Popular Posts

Saturday, February 15, 2025

پاکستان کا وہ وزیراعظم جودودھ فروش تھا

 


"پاکستان کا وہ وزیراعظم جودودھ فروش تھااوردودھ فروش سے وزیر اعظم بنا ؟" رُلا دینے والی داستان۔

 

20ستمبر1916ء کو لاہور کے ایک نواحی گاؤں میں ایک بچہ پیدا ہوا‘ چاربہن بھائیوں میں یہ سب سے چھوٹاتھا‘ پوراگاؤں ان پڑھ مگر اسے پڑھنے کا جنون تھا‘اس کے گاؤں میں کوئی سکول نہ تھالہٰذا یہ ڈیڑھ میل دور دوسرے گاؤں پڑھنے کےلئےجاتا۔


گھر سے سکول تک کا سفر پیدل طے کرتا۔چھٹی جماعت پاس کرنے کے بعد وہ 8میل دور دوسرے گاؤں میں تعلیم حاصل کرنے جاتا۔اس نے مڈل کا امتحان امتیازی نمبروں سے پاس کیا اور وظیفہ حاصل کیا۔مزید تعلیم حاصل کرنے لاہورآیا اوریہاں اس نے سنٹرل ماڈل سکول میں(جوکہ اس وقت کا نمبر 1سکول تھا) داخلہ لے لیا‘اس کا گاؤں شہر سے13کلومیٹر دور تھا‘ غریب ہونے کی وجہ اسے اپنی تعلیم جاری رکھنا مشکل تھی مگر اس نے مشکل حالات کے سامنے ہتھیار نہ پھینکے بلکہ ان حالات کے مقابلہ کرنے کی ٹھانی۔اس نے تہیہ کیا کہ وہ گاؤں سے دودھ لے کرشہر میں بیچے گا اور حاصل ہونے والی آمدنی سے اپنی تعلیم جاری رکھے گا چنانچہ وہ صبح منہ اندھیرے اذان سے پہلے اٹھتامختلف گھروں سے دودھ اکٹھا کرتا‘ڈرم کو ریڑھے پر لاد کر شہر پہنچتا‘ شہر میں وہ نواب مظفر قزلباش کی حویلی اور کچھ دکانداروں کو دودھ فروخت کرتا اس کام سے فارغ ہوکرمسجد میں جا کر کپڑے بدلتا اور بھاگم بھاگ سکول پہنچتا۔ کالج کے زمانہ تک وہ اسی طرح دودھ بیچتا اور اپنی تعلیم حاصل کرتا رہا‘ اس نے غربت کے باوجود کبھی دودھ میں پانی نہیں ملایا۔بچپن میں اس کے پاس سکول کے جوتے نہ تھے‘ سکول کے لئے بوٹ بہت ضروری تھے‘ جیسے تیسے کر کے اس نے کچھ پیسے جمع کر کے اپنے لیے جوتے خریدے‘ اب مسئلہ یہ تھا کہ اگر وہ گاؤں میں بھی جوتے پہنتا تو وہ جلدی گھِس جاتے چنانچہ وہ گاؤں سے والد کی دیسی جوتی پہن کر آتا اور شہر میں جہاں دودھ کا برتن رکھتا وہاں اپنے بوٹ کپڑے میں لپیٹ کر رکھ دیتااور اپنے سکول کے جوتے پہن کے سکول چلا جاتا۔


والد سارا دن اور بیٹا ساری رات ننگے پاؤں پھرتا‘ 1935ء میں اس نے میٹرک میں نمایاں پوزیشن حاصل کی اور پھر اسلامیہ کالج ریلوے روڈ لاہور میں داخلہ لیا‘ اب وہ اپنے تعلیمی اخراجات پورے کرنے کے لئے گاؤں سے ریڑھی میں دودھ لاتا اور شہر میں فروخت کر دیتا ‘اس کام میں کبھی اس نے عار محسوس نہ کیا‘ فرسٹ ائیر میں اس کے پاس کوٹ نہ تھااور کلاس میں کوٹ پہننا لازمی تھا چنانچہ اسے کلا س سے نکال کر غیر حاضری لگا دی جاتی‘ اس معاملے کا علم اساتذہ کو ہوا تو انہوں نے اس ذہین طالبعلم کی مدد کی‘ نوجوان کو پڑھنے کا بہت شوق تھا‘ 1939ء میں اس نے بی اے آنر کیا‘ یہ اپنے علاقہ میں واحد گریجویٹ تھا‘


