Popular Posts

Friday, May 21, 2021

ہبل اسپیس ٹیلی سکوپ


                     



آج سے 400 سال پہلے کائنات کا مشاہدہ عام آنکھ سے کیا جاتا تھا. آسمان پر ملکی وے گلیکسی کی سیجیٹیریس آرم ایک سفید بادل دکھنے کے علاوہ کتنے ستارے چھپائے ہوئے ہے، کوئی نہیں جانتا تھا. رنگین آسمان صرف ستاروں سے آراستہ دکھتا تھا. ہم اپنی گلیکسی اور آسمان پر دکھنے والے ستاروں کو ہی کل کائنات سمجھتے تھے.

پھر 1610 میں گلیلیو نے پہلی ٹیلی سکوپ بنا کر یہ بات عیاں کی کہ زحل ایک خوبصورت رنگ بھی رکھتا ہے، مشتری کے گرد اس کے چاند بھی ہیں، ستاروں کے علاوہ گیسوں کے بادل بھی ہیں جنہیں بعد میں نیبولا کہا گیا اور نظام شمسی میں سیاروں کے دریافت کا آغاز ہوا.

ٹیلی سکوپ کی بات کی جائے تو فوراً ذہن میں ایک نام آتا ہے "ہبل اسپیس ٹیلی سکوپ". گلیلیو کی ٹیلی سکوپ نے جس طرح کائنات کے متعلق کچھ راز کھولے اس طرح ٹیلی سکوپ میں جدت کے ساتھ ساتھ کائنات کا مشاہدہ اور معلومات بڑھتی چلی گئیں. 24 اپریل 1990 کو انسان نہیں جانتا تھا کہ جو شاہکار یہ خلا میں بھیجنے والا ہے اس سے کتنی بڑی اور انقلابی تحقیق ہوگی اور ہمارا کائنات کو دیکھنے کا زاویہ اور کس حد تک بدل جائے گا. ہبل اسپیس ٹیلی سکوپ کی تحقیق سے پہلے یعنی آج سے صرف 31 سال پہلے ہمارے لیے کائنات صرف قریب قریب کے ستاروں کے جھرمٹ اور ملکی وے گلیکسی تھی. مگر ہبل اسپیس ٹیلی سکوپ نے انسان کو حیران کر دیا کہ ملکی وے سے سینکڑوں گنا بڑی گلیکسیز بھی کائنات میں محو سفر ہیں اور کم و بیش 2000 ارب گلیکسیز قابلِ مشاہدہ کائنات میں انجان منزل کی طرف رواں ہیں.

24 اپریل 1990 کو shuttle Discovery (STS-31) سے خلا میں بھیجا گیا. ہبل اسپیس ٹیلی سکوپ کا نام امریکہ کے مشہور ماہر فلکیات ڈاکٹر ایڈون ہبل مکمل نام Edwin Powell Hubble کے نام پر رکھا گیا. ایڈون ہبل

20 نومبر 1889 کو یونائیٹڈ سٹیٹ آف امریکہ میں پیدا ہوئے، آپ نے اپنی تحقیق سے شعبہ فلکیات میں بہت زبردست خدمات انجام دیں (ڈاکٹر ایڈون ہبل پر ایک پوسٹ جلد شئیر کروں گا).

ہبل اسپیس ٹیلی سکوپ کو خلا میں بھیجنے کا مقصد یہ تھا کہ زمین کے ایٹماسفئر میں فضا سے نکل کر صاف شفاف ماحول میں مشاہدہ کیا جائے تاکہ تحقیق بہتر ہو. ہبل اسپیس ٹیلی سکوپ نے واقع اس قدر جدید تحقیق کی کائنات کے متعلق ہماری معلومات کا رخ ہی بدل گیا. 

ہبل اسپیس ٹیلی سکوپ کو 25 اپریل 1990 میں خلا میں چھوڑ دیا گیا. پہلی تصویر ہبل ٹیلی سکوپ سے 20 مئی 1990 کو لی گئی جو Star cluster NGC 3532 کی تھی.

