Popular Posts

Monday, September 5, 2022

پلوٹونیم کا تفصیلی تعارف Platinum



پلوٹونیم ایک ایسی دھات جو یورینیم سے بھی زیادہ خطرناک اور تباہ کن ہے۔اسکو یورینیم کی طرح جوہری ہتھیار(ایٹم بم) میں بطور فیول استعمال کیا جاتا ہے۔اسکو نہ صرف ایٹم بم بلکہ نیوکلیر پاور پلانٹس میں استعمال کر کے اس سے پیدا ہونے والی حرارت سے بجلی بھی پیدا کی جاتی ہے۔


پلوٹونیم(Pu-239) کے ایک کلوگرام سے آٹھ ہزار میگا واٹ بجلی پیدا کی جاسکتی ہے۔پاکستان کے سب سے بڑے ڈیم یعنی تربیلا ڈیم کی کپیسٹی 3478 میگاواٹ ہے۔اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ پلوٹونیم بجلی پیدا کرنے کا کس قدر سستا اور مفید ذریعہ ہے۔


اس سے واضع ہوتا ہے کہ نیوکلیر انرجی کو نہ صرف تباہی بلکہ کارآمد مقاصد جیسے بجلی پیدا کرنے کے لیے بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔لیکن یہ بات بھی سچ ہے کہ پلوٹونیم کا سب سے پہلا استعمال ایٹم بم کیا گیا تھا۔یہ 9 اگست 1945 کی بات ہے جب امریکہ نے پہلی بار پلوٹونیم کو ایٹم بم میں استعمال کیا تھا۔یہ ایٹم بم جسکا نام”Fat Man“ رکھا گیا تھا,امریکہ نے 9 اگست 1945 کو جاپان کے شہر ناگا ساکی پر گرایا تھا۔اس ایٹم بم کی بھیانک تباہی سے 80 ہزار لوگ موقع پر جاں بحق ہوگۓ جبکہ بعد میں مرنے والوں کی تعداد بھی ہزاروں میں جو اسکی تابکاری سے متاثر ہوۓ تھے۔”فیٹ مین“ میں 6.4 کلو گرام پلوٹونیم استعمال کی گٸ تھی جس میں اسکے صرف 20 فیصد حصے کی ہی فشن ہوسکی۔اس سے اندازہ لگاٸیں کہ اگر تمام پلوٹونیم کی فشن ہوجاتی تو اسکے نتاٸج کس قدر تباہ کن ہوتے۔ اس ایٹم بم کی طاقت 21 کلو ٹن TNT تھی جبکہ ہیروشیما پر گراۓ جانے والے ایٹم بم”Little Boy“ میں 64 کلوگرام یورینیم استعمال کی گٸ تھی جسکی طاقت 15 کلو ٹن TNT تھی۔یہاں سے واضع ہوتا ہے کہ پلوٹونیم,یوینیم سے کیوں زیادہ تباہ کن اور ایفیشنٹ ایلیمنٹ ہے۔


پلوٹونیم ایک ایسا ایلیمنٹ ہے جو زمین میں قدرتی طور پر نہیں پایا جاتا۔پلوٹونیم کو خاص قسم کی لیبارٹریز میں مصنوعی طریقہ سے بنایا جاتا ہے۔یورینیم(U-238) پر جب نیوٹرانز پارٹیکلز کی بوچھاڑ کی جاتی ہے تو یہ پلوٹونیم میں تبدیل ہوجاتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ نیوکلیر ری ایکٹرز میں اسے یورینیم کی نیوکلیر فشن(ایسا عمل جس میں یورینیم 235 کے نیوکلیس پر جب نیوٹرانز کی بوچھاڑ کی جاتی ہے تو یہ ٹوٹ جاتا ہے) کے نتیجہ میں waste کے طور پر حاصل کیا جاتا ہے۔ساٸنسدانوں کا خیال ہے اسکی پیداٸش سپر نووا کے وقت ہوٸ تھی۔چونکہ یہ ایک تابکار ایلیمنٹ ہے لہذا وقت گزرنے کے ساتھ یہ ڈیکے ہوتا گیا یہاں تک کہ تمام پلوٹونیم ڈیکے کے پراسس سے گزر کر کسی دوسرے ایلیمنٹس میں تبدیل ہوگیا۔یہی وجہ ہے کہ زمین پر اسکی مقدار نہ ہونے کے برابر ہے یعنی زمین پر قدرتی طور پر موجود نہیں ہے۔


پلوٹونیم ایک ریڈیو ایکٹو ایلیمنٹ ہے۔ریڈیو ایکٹو ایلیمنٹ سے مراد ایسا ایلیمنٹ ہوتا ہے جسکا نیوکلیس سٹیبل نہیں ہوتا اور خود کو سٹیبل کرنے کے لیے اس کے نیوکلیس میں سے خطرناک ریڈی ایشنز(الفا,بیٹا اور گیما) خارج ہوتی ہیں۔اسکے نتیجہ میں ایک ریڈیو ایکٹو ایلیمنٹ وقت گزرنے کے ساتھ کسی دوسرے ایلیمنٹ میں تبدیل ہوجاتا ہے۔یعنی ریڈیو ایکٹو ایلیمنٹ ایک انسٹیبل ایلیمنٹ ہوتا ہے جو وقت گزرنے کے ساتھ ڈیکے کر جاتا ہے یعنی ختم ہوجاتا ہے یعنی کسی دوسرے ایلیمنٹ میں تبدیل ہوجاتا ہے۔اگرچہ یہ پراسس بہت سست ہوتا ہے۔مثال کے طور پر یورینیم(U-235) ایک ریڈیو ایکٹو ایلیمنٹ ہے اور اسکی ہاف لاٸف 7 کروڑ سال ہے۔اسکا مطلب یہ ہے کہ اگر آج سے سات کروڑ سال پہلے ایک کلوگرام یورینیم موجود تھا تو آج اسکا آدھا حصہ باقی ہوگا اور آدھا حصہ کسی دوسرے ایلیمنٹ میں تبدیل ہوچکا ہوگا۔جس ایلیمنٹ کی ہاف لاٸف جتنی کم ہوگی اس میں سے نکلنے والی ریڈی ایشنز کی مقدار اتنی ہی زیادہ ہوگی۔مثال کے طور پر پلوٹونیم کی ہاف لاٸف چوبیس ہزار ہے,جسکا مطلب ہے کہ اگر اب ایک کلوگرام پلوٹونیم(Pu-239) موجود ہے تو 24000 سال کے بعد اسکا آدھا حصہ کسی دوسرے ایلیمنٹ میں تبدیل ہوجاۓ گا۔چونکہ پلوٹونیم(Pu-239) کی ہاف لاٸف یورینیم(U-235) کی نسبت کم ہے لہذا پلوٹونیم زیادہ ریڈیو ایکٹو ہے جسکا مطلب ہے کہ اس میں سے نکلنے والی ریڈی ایشنز کی مقدار یورینیم کے مقابلے میں زیادہ ہے۔


کیا آپ جانتے ہیں کہ پلوٹونیم کی دریافت کو پانچ سال تک پبلش نہیں کیا گیا,بالآخر 1946 میں میں اسکی دریافت کا اعلان کیا گیا۔اسکی وجہ یہ ہے کہ جنگ عظیم دوم کے دوران کٸ دوسرے ممالک جیسے روس,جرمنی اور جاپان بھی ریڈیو ایکٹو ایلیمنٹس پر تجربات کررہے تھے۔اگر اس وقت پلوٹونیم کی دریافت کو راز میں نہ رکھا جاتا تو دوسرے ممالک پلوٹونیم بنانے میں کامیاب ہوجاتے, جس سے امریکہ کو ناقابل معافی نقصان اٹھانا پڑ سکتا تھا۔


پلوٹونیم کو پہلی بار دسمبر 1940 میں یونیورسٹی آف کیلیفورنیا, برکلے میں چار ساٸنسدانوں جن میں گلین سیبورگ، آرتھر واہل، جوزف کینیڈی اور ایڈون میک ملن شامل تھے ,نے بنایا تھا۔انہوں نے جب یورینیم(U-238) پر ڈیوٹیرون(ہاٸیڈروجن کا ایک آٸسوٹوپ یعنی ڈیوٹریم جس میں ایک پروٹان اور ایک نیوٹران پایا جاتا ہے,اگر اس میں سے الیکٹرانز نکال دیے جاٸیں تو حاصل ہونے والے میٹریل کو ڈیوٹیرون کہتے ہیں) کی بمباری کرواٸ تو بالآخر پلوٹونیم میں تبدیل ہوگیا۔


