Popular Posts

Wednesday, June 19, 2024

Karachi Port

 اگر کہا جائے کہ 100 سال پہلے کراچی پورٹ ایشیا کی مصروف ترین بین الاقوامی بندرگاہ تھی تو آپ یقین کریں گے؟ جناب! یقین کرلینے کے سوا کوئی چارہ بھی تو نہیں ہے۔ اس لیے کہ یہ کوئی راز کی بات نہیں ہے۔ دستاویزی حقائق ریکارڈز میں محفوظ ہیں۔

مشہور اور اہم اسٹیمرز جو کراچی سی پورٹ سے یورپ۔ امریکہ اور آسٹریلیا آتی جاتی تھیں ان کی کمپنیوں کے نام یہ تھے: 1) دی پی اینڈ او اینڈ بی آئی۔ 2) دی برٹش انڈیا اسٹیم نیویگیشن کمپنی۔ 3) سر جون ایلرمین کے "ہال"۔ "ولسن" اور "بکنال" لائنز آف اسٹیمرز۔ 4) ہولانڈ امریکن لائنز۔ 5) دی پیسیفک میل اسٹیمشپ کمپنی۔ 6) دی اٹلانٹک اینڈ پیسیفک اسٹیمشپ کارپوریشن۔ 7) دی کمرشل انڈیا لائن۔ 😎 دی سویڈش ایسٹ ایشیاٹک کارپوریشن۔ 9) لائیڈ رائل بیلج لمیٹڈ۔ 10) دی اینکر لائن-ہینڈرسن برادرز۔ 11) دی ہالانڈ برٹش لائن۔ 12) کیر اسٹیمشپ کمپنی۔ 13) لائیڈ ٹریسٹینو اسٹیم نیویگیشن کمپنی۔۔۔۔۔۔

بات یہاں ختم نہیں ہوئی۔ اب ہم آپ کو بتانے جارہے ہیں کہ کراچی کی کشش اس قدر پٌراثر تھی کہ ان اسٹیمر جہازوں میں مال برداری اور پوسٹل ڈاک کے علاوہ پسینجرز کی بڑی تعداد جن میں کاروباری حضرات کے ساتھ ساتھ "چٌھٹی گزارنے والے" سیاحوں کی بڑی تعداد یہاں کھینچی چلی آتی تھی۔ شہر کے ہوٹلوں۔ بازاروں میں اور سمندر کے کناروں پر جو رونق ہوتی تھی اس کا اندازہ آپ خود لگا سکتے ہیں۔ چلیں ہم آپ کو ان اسٹیمر جہازوں میں پسینجر ریٹ بھی بتائے دیتے ہیں:

کراچی پورٹ سے (وایا بمبئی) ایڈیلیڈ کرایہ فرسٹ کلاس کے لیے 86 پونڈ اور سکینڈ کلاس کے لیے 57 پاؤنڈ۔ فریمینتل کے لیے 84 اور 55 پاؤنڈ۔ لیورپول (ڈائریکٹ): 73 اور 59 پاؤنڈ۔ لندن: (وایا بمبئی) 76-90 اور 60-72 پاؤنڈ۔ مارسیلز (وایا بمبئی) 62-86 اور 55 پاؤنڈ/ڈائریکٹ(66-69 اور 53-55 پاؤنڈ)۔ میلبورن (وایا بمبئی) 88 اور 59 پاؤنڈ۔ نیویارک (وایا لیورپول) صرف فرسٹ کلاس 88 پاؤنڈ۔ سڈنی (وایا بمبئی) 90-61 پاؤنڈ۔ وینس 85-65 پاؤنڈز۔

یہ سب گئے وقتوں کی باتیں ہیں اب جو "جن اور پریوں کی ناقابل یقین کہانیاں" لگتی ہیں۔ وہ کون لوگ تھے جنہوں نے ہمارے اس عظیم شہر کو بین الاقوامی پہچان دی۔ ایشیا کا سب سے زیادہ پٌرامن اور صاف ترین شہر بنایا اور اسی حالت میں 75 سال پہلے (ہماری اپنی خواہش کے مطابق) ہمارے حوالے کرکے خود یہاں سے نکل گئے۔ جو بھی تھے وہ کراچی کو ایک خوبصورت۔ پٌرکشش اور قابل فخر شہر بنا کر گئے۔ ان پچھتر سالوں میں ہم نے کراچی کو کیا دیا اور کیا بنایا اور اسے کس مقام تک پہنچایااس بارے میں سوچ و فکر کرنے کی بہت ضرورت ہے۔