ہبل اسپیس ٹیلی سکوپ کی اگر خصوصیات اور ساخت دیکھی جائے تو:

اس کی لمبائی ہے 43.5 فٹ یعنی 13.2 میٹر ہے، یعنی ایک سکول بس جتنا سائز. لانچ کے وقت ہبل اسپیس ٹیلی سکوپ کا وزن 10ہزار 886 کلوگرام تھا. اس کا ڈایا میٹر 14 فٹ یعنی 4.2 میٹر ہے. ٹیلی سکوپ کے متعلق معلومات میں ڈایا میٹر اور فوکل لینتھ اہم خصوصیات ہیں. ہبل اسپیس ٹیلی سکوپ کی فوکل لینتھ 47.6 میٹر ہے جو 189 فٹ بنتی ہے. میرے پاس اس وقت ٹیلی سکوپ کا ڈایا میٹر 100mm اور فوکل لینتھ 1400mm ہے (ٹیلی سکوپ اور آسٹروفوٹوگرافی کے متعلق پوسٹ بھی جلد آپ کو دیکھنے کو ملے گی).

ہبل اسپیس ٹیلی سکوپ زمین سے 547 کلومیٹر کی بلندی پر Low orbit میں زمین 🌏 کے گرد گھوم رہی ہے. اس کی رفتار 27300 کلومیٹر فی گھنٹہ ہے، اس طرح یہ 94 منٹ میں زمین کے گرد ایک چکر مکمل کر لیتی ہے. ہبل اسپیس ٹیلی سکوپ بہت ہی شاندار انداز میں بالکل درست طریقے سے کام کر رہی ہے. ایک میل دور بھی اگر ایک انسانی بال جتنا روشن جسم موجود ہوتو ہبل اس پر فوکس کر کے تفصیل بتا سکتی ہے.

ہبل اسپیس ٹیلی سکوپ کے پرائمری مرر کا ڈایا میٹر 94.5 انچ یعنی 2.4 میٹر ہے. اس پرائمری مرر کا وزن 828 کلوگرام ہے. سیکنڈری مرر 12 انچ یعنی 0.3 میٹر ڈایا میٹر کا ہے اور اس کا وزن 12.3 کلوگرام ہے. ہبل اسپیس ٹیلی سکوپ سورج سے روشنی کی مدد سے بیٹری چارج کر کے انرجی حاصل کرتی ہے یعنی سولر پینلز کے ذریعے انرجی حاصل کرکے اسے بیٹری میں سٹور کرنے کا سسٹم موجود ہے. ہبل اسپیس ٹیلی سکوپ پر 25 فٹ کے دو سولر پینل موجود ہیں جو 5500 واٹ کی انرجی پیدا کرتے ہیں جبکہ ہبل ٹیلی سکوپ کا استعمال تقریباً 2100 واٹ ایوریج ہے، اس میں (Nickle-Hydrogen (NiH کی 6 بیٹریاں ہیں جن کی سٹوریج کیپسٹی تقریباً 22 درمیانی کار بیٹریوں کے برابر ہے.

ہبل اسپیس ٹیلی سکوپ اب تک 1990 سے 13 لاکھ سے زائد مشاہدات کر چکی ہے. ان مشاہدات پر ماہر فلکیات 15000 سے زائد پیپرز لکھ چکے ہیں جنہیں آگے مزید 7 لاکھ 83 ہزار پیپرز میں استعمال کیا گیا ہے. اس طرح ہبل اسپیس ٹیلی سکوپ دنیا کے ان آلات میں سے ایک ہے جس پر سب سے زیادہ لکھا گیا ہو.

ہبل اسپیس ٹیلی سکوپ ایک ہفتے میں 150gb سائنٹفک ڈیٹا بھیجتی ہے. ایک سال میں ہبل 10Tb دس ٹیرا بائیٹ نیا ڈیٹا بھیجتی ہے. اب تک 150tb ڈیٹا یبل بھیج چکی ہے.