پلوٹنیم کی تیاری کے کٸ مراحل ہیں۔مثلاً جب یورینیم(U-238) کے نیوکلیس پر نیوٹرانز پارٹیکل کی بوچھاڑ کی جاتی ہے تو یہ نیوٹران جذب کر لیتا ہے اور یورینیم-239 میں تبدیل ہوجاتا ہے۔یورینیم-239 ایک بہت غیر مستحکم(Unstable) آٸسوٹوپ ہے جس کا مطلب ہے کہ یہ بہت جلد ڈیکے کر جاتا ہے اور نٸے ایلیمنٹ میں تبدیل ہوجاتا ہے۔یورینیم-239 میں بیٹا ڈیکے ہوتا ہے جس کے نتیجہ میں یہ ایک نٸے ایلیمنٹ نیپٹونیم(Z-93) وجود میں آتا ہے۔بیٹا ڈیکے ایسا پراسس ہوتا ہے جس میں جب نیوٹرانز کسی ایٹم کے نیوکلیس میں داخل ہوتا ہے تو یہ پروٹان میں تبدیل ہوجاتا ہے اور اسکے نتیجہ میں نیوکلیس میں سے ایک پازیٹو الیکٹران یعنی بیٹا پارٹیکل کا اخراج ہوتا ہے,جب ایسا ہوتا ہے تو ایٹم کے نیوکلیس میں ایک پروٹان کا اضافہ ہوجاتا ہے۔جس طرح یورینیم میں بیٹا ڈیکے کا پراسس ہوتا ہے اور چونکہ یورینیم کا اٹامک نمبر 92(جس سے مراد یہ ہے کہ یورینیم کے ہر ایٹم کے نیوکلیس میں 92 پروٹانز پاٸے جاتے ہیں) ہے ,لہذا بیٹا ڈیکے کے نتیجہ میں اسکے نیوکلیس میں مزید ایک پروٹان کا اضافہ ہوجاتا ہے یعنی ایک ایسا ایلیمنٹ وجود میں آتا ہے جس کے نیوکلیس میں 93 پروٹانز موجود ہوتے ہیں اور ہم جانتے ہیں کہ نیپٹونیم ایسا ایلیمنٹ ہے جس کے ایٹمز کے نیوکلیس میں 93 پروٹانز پاۓ جاتے ہیں۔نیپٹونیم بھی ایک بہت ہی غیر مستحکم ایلیمنٹ ہے اور اس میں دوبارہ بیٹا ڈیکے کے پراسس کے نتیجہ میں ایک نیا ایلیمنٹ وجود میں آتا ہے جسکا اٹامک نمبر 94 ہے۔ساٸنسدانوں نے اس ایلیمنٹ کا نام پلوٹو سیارے کے نام پر پلوٹونیم رکھا۔باقی دو ایلیمنٹس یعنی یورینیم اور نیپٹونیم کے نام بھی یورینس اور نیپچون سیاروں کے ناموں پر رکھے گۓ تھے۔


چونکہ نیپٹونیم کی ہاف لاٸف تقریباً دو دن ہوتی ہے۔کسی بھی ریڈیو ایکٹو ایلیمنٹ کی ہاف لاٸف سے مراد وہ عرصہ ہے جس میں اسکے آدھے حصے کو دوسرے ایلیمنٹ میں تبدیل ہونے میں جتنا وقت لگتا ہے۔جس طرح بیان کیا گیا ہے کہ نیپٹونیم کی ہاف لاٸف دو دن ہے,اسکا مطلب یہ ہے کہ اگر سو گرم نیپٹونیم موجود ہو تو دو دن کے بعد اسکا آدھا حصہ رہ جاۓ گا اور آدھا حصہ کسی دوسرے حصے میں تبدیل ہوجاۓ گا۔باقی رہنے والا نیپٹونیم چونکہ اب پچاس گرام ہے سو دو دن گزرنے کے بعد موجود نیپٹونیم(50 گرام) کا آدھا حصہ یعنی پچیس گرام باقی رہ جاۓ گا اور باقی کسی دوسرے تابکار عنصر یعنی ریڈیو ایکٹو ایلیمنٹ میں تبدیل ہوجاۓ گا۔۔یورینیم کے نتیجہ میں بننے والا نیپٹونیم چونکہ بہت کم مقدار میں تھا,لہذا پلوٹونیم کی مکمل طور پر شناخت میں کٸ مہنوں کا وقت لگا۔


پلوٹونیم(Pu-239)پر تحقیق کرنے سے معلوم ہوا کہ یہ یورینیم(U-235) کی طرح ایک fissile میٹریل ہے یعنی اسکو ایٹم بم میں نیوکلیر انرجی پیدا کرنے کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے۔یعنی جب اس پر تھرمل نیوٹرانز کی بوچھاڑ کی جاتی ہے تو اسکا نیوکلیس ٹوٹ جاتا ہے اور اسکے نتیجہ میں بہت زیادہ مقدار میں نیوکلیر انرجی(ہیٹ) خارج ہوتی ہے اور اسکے ساتھ پیدا ہونے والے نیوٹرانز مزید پلوٹونیم ایٹمز کی فشن کرتے ہیں۔اسطرح یہ پراسس جاری رہتا ہے اور سیکنڈ کے ہزاوریں حصے میں بے پناہ انرجی پیدا ہوجاتی ہے۔اس پراسس کو چین ری ایکشن کہتے ہیں۔چین ری ایکشن میں پیدا ہونے والی انرجی کو اگر کنٹرول نہ کیا جاۓ تو یہ ہر طرف تباہی مچادیتی ہے اور ایٹم بم میں بالکل یہی تو ہوتا ہے۔سو اگر ہم کس طرح سے چین ری ایکشن کو کنٹرول کرلیں تو پیدا ہونے والی انرجی کو کٹرول کرسکتے ہیں۔اور اس کنٹرول شدہ انرجی کو اپنے فاٸدے جیسے بجلی پیدا کرنے کے لیے استعمال کرسکتے ہیں۔اس مقصد کے لیے ایک ڈیواٸس استعمال کیا جاتا ہے جسکا کام نیوکلیر فشن کے نتیجہ میں پیدا ہونے والی نیوکلیر انرجی کو کنٹرول کرنا ہے,اس ڈیواٸس کو نیوکلیر ری ایکٹر کہتے ہیں جس میں کٹرول راڈز کا استعمال کیا جاتا ہے۔کٹرول راڈز کو گاڑی کی بریک سے تشبیہ دے سکتے ہیں۔مثلاً جب گاڑی کی رفتار زیادہ ہو تو ناگہانی صورتحال میں گاڑی کی بریک اسکی سپیڈ کو کم کرنے کا کام کرتی ہے یا بالکل روک دیتی ہے۔بالکل اسی طرح کنٹرول راڈز کا کام نیوکلیر فشن کے نتیجہ میں خارج ہونے والے نیوٹرانز کو جذب کرنا ہے تاکہ خارج ہونے والے تمام نیوٹرانز مزید پلوٹونیم کی فشن نہ کرسکیں۔اس طرح کنٹرول راڈز کا استعمال کر کے پیدا ہونے والی نیوکلیر انرجی(ہیٹ) کو کنٹرول کیا جاتا ہے۔اس حرارت کو نیوکلیر ری ایکٹر میں موجود پانی(کولنٹ) کو گرم کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے تاکہ سٹیم بناٸ جاسکے۔پیدا ہونے والی سٹیم سے ٹرباٸن کو گھمایا جاتا ہے اور ٹرباٸن جنریٹر کو گمھاتا ہے اور یوں جنریٹر بجلی پید کرتا ہے جسے ہم اپنے گھروں میں استعمال کرتے ہیں۔تھرمل پاور پلانٹس اور نیوکلیر پاور پلانٹس میں فرق صرف اتنا ہے کہ نیوکلیر پاور پلانٹس میں نیوکلیر انرجی کو استعمال کر کے سٹیم بناٸ جاتی ہے جکہ تھرمل پاور پلانٹس میں فوسل فیولز جیسے کوٸلہ کو جلا کر اس سے پیدا ہونے والی حرارت سے سٹیم بناٸ جاتی ہے۔


پلوٹونیم کے بیس کے قریب آٸسوٹوپس پاٸے جاتے ہیں جو کہ سب کے سب ریڈیو ایکٹو ہیں۔ان سب میں سب سے زیادہ استعمال ہونے والے آٸسوٹوپس میں Pu-239 اور پلوٹونیم-238 ہیں۔پلوٹونیم 239 نیوکلیر ہتھیار اور نیوکلیر پاور پلانٹس میں استعمال کیا جاتا ہے جبکہ پلوٹونیم 238 کو خلاٸ تحقیق میں ہیٹ انرجی کے سورس کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔پلوٹونیم 238,پلوٹونیم 239 سے زیادہ ریڈیو ایکٹو ہے جس سے مراد یہ ہے کہ اسمیں سے خارج ہونے والی ریڈی ایشنز پلوٹونیم 239 کی نسبت زیادہ ہیں۔یہ اتنا گرم ہوتا ہے کہ اسکوچھونےسے آپ کو گرمی کا احساس ہوگا۔


پلوٹونیم(Pu-238) کو خلاٸ تحقیق میں ایٸرکرافٹس میں ہیٹ انرجی کے سورس کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔یہ ایسے خلاٸ جہاز ہوتے ہیں جن میں ایک خاص قسم کا انجن لگا ہوتا ہے جسے ریڈیو آٸسوٹوپ تھرموالیکٹرک جنریٹر(RTGs) کہتے ہیں۔RTGs تابکار عناصر(ریڈیو ایکٹو ایلیمنٹس) بالخصوص پلوٹونیم کی تابکاری سے پیدا ہونے والی ہیٹ کو استعمال کر کے بجلی پیدا کرتے ہیں۔عام طور پر زیادہ تر سپیس کرافٹس سولر پینل استعمال کرتے ہیں۔تاہم اگر کسی سپیس کرافٹ کو سولر سسٹم سے بہت دور کسی خلاٸ مشن پر بھیجنا مقصود ہو جہاں سورج کی روشنی بہت کم پہچتی ہو تو ایسی جگہ پر سولر پینل استعمال کرنے کے قابل نہیں ہوتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ ایسی جگہوں پر RTGs کا استعمال ہی بہترین آپشن ہے۔