یہ نوجوان اس دوران جان چکا تھا کہ دنیا میں کوئی بھی کام آسانی سے سرانجام نہیں دیا جا سکتا‘ کامیابیوں اور بہتریں کامیابیوں کے لیے ان تھک محنت اور تگ و دو لازمی عنصر ہے۔ معاشی دباؤ کے تحت بی اے کے بعد اس نے باٹا پور کمپنی میں کلرک کی نوکری کر لی چونکہ اس کا مقصد اور گول لاء یعنی قانون پڑھنا تھا لہٰذا کچھ عرصہ بعد کلرکی چھوڑ کر قانون کی تعلیم حاصل کرنے لگا اور 1946ء میں ایل ایل بی کا امتحان پاس کر لیا۔1950ء سے باقاعدہ پریکٹس شروع کر دی‘ اس پر خدمت خلق اور آگے بڑھنے کا بھوت سوار تھا‘ اس نے لوگوں کی مدد سے اپنے علاقے میں کئی تعلیمی ادارے قائم کیے‘اس جذبہ کے تحت 1965ء میں مغربی پاکستان اسمبلی کا الیکشن لڑا اور کامیاب ہوا‘


پیپلزپارٹی کے روٹی‘ کپڑا اور مکان کے نعرے سے متاثر ہو کر اس میں شامل ہو گیا۔ 1970ء میں پیپلزپارٹی کے ٹکٹ پر ایم این اے منتخب ہوا اور نواب مظفر قزلباش کے بھائی کو جن کے گھر یہ دودھ بیچتا کرتا تھا‘ شکست دی۔1971ء میں دوالفقار علی بھٹو کی پہلی کابینہ میں وزیر خوراک اور پسماندہ علاقہ جات بنا‘ 1972ء کو پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کا وزیراعلیٰ بنا‘ وزارت اعلیٰ کے دوران اکثر رکشے میں سفر کرتا‘اپنے گورنر مصطفی کھر کے ساتھ نبھانہ ہونے کی وجہ سے استعفیٰ دے کر ایک مثال قائم کی‘ 1973ء میں اقوام متحدہ میں پاکستانی وفد کی قیادت کی‘ 1973ء میں وفاقی وزیر قانون و پارلیمانی امور کا قلمدان سونپا گیا۔ 1976ء میں وفاقی وزیر بلدیات و دیہی مقرر گیا‘ دو دفعہ سپیکر قومی اسمبلی بنا اور 4 سال تک انٹر نیشنل اسلامک یونیورسٹی کا ریکٹر رہا۔


ایک مفلس و قلاش ان پڑھ کسان کا بیٹا جس نے کامیابی کا ایک لمبا اور کٹھن سفر اپنے دودھ بیچنے سے شروع کیا اور آخر کار پاکستان کا وزیراعظم بنا‘یہ پاکستان کا منفرد وزیراعظم تھا جو ساری عمر لاہور میں لکشمی مینشن میں کرائے کیمکان میں رہا‘ جس کے دروازے پر کوئی دربان نہ تھا‘ جس کا جنازہ اسی کرائے کے گھر سے اٹھا‘ جو لوٹ کھسوٹ سے دور رہا‘ جس کی بیوی اس کے وزارت عظمیٰ کے دوران رکشوں اور ویگنوں میں دھکے کھاتی پھرتی ۔ میرے عزیزہم وطنو! ملک معراج خالد تاریخ کی ایک عہد ساز شخصیت تھے‘ آپ 23 جون 2003 ء کو اس دار فانی سے رخصت ہوئے۔ وفات سے قبل پاکستان کے اس عظیم شخص کے پاس نا تو کوئی بینک بیلنس تھا نا کوئی ذاتی جائداد بلکہ بیماری کا علاج تک سرکاری ہسپتال میں ہوتا رہا۔یہ تھے پاکستان کے وہ درویش صفت وزیرِاعظم جنہوں نے کٹھن حالات کا مُقابلہ کرکے ایک اعلیٰ مقام حاصل کیا اور اتنا اعلیٰ منصب ملنے کے باوجود کرپشن اور لوٹ مار سے اپنا دامن بچائے رکھا۔۔ کریم اللّہ ملک معراج خالد مرحوم کے درجات بلند فرمائے اور وطنِ عزیز کو ایسے ہی مُخلص حکمران عطاء فرمائے۔۔آمین