ہبل اسپیس ٹیلی سکوپ نے واقع ہی 1990 سے 2020 تک فلکیاتی تحقیق میں انقلاب برپا کر دیا ہے، ہبل کے ذریعے ہمیں 13.4 ارب سال پرانے اجسام فلکی دیکھ چکے ہیں. اس نام سے بچوں، بڑوں اور حتیٰ کہ سائنسدانوں کو بھی پیار 😍 ہے. یہ عظیم شاہکار مزید کچھ سال میں ریٹائر ہوجائے گا. ایک اندازے کے مطابق شاید 2030 یا اس سے قبل ہبل اسپیس ٹیلی سکوپ ریٹائر ہوجائے مگر اس کی جگہ لینے کے لیے "جیمز ویب اسپیس ٹیلی سکوپ" تقریباً تیار ہوچکی ہے اور اس سال اکتوبر میں یا اگلے سال اسے بھی لانچ کر دیا جائے  ا، یہ ہبل اسپیس ٹیلی سکوپ سے بہت جدید ہے.


 تحریر  عبدالوہاب 

"دوربین / ٹیلی سکوپ ( Telescope 🔭) کا مختصر تعارف

(حصہ اول)

تحریر: محمد عبدالوہاب



آسانی کے لیے تحریر کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے.


آپ سب لوگ جو فلکیات میں دلچسپی رکھتے ہیں ان کی خواہش ہوتی ہے کہ ہمارے پاس اپنی ٹیلی سکوپ ہو تاکہ جو کچھ سپیس سائنسز گروپ اور دیگر فلکیاتی گروپس میں دیکھتے ہیں ان کا مشاہدہ خود بھی کر سکیں، مگر ساتھ ہی ذہن ضروری سوالات ابھرتے ہیں کہ :

👈 ٹیلی سکوپ کیسے کام کرتی ہے.... 

👈 ٹیلی سکوپ کہاں سے خریدی جائے....

👈 کیسے خریدی جائے.....

👈 کونسی خریدی جائے....

👈 کتنے میں ملے گی... 

👈 اس سے تصاویر بنائی جا سکتی ہیں...

👈 جو ٹیلی سکوپ خریدے گیں اس سے کہاں تک دیکھا جا سکتا ہے اور کونسے فلکیاتی اجسام دیکھے جا سکتے ہیں... وغیرہ

اس تحریر میں ہم ٹیلی سکوپ کا تعارف کہ یہ کیسے کام کرتی ہے اور اس کے متعلق کچھ بنیادی معلومات اسطرح سے پڑھیں گے اور سیکھیں گے درج بالا سوالات کا آسانی سے جواب مل جائے اور دوسروں کو بھی ٹیلی سکوپ کا تعارف اور ضرورت کے مطابق ٹیلی سکوپ کا چناؤ کروا سکیں.

اگر میں یہ کہوں کہ آج سے کچھ سیکنڑوں اور ہزاروں سال پہلے لوگ جتنا خوبصورت آسمان عام آنکھ سے دیکھتے تھے، آج ویسا ہم نہیں دیکھ سکتے ہیں. جہاں نسل انسانی ترقی کی رفتار بڑھاتی جارہی اور ناممکنات کو ممکن کرتی جارہی ہے وہاں اپنے ماحول میں پھیلنے والی آلودگی پر آنکھیں بھی بند کیے ہوئے ہے، جس وجہ سے آج آسمان پر گیسی، دھول اور روشنائی آلودگی اس قدر پھیلی دکھائی دیتی ہے کہ ہزاروں ستاروں میں سے شہری علاقوں میں 100 سے بھی کم ستارے نظر آتے ہیں 😥. فلکیاتی مشاہدوں کے لیے شہری علاقوں سے دور پہاڑی علاقوں یا صحرا کا رُخ کرنا پڑتا ہے. خیر ترقی دور حاضر کی ضرورت ہے تاکہ آنے والے دور کو آسان بنایا جائے مگر اس کے ساتھ آلودگی پر قابو پانا بھی ضروری ہے. 

لفظ ٹیلی سکوپ Telescope کا مطلب ہے دور بین یعنی دور دیکھنا. ٹیلی سکوپ یا دور بین ایک ایسا آلہ ہے جس کی مدد سے آپ دور کی اشیاء کو عام کی انکھ کی نسبت بہتر، قریب اور بڑا دیکھ سکتے ہیں، دن میں بھی اور رات میں روشن فلکیاتی اجسام کو بھی.