آر ٹی جی ایس کا استعمال امریکی اپولو قمری مشن اور unmanned تحقیقات جیسے کیسینی ہیوگینز کے دوران کیا گیا تھا۔


پلوٹونیم کم مقدار میں ہینڈل کرنے کے لیے درحقیقت محفوظ ہے۔ تاہم، پلوٹونیم کو نگلنے یا اسکی دھول میں سانس لینے سے بہت زیادہ خطرہ لاحق ہوتا ہے۔ اس لیے جو لوگ اس ایلیمنٹ کے ارد گرد کام کرتے ہیں وہ حفاظتی دستانے اور سوٹ پہنتے ہیں۔


پلوٹونیم کا فی الحال کوئی طبی استعمال نہیں ہے۔ 1970 کی دہائی کے اوائل سے لے کر 1980 کی دہائی کے وسط تک، پلوٹونیم پیس میکر(پیس میکر ایک چھوٹا سا آلہ ہے جو دل کی دھڑکن کو کنٹرول کرنے میں مدد کرنے کے لیے سینے میں لگایا جاتا ہے۔ یہ دل کو بہت آہستہ دھڑکنے سے روکنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے) کو پاور دینے کے لیے استعمال کیا جاتا تھا، لیکن اب اس مقصد کے لیے استعمال نہیں کیا جاتا ہے۔ 2003 تک، پچاس سے ایک سو کے درمیان ایسے تھے جن کے پاس اب بھی پلوٹونیم پیس میکر موجود تھے۔ پیس میکر رکھنے والے شخص کی موت ہو جاتی تو ، پیس میکر کو ہٹا کر لاس الاموس، نیو میکسیکو میں واقع لاس الاموس نیشنل لیبارٹری بھیج دیا جاتا تاکہ بقیہ پلوٹونیم برآمد کیا جا سکے۔


پلوٹونیم ایک الفا امیٹر ہے یعنی یہ الفا ریڈی ایشنز خارج کرتا ہے,جو ہماری صحت کے لیے اتنی زیادہ نقصاندہ نہیں ہیں کیونکہ ہماری جلد ان ریڈی ایشنز کو روک سکتی ہے۔تاہم اگر پلوٹونیم زیادہ مقدار میں ہو پھر حفاظتی تدابیر انتہاٸ ضروری ہیں۔بہت سی تحقیقات سے واضع ہوتا ہے کہ اگر پلونوٹینم ساٸنس کے ذریعے جسم کے اندر چلی جاٸ یا نگل لی جاۓ تو اس صورت میں یہ جسم کے لیے انتہاٸ نقصاندہ ہے۔پلوٹونیم کا زیادہ عرصہ تک جسم میں رہنے سے پھیپھڑوں اور ہڈیوں کے کینسر(لیکیومیا)کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔البتہ یہ بھی سچ ہے کہ ابھی تک پلوٹونیم کی تابکاری کی وجہ سے کسی بھی انسان کی موت نہیں ہوٸ۔اسکی وجہ شاید یہ ہوسکتی ہے کہ یہ دھات ہر جگہ نہیں پاٸ جاتی بلکہ نیوکلیر ری ایکٹرز میں as waste اور پارٹیکلز ایکسلریٹرز میں پیدا کی جاتی ہے ,جہاں کام کرنے والے لوگ بہت زیادہ محتاط اور پروٹیکشن کا خاص خیال رکھتے ہیں۔

Amazon


#ایمزون کا #جنگل_دنیا کے 9 #ممالک تک پھیلا ہوا ہے، جس میں #سرفہرست #برازیل ہے۔

اس کا کل #رقبہ_55_لاکھ_مربع_کلومیٹر پر محیط ہے، جبکہ #پاکستان کا #رقبہ_7_لاکھ_95_ہزار_مربع_کلومیٹر ہے....

یہ جنگل #ساڑھے_پانچ_کروڑ_سال_پرانا ہے....

ایمزون ایک #یونانی_لفظ ہے جسکا مطلب #لڑاکو_عورت ہے

#زمین کی 20 #فیصد_آکسیجن صرف ایمزون کے #درخت اور #پودے پیدا کرتے ہیں....

دنیا کے 40 #فیصد_جانور ، #چرند، #پرند، #حشرات_الارض ایمزون میں پائے جاتے ہیں....

یہاں 400 سے زائد #جنگلی_قبائل آباد ہیں، انکی آبادی کا #تخمینہ_45_لاکھ کے قریب بتایا گیا ہے۔ یہ لوگ #اکیسیوں_صدی میں بھی #جنگلی_سٹائل میں زندگی گذاررہے ہیں۔۔۔

اسکے کچھ علاقے اتنے #گھنے ہیں کہ وہاں #سورج کی #روشنی نہیں پہنچ سکتی اور دن میں بھی رات کا #سماں ہوتا ہے۔۔۔

یہاں ایسے #زیریلے_حشرات_الارض بھی پائے جاتے ہیں کہ اگر کسی انسان کو کاٹ لیں تو وہ چند سیکنڈ میں مرجائے

ایمزون کا دریا پانی کے حساب سے دنیا کا سب سے بڑا دریا ہے, اسکی #لمبائ_7ہزار_کلومیٹر ہے،

دریائے ایمزون میں #مچھلیوں_کی_30_ہزار_اقسام پائ جاتی ہیں۔۔۔

ایمزون کے جنگلات میں 60 فیصد جاندار ایسے ہیں جو ابھی تک بے نام ہیں

یہاں کی مکڑیاں اتنی بڑی اور طاقتور ہوتی ہیں کہ پرندوں تک کو دبوچ لیتی ہیں

یہاں پھلوں کی 30 ہزار اقسام پائ جاتی ہیں

مہم جو اور ماہر حیاتیات ابھی تک اس جنگل کے محض 10 فیصد حصے تک ہی جاسکے ہیں

اگر آپ ایمزون کے گھنے جنگلات مین ہوں اور موسلا دھار بارش شرع ہوجائے تو تقریبا 12 منٹ تک آپ تک بارش کا پانی نہیں پہنچے گا.

carbohydratesکاربوہائیڈریٹ کیا ہیں؟


کاربوہائیڈریٹ وہ شوگر ہے جو ہم۔اپنی خوراک سے استعمال کرتے ہیں۔


 جب ہم کھانا کھاتے ہیں تو ہمارا جسم کھانے کو مختلف غذائی اجزاء میں توڑ دیتا ہے۔ 


یہ غذائی اجزاء کاربوہائیڈریٹ، پروٹین اور چکنائی ہیں۔


 جسم توانائی کے لیے کاربوہائیڈریٹ کو استعمال کرتا ہے۔


بہت زیادہ کاربوہائیڈریٹ کے ساتھ کھانے میں شامل ہیں:


● روٹی، پاستا، چاول، اور اناج


●پھل اور نشاستہ دار سبزیاں


●دودھ اور دیگر ڈیری کھانے


● اضافی چینی کے ساتھ کھانے (جیسے بہت سی کوکیز اور کیک)


کچھ کھانوں میں کاربوہائڈریٹ کے ساتھ فائبر بھی موجود ہوتا ہے ۔  


📌فائبر کیا ہے ؟


یہ ایک غذائی ریشہ ہے  اور کاربوہائیڈریٹ  کی ایک قسم ہے جو

 اصل میں ہضم نہیں ہوتی ۔


فائبر خون میں شوگر کو نہیں بڑھاتا۔


 بہت زیادہ فائبر والی غذائیں انسان کے خون میں شوگر کو کنٹرول کرنے میں مدد کر سکتی ہیں۔ 


اگر کسی کھانے میں 5 گرام (g) سے زیادہ فائبر ہو، اس خوراک کے لیے کم انسولین کی ضرورت ہوتی ہے ۔


👈بہت سی غذائیں، جیسے تازہ پھل اور سبزیاں اناج خاص کر جو کا آٹا فائبر کی بہترین مثال ہے۔


📌ہمیں کاربوہائیڈریٹ کیسے لینے چاہیے؟


● اپنے کاربوہائیڈریٹ کو روزانہ 3 بڑے کھانے کے بجائے 4 سے 6 چھوٹے کھانوں پر پھیلائیں۔

ہر کھانے میں ایک ہی تعداد میں کاربوہائیڈریٹ کھائیں۔ مثال کہ طور پر ہر کھانے میں ایک کاربوہائیڈریٹ کی سروینگ لازمی رکھیں۔


● اپنا کھانا ہر روز ایک ہی وقت میں کھائیں۔


● وقت سے پہلے اپنے کھانے کی منصوبہ بندی کریں۔


●کھانے سے پہلے اور کھانے کے 1 گھنٹہ بعد اپنا بلڈ شوگر چیک کریں۔


 اس سے آپ کو یہ جاننے میں مدد مل سکتی ہے کہ بعض غذائیں آپ کے بلڈ شوگر کو کیسے متاثر کرتی ہیں۔


 آپ گھر پر گلوکومیٹر سے اپنی شوگر لازمی چیک کریں۔


اپنے کھانے اور بلڈ شوگر کی سطح کا ریکارڈ رکھیں۔ 


ماہر غذائیت سے اپنا مکمل چارٹ بنوائیں۔۔


Sunday, September 4, 2022

روڈیم Rodium

 


