کیلئے ڈرل مشین کی طرح کوئی آلہ استعمال کیا تھا، جس کے نشانات اب بھی کنوﺅں کی چاروں اطراف واضح طور پر دیکھے جاسکتے ہیں۔

 

ماہرین اس پر تحقیق کر رہے ہیں کہ جنات نے آخر کس طرح ان سخت ترین چٹانوں کو 60 سے 80 میٹر گہرائی تک کاٹا تھا اور انہوں نے کونسے آلات کی مدد حاصل کی تھی۔ اگرچہ ان 300 میں سے اس وقت صرف 20 کنوئیں ہی کارآمد رہ گئے ہیں، تاہم سارے کنوﺅں کے نشانات اب بھی یہاں موجود ہیں۔ ان کنوﺅں کو دیکھنے والا ہر شخص حیرت زدہ ہو کر رہ جاتا ہے۔ 


تاریخی روایات کے مطابق جب حضرت سلیمان علیہ السلام اپنے لاﺅ لشکر سمیت یمن جارہے تھے تو وہ یہاں دوپہر کے کھانے کے لیئے اترے تھے۔ لشکر میں جنات کی بھی شامل تھے۔ جب لوگ پیاسے ہوئے تو حضرت سلیمان علیہ السلام نے جنات کے کمانڈر ”سبطر“ کی طرف دیکھا تو وہ ہنس رہا تھا۔ حضرت سلیمان علیہ السلام نے اس سے ہنسنے کی وجہ پوچھی تو اس نے کہا کہ، "آپ لوگ پیاس سے تڑپ رہے ہیں، مگر میٹھا پانی آپ کے قدموں کے نیچے ہی ہے۔" حضرت سلیمان علیہ السلام نے سبطر کو پانی نکالنے کا حکم دیا تو تھوڑی دیر میں ہی اس نے اپنے ساتھیوں کی مدد سے 300 کنوئیں کھود دیئے اور سیدنا سلیمانؑ کا پورا لشکر سیراب ہو گیا۔

 

معروف مورخ یاقوت حموی کے دور تک یہ سارے کنوئیں میٹھے پانی سے لبالب بھرے ہوئے تھے۔ یاقوت حموی نے اپنی مشہور کتاب ”معجم البلدان“ میں لکھا ہے کہ ”لینہ“ عراق کے شہر واسط سے مکہ مکرمہ جاتے ہوئے ساتویں منزل پر آتا ہے۔ یہ علاقہ اپنے میٹھے پانی کے کنوﺅں کی وجہ سے شہرت رکھتا ہے۔ ان کنوﺅں کی وجہ سے یہ علاقہ بعد میں ایک تجارتی مرکز بن گیا تھا۔ جہاں عراق اور عرب کے تاجر منڈیاں لگاتے۔ نجد سمیت سعودی عرب کے شمالی علاقوں کے لوگ یہاں آکر خریداری کرتے۔ تاجر اپنے سامان تجارت کو یہیں اگلے سیزن تک محفوظ کیلئے پہاڑوں پر بنے بڑے بڑے گوداموں میں رکھتے۔ جنہیں ”سیابیط“ کہا جاتا ہے۔ یہ گودام اب بھی وہاں موجود ہیں۔ 


علاوہ ازیں یہ علاقہ مختلف آثار قدیمہ کی وجہ سے بھی شہرت رکھتا ہے۔ سعودی حکومت نے یہاں ایک شاہی قلعہ بھی تعمیر کرایا ہے۔ 1354ھ میں تعمیر ہونے والے اس قلعے کو گارے، پتھروں اور لکڑیوں سے بنایا گیا ہے۔ واضح رہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کو حق تعالیٰ نے جنات پر بھی حکومت دی تھی۔ جنات نے ان کے حکم سے بیت المقدس کی تعمیر میں حصہ لیا تھا۔ وہ دور دراز سے پتھر اور سمندر سے موتی نکال کر لاتے تھے۔ ان کی تعمیر کردہ عمارتیں اب بھی موجود ہیں۔ اس کے علاوہ بھی حضرت سلیمان علیہ السلام جنات سے بہت سے کام لیتے تھے۔ جس کا ذکر قرآن کریم میں بھی واضح طور پر کیا گیا ہے۔

