برصغیر پاکستان اور ہندوستان جب ایک تھے تو اس کو سونے کی چڑیا کہہ کر بہت سارے حملہ آور آئے۔ ذرا دیکھیں یہ سونے کی چڑیا کیسے بنی۔
شمال میں کوہِ ہمالیہ ماونٹ ایورسٹ دنیا کا بلند ترین اور اونچا پہاڑی سلسلہ۔۔ قراقرم۔۔ھندوکش اس سے جڑی۔۔۔سو اونچی پہاڑی چوٹیاں۔ ایوسٹ۔ اور کے ٹو جیسی اونچی کوہ پیما ان کو سارا سال سر کرتے ہیں۔کوہ ہمالیہ کے پیچھےدنیا کی چھت تبت ۔وادیوں کی ماں ہے
تبت کی جھیل مانسرور سے بڑے دریا نکلتے ہیں سندھ۔۔گنگا۔۔برہم پتر۔ ستلج ۔ دریائے زرد
دریاوں کی وادیوں میں بسنے والے ملک پاکستان۔بھارت ۔چین۔تبت۔افغانستان ۔بنگلہ دیش۔بھوٹان۔تھائی لینڈ ۔لاوس۔۔ویتنام۔۔میانمار۔اور ملائیشیا۔وغیرہ ہیں۔
دنیا کی آدھی ابادی تین ارب لوگوں کو بسائے ہوے یہ ملک ہیں۔مغرب میں وادی سندھ مسلمانوں کا پاک وطن۔
انہی چوٹیوں کے دامن میں اسلام کے علاوہ بدھ مت۔۔ھندو مت۔۔سکھ مت پروان چڑھا۔
تبت کی جھیل مانسرور ۔
دریائے سندھ کا سر چشمہ۔۔۔
چینی علاقے تبت میں ہمالیہ کا ایک زیلی پہاڑی سلسلہ کیلاش ہے۔ کیلاش کے بیچوں بیچ کیلاش نام کا ایک پہاڑ بھی ہے جس کے کنارے پر جھیل مانسرور ہے۔ جسے دریائے سندھ کا منبع مانا جاتا ہے۔ اس جھیل میں سے دریائے سندھ سمیت برصغیر میں بہنے والے 4 اہم دریا نکلتے ہیں۔
ستلج ہاتھی کے منہ سے نکل کر مغربی سمت میں بہتا ہے۔ گنگا مور کی چونچ سے نکل کر جنوبی سمت میں بہتا ہےدریائے سندھ اور دریائے ستلج تبت کی جھیل مانسرور سے نکلتے ہیں۔ ایک دریائے سندھ مغرب کی طرف پھرتا ہوا پاکستان میں داخل ہوتا ہے اور لمبا سفر کرتا ہوا بحیرہ عرب میں گرتا ہے ۔دریائے ستلج مشرق کی طرف جاتا ہے اور انڈیا سے ہو کر قصور کے قریب پاکستان میں داخل ہو کر بہلول پورا سے آگے دریائے سندھ میں مل جاتا ہے۔ساریے دریا پنج ند کے مقام پر اکٹھے ہوتے ہیں اور بحیرہ عرب میں گرتے ہیں۔
سمندر میں گرمی کی وجہ سے پانی بخارات میں تبدیل ہو کر پھر ہمالیہ اور دوسرے علاقوں میں بارش کا سبب بنتا ہے پھر دریاؤں میں بہتا ہوا بحیرہ عرب میں جاتا ہے۔پانیوں کا یہ کھیل صدیوں سے جاری ہے۔ برہم پتر گھوڑے کے منہ سے نکل کر مشرقی سمت میں بہتا ہے۔ اور دریائے سندھ شیر کے منہ سے نکل کر شمالی سمت میں بہتا ہے۔
ایک زمانے تک دریائے سندھ کی تحقیق جھیل مانسرور تک ہی سمجھی جاتی رہی۔ حتی کہ 1811 میں ولیم مور کرافٹ نے اس علاقے میں جا کر بتایا کہ سندھ کا نقطہ آغاز جھیل مانسرو اس جھیل میں جنوب سے آ کر ملنے والی ندیاں ہیں۔ ۔ جہاں بہنے والی ندی گارتنگ یا گارتانگ ہی جھیل مانسرو کو پانی مہیا کرتی ہے۔ اس لئے تبت سے بحیرہ عرب تک سندھ طاس اور اس کے معاون دریا کوہ ہمالیہ کے پہاڑی سلسلے سے نکلتے دریا راوی۔ چناب۔ جہلم ۔ دریائےسوات دریائے کابل۔ دریائے سوہان اور کئی ندی نالے اس میں شامل ہو کر اس کو دنیا کا عظیم دریا بناتے ہیں دریائے سندھ کا ڈیلٹا بحیرہ عرب میں گرتا ہے۔ ۔۔۔۔مشرق میں دریائے گنگا۔ ہمالیہ سے نکلتا ہے دریاجمنا بھی اس میں شامل ہو کر وادی گنگا کو زرخیز کرتا ہے ۔برہم پتر تبت سے نکلتا اور کوہ ہمالیہ سے پیچھے سے پھر کر بنگلہ دیش میں گنگا سے مل کر خلیج بنگال تک دنیا کا بڑا طاس ڈیلٹا۔بناتا ہے۔