Friday, February 14, 2025

Calculator

 


اس کیلکولیٹر پر موجود ان خاص بٹنوں کے استعمال اور فوائد کو تفصیل سے سمجھاتے ہیں:


1. GT (Grand Total) بٹن


یہ بٹن ان تمام نتائج (totals) کو جمع کرنے کے لیے استعمال ہوتا ہے جو آپ نے کیلکولیٹر پر کیے ہوں۔ مثال کے طور پر، اگر آپ نے کئی الگ الگ حسابات کیے اور ان سب کا مجموعہ ایک ساتھ دیکھنا چاہتے ہیں، تو GT بٹن دبانے سے تمام حسابات کا گرینڈ ٹوٹل نظر آئے گا۔


2. M+ (Memory Plus) بٹن


یہ بٹن کسی بھی نمبر کو میموری میں جمع (add) کرنے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔

استعمال: اگر آپ نے "50" لکھا اور پھر M+ دبایا، تو یہ نمبر کیلکولیٹر کی میموری میں محفوظ ہو جائے گا۔ اگر آپ بعد میں "30" لکھ کر دوبارہ M+ دبائیں، تو اب میموری میں "80" محفوظ ہوگا (50+30=80)۔


3. M- (Memory Minus) بٹن


یہ بٹن میموری میں موجود نمبر میں سے کوئی بھی نیا نمبر منفی (subtract) کرنے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔

استعمال: اگر میموری میں پہلے سے "80" موجود ہے اور آپ "20" لکھ کر M- دبائیں تو میموری میں "60" باقی رہ جائے گا (80-20=60)۔


4. MRC (Memory Recall & Clear) بٹن


یہ بٹن دو کام کرتا ہے:


پہلی بار دبانے سے میموری میں محفوظ کردہ نمبر دکھاتا ہے (Recall)۔


دوبارہ دبانے سے میموری صاف کر دیتا ہے (Clear)۔


5. +/- (Plus Minus) بٹن


یہ بٹن کسی بھی نمبر کی علامت (sign) کو تبدیل کرنے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔

استعمال: اگر آپ نے "25" لکھا ہے اور +/- دبائیں، تو یہ "-25" میں بدل جائے گا، اور دوبارہ دبانے سے پھر "+25" ہو جائے گا۔


6. MU (Mark-Up) بٹن


یہ بٹن زیادہ تر بزنس میں منافع (profit margin) نکالنے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔

استعمال: اگر کسی چیز کی قیمت 500 روپے ہے اور آپ اسے 20% منافع کے ساتھ بیچنا چاہتے ہیں تو یوں کریں:


1. 500 لکھیں


2. MU دبائیں


3. 20 لکھ کر % دبائیں


4. کیلکولیٹر خود بخود وہ قیمت دکھائے گا جس پر آپ کو وہ چیز بیچنی ہے 


✔ دکانداروں اور کاروباری حضرات کے لیے MU بٹن بہت کارآمد ہے۔

✔ M+, M-, اور MRC ان لوگوں کے لیے مفید ہیں جو بڑے حسابات کو میموری میں محفوظ رکھ کر بعد میں استعمال کرنا چاہتے ہیں۔

✔ GT ان لوگوں کے لیے فائدہ مند ہے جو مختلف حسابات کا گرینڈ ٹوٹل نکالنا چاہتے ہیں۔


یہ بٹن کیلکولیٹر کو مزید طاقتور اور کارآمد بناتے ہیں، خاص طور پر کاروباری حضرات اور طلبہ کے لیے۔

Wednesday, February 12, 2025

کوؤں کی حیرت انگیز ذہانت – ایک سائنسی تحقیق

 