پیشکش: سائنسی معلومات😎
تحریر محمد شاہ

45)روڈیم:دنیا کی سب سے قیمتی دھات

🌟تعارف

یہ تو ہم سبھی جانتے ہیں کہ سونا ,چاندی,پلاٹینم پلاڈیم دنیا کی قیمتیں دھاتیں ہیں,لیکن کیا آپ جانتے ہیں کہ دنیا میں ان سے بھی قیمتی ایک دھات پاٸ جاتی ہے, جی ہاں میں بات کررہا ہوں روڈیم کے بارے میں جو دنیا کی سب سے قیمتی دھات ہے۔اس وقت(2021)روڈیم کے ایک اونس کی قیمت 14000 ڈالر ہے۔اس کے مقابلے میں سونے کے ایک اونس کی قیمت 1783 ڈالر,پلاٹینم کے ایک اونس کی قیمت 959 ڈالر اور پلاڈیم کے ایک اونس کی قیمت 1866 ڈالر ہے۔ایک اونس 28.35 گرام کے برابر ہوتا ہے۔

روڈیم  سخت,چمکدار(Lustre) اور سلوری رنگ کی ایک خوبصورت دھات ہے جسکا تعلق پلاٹینم گروپ میٹلز سے ہے۔پلاٹینم گروپ میٹلز(PGMs) میں پلاٹینم,پلاڈیم,اوسمیم,روتھینیم,روڈیم اور اریڈیم شامل ہیں۔یہ بہت ہی نایاب دھاتیں ہیں زیادہ تر زمین کی پرت میں ایک ساتھ پاٸ جاتی ہیں۔ان دھاتوں کو انرٹ میٹلز کہا جاتا ہے کیونکہ یہ دوسرے ایلیمنٹس کے ساتھ باآسانی ری ایکٹ نہیں کرتی۔یہ بہت زیادہ زنگ مزاحم(Corrosion resistive) ہوتی ہیں جسکا مطلب ہے کہ ان پر ہوا(آکسیجن) کا اثر نہیں پڑتا۔یہی وجہ ہے کہ یہ دوسری میٹلز جیسے لوہے اور چاندی وغیرہ کی طرح ہوا میں داغدار(turnish) نہیں ہوتی ہیں۔

🌟دریافت(Discovery)

روڈیم کی دریافت 1803 میں ایک  ساٸنسدان ولیم وولسٹن نے کی تھی۔وہ ایک دوسرے ساٸنسدان Smithson Tennant کے ساتھ مل کر پلاٹینم کی ایک کچ دھات(یعنی ایسا منرل جس میں پلاٹینم زیادہ مقدار میں پاٸ جاتی ہو اور تجارتی پیمانے اس سے پلاٹینم نکالنا منافع بخش ہو) سے پلاٹینم کی تیاری میں مصروف تھے,تاکہ اسے تجارتی پیمانے پر فروخت کیا جاسکے۔اس مقصد کے لیے سب سے پہلے انہوں نے  پلاٹینم کی کچ دھات کو ایکوا ریجیا(ہاٸیڈروکلورک ایسڈ اور ناٸٹرک ایسڈ کا مکسچر) میں تحلیل کیا۔انہوں نے نوٹس کیا کہ تمام پلاٹینم سلوشن میں تحلیل نہیں ہوا بلکہ اسکا کچھ حصہ(جو کہ سیاہ رنگ کا تھا) باقی رہ گیا ہے۔ٹیننٹ نے اس باقیات کی چھان بین کی اور اس سے اس نے آخر کار دو ایلیمنٹس یعنی اسمیم اور اریڈیم کو الگ تھلگ کردیا۔
وولسٹن نے جب تحلیل شدہ پلاٹینم پر مزید تحقیق کی تو اسمیں دو ایلیمنٹس موجود تھے یعنی پلاڈیم اور پلاٹینم جنکو سلوشن سے کسی طریقہ سے الگ کرلیا گیا۔جسکے بعد اسے سلوشن میں  گہرے سرخ  رنگ کا ایک  خوبصورت کرسٹل ملا۔یہ کرسٹل دراصل سوڈیم روڈیم کلوراٸیڈ(Na3RhCl6) تھا۔آخرکار اس میں سے روڈیم کو الگ کرلیا گیا۔وولسٹن  گہرے سرخ پاڈر سے روڈیم نکالنے کے لیے اسکا ہاٸیڈروجن گیس کے ملایا یعنی کیمکل ری ایکشن کروایا۔

🌟طبعی خصوصیات(Physical Propeties)

روڈیم ایک سلوری چکمدار دھات ہے۔یہ بجلی اور ہیٹ کی اچھی کنڈکٹر ہے۔اس کے میلٹنگ اور بواٸلنگ پواٸنٹس بالترتیب 1970 ڈگری سیلسیس 3727 ڈگری سیلسیس ہیں۔اس کا اٹامک نمبر 45 جبکہ ریلٹو ماس نمبر 102.906 ہے۔اسکی کثافت پانی سے بارہ گنا زیادہ ہے یعنی یہ پانی سے بارہ گنا بھاری ہے۔اسکا کیمکل سمبل Rh ہے۔

🌟کیمیاٸ خصوصیات(Chemical Properties)

روڈیم کو عموماً ایک ان ایکٹو دھات سمجھا جاتا ہے جسکا مطلب ہے کہ یہ باآسانی دوسرے ایلیمنٹس کے ساتھ کیمیاٸ تعامل نہیں کرتی۔عام درجہ حرارت پر اس پر ہوا(آکسیجن) کا اثر نہیں ہوتا یعنی یہ آکسیجن کے ساتھ کیمیاٸ تعامل نہیں کرتی۔البتہ جب اسکا درجہ حرارت 600 ڈگری سیلسیس تک ہوتا ہے تو یہ آکسیجن کے ساتھ کیمیاٸ تعامل کرتی ہے۔جس طرح لوہا وقت گزرنے ساتھ اپنی چمک دمک کھودیتا ہے کیونکہ آکسیجن اس کے ساتھ باآسانی کیمیاٸ تعامل کرسکتی ہے۔اس کے نتیجہ میں لوہا کی سطح پر آٸرن آکساٸیڈ کی تہہ بن جاتی ہے اور یوں لوہا داغدار(turnish) ہوجاتا ہے۔روڈیم کے ساتھ آکسجن چونکہ بآسانی کمکل ری ایکشن نہیں کرسکتی لہذا اسکی چمک دمک وقت گزرنے کے باوجود ماند نہیں پڑتی۔

روڈیم زیادہ تر ایسڈز حتی کہ ایکوا ریجیا میں کے ساتھ بھی ری ایکٹ نہیں کرتی۔تاہم یہ بہت گرم اور کنسٹریٹڈ سلفیورک ایسڈ کے ساتھ ری ایکٹ کرسکتی ہیں۔

🌟بہتات(Occurrence in Nature)

روڈیم کا شمار انتہاٸ نایاب(rare) دھاتوں میں ہوتا ہے۔نایاب دھاتوں سے مراد ایسی دھاتیں ہیں جو زمین پر بہت کم مقدار میں پاٸ جاتی ہیں۔اسکے کمپاٶنڈ عموماً اپنے گروپ کی دوسری دھاتوں کے ساتھ زمین کی پرت میں پاۓ جاتے ہیں۔روڈیم کی اہم کچ دھاتیں روڈائٹ,sperrylite اور iridosmine  ہیں۔

سب سے زیادہ روڈیم پیدا کرنے والے ممالک میں جنوبی افریقہ سرفہرست ہے۔جنوبی افریقہ سالانہ روڈیم کی عالمی سپلائی کا 85% سے زیادہ پیدا کرتا ہے۔

🌟تیاری

روڈیم ایک نایاب دھات ہے اور اسکی دنیا میں کوٸ کان بھی موجود نہیں ہے۔چونکہ روڈیم اپنے گروپ کی دوسری دھاتوں کی کچ دھاتوں معمولی میں پاٸ جاتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ روڈیم کو دوسری دھاتوں جیسے پلاٹینم وغیرہ  کی تیاری کے دوران باۓ پراڈکٹ کے طور پر حاصل کیا جاتا ہے۔روڈیم کی عالمی سالانہ پیداوار محض 30 ٹن ہے۔

روڈیم کی پیداوار کا انحصار پلاٹینم کی قیمت پر ہے۔کیونکہ روڈیم پلوٹینم کی کچ دھات میں معمولی مقدار میں پاٸ جاتی ہے اور اسے پلاٹینم کی ریفاٸننگ کے دوران باۓ پراڈکٹ کے طور پر حاصل کیا جاتا ہے۔سو اسکی پیداوار اس وقت ہی زیادہ ہوگی جب پلاٹینم کی پیداوار زیادہ ہوگی اور پلاٹینم کی پیداوار اس وقت ہی زیادہ ہوگی جب اسکی قیمت زیادہ ہوگی۔اسکا مطلب یہ ہے کہ اگر روڈیم کی قیمت زیادہ بھی ہوجاۓ تو اسکی پیداوار میں اضافہ نہیں ہوگا۔یہ اسی صورت میں ممکن ہے اگر پلوٹینم کی زیادہ کان کنی کی جاۓ۔😏