اور مشرق میں ٹھنڈی ہوائیں ائیر وادی عظیم ہمالیہ نے روک کر رخ تبدیل کر کے تبت سے بحیرہ انڈیمان تک جاتی ہیں ۔۔برصغیر کو سائیبیریا کی خون جمانے والی سرد ھواوں بچاتا کوہ ہمالیہ کا بلند سلسلہ۔خشک ہوتا ھوا سے بنتا صحرا گوبی ۔ جہاں سے اٹھنے والے خانہ بدوش منگول چنگیز خان کی سربراہی میں دنیا کا بڑا حصہ یورپ تک فتح کرتے رہے۔
صحرائےگوبی چین کے شمال میں منگول قوم کا ملک منگولیا آباد ہے۔ چنگیز خان کا تعلق بھی صحرائے گوبی منگولیا سے تھا۔ چنگیز خان کو خان اعظم بھی کہا جاتا ہے۔ سب سے پہلے خان کا لقب چنگیز خان نے استعمال کیا۔ اسکے بعد اسکے جانشین قبلائی خان تاتار خان ہلاکو خان ۔
اسکے بعد خان کا لقب عام لوگ بھی استعمال کرنے لگ گئے۔ لیکن مغل تیمور اور چنگیز خان کی نسل سے تھے۔
جب مسلمان ہوئے تو خان کا لقب استعمال نہیں کیا۔
منگول قوم کے خانہ بدوش گھوڑے اور بھیڑ بکریاں پالتے تھے ۔ گھوڑی کا دودھ اور گھوڑے کا گوشت کھانے والے لوگ جنگجو تھے ، ڈاکو، لٹیرے اور کبھی کبھی یہاں کے حکمران بھی جب بھی موقع ملتا، چین پر حملہ آور ہو جاتے اور اہل چین کا امن تہس نہس کر دیتے۔ چین کے حکمرانوں نے اس کا تدارک اس طرح سوچا کہ چین کے شمال میں ایک طویل دیوار تعمیر کی جائے۔
اب تو نیازی بھی خان اور شاہ رخ خان۔ سلیمان خان۔ عامر خان۔ یوسف خان۔ وغیرہ۔ خان تو چنگیز کا لقب تھا۔ اس کو خان اعظم کہتے تھے۔
سعودی عرب میں کوئی خان کا لقب استعمال نہیں کرتا۔ کیونکہ چنگیز خان سعودی عرب کے صحرا میں کبھی نہیں گیا۔
چنگیز خان تو درندہ تھا۔ کھوپڑیوں کا محل بنانے والا۔ وہ مسلمان بھی نہیں تھا۔ ایک دفعہ ترکی میں اس کو کسی نے اسلام کی دعوت دی تو اس کا جواب تھا۔
میں کسی ایک مذہب کو مان کر دوسرے مذہب کے خداوں کو ناراض نہیں کرنا چاہتا۔
کچھ لوگ خان کا لقب فخریہ استعمال کرتے ہیں ۔ یہ کوئی ذات یا قبیلہ نہیں۔
اب تو کچھ عورتیں بھی خان کا لفظ استعمال کرنے لگی ہیں۔
کوہ ہمالیہ کی رکاوٹ سے ہندوستان چنگیز کے حملوں سے محفوظ رہا۔ لیکن چنگیز خان دریائے سندھ تک آیا اور واپس چلا گیا۔ البتہ تاجکستان ۔ کرغزستان۔ قازخستان ۔ ازبکستان۔ عراق شام ترکی اور روس تک منگول سلطنت میں شامل تھے۔
اسکی نسل سے تیمور لنگ اور مغل ہندوستان میں آئے ۔
کوہ ہمالیہ میں بنتے اس کے گلیشیر جیسے سیاچن کئی چھوٹے ھزاروں کی تعداد میں ہیں۔