تحریر Amir Riaz 

واقعہ کربلا

 


ہماری تاریخ میں کہیں تو کچھ مسلا ہے جو ہمیں بہت سے

 سوالات پر مجبور کر رہا ہے میرے ذہن میں اور بھی بہت سے سوالات ہیں جنکا متلاشی ہوں۔ کیا آپ نے کبھی کربلا میں ظلم و ستم کے بارے میں سوچا ہے کہ آخر کیا وجہہ بنی کہ اہل بیت پر ظلمت کے پہاڑ ڈھاے گئے 

کربلا اچانک نہیں ہوئی ایک طویل نفرت تھی 

جو دلوں میں پنپ رہی تھی 

اہل بیت ع پر بنی امیہ و بنی عباس دونوں نے ظلم کے پہاڑ توڑے ہیں وہ بھی حقیر دنیا کی خاطر تخت و تاج کی خاطر  حضرت امام حسین ع کو سب نے دیکھا تھا حضور نبی کریم ﷺ  کے کندھوں پر سب نے حدیث سنی تھی کہ *الحسن و الحسین سید شباب اہل الجنہ*۔اس کے باوجود ظالمین نے اتنے ظلم کئے کہ ناقابل بیاں۔

آپ نے کبھی سوچا کہ امام حسن علیہ السلام اور امام حسین علیہ السلام کی پانچ چھ سال کی عمر تک تو واقعات ملتے ہیں مگر اس کے بعد تاریخ میں ان کا ذکر صرف تب ہوا جب ان کی شہادت ہوئی۔


کئی نامور اصحاب حضرت سلمان فارسی کہ جس کے بارے میں نبی کریم نے فرمایا کہ اگر علم ثریا ستارے پر بھی ہو اہل فارس وہاں پہنچ جائیں۔


حضرت ابوذر کہ جنہیں زمین پر سب سے سچا انسان قرار دیا۔

حضرت مقداد جن کی جنت مشتاق ہے۔

حضرت ایوب انصاری جو نبی کریم کے مدینہ میں میزبان تھے۔

حضرت جابر بن عبداللہ انصاری جو نبی کریم سے لے کر ان کی پانچویں نسل تک حیات رہے۔

حضرت عمار یاسر جن کی شان میں آیات نازل ہوئیں۔

حضرت بلال حبشی جو موذنِ رسول تھے۔

تاریخ ان کے بارے میں مکمل خاموش نظر آتی ہے۔ 

ایسا لگتا ہے کہ جیسے نبی کریم ص کے بعد وہ اس دنیا سے غائب رہے اور بس شہادت یا وفات کے وقت دنیا میں کچھ دیر کے لئے آئے۔


آخر کہیں تو کچھ غلط ہوا ہے کہ ان شخصیات کا ذکر نہ کیا گیا۔


دوسری طرف جو افراد نبی کریم ﷺ کے پردہ فرمانے سے سال دو سال قبل مسلمان ہوئے, ان کی سوانح عمری سے تاریخ بھری نظر آتی ہے۔


نبی کریم حضور ﷺ کے بعد ایسا کیا ہوا کہ ان کی آل اور بہت سے وفادار اصحاب کو تاریخ نے مکمل نظرانداز کر دیا۔


کہاں کچھ غلط ہوا کہ نبی کریم حضور ﷺ  کے بعد ان کی آل کے کسی بھی فرد کی طبعی وفات نہ ہوئی۔