🌟استعمالات

دوسری دھاتوں(ٹرانزیشن میٹلز) کی طرح روڈیم کو بھی زیادہ تر الوۓ حالت میں استعمال کیا جاتا ہے۔الوۓ سے مراد دو یا دو سے زیادہ دھاتوں کو آپس میں پگھلا بننے والا میٹریل ہے۔مثال کے طور پر اسکو پلاٹینم میں تھوڑی بہت مقدار میں ملایا جاتا ہے۔ایسا کرنے سے پلاٹینم کی سختی پہلے سے بڑھ جاتی ہے۔اسکی وجہ یہ ہے کہ پلاٹینم کی نسبت روڈیم زیادہ سخت دھات ہے۔روڈیم کے پلاٹینم اور پلاڈیم کے ساتھ الوۓ کو  فرنس کوائلز، ہوائی جہاز کے چنگاری پلگ کے الیکٹروڈز اور لیبارٹری کروسیبلز جیسی چیزیں بنانے کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔

روڈیم کا سب سے زیادہ(85 فیصد) استعمال کیٹالیٹک کنورٹر میں کیا جاتا ہے۔عام طور پر آٹو موبائلز جیسا کہ ٹرک اور گاڑیاں وغیرہ کے ہیٹ انجن یا پاور انجن سسٹم میں جب فیول جلتا ہے تو اس کے نتیجہ میں انرجی(ہیٹ) پیدا ہوتی ہے اور ساتھ ہائیژروکاربنز جیسا کہ کاربن ڈائ آکسائیڈ اور پانی(بخارات) پیدا ہوتے ہیں.چونکہ استعمال ہونے والا فیول جیسا کہ گیسولین میں ہائیڈروکاربنز کے علاوہ اور بھی کئ طرح کے کیمکلز ہوتے ہیں جو کہ زہریلی گیسز جیسا کہ کاربن مونو آکسائیڈ اور نائیٹروجن آکسائیڈ وغیرہ بھی خارج ہوتے ہیں.اس لیے اگر ہم چاہتے ہیں کہ ان زہریلی اور مضر گیسز کو ہوا میں نہ دیا جائے یعنی یہ ان کو سلنسر  یعنی ایگزاسٹ سسٹم میں سے گزرنے سے پہلے کم نقصان دہ گیسز جیسا کہ کاربن ڈائ آکسائیڈ وغیرہ میں تبدیل کردیا جائے تو اس کے لیے آٹو موبائلز کے ایگزاسٹ سسٹم میں ایک ڈیوائس لگایا جاتا ہے جسکا کام ان زہریلی یا پلوٹینٹ گیسز کو کم نقصان دہ گیسز میں تبدیل کرنا ہوتا ہے,اس ڈیوائس کو کیٹالیٹک کنورٹر کہا جاتا ہے.اس میں عام طور پر جو کیٹالسٹ استعمال ہوتا ہے وہ زیادہ تر پلاٹینم گروپ میٹلز(PGMs) میں سے ہوتا ہے.یعنی وہ پلاٹینم,پلاڈیم اور روڈیم کا ہوتا ہے.کیٹالسٹ درصل ایک ایسا عنصر ہوتا ہے جو کیمکل ری ایکشن کی رفتار کو کو تیز کرتا ہے مگر یہ خود کیمکل ری ایکشن میں حصہ نہیں لیتا.یہ ایسے ہی کہ ایک کوچ جو اتھلیٹس کو زیادہ تیز دوڑنے کا حکم تو دے رہا ہے مگر وہ خود اپنی جگہ پر قائم ہے.روڈیم کو بطور کیٹالسٹ استعمال استعمال کرنے کی دو بنیادی وجہ یہ ہیں:1)بہت زیادہ درجہ حرارت پر اپنی حالت برقرار رکھنا یعنی اسکا میلٹنگ پوائنٹ بہت زیادہ ہوتا ہے کیونکہ عام طور پر گاڑیوں میں جوفیول جلتا ہے وہاں ٹمپریچر بہت زیادہ ہوتا ہے جو کہ لگ بھگ 500 سے600 ڈگری سینٹی گریڈ ہوتا ہے اس لیے کیٹالسٹ اس عنصر کو لیا جاتا ہے جو بہت زیادہ درجہ حرارت پر بھی اپنی حالت برقرار رکھ سکے,2)یہت ہی زیادہ نان ایکٹو ہوتا ہے یعنی دوسرے عناصر اور مرکبات کے ساتھ بہت ہی کم کیمائ تعامل کرتا ہے مثلا یہ آکسجن کے ساتھ کیمیائ تعامل نہیں کرتا یہی وجہ ہے کہ اس کو زنگ نہیں لگتا.چونکہ کیٹالیٹک کنورٹر میں آکسیڈیشن ریڈکشن ری ایکشنز ہوتے ہیں اور اگر کوئ عنصر ان کے ساتھ کیمیائ تعامل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو تو پھر میٹل اپنی اصلی حالت بھلا کیسے برقرار رکھ سکتا ہے. پلاٹیینم گروپ کے جتنے بھی اس گروپ کے میٹلز ہیں چونکہ وہ بہت ہی کم ری ایکٹو ہوتے ہیں اس لیے زیادہ تر کیمکل ری ایکشنز میں ان کو  بطور کیٹالسٹ ترجیح دی جاتی ہے.ان کو نوبل میٹلز بھی کہا جاتا ہے کیونکہ ایک طرح سے یہ بالکل انرٹ ہوتی ہیں۔

انڈسٹری میں روڈیم کو زیادہ تر کیٹالسٹ کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔مثلاً  ناٸٹرک ایسڈ,ایسیٹک ایسڈ اور ہاٸیڈروجینیشن ری ایکشن میں اسے بطور کیٹالسٹ استعمال کیا جاتا ہے۔کیٹالسٹ سے مراد ایس شۓ ہے جو کیمکل ری ایکشن کی رفتار کو تیز  کرتی ہے مگر خود اس عمل میں حصہ نہیں لیتی۔مثال کے طور پر ہمارے جسم میں موجود اینزاٸمز کیٹالںسٹ کے طور پر کام کرتے ہیں جو کہ ہمارے جسم میں ہونے والے باٸیوکیمکل ری ایکشن کی رفتار کو بڑھاتے ہیں۔

روڈیم ایک اچھا فلیکٹر ہے یعنی روشنی کو اچھی طرح رفلیکٹ کرسکتا ہے۔اس بنا پر اس کو شیشے کی کی کوٹنگ(تہہ چڑھانا) میں استعمال کیا جاتا ہے۔روڈیم کو اسکی خوبصورتی,چمکد دمک,سختی اور زنگ مزاحم جیسی صلاحیتوں کی بنا پر جیولری میں بھی استعمال کیا جاتا ہے۔چاندی یا پلاٹینم کی طرح نظر آنے والے سستے زیورات پر اکثر روڈیم پلیٹنگ(روڈیم کی تہہ چڑھانا) کی جاتی ہے۔روڈیم کو عموماً سفید سونا بھی کہا جاتا ہے۔روڈیم جیولری کا سامان وقت گزرے کے ساتھ بھی اپنی چمک دمک برقرار رکھتا ہے کیونکہ اس پر پانی (نمی) اور ہوا(آکسیجن) کا اثر نہیں ہوتا ہے۔روڈیم زیورات کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ یہ ہاٸیپوالجینک ہوتے ہیں یعنی یہ سونے یا چاندی کی طرح جلد کی الرجی کا باعث نہیں بنتے۔

روڈیم کو زنگ مزاحم اور الیکٹریکل کنڈکٹیویٹی کی بنا پر الیکٹریکل شعبہ میں الیکٹریکل کنٹیکٹ میٹریل کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے,کیونکہ اسکی resistance بہت کم ہوتی ہے یعنی یہ اپنے میں سے بجلی کو باآسانی گزرنے کی اجازت دیتا ہے۔

صحت پر اثرات

خالص روڈیم کے انسانی جسم پر منفی اور مثبت اثرات کے حوالے سے ابھی تک کوٸ رپورٹ سامنے نہیں آٸ۔تاہم  پاوڈ حالت میں روڈیم جلد اور آنکھوں وغیرہ کی جلن کا باعث بن سکتا ہے۔روڈیم کے مرکبات(compounds) انتہاٸ خطرناک اور کارسینوجنک(کینسر پیدا کرنے والے) کے طور پر تصور کیا جاتا ہے۔

تحریر:محمد شاہ رخ

Uranium یورینیم کا تفصیلی تعارف

 


جس طرح لوہا,کاپر,ایلومینیم,کاپر اور ٹنگسٹن وغیرہ جیسی دھاتوں کو زمین سے نکالا جاتا ہے,اسی طرح یورینیم بھی ایک دھات ہے جسکو زمین سے نکالا جاتا ہے۔لیکن یہ دوسری دھاتوں کے برعکس ایک بہت خطرناک دھات ہے۔یہ اتنی زیادہ بھیانک اور تباہ کن ہے کہ اس کے ایک کلوگرام سے اتنی زیادہ انرجی پیدا کی جاسکتی ہے جس سے ایک بہت بڑے شہر کو چند لمحوں میں تباہ کیا جاسکتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ اسکو جوہری ہتھیار یعنی ایٹم بم میں فیول کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔اسکو نہ صرف ایٹم بم بلکہ نیوکلیر پاور پلانٹس میں استعمال کر کے اس سے پیدا ہونے والی حرارت سے بجلی پیدا کی جاتی ہے۔یورینیم میں وہ کونسی ایسی خوبی ہے جسکی وجہ سے اسکو ایٹم بم میں استعمال کیا جاتا ہے اور اس کے چھوٹے سے ذرے سے بے انتہا انرجی کیسے حاصل کی جاتی ہے۔اسکے علاوہ یورینیم کی خصوصیات,اسکی تاریخ,یورینیم کی انرچمنٹ سے کیا مراد ہے اور یورینیم سب سے زیادہ کہاں پاٸ جاتی ہے؟آج  ہم ان تمام سوالات کے جوابات دینے کی کوشش کریں گے۔۔۔