دل کرتا ھے کہ اس پہ بہت کچھ لکھوں۔کوہ ہمالیہ اور اس کی چوٹیاں صدیوں سے سائیبیریا کی سرد ہواؤں سے بچاتی بر صغیر کو سونے کی چڑیا بنا دیتی ہے۔ ہمارے اجداد کے زمانے سے بہتے دریا اور عظیم ہمالیہ کے دامن میں دنیا کی بڑی تہذیبوں نے پرورش پائی۔ موہنجوداڑو ہڑپہ کی تہذیبیں دریاسندھ کے ساتھ بہتی ھمیں اور ھمارے شجر زرخیز مٹی بناتے ہوئے ایک بحر بحیرہ عرب اور دوسری بحر۔خلیج بنگال میں کھو جاتی ھے۔
سطح مرتفع تبت (tibetan plateau) اور اسکی اہمیت
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مشرقی ایشیا کا ایک عظیم سطح مرتفع، جو تبت اور چین کے صوبہ چنگھائی اور کشمیر کے علاقے لداخ تک پھیلا ہوا ہے۔ اسے "دنیا کی چھت" بھی کہا جاتا ہے کیونکہ اس سطح مرتفع کی اوسط بلندی 4500 میٹر ہے۔ یہ دنیا کا سب سے بڑا اور سب سے اونچا سطح مرتفع ہے جس کا رقبہ 25 لاکھ مربع کلو میٹر ہے۔ یہ برف سے ڈھکے پہاڑوں اور دنیا کے بلند ترین سطح مرتفع پر مشتمل ہے۔ ماؤنٹ ایورسٹ جنوبی تبت سے بلندی کی طرف جاتی ہے۔ دنیا کے بلند ترین قصبات میں سے کچھ تبت میں ہیں۔ تبت دنیا کا بلند ترین خطہ ہے جو سطح سمندر سے اوسطاً 16 ہزار فٹ اونچا ہے۔ تبت اس وقت چین کا ایک صوبہ قرار دیا جانے والا علاقہ ہے۔ یہ سارا علاقہ بلند پہاڑوں اور ایک سرد اور برفیلے سطح مرتفع پر مشتمل ہے۔ اس کے ساتھ کوہ ہمالیہ ہے۔ یہ سطح مرتفع 55 ملین سال قبل ہند-آسٹریلوی پرت اور یوریشین پرت کے آپس میں ٹکرانے سے وجود میں آیا اور یہ عمل اب بھی جاری ہے۔
سطح مرتفع تبت کے شمالی اور شمال مغربی علاقے زیادہ سرد اور خشک ہیں اور انتہائی شمال مغربی علاقہ سطح سمندر سے 5 ہزار میٹر (16500 فٹ) بلند ہے جہاں فضا میں سطح سمندر کے مقابلے میں صرف 60 فیصد آکسیجن پائی جاتی ہے اور سال کا اوسط درجہ حرارت 4 ڈگری سینٹی گریڈ ہے جبکہ سردیوں میں درجہ حرارت منفی 40 ڈگری سینٹی گریڈ تک گر جاتا ہے۔ اس قدر سخت موسم کے باعث اس سطح مرتفع کا انتہائی شمال مغربی علاقہ براعظم ایشیا کا سب سے کم آباد اور انٹارکٹیکا اور شمالی گرین لینڈ کے بعد دنیا کا تیسرا سب سے کم آباد علاقہ ہے۔
دنیا کے کئی عظیم دریاؤں کا منبع اسی سطح مرتفع میں ہے جن میں مندرجہ ذیل دریا شامل ہیں:
دریائے یانگزے چین میں بہتا ہے
دریائے زرد چین میں بہتا ہے
دریائے سندھ اور اس کے معاون دریا پاکستان میں بہتے ہیں۔
دریائے گنگا اور جمنا بھی ہمالیہ سے نکلتے ہیں اور انڈیا میں بہتے ہیں
دریائے ستلج انڈیا سے ہوتا ہوا پاکستان میں بہتا ہے۔
دریائے برہم پتر۔ ہمالیہ کے پیچھے سے ہوتا ہوا دریائے گنگا سے مل کر بنگلہ دیش میں بہتا ہے اور خلیج بنگال میں ڈیلٹا بناتا ہے۔
دریائے میکانگ
دریائے اراوتی
ایک محتاط اندازے کے مطابق دنیا کی 46 فیصد آبادی کا انحصار انہیں تبت سے نکلے والے دریاؤں سے ہوتا ہے۔