60 کی دہائی میں ہمیں یاد ہے ویسٹ ہارف اور میکلوڈ (آئی آئی چندریگر) روڈ پر انٹرنیشنل اور پاکستانی جہازراں کمپنیوں اور فرموں کے خوبصورتی سے سجے ہوئے دفاتر ہوتے تھے۔ اس وقت کے اخبارات میں عموماً میکینزی۔ کاؤسجی۔ مصطفےٰ گوکل اور دیگر بڑی کمپنیوں کے اشتہارات چھپتے تھے۔ پورٹ (کیماڑی) پر بڑی گہماگہمی اور رونق ہوتی تھی۔ 1965 کی پاک بھارت جنگ سے پہلے یہاں سے لوگ کم خرچ پر (دو تین سو روپے میں) بمبئی آتے جاتے تھے جن میں ہمارے کچھ دوست بھی شامل تھے جو صرف دلیپ کمار۔ مدھوبالا اور پرتھوی راج کی فلم "مغل اعظم" دیکھنے بمبئی گئے تھے۔

 70 کی دہائی میں دبئی آنا جانا بھی پسینجر جہازوں کے ذریعے ممکن تھا جن میں مسافروں کی اکثریت لیاری سے تعلق رکھتی تھی۔ ایک اور کمپنی پین اسلامک سٹیمشپ کے نام سے "حرکت" میں تھی۔ ان کے جہاز "سفینہ حجاج" اور "سفینہ عرب" حاجیوں کو کراچی کی بندرگاہ سے سعودی عرب کے پورٹ جدہ لے جاتے اور لاتے تھے۔ 1974 میں کرایہ /-Rs.6000 تھا لیکن سفر سات دن کا ہوتا تھا۔ 70 ہی کی دہائی میں غالباً "سمندری سفر" کو قومی ملکیت میں لیا گیا۔ اس طرح پاکستان نیشنل شپنگ کارپوریشن وجود میں آیا۔

 "ایم وی شمس" اس کمپنی کا آخری جہاز تھا جس کے ذریعے 1994 میں حاجیوں کو جدہ سے واپس کراچی پورٹ لایا گیا اور پھر "شمس" نے گڈانی شپ بریکنگ یارڈ کا رخ کیا جہاں سے کوئی بھی جہاز واپس "زندہ سلامت" نہیں آتا! اس طرح پاکستانیوں کے لیے سستا اور دلکش سمندری سفر کا باب بند کردیا گیا۔۔۔۔۔شاید ہمیشہ کے لیے نہیں!

1947ع میں جب پاکستان بنا اور سندھ کی راجدھانی کراچی کو پاکستان کی کیپیٹل سٹی بنایا گیا تو* 

*سندھ کے پاس بیالیس ارب* *بیلینس والی سندھ بینک*، 

*تیرہ ھوائی جھاز اور پچاس سندھ مرچنٹ نیوی کے جھاز تھے*

جو اس وقت کے وزیراعظم لیاقت علی خان نے ھندستانی وزیراعظم جواہر لعل نہرو کے لکھے گئے ڈیمانڈ لیٹر پر بھارتی حکومت کے حوالے کردیئے۔۔۔ 

اس وقت کے سندھ کے وزیراعلی محمد ایوب کھوڑو نے ھوائی جھاز بھارت کے حوالے کرنے سے انکار کردیا، 

تو پاکستان کے وزیراعظم لیاقت علی خان 

جناح صاحب کے پاس بھاگے بھاگے پھنچے اور 

فریاد کی کہ 

سندھ کا وزیراعلی میرا حکم نہیں مانتا ہے، 

یہاں پر جو تیرہ ھوائی جھاز سندھ حکومت روکے ھوئے ہے، 

وہ مہتا ایئرلائین کی ملکیت ہیں، 

اگر ہم نے ھندستان کے حوالے نہ کیئے تو ھندستان اس کی بجائے ہم پر حملا کر سکتا ہے، سندھ کے وزیراعلی کو سمجھائیں ۔ 