تمام شہید ہوئے اور قاتل بھی وہ جو ان کے جد کا کلمہ پڑھتے نہیں تھکتے تھے۔


آج چودہ صدیاں بعد بھی ہم جانتے ہیں کہ حسن و حسین علیہم السلام جنت کے سردار ہیں۔


ایسا کیا ہوا کہ جنت کے طلب گاروں نے سرداروں کو انتہائی اذیت کے ساتھ شہید کر دیا۔


مورخ نے آخر ان تمام ہستیوں کو اتنا غیر اہم کیسے سمجھا کہ تاریخِ اسلام میں ان کا حصہ ایک صحابی جتنا بھی نہیں رکھا۔


کربلا اچانک نہیں ہوئی۔

ایک طویل نفرت تھی جو دلوں میں پنپ رہی تھی۔ جوں جوں وقت گزرتا گیا, نفرت بڑھتی رہی اور ہر ہستی کے بعد دوسری ہستی پر پہلے سے زیادہ ظلم ہوتا نظر آیا۔


اتنی نفرت کہ اس مقدس گھرانے کی مطہرات پر ظلم کرنے سے بھی نہ چوکے۔


چھ ماہ کے بچے کا سر کاٹنا بھی ثواب سمجھا گیا حالانکہ بدترین دشمن کے چھ ماہ کے بچے سے بھی کوئی دشمنی کا بدلہ لینے کا نہیں سوچتا۔


امت نے تو آل رسول پر ظلم کیا ہی تھا مگر تاریخ لکھنے والوں نے ان سے کہیں زیادہ ظلم یہ کیا کہ جن کے فضائل تھے, انہیں چھپایا جبکہ ان کے دشمنوں کے فضائل سے کتابیں سیاہ کیں۔

24 ذوالحجہ کو واقعہ مباہلہ کی یاد منائی گٸی۔ اس واقعہ میں بنص قران پانچ ذواتِ مقدسہ میدان میں توحید کے گواہ بن کر پیش ہوئے اور قران مجید نےانہیں صداقت کی سند عطا کی۔

واقعہ مباہلہ کے کچھ مدت بعد ان پانچ ہستیوں میں بزرگ ترین ہیستی کا وصال ہوا جنازے میں کتنے کلمہ گو تھے؟؟


پھر 75 دن بعد اس گھر کا دوسرا جنازہ رات کی تاریکی میں اُٹھا اور چند مخلصین کی موجودگی میں بڑی خاموشی اور مظلومیت سے دفن کردیا گیا اور نشانِ قبر تک مٹا دیا گیا جو آج تک نہ مل سکا۔


پھر اسی گھرانے کا تیسرا جنازہ 40 ہجری میں کوفہ سے آدھی رات کے وقت اٹھا اور پشتِ کوفہ ریت کے ٹیلوں کے درمیان خاموشی سے دفن کر دیا گیا اور مدتوں قبر کا نشان نامعلوم رہا۔


پھراسی جماعت کے چوتھے فرد کا جنازہ 50 ہجری میں شہر مدینہ سےاُٹھا اور نانے کی مزار کی طرف چلا مگر کچھ لوگ تیروں سے مسلحہ راستے میں حاٸل ہوٸے کہ نواسے کو نانے کے پہلو میں دفن نہیں ہونے دیں گے آخر وہ جنازہ بقیع کے عوامی قبرستان میں دفن کر دیا گیا۔


پھر 61 ہجری میں اصحاب مباہلہ کے آخری فرد کا جنازہ اٹھایا بھی نہ جا سکا بلکہ جنازہ گھوڑوں کی ٹاپوں سے پامال کر دیا گیا۔

ایک بات تمام اہل ایمان پر فرض ہے کہ اس پہ غور و فکر کریں کہ آٸمہ اطہار کی جگہ کتنے امام پیدا کیے گٸے اور ہم آل ِ محبوب خدا کہ جگہ ان سے دینی و فکری رہنماٸی کیوں حاصل کرتے ہیں ۔ گویا جن کے سینوں میں رسول کریم کی طرف سے منتقل ہونے والا علم القرآن و حدیث اور علم الدنیا کو پورے منصوبے سے پس ِ پشت ڈال کے ان گنت اماموں کے اقوال اور وضاحت فقہ حاصل کرتے ہیں اور یہ غفلت میں نسل در نسل ہوتی نظر آتی ہے ۔