یورینیم ایک چاندی کی طرح  چمکدار دھات ہے جو  بھاری اور  بجلی کا ناقص کنڈکٹر(poor conductor) ہے۔اس کا میلٹنگ پواٸنٹ 1132 سیلسیس ہے جبکہ بواٸلنگ پواٸنٹ 4131 سیلسیس ہے۔اسکا اٹامک نمبر 92 جبکہ اٹامک ماس 238 ہے۔


یورینیم کی دریافت ایک جرمن کیمیا دان مارٹن کلاپروتھ (1743-1817) نے کی۔1789  میں، کلاپروتھ ایک عام اور معروف کچ دھات کا مطالعہ کر رہا تھا جسے pitchblende کہتے ہیں۔ اس وقت، سائنس دانوں کا خیال تھا کہ پچ بلینڈ لوہے اور زنک پر مشتمل ایک منرل(ore) ہے۔تاہم اپنی تحقیق کے دوران، Klaproth نے پایا کہ اس منرل کے ایک حصہ  میں لوہے یا زنک جیسی خصوصیات نہیں پاٸ جاتیں۔اس نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ ضرور اس میں ایک نیا ایلیمنٹ  ہے اور اس نے اس  ایلیمنٹ کا نام یورینیم تجویز کیا ہے۔ یہ نام یورینس کے اعزاز میں دیا گیا تھا، ایک ایسا سیارہ جو صرف چند سال پہلے 1781 میں دریافت ہوا تھا۔تاہم نصف صدی کے بعد یعنی 1841 میں  ایک فرانسیس ساٸنسدان نے پہلی مرتبہ خالص یورینیم تیار کی۔


یوینیم قدرتی طور پر پاٸ جانے والی واحد ایسی دھات ہے جس کو ایٹم بم میں بطور استعمال کیا جاتا ہے۔لیکن ایٹم بم میں استعمال کرنے سے پہلے اسے ایک پراسس سے گزرنا پڑتا ہے جسے یورینیم انرچمنٹ یا عمل افزودگی  کہتے ہیں۔یورینیم کی انرچمنٹ جاننے سے پہلے ہمیں تھوڑا بہت یورینیم کے آٸسوٹوپس کے بارے میں جاننا ہوگا۔


یوینیم کے قدرتی طور پر تین آٸسوٹوپس پاۓ جاتے ہیں اسکا مطلب یہ ہے کہ  یورینیم جو قدرتی طور پر زمین سے نکالا جاتا ہے اس میں یورینیم  238 ننانوے فیصد,یورینیم 235  زیرو اشاریہ سات(0.7) فیصد اور یورینیم 234 زیرو اشایہ زیرو زیرو زیرو پانچ(0.005)فیصد موجود ہوگا۔اسکو ایک مثال سے یوں سمجھا جاسکتا ہے  قدرتی یوینیم اگر سو گرام ہے تو اس میں یوینیم 238 نناوے گرام,یورینیم 235 تو 0.7 گرام اور یورینیم 234, 0.006 گرام موجود ہوگا۔


لیکن یورینیم 235 قدرتی طور پر پایا جانے والا واحد ایسا آٸسوٹوپ ہے جسکو ایٹم بم میں بطور فیول استعمال کیا جاتا ہے۔چونکہ یہ قدرتی یورینیم میں بہت کم مقدار میں پایا جاتا ہے لہذا اسکو ایٹم بم میں استعمال کرنے سے پہلے اسکی مقدار بڑھا جاتی ہے اور اس پراسس کو یورینیم انرچمنٹ کہتے ہیں۔ایٹم بم میں یورینیم کی انرچمنٹ نوے فیصد تک بڑھاٸ جاتی ہے۔


نوے فیصد مقدار بڑھانے کا مطلب یہ ہے کہ ایٹم بم میں استعمال ہونے والی یورینیم میں نوے فیصد یورینیم  235  ہوتی ہے جبکہ یورینیم 238 کی مقدار دس فیصد ہوتی ہے۔اسی طرح نیو کلیر پاور پلانٹس میں اسکی مقدار دو سے پانچ فیصد تک بڑھاٸ جاتی ہے۔یورینیم انرچمنٹ ایک بہت مشکل,پیچیدہ اور مہنگا پراسس ہوتا ہے۔یورییم انرچمنٹ کے حوالے سے سخت قوانین ہیں۔NPT معاٸدہ کے تحت غیر جوہری ممالک پر یورینیم نارچمنٹ 20 سے زیادہ بڑھانے کی پابندی ہے۔کیونکہ اگر کوٸ ملک ایسا کرے گا تو اسکا مطلب ہوگا کہ وہ اسکو جوہری ہتھیار بنانے میں استعمال کررہا ہے


یورینیم کو 235 کو ایٹم بم اور نیوکلیر پاور پلانٹس میں اسلیے استعمال کیا جاتا ہے کیونکہ یہ ایک fissile میٹیریل ہے, جسکا مطلب یہ ہے کہ اسکی ڈاٸریکٹ نیوکلیر فشن کی جاسکتی ہے۔نیوکلیر فشن ایک ایسا پراسس ہوتا ہے جس میں جب  ایک بڑے نیوکلیس پر نیوٹرانز پارٹیکل کی بوچھاڑ کی جاتی ہے تو یہ  دو چھوٹے نیوکلیاٸ میں ٹوٹ جاتا ہے جس کے نتیجہ میں بہت زیادہ مقدار میں انرجی پیدا ہوتی ہے۔اس پراسس کو 1938 میں دو ساٸنسدانوں اوٹانز اور فرٹز نے دریافت کیا تھا۔جب انہوں نے یورینیم کے آٸسوٹوپ 235 پر تھرمل نیوٹرانز کی بوچھاڑ کی تو یورینیم کا نیوکلیس ٹوٹ گیا جس کے نتیجہ میں دو نٸے ایلیمنٹس وجود میں آۓ اور اسکے ساتھ بہت زیادہ مقدار میں انرجی خارج ہوٸ۔


 اس کے برعکس یورینیم 238 ایک fertile میٹیریل ہے جسکا مطلب ہے کہ اسکو ڈاٸریکٹ نیوکلیر انرجی پیدا کرنے کے لیے استعمال نہیں کیا جاسکتا بلکہ اسکے لیے اسکو ایک اور ایلیمنٹ پلوٹونیم-239 میں تبدیل کیا جاتا ہے۔اس وقت تین آٸسوٹوپس fissile ہیں جسکا مطلب ہے کہ انکو ایٹم بم اور نیوکلیر ری ایکٹرز میں نیوکلیر انرجی پیدا کرنے کے لیے یعنی انکو as فیول استعمال کیا جاتا ہے جن میں U-233,U-235 اور Pu-239 ہیں۔ یورینیم 235 قدرتی طور پر پایا جانے والا واحد ایسا fisile میٹیریل ہے جسکو نیوکلیر انرجی پیدا کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔جبکہ یورینیم 233 اور پلوٹونیم 239 کو آرٹیفیشکلی طور پر بنایا جاتا ہے۔


یورینیم کی نیوکلیر فشن یعنی جب یورینیم 235 کے نیوکلیس کو سپلٹ کیا جاتا ہے تو کتنی زیادہ انرجی پیدا ہوتی ہے  اسکا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا  کہ امریکہ نے 6 اگست 1945 کو جو ایٹم بم جاپان کے شہر ہیروشیما پر گرایا تھا اس میں 64 کلوگرام یورینیم 235 استعمال کی گٸ تھی جس میں صرف ایک کلوگرام یورینیم 235 کی ہی فشن ہوسکی۔اس ایٹم بم کی تباٸ سے 70 ہزار سے زاٸد لوگ جل کر راکھ ہوگۓ,پچاس ہزار سے زاٸد عمارتیں زمین بوس ہوگٸ اور اسکے اثر سے پیدا ہونے والی ریڈی ایشنز نے کٸ ہزار لوگوں کو متاثر کیا۔آپ گمان کریں کہ اگر تمام یورینیم 235 کی فشن ہوجاتی تو اسکے نتاٸج کتنے بھیانک ہونگ تھے اور شاید پوری دنیا اسکی لپیٹ میں آسکتی تھی۔