ہم اکثر سمجھتے ہیں کہ سب سے زیادہ ذہین جاندار وہ ہوتے ہیں جو ہمارے قریب ترین رشتہ دار ہیں، جیسے کہ بندر اور دوسرے پرائمیٹس۔ یہ جانور اوزار استعمال کر سکتے ہیں، اپنی پہچان آئینے میں کر سکتے ہیں، اور پیچیدہ مسائل حل کر سکتے ہیں۔ اسی طرح، کچھ سمندری جاندار جیسے کہ اورکا وہیل بھی اپنی منفرد زبان اور شکار کرنے کی حکمت عملیوں کی وجہ سے انتہائی ذہین تصور کیے جاتے ہیں۔

لیکن حیران کن طور پر، کوّے (crows) بھی اُن چند جانداروں میں شمار کیے جاتے ہیں جن کی ذہانت ناقابل یقین حد تک بلند ہوتی ہے۔ سائنسی تحقیقات سے پتہ چلا ہے کہ کوّے اوزار استعمال کر سکتے ہیں، پیچیدہ مسائل حل کر سکتے ہیں، اور یہاں تک کہ انسانوں کو پہچان سکتے ہیں اور ان کے رویے کے مطابق ردِعمل بھی دے سکتے ہیں۔ حیران کن بات یہ ہے کہ ان کی ذہانت کسی پانچ سے سات سال کے بچے کے برابر مانی جاتی ہے۔

ایک مشہور سائنسی تجربے میں نیو کیلیڈونین کوّوں (New Caledonian Crows) کو پانی سے بھرے ایک شیشے کے نلکوں کے سامنے رکھا گیا، جہاں ایک مزیدار خوراک پانی کی سطح پر تیر رہی تھی، مگر ان کی چونچ تک نہیں پہنچ رہی تھی۔ کوّوں کو دو مختلف نلکوں دیے گئے، ایک میں پانی تھا اور دوسرے میں ریت۔ حیران کن طور پر، کوّوں نے پتھر پانی والے نلکے میں ڈالے، تاکہ پانی کی سطح بلند ہو اور وہ خوراک حاصل کر سکیں، جبکہ انہوں نے ریت والے نلکے کو نظر انداز کر دیا۔

ایک اور تجربے میں، انہیں مختلف قسم کے وزنی اور ہلکے اوزار دیے گئے۔ کوّوں نے فوری طور پر وہ اوزار چُنے جو پانی میں ڈوب سکتے تھے، تاکہ پانی کی سطح جلدی بلند ہو اور خوراک تک پہنچا جا سکے۔ یہ مہارت ایک پانچ سے سات سالہ بچے کی سوچنے کی صلاحیت کے برابر سمجھی جاتی ہے۔

صرف اوزار استعمال کرنا ہی نہیں بلکہ کوّے خود اوزار بھی بنا سکتے ہیں! تجربات سے ثابت ہوا ہے کہ جب انہیں چھوٹے ٹکڑوں سے لمبے اوزار بنانے کی ضرورت پیش آئی تو وہ دو یا تین مختلف ٹکڑوں کو جوڑ کر ایک طویل اوزار بنا سکے، تاکہ خوراک نکالی جا سکے۔ یہ صلاحیت صرف چند مخصوص بڑی بندر کی اقسام میں دیکھی گئی ہے، جو کہ کوّوں کی غیر معمولی ذہانت کو ثابت کرتی ہے۔

سائنسدانوں نے 2020 میں ایک اور تجربہ کیا، جس میں کوّوں کو تین مختلف قسم کے پہیلی والے بکس دکھائے گئے، جنہیں وہ پہلے سے جانتے تھے۔ انہیں مختلف اوزار دیے گئے اور پانچ منٹ کے لیے الگ کر دیا گیا۔ بعد میں، جب انہیں دوبارہ موقع دیا گیا تو انہوں نے صحیح اوزار کو پہچان کر ساتھ لے جانے کا فیصلہ کیا اور بعد میں انہی اوزاروں کی مدد سے پہیلی والے بکس کو کھول لیا۔ اس سے ثابت ہوا کہ کوّے اپنے ماضی کے تجربات کی بنیاد پر مستقبل کے لیے منصوبہ بندی کر سکتے ہیں۔