بحثیت مسلمان کیا ہم یہ حق نہیں رکھتے کہ کم از کم ہم مورخ اسلام سے یہ تو پوچھیں کہ جنکی صداقت کا گواہ خود اللہ ہے اور وہ توحیدِ خدا کے گواہ ہیں امت رسول نے انکے ساتھ یہ سلوک کیوں کیا۔؟

ہمارا یہ سوال امت مسلمہ پر قیامت تک قرض رہے گا اور اگر اس دنیا میں اس کا جواب نہ ملا تو میدان محشر میں عدالت خداوند تعالیٰ میں ہم یہ سوال اٹھائیں گے۔ 

سوچیے گا ضرور اس بارے ۔۔

بقول شاعر 

وہ ساری جنگ محمد سے دشمنی کی تھی 

جو کربلا میں ہوا اصل میں تو کب کا ہے۔


از قلم 

محمد عامر ریاض

کولیسٹرول اور ہمارا جسم۔ اچھا یا برا۔؟

 


کولیسٹرول ہے کیا۔!

کولیسٹرول ایک چربی جیسا مادہ ہے جو ہمارے جسم کے ہر خلیے میں پایا جاتا ہے۔ یہ جسم کے لئے ضروری ہے کیونکہ یہ خلیوں کی دیواروں کو مضبوط بناتا ہے، ہارمونز کی تیاری میں مدد کرتا ہے، اور وٹامن ڈی اور بائل ایسڈز کے بننے میں حصہ لیتا ہے، جو خوراک کو ہضم کرنے کے لیے ضروری ہیں۔ 


کولیسٹرول دو قسم کا ہوتا ہے. 

(1).LDL (Low-Density Lipoprotein):** یہ "برا" کولیسٹرول کہلاتا ہے کیونکہ اس کی زیادہ مقدار خون کی شریانوں میں چربی جمع کر سکتی ہے، جس سے دل کی بیماریاں ہو سکتی ہیں۔

(2).HDL (High-Density Lipoprotein):** یہ "اچھا" کولیسٹرول کہلاتا ہے کیونکہ یہ خون کی شریانوں سے اضافی چربی کو ہٹا کر جگر تک پہنچاتا ہے جہاں اسے جسم سے نکال دیا جاتا ہے۔


کولیسٹرول کی مناسب مقدار صحت کے لئے ضروری ہے، لیکن اس کی زیادہ مقدار نقصان دہ ہو سکتی ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں کیسے۔۔


کولیسٹرول دماغ کے لئے بہت ضروری ہے اور اس کا سیکھنے اور یادداشت پر اثر ہوتا ہے۔ اگرچہ کولیسٹرول دائریکٹ دماغ تک نہیں پہنچتا، لیکن اس کی مقدار اور جسم میں اس کا میٹابولزم دماغی صحت کو متاثر کر سکتا ہے۔

مرکزی اعصابی نظام میں کولیسٹرول کو تبدیل کرنے سے دماغی کارکردگی میں تبدیلی آ سکتی ہے، لیکن یہ تبدیلیاں اکثر ان حالات میں نظر آتی ہیں جہاں جسم پہلے ہی کسی بیماری یا خرابی کا شکار ہو۔

انسانوں پر کی گئی تحقیق میں بھی مختلف نتائج سامنے آئے ہیں۔ کچھ لوگوں میں کولیسٹرول کم کرنے والی دوائیں یادداشت کو بہتر کرتی ہیں، لیکن ہر کسی کے لئے نہیں۔ الزائمر کی بیماری میں بھی ان دواؤں کے استعمال پر بحث جاری ہے۔

مجموعی طور پر، کولیسٹرول اور دماغی صحت کے تعلق میں بہت سی پیچیدگیاں ہیں، لیکن اس پر تحقیق کرنا بہت ضروری ہے تاکہ ہم سیکھنے اور یادداشت پر کولیسٹرول کے اثرات کو بہتر طریقے سے سمجھ سکیں۔