 1896 میں ہنیری بیکرل نے ریڈیو ایکٹویٹی دریافت کی۔یہ ایک ایسا فینامنا ہوتا ہے جس میں کسی ایلیمنٹ کے نیوکلیس میں سے  ریڈی ایشنز خارج ہوتی ہے۔ان ریڈی ایشنز میں  الفا,بیٹا اور گیما ریڈی ایشنز شامل ہیں۔۔یہ پراسس جن ایلیمنٹس میں وقوع پذیر ہوتا ہے,ان ایلمنٹس کو ریڈیو ایکٹو ایلیمنٹس کہا جاتا ہے۔یوینیم پہلا ایسا ایلیمنٹ ہے جسکی ریڈیو ایکٹویٹی کے بارے میں ہمیں علم ہوا۔ہوتا کچھ یوں ہے کہ ہینری بیکرل اسکی ایک کچھ دھات یعنی پچ پلینڈ کو کاغذ میں لپٹ کر دراز میں رکھ دیتا ہے۔ساتھ ایک فوٹو گرافک پلیٹ بھی پڑی ہوتی ہے۔فوٹو گرافک پلیٹ کی خصوصیات یہ ہے کہ جب اس پر ریڈی ایشنز پڑتیں ہیں تو اس پر دھبے بن جاتے ہیں۔ہینری بیکرل نے فوٹوگرافک پلیٹ پر دھبوں کے نشانات دیکھے۔جب اس پر مزید تحقیق  ہوٸ تو   معلوم ہوا کہ  فوٹوگرافک پر ایکسپوز ہونے والی ریڈی ایشنز پچ پلینڈ میں موجود یورینیم سے نکل رہی ہیں اور یہ پراسس خود بخود ہورہا ہے۔اس پراسس کو  میری کیوری نے ریڈیو ایکٹویٹی کا نام دیا۔اس پراسس میں ایک ریڈیو ایکٹویٹو ایلیمنٹ دوسرے ایلیمنٹ میں تبدیل ہوجاتا ہے۔ 


اگرچہ ریڈیو ایکٹویٹی کی دریافت سے ہمیں یہ معلوم ہوچکا تھا کہ کچھ ایلیمنٹس ایسے بھی ہیں جو ہمیشہ کے لیے اپنا وجود برقرار نہیں رکھ سکتے ان ایلیمنٹس کو ریڈیو ایکٹو ایلیمنٹس کا نام دیا گیا۔یہ ایسے ایلیمنٹس ہوتے ہیں جن کا نیوکلیس سٹیبل نہیں ہوتا اور ان کے نیوکلیس میں سے خوبخود ریڈی ایشنز یعنی الفا,بیٹا یا گیما ریڈی ایشنز خارج ہوتی ہیں۔مثال کے طور پر یورینیم ایک ریڈیو ایکٹو ایلیمنٹ ہے جسکا مطلب یہ ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ یہ کسی دوسرے ایلیمنٹ میں تبدیل ہوجاۓ گا۔مثال کے طور پر یورینیم(U-238) کی ہاف لاٸف ساڑھے چار ارب ہے(زمین کی عمر بھی تقریباً اتنی ہی ہے)۔اسکا مطب یہ ہے کہ اگر آج سے ساڑھے چار ارب سال پہلے ایک گرام یورینیم موجود تھا تو آج اسکا  آدھا رہ جاۓ گا اور اسکا آدھا حصہ کسی دوسرے عنصر یعنی ایلیمنٹ یا آٸسوٹوپ میں تبدیل ہوچکا ہوگا۔


یورینیم کو نہ صرف ایٹم بم بلکہ اسکو نیوکلیر ری ایکٹرز میں استعمال کر کے اس سے بجلی پیدا کی جاتی ہے۔نیوکلیر ری ایکٹر دراصل ایسا ڈیواٸس ہے جو نیوکلیر پاور پلانٹ کا ہارٹ ہوتا ہے, جس میں یورینیم کی فشن ایٹم بم کے برعکس کنٹرول طریقہ سے کی جاتی ہے جس کے نتیجہ میں پیدا ہونے والی حرارت سے بجلی پیدا کی جاتی ہے۔اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے  صرف ایک ٹن  یورینیئم سے چار کروڑ کلو واٹ آور بجلی پیدا کی جا سکتی ہے۔ اتنی ہی بجلی پیدا کرنے کے لیے سولہ ہزار ٹن کوئلہ یا 80 ہزار بیرل تیل جلانا پڑتا ہے۔اس وقت پوری دنیا میں 440 نیوکلیر ری ایکٹر اپریٹٹڈ ہیں جو دنیا کی دس فیصد بجلی پیدا کررہے ہیں۔نیوکلیر ری ایکٹر بجلی پیدا کرنے کا سستا اور اور قابل تجدید ذرٸع ہے۔سطح زمین اور سمندر میں اتنا قدرتی یورینیئم موجود ہے جو دنیا بھر کی بجلی کی ضرورت کو کئی صدیوں تک پورا کر سکتا ہے۔


ورلڈ نیوکلیر ایسوسی ایشن کی 2018 کی رپوٹ کے مطابق کازقستان دنیا کی سب سے زیادہ یورینیم پیدا کرنے والاملک ہے۔اسکے بعد بالترتیب کینیڈا,آسٹریلیا,,نیمیبیا   ناٸیجر اور روس  شامل ہیں۔پوری دنیا کی 87 فیصد یورنیینم صرف یہ چھ ممالک پیدا کرتے ہیں۔اگرچہ یورنیم کی پیداوار کے لحاظ سے آسٹریلیا تیسرا بڑا ملک ہے جو پوری دنیا کی 12 فیصد یورینیم پیدا کرتا ہے تاہم  یوینیم کے سب سے زیادہ ذخاٸر اسٹریلیا میں پاۓ جاتے ہیں۔پوری دنیا میں پاٸ جانے والی یورینیم کے ایک تہاٸ ذخاٸر اسٹریلیا میں پاۓ جاتے ہیں۔اسکے بعد کازقستان,کینیڈا,نیمیبیا اور  ناٸجر میں یورینیم کے وسیع ذخاٸر موجود ہیں۔


سطح زمین کی قدرتی چٹانوں میں بہتات کے اعتبار سے یورینیئم قدرتی عناصر میں اڑتالیسویں عدد پر ہے۔ یعنی یہ اتنا بھی نایاب نہیں ہے جتنا سمجھا جاتا ہے۔ بہتات کے اعتبار سے یہ سونے کے مقابلے میں 500 گنا، چاندی سے 40 گنا، پارے سے 25 گنا اور قلع سے دگنا زیادہ ملتا ہے۔


یورینیئم جست (زنک)، بورون، کحل اور کیڈمیم سے زیادہ وافر ہے۔ سمندر کے ایک قلعئ پانی میں تقریباً 3 ملی گرام یورینیئم موجود ہوتا ہے۔ زیادہ تر چٹانوں میں ایک قلع میں دو سے چار گرام یورینیئم موجود ہوتا ہے۔ یورینیئم دنیا میں اتنا ہی ملتا ہے جتنا کہ زرنیخ، قلع، ٹنگسٹن اور مولیبڈینیم۔ اگر یورینیئم کی قیمت کچھ زیادہ بڑھ جائے تو سمندر کے پانی سے یورینیئم نکالنا سودمند ہو سکتا ہے۔


یورینیم ایک ہزار سے زاٸد مختلف دھاتوں میں پایا جاتا ہے۔تاہم یوراناٸٹ,کارنوٹاٸٹ,ٹورباناٸٹ اور آٹوناٸٹ میں یہ زیادہ مقدار میں پایا جاتا ہے۔


یورینیم کی کھدائی اسی طرح کی جاتی ہے جس طرح لوہے کی ہوتی ہے۔کچ دھات کو زمین سے نکالا جاتا ہے، اسکے بعد نائٹرک ایسڈ(HNO3) سے اسکو ملایا جاتاہے یعنی اسکا کیمیکل ری ایکشن ہوتا ہے۔اسکے نتیجہ میں یورینیل نائٹریٹ (UO2(NO3)2) بنایا جاتا ہے۔اسکے بعد یورنیم کے اس کمپاٶنڈ کو  یورینیم ڈائی آکسائیڈ (UO2) میں تبدیل ہوتا ہے۔ آخر میں، یورنیم ڈاٸ آکساٸیڈ کو ہائیڈروجن گیس کے ساتھ کیمیکل ری ایکشن کروا کر خالص یورینیم دھات میں تبدیل کیا جاتا ہے۔


تحریر:محمد شاہ رخ

اخروٹ-- WALNUT

 

تحریر وتخلیص:- یاسین 😎


﴿#نوٹ_ اگر کسی کو دیر کا اوریجنل اخروٹ چاہے تو انباکس کرے کیونکہ اج کل توڑے سستے مل رہے ہے"﴾


اپنے موبائل کو توڑنے ہی والا تھا لیکن جب یہ تصاویر لیے طمع ہونے لگا ، بتائے کیسے لگی!


 آپ کو بتاتا چلو کہ ہمارے ہاں بہت  اخروٹ ہوچکے  ہیں لیکن ایک بھی نہیں کھایا ،کیونکہ ہاتھ گندے ہوجاتے ہے اس سے جو رنگ ہاتھوں پر اتا ہے مہینے تک رہتا ہے جھوٹ نہیں بھول رہا بلکل بھی نہیں کھایا ۔۔۔😁

 گروپ میں جو  ممبرز دیر کا رہنے والا ہو وہ اچھی طرح جانتا ہے کہ اخروٹ ہم کیسے حاصلِ کرتے ہے ،یار سچ نکلوا گے چوری سے ۔۔😜


سکول کے وقت ہمیں مار بہت پڑتی اور روزانہ ٹیچرز حضرات بس یہی کہا کرتے کہ صبح جب سکول اتے ہو تو دو دانے اخروٹ کھایا کرے نالائق!