سب سے پہلے ٹیلی سکوپ 1608 میں نیدر لینڈ کے ایک شیشہ ساز Hans Lippershey نے بنانے کی کوشش کی جو صرف 3X زوم کر سکتی تھی. اس نے یہ خیال میگنیفائنگ گلاس سے لیا اور چیزوں کو برا کر کے دیکھنے اور قریب سے دیکھنے کے لیے ٹیلی سکوپ بنانا چاہی، مگر وہ ایک بہتر ٹیلی سکوپ بنانے میں کامیاب نہیں ہوسکا، مگر 1609 میں گیلیلیو Galileo ٹیلی سکوپ کی ایجاد کا سہرا اپنے سر پر سجا کر آج بھی مقبول ہے. اس کی بنائی ہوئی ٹیلی سکوپ 8X زوم کر سکتی تھی جو کہ بعد بہتر کرکے 20X زوم تک پہنچ گئی تھی. 

ٹیلی سکوپ کیسے کام کرتی ہے..؟

اس سے پہلے ہمیں یہ جاننا ہوگا کہ ہمیں کوئی شے کیسے دکھائی دیتی ہے. جب تک کسی جسم سے روشنی خارج ہو کر یا ٹکرا کر ہماری آنکھ تک نا پہنچے، ہم اس جسم کو نہیں دیکھ سکتے. کسی جسم کا نظر آنا یا اس کی تصویر دکھائی دینا سے یہی مراد ہے کہ اس جسم سے روشنی خارج ہو کر یا ٹکرا کر ہماری آنکھ تک پہنچ رہی ہے، اس کے بعد ہماری آنکھ انتہائی حساس طریقے اس عکس کو مختلف تہوں اور مراحل سے گزارتے ہوئے آپٹک نرو (انکھ اور دماغ کے درمیان رابطے کی پٹیاں) کے ذریعے دماغ تک پہنچا دیتی ہے. تو اس طرح معلوم ہوا کہ ہماری آنکھ صرف روشنی کو دیکھتی ہے اسی طرح ٹیلی سکوپ بھی صرف انہی اجسام کو دکھائے گی جو روشن ہیں یا روشنی ان سے ٹکرا کر ٹیلی سکوپ تک پہنچ رہی ہے. ٹیلی سکوپ میں عدسے یا شیشے اس آنیوالی روشنی کو یا عکس / تصویر کو بڑا کر کے دکھاتے ہیں. اس مقصد کے لیے ٹیلی سکوپ کی دو بڑی اور بنیادی اقسام ہیں:

1- Refractive Telescope ریفریکٹو ٹیلی سکوپ

2- Reflective Telescope ریفلیکٹو ٹیلی سکوپ


کچھ احباب ٹیلی سکوپ کی دو مزید اقسام بھی بتاتے ہیں کہ وہ کمپیوٹرائزڈ بھی ہو سکتی ہے اور خود کار بھی، مگر ایسا نہیں ہے. ٹیلی سکوپ صرف خودکار یعنی Manual ہی ہوتی ہے جبکہ اس کے نیچے رکھا ہوا ٹرائی پوڈ Tripod سٹینڈ کمپیوٹرائزڈ یا خودکار ہوتا ہے. اس بات کی وضاحت نیچے Tripod کا تعارف کرواتے ہوتے کرتا ہوں. 

آپ نے جتنی بھی ٹیلی سکوپ دیکھیں یا استعمال کی ہوں، وہ یا تو Refractive ہوگی یا پھر Reflective ہوگی.