Monday, September 2, 2024

ذیابیطس کی قسمیں Types of Diabetes

  

ذیابیطس کئی قسم کی ہو سکتی ہیں۔ لیکن اسکی جتنی بھی قسمیں ہوں ، اُن میں ایک بات مشترک ہوتی ہے ، اور وہ یہ کہ ذیابیطس کی تمام اقسام میں خوں کی شوگر نارمل سے ذیادہ ہوتی ہے۔

ذیابیطس کی اقسام میں سے مندرجہ ذیل اہم اورزیادہ عام ہیں

ذیابیطس قسم اول

پرانے زامانے میں اسے بچپن یا کم عمری کی شوگربھی کہا جاتا تھا۔اس میں لبلہ انسولین بنانا بند کردیتا ہے، اور یہ کمی اتنی تیزی سے پیدا ہوتی ہے، کہ دنوں اور ہفتوں میں ہی مریض شدید بیمارہو جاتا ہے۔ اس میں بیماری کی علامات بہت شدید ہوتی ہیں اورعام طور پر تشخیص ہونے میں دیرنہیں لگتی۔ ذیابیطس کی اس قسم کا علاج روز اول سے ہی انسولین کے ٹیکوں سے کرنا پڑتا ہے۔ پاکستان میں ذیابیطس قسم اول کے مریض بہت ہی کم ہیں، لیکن جو بچے اس مرض سے متاثرہیں اُن کے علاج میں مہارت رکھنے والے افراد بہت ہی کم ہیں۔ ذیابیطس قسم اول کا علاج ہمیشہ کسی ماہر سے کروانا چاہئے۔دی ڈائیابیٹس سنٹر ۔ پاکستان کے اسلام آباد مرکز میں اس قسم کے علاج کی خصوصی سہولیات موجود ہیں ۔جہاں ضرورت مند افراد کو مفت علاج کی سہولت فراہم کی گئی ہے ۔

ذیابیطس قسم دوم

یہ ذیابیطس کی سب سے زیادہ عام قسم ہے۔ پاکستان میں ذیابیطس والے افرادمیں سے 95 فیصد لوگ ذیابیطس کی اسی قسم سے متاثر ہیں۔ ذیابیطس قسم دوم زیادہ تر بالغ افراد کو ہوتی ہے اسی لئے کچھ عرصہ پہلے تک اسے بڑی عمر کی ذیابیطس بھی کہا جاتا تھا۔لیکن اب ہم جانتے ہیں کہ ذیابیطس قسم دوم

 عمر کے کسی بھی حصے میں ہو سکتی ہے۔

ذیابیطس کی اس قسم کے بارے میں سب سے اہم بات ہے کہ اسکی بنیادی وجہ انسولین کا بے اثر ہو جانا ہے۔ یعنی آپکا لبلہ جو انسولین پیدا کرتا ہے، وہ اپنا اثر دکھانے میں ناکام رہتی ہے۔انسولین کی اس بے اثری پر قابو پانے کیلئے لبلہ مزید انسولین پیدا کرتا ہے، اور اسی طرح اپنی ہمت سے زیادہ کام کرتے کرتے، آخر کار لبلہ تھک جاتا ہے، اور انسولین کی بے اثری کے ساتھ انسولین کی کمی بھی واقع ہو جاتی ہے۔ اور خون میں شوگر بڑھنے لگتی ہے۔

انسولین کے بے اثر ی صرف شوگر ہی نہیں بڑھاتی، بلکہ یہ آپ کے لئے کُچھ اور خطرات بھی پید اکرتی ہے۔ 

حمل کی ذیابیطس

اگر کسی ایسی عورت کو حمل کے دوران ذیابیطس ہو جائے، جسے حمل سے پہلے ذیایطس  نہیں تھی، تو اسے حمل کی ذیابیطس کہا جاتا ہے۔


Thanks The Daibatic Center Islamabad 

Popular Posts