اس وقت چونکہ لڑکپن کی وجہ سے ھم دوسروں کی اخروٹ چپکے سے اٹاتے اور بہت زیادہ کھاتے اگر اس دماغ تیز ہوتا تو اج شاید آئنسٹائن مجھ سے اگے نا ہوتے۔۔۔🙄

 چلو یہ اپ سب جانتے ہیں لیکن میں اپکو اسکی اصلیت سے واقف کراتا ہوں

 لیکن یہ انفارمیشن کسی بی بی سی نیوز یا ایک انسان کی سے نہیں بلکہ مختلف سائنس ریسرچز سے لیے گئے  ہے ۔۔


#اجزاء 

جتنے بھی Nuts ہے جسمیں اخروٹ، بادام اور مونگ پلی شامل ہے اسمیںBiotins پاے جاتے ہیں اگر اسکی کیمسٹری کی بات کرے

👉Biotin

👈اسکا جنرل فارمولا C10H16N2O3N ہوتا ہے

👈اسکو وٹامنH بھی کہا جاتا ہے

👈عام طور وٹامنB7,B8 بھی کہتے پے جوکہ پانی میں حل پذیر ہوتے ہیں

👈یہ میٹابولک پراسیس میں زیادہ تر شامل ہوتے ہے

👈 جانوروں اور پودوں میں یہ زیادہ تر چربی، کاربوہائیڈریٹ اور امائینو ایسڈ کو utilizing کا کام کرتے ہیں

اسکے ساتھ 👇

👉 Alpha alganic acid 

👉L-largine

👉ellagic acid

👉Cholorogenic acid

👉 Calcium, posphorous


#نیوٹریشن


اخروٹ میں فائبرز،  وٹامن(Bs and E)، مینرل(میگنیشیم اور آئرن) وغیرہ پائے جاتے ہیں جوکہ جسم کیلئے انتہائی اہم ہوتے ہیں۔۔


#فوائد

👈 بالوں کیلئے

اج کل ہر دوسرے لڑکی /لڑکے کو یہ مسلہ ارہا ہے جس سے اسکی شادیاں بھی لیٹ ہونے جارہے ہے لیکن

جیسا کہ اپ نے Biotinکے بارے میں تفصیل سے سے پڑھا جو کہ وٹامن ہوتے ہے اگر 

اپ کے بال گررہے ہے تو Biotin اسکی گروتھ کا ذمہ دار ہوتا ہے لھذا  جسکے بال گررپے ہے یا اسکی گروتھ نہیں ہورہا تو شوق سے کھانا شروع کرے ۔


👈اینٹی آکسیڈنٹس

اگر روزانہ کی بنیاد پر اپ تین سے چار اخروٹ کھانے لگو گے تو یقیناً اپ کو بہت سے بیماریوں کا خدشہ کم ہونے لگے گا کیونکہ اخروٹ میں Cholorogenic acid پایا جاتا ہے جو کہ اینٹی آکسیڈنٹس ہوتے ہے یہ جسم سے بیماریوں والی خطرناک کیمیکل یا جراثیم کو ماردیتا ہے

لیکن cholorogenic acid کلورین نہیں ہوتا۔۔ 

 


👈 وٹامن فائبر وغیرہ

امیریکن فوڈ ڈرگ آرگنائزیشن کی سٹڈی کے مطابق 

"دنیا کی سب سے طاقتور خوراک اخروٹ ہے" 

جسمیں پروٹین،فائبر اور وٹامن شامل ہیں۔


👈 انرجی کا سورس

تقریباً سو گرام اخروٹ کھانے سے اپ کو اتنی بڑی مقدار میں انرجی ملتی ہیں


Calories: 654; Fat: 64.4 gm.; Carbohydrates: 15.6 gm.; Protein: 15.0 gm.; Vitamin A: 30 I.U.; Vitamin B: Thiamine 0.48 mg.; Niacin: 1.2 mg.; Vitamin C: 3 mg.; Vitamin E: 2.62 mg; Calcium: 83 mg.; Iron: 2.1 mg.; Phosphorus: 380 mg.; and Potassium: 225 mg. 


 #بیماریوں_سے _حفاظت_یا_خاتمہ


👈دل کیلئے

چونکہ دل انسانی جسم کا بنیادی عضو ہوتا ہے جس سے جسم کو خون فراہم ہوتا ہے

اخروٹ میں  Alpha linoleic acid ہوتا ہے جوکہ فٹی ایسڈ کی ایک  قسم ہوتی ہے 

ریسرچ سے یہ ثابت ہوا ہے یہ اخروٹ کھانے سے خون کی نالیاں کھول جاتی ہے اسکے ساتھ نالیوں سے گندگی ختم ہو جاتی ہے اور خون کی رفتار تیز ہونے لگتا ہے اسکے کھانے سے بے ترتیب دھڑکن بھی ختم ہوجاتی ہے

ہاں!  اسمیی L-largine بھی پایا جاتا ہے جسکو دل کا دوست بھی کہتے ہے جس  سے دل کی درد میں کمی اتی ہے 


👈ہارٹ اٹیک 

ایک ریسرچ کے مطابق ہفتے میں ایک ounce کی مقدار اخروٹ کھانے سے ہارٹ اٹیک کم ہونے لگتا ہے ایک اور سٹڈی کے مطابق ہفتے میں چار بار  (ایک اونس) اخروٹ کھانے سے تقریباً 48 فیصد ہارٹ اٹیک کی  چانس کم ہوتا ہے


👈خراب کولیسٹرول کا خاتمہ

ڈاکٹر جوون جو کہ  لینڈا یونیورسٹی اف کیلیفورنیا کے پروفیسر ہے اسکے  مطابق دو مہینوں تک ریگولر کے بنیاد پر اخروٹ کھانے سے خراب کولیسٹرول ختم ہوجاتا ہے 

اسکے ساتھ Pennsylvania سائنس دانوں کی ٹیم کی ریسرچ سے یہ بات سامنے ائ ہے کہ اخروٹ کھانے سے C-Reactive protein (جس سے arteries میں زخم بنتا ہے)  ختم ہوجاتے ہے


👈ہائ اینٹی آکسیڈنٹ

اسمیں موجود آکسیڈنٹس جسم سے خراب مالیکول(جس سے سلیز کو تباہ ہوتے ہے) کو ختم کرتے ہیں


👈 دماغ کی بہتری

پرانے زمانے سے اسکو دماغ کی خوراک کہا جاتا ہے چونکہ اسکے دونوں اطراف دماغ کی طرح ہوتا ہے تصویر میں خود دیکھیں۔

 کیونکہ اسمیں وٹامن بی 6 ہوتا ہے جسکو pyridoxine بھی کہتے ہے جو کہ دماغ اور ریڈ بلڈ سیلز کیلے اہم ہوتی ہے 


 👈 یاداشت کی کمزوری

 عمر گزرنے کے ساتھ ساتھ یاداشت کی کمزروی تو پکی ہے اسکی بنیادی وجہ دماغ میں بننے والے کئ کیمیکل ہوتے ہے لیکن لیبارٹری کی ٹیسٹنگ سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ  اخروٹ کھانے سے اس کیمیکل (جو یاداشت کمزور کرتا ہے) کی extraction ہوتی ہے جس سے یہ خطرہ کم ہونے لگتا  ہے


👈شوگر کا مسلہ

بہت سے لوگ یہ خیال کرتے ہے کہ اخروٹ کھانے سے وزن بڑھنے لگتا ہے لیکن ایسا بلکل نہیں بلکہ اسمیں کم کاربوہائیڈریٹ اور بہت زیادہ نیوٹریشن ہوتے ہے جوکہ شوگر کے مریض کیلئے اہم ثابت ہوئی ہے


👈چھاتی کا کینسر 

فری ریڈیکل کی وجہ سے کینسر سیلز کی گروتھ ہوتی ہے

کینسر محافظ پروگرام "ڈاکٹر گرے سٹونر" اوہیو یونیورسٹی کے مطابق اخروٹ کھانے سے چھاتی کی کینسر ختم ہو جاتی ہے کیونکہ اخروٹ میں موجود ellagic acid کی وجہ سے یہ فری ریڈیکل کمزور پڑھ جاتے ہے جس سے کینسر کا خطرہ کم ہوجاتا ہے


#اخروٹ_کیسے_استعمال_کی_جاے؟

یو ایس کیمسٹری کے پروفیسر joe Vinson کے مطابق دن میں سات اخروٹ ہفتے میں دو تین بار  نمک، شوگر اور  تیل وغیرہ کے بغیر کھانا چاہے

اگر اخروٹ سستا نا ہو تو اوپر مقدار سے کم لیا جاسکتا ہے 


#احتیاط

اگر اپکو اسکے کھانے سے الرجی ہے تو اپ اسکو کم یا نا   کھائیں کیونکہ بعض لوگوں کو اس سے خارش وغیرہ ہوجاتے ہے 

اگر اپکو گردوں کا مسلہ ہو تو تب بھی اپ زیادہ نا کھائیں کیونکہ اسمیں موجود Oxalate کی وجہ سے پتھری بن سکتی ہے

لیکن ڈرے مت چھوٹی مقدار یا جو اوپر بیان ہوا ہے اس پر عمل کرنے سے یہ اپکو اچھی صحت مل  سکتا ہے 

تو کھاتے رہے دعائیں دیتے رہے۔۔۔

Popular Posts