ایک اور تجربے میں، انہیں دو چیزوں کے درمیان انتخاب دیا گیا: ایک کم تر خوراک جو فوراً حاصل ہو سکتی ہے، یا ایک اوزار جو زیادہ بہتر خوراک تک پہنچنے میں مدد دے سکتا ہے۔ حیران کن طور پر، کوّوں نے بار بار اوزار کو ترجیح دی اور بعد میں اس کی مدد سے بہتر خوراک حاصل کی۔ یہ وہ مہارت ہے جو صرف پانچ سال سے بڑے بچوں میں دیکھی جاتی ہے۔

عام طور پر، سمجھا جاتا ہے کہ بڑے دماغ والے جانور زیادہ ذہین ہوتے ہیں۔ مگر پرندوں کے دماغ مختلف ہوتے ہیں، اور کوّوں کے دماغ میں خاص قسم کے نیورونز کی کثافت (Neuron Density) پائی جاتی ہے، جو کہ کچھ بندر کی اقسام سے بھی زیادہ ہوتی ہے۔

سائنسدانوں نے 2016 میں مختلف پرندوں اور بندروں کے دماغ میں نیورونز کی تعداد کا موازنہ کیا، اور پایا کہ کوّوں میں نیورونز کی تعداد تقریباً اتنی ہی ہوتی ہے جتنی کہ بڑے بندروں میں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ کوّے نہ صرف سیکھ سکتے ہیں، بلکہ چیزوں کو یاد بھی رکھ سکتے ہیں اور ان سے سیکھے گئے تجربات کو مستقبل میں استعمال کر سکتے ہیں۔

یہ سوال بھی اہم ہے کہ آخر کوّوں کو اتنی ذہانت کی ضرورت ہی کیوں پڑی؟ دیگر پرندے بغیر زیادہ ذہانت کے بھی ترقی کر سکتے ہیں، مگر کوّے خاص طور پر اپنے والدین کے ساتھ زیادہ وقت گزارتے ہیں۔ نیو کیلیڈونین کوّے دو سال تک اپنے والدین کے ساتھ رہتے ہیں اور اس دوران، وہ اوزار بنانے، خوراک حاصل کرنے اور شکار کرنے کے طریقے سیکھتے ہیں۔

بچپن میں حاصل ہونے والی تربیت انہیں نئی مہارتیں سیکھنے میں مدد دیتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ ان کی ذہانت دوسرے پرندوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ کوّے دوسرے جانوروں کے ساتھ سماجی تعلق بھی قائم کر سکتے ہیں۔

ریسرچ کے مطابق، Yellowstone National Park کے قریب، کوّوں کو بھیڑیوں (wolves) کے ساتھ کھیلتے ہوئے دیکھا گیا ہے۔ بعض اوقات، کوّے بھیڑیوں کے بچوں کی دُم کھینچ کر انہیں چھیڑتے ہیں یا ان کے ساتھ رسہ کشی کھیلتے ہیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ کوّے صرف سیکھنے والے نہیں، بلکہ سماجی طور پر بھی فعال ہوتے ہیں۔

کچھ ماہرین کا ماننا ہے کہ کوّے تربیت کے ذریعے ماحول کی صفائی میں بھی مدد دے سکتے ہیں۔ فرانس کے ایک تفریحی پارک میں چھ کوّوں کو کچرا اٹھانے کی تربیت دی گئی، جہاں وہ زمین پر پڑے سگریٹ کے ٹکڑے یا دیگر فضلہ اٹھا کر مخصوص کوڑے دان میں ڈال دیتے ہیں، اور بدلے میں انہیں خوراک دی جاتی ہے۔

کوّے پرندوں کی دنیا کے انتہائی ذہین جانداروں میں شمار کیے جاتے ہیں۔ ان کی یادداشت، منصوبہ بندی، اوزار بنانے اور مسئلے حل کرنے کی صلاحیت حیران کن ہے۔ سائنسی تحقیقات سے ثابت ہو چکا ہے کہ ان کی ذہانت کچھ بڑی بندر کی اقسام سے بھی زیادہ پیچیدہ ہو سکتی ہے۔

سوال یہ ہے کہ کیا مستقبل میں ہم کوّوں کے ساتھ مزید سیکھنے اور کام کرنے کے طریقے تلاش کر سکتے ہیں؟ اگر ان کی ذہانت کو بہتر طریقے سے استعمال کیا جائے، تو یہ ماحول کی صفائی اور دیگر سمارٹ سسٹمز میں بھی مدد دے سکتے ہیں۔ں!

Popular Posts