قائدِ اعظم نے ایک دن 

سندھ کے وزیر اعلی محمد ایوب کھوڑو کو لنچ کے بہانے اپنی رھائش گاھ 

فلیگ ھائوس، باتھ آئی لینڈ، کلفٹن، کراچی بلوایا

اور حکم دیا کہ تیرہ ہی ھوائی جہاز بھارت کے حوالے کردو۔ 

محمدایوب کھڑو نے جناح سے عرض کیا کہ 

یہ جہاز سندھ حکومت کی ملکیت ہیں اور 

مہتا کمپنی کا صرف شیئر ہے ۔ 

ہم ان کو ان کے شیئرز کی رقم دينےکو تیار ہیں ۔۔۔

اسی طرح سندھ بینک اور مرچنٹ نیوی میں بھی مہتا کمپنی 

کے شیئرز ہیں ، وہ ان شیئرز کے پیسے لے لیں 

ہم دینے کو تیار ہیں، 

لیکن نہ ہم سارے جہاز ھندستان کو دیں گے اور 

نہ ہی سندھ بینک 

جب کہ ھندستان 

مرچنٹ نیوی اور ان کے پاس ھونے والی سندھ بینک 🏦 میں سے ہمیں کچھ بھی دینے کوتیار نہیں ہیں تو ہم کیوں دیں ؟!

ایوب کھوڑو نے جناح کو لیاقت علی کے سامنے کھل کر کہا کہ؛

*اصل میں آپ نے جس شخص کو اس نئے ملک کی وزارتِ عظمیٰ کا منصب دیا ہے*، 

*وہ اس کے قابل نہیں ہے*۔ 

*اس وزیراعظم کو یقین ہی نہیں ہے کہ یہ ملک*

*دو تین سال سے زیادہ چل سکے گا* ۔ 

*یہ وزیراعظم صاحب نہرو سے بگاڑنا نہیں چاہتاہے*، 

*کیونکہ اس کو واپس اپنے گھر "کرنال" جانا ہے*۔

  یہ کہہ کر سندھ کا وزیر اعلی محمد ایوب کھوڑو واپس چلا گیا۔ 

دوسرے دن وزیراعظم کی بیگم رعنا، جناح کے پاس پہنچی ۔۔۔

جناح اس زمانے میں اکیلے رھتے تھے اور 

رعنا صاحبہ نے جناح سے اپنے شوھر لیاقت علی خان کا مطالبہ منوا لیا۔

جناح نے 

سندھ کے وزیراعلی محمد ایوب کھوڑو کو ڈسمس کرکے *پیر الاھی بخش* جیسے پپیٹ بندے کو 

سندھ کا وزیراعلی مقرر کردیا 

جس نے 

نہ صرف سندھ کے ھوائی اور 

سمندری جہاز ملک دشمن وزیراعظم لیاقت علی خان کی کہنے پر ھندستان کے حوالے کردیئے

لیکن پنجاب میں پہنچے ہوئے پانچ لاکھ پناہگیر بھی سندھ کیلئے قبول کرلیئے۔ 

کیونکہ پنجاب کے وزیراعلی سر خضر حیات نے پناہگیروں کو پنجاب میں رکھنے سے انکارکردیا تھا 

اور 

لیاقت علی خان کو سارے پناہگیر سندھ کے کیپیٹل سٹی کراچی میں چاہیئے تھے۔ 

اور ملک دشمن وزیراعظم لیاقت خان کو اختیار دے دیا کہ 

بھارتی وزیراعظم کے تمام مطالبات پورے کردے۔

تیرہ ھوائی جھاز اور 

سندھ مرچنٹ نیوی کے پچاس جھاز اور سندھ بینک کو پاکستان میں بند کرکے بھارت کے حوالے کردیئے۔

    لیکن وہاں ھندستان میں مھاتما گاندھی صاحب نے بھوک ھڑتال کردی کہ پاکستانی علاقوں سے وصول کیئے گئے ٹیکس کی رقم کا پاکستان کو حصہ دو۔

Reference from 

*Sufferings of Sindh*. *MuhammadAyub Khuhro*..

مگر ایک مخلوق ایسی بھی ہے جو کہتی ہے 1947 سے پہلے کراچی کسی اور براعظم مین تھا، یہ اسے اپنے ساتھ لیکر آئے ۔۔۔۔

نہیں تھا کچھ بھی 

اڑتالیس میں جب ان لوگوں نے قدم رنج و احسان فرمایا تو کرانچی کی جگہ ایک گھنا جنگل تھا جس میں خونخوار جانور رہتے تھے پھر انہوں نے ہہوواں سے ہییاں آکر یہ سب انفرا اسٹرکچر بنایا ہے اور یہاں کے لوگوں کو جو کپڑے پہننا اور کھانا بنانا سکھایا تھا ۔۔۔

Ghaffar Bhutto

Popular Posts