دونوں یہ دونوں اقسام اپنی نوعیت میں منفرد اور اہم خصوصیات کی حامل ہیں. ان دونوں اقسام میں فرق دیکھنے سے پہلے کچھ پوائنٹس نوٹ کر لیں:

1- ڈایا میٹر Diameter

2- فوکل لینتھ Focal length

3- آئی پیس Eye piece

4- فوکل پوائنٹ Focal point

5- لینز یعنی عدسہ Lense (ریفریکٹو ٹیلی سکوپ) 

6- شیشہ Mirror (ریفلیکٹو ٹیلی سکوپ)

7- ٹرائی پوڈ سٹینڈ / ماؤنٹ Mount 


1- ٹیلی سکوپ کا ڈایا میٹر Diameter:

اگر ٹیلی سکوپ ریفریکٹو Refractive ہو تو ٹیلی سکوپ کے سامنے کنویکس لینز لگا ہوتا ہے جو سامنے سے آنیوالی روشنی کو گزار کر اکھٹا کرتا ہے. اور اگر ٹیلی سکوپ ریفلیکٹو Reflective ہو تو سامنے ایک شیشہ جسے پرائمری مرر کہتے ہیں، لگا ہوتا ہے جو سامنے سے آنیوالی روشنی کو رفلیکٹ کر کے سیکنڈری مرر پر ڈالتا ہے. یہ دونوں یعنی "ریفریکٹو ٹیلی سکوپ ہو تو لینز اور اگر ریفلیکٹو ٹیلی سکوپ ہو تو شیشہ" ٹیلی سکوپ کا ڈایا میٹر کہلاتے ہیں. انہیں Objective lense یا Objective Mirror بھی کہتے ہیں کیونکہ یہاں سے گزر کر ہی روشنی ٹیلی سکوپ میں داخل ہوتی ہے اور قابلِ مشاہدہ بنتی ہے ٹیلی سکوپ کے ڈایا میٹر کو اپرچر Aperture بھی کہہ سکتے ہیں. جتنا بڑا ٹیلی سکوپ کا ڈایا میٹر ہوگا اتنی ہی زیادہ روشنی اکھٹی ہوگی، زیادہ رقبہ/ایریا دیکھا جا سکے گا اور مدھم اجسام Faint objects بھی بہتر دیکھے جا سکیں گے. ٹیلی سکوپ کا ڈایا میٹر 60mm یعنی تقریباً 2.3 انچ سے لے کر 354mm یعنی 14 انچ تک زیادہ استعمال ہوتی ہیں. اس سے زیادہ ڈایا میٹر والی ٹیلی سکوپ بہت کم لوگوں کے پاس ہوتی ہے کیونکہ اس کا سائز اور وزن بہت زیادہ ہوجاتا ہے اور بغیر بڑی گاڑی کے آپ اسے کہیں لیجا نہیں سکتے ہیں. کچھ Binoculars (دو آنکھوں والی چھوٹی دوربین) کا ڈایا میٹر بھی 20mm سے 70mm تک ہوتا ہے. اس سے زیادہ ڈایا میٹر والی Binoculars بہت کم ہوتی ہیں اور زیادہ تر لوگ 20mm سے 50mm ڈایا میٹر والی Binocular استعمال کرتے ہیں. اگر کسی ٹیلی سکوپ کا ماڈل یہ ہو 76700 تو اس کا مطلب ہے کہ اس ماڈل کی ٹیلی سکوپ کا ڈایا میٹر 76mm ہے اور فوکل لینتھ 700mm ہے. آسان لفظوں میں ٹیلی سکوپ کا فرنٹ یا منہ 🤭 اس کا ڈایا میٹر کہلاتا ہے.


2- فوکل لینتھ Focal length:

اگر ٹیلی سکوپ Refractive ہو تو اس کے لینز سے روشنی گزر کر ایک خاص پوائنٹ پر اکھٹی ہوجاتی جسے فوکل پوائنٹ کہتے ہیں جبکہ ٹیلی سکوپ اگر Refractive ہوتو روشنی پرائمری سے سیکنڈری مرر پر گرتی ہے اور سیکنڈری مرر سے فوکل پوائنٹ پر اکھٹی ہوتی ہے، روشنی ٹیلی سکوپ میں داخل ہونے کے بعد فوکل پوائنٹ پر پہنچنے تک جتنا سفر کرتی ہے اسے فوکل لینتھ Focal length کہتے ہیں. فوکل لینتھ 350mm سے لے کر 4000mm تک ہوسکتی ہے. اس سے زائد فوکل لینتھ والی ٹیلی سکوپ انتہائی مخصوص ہوتی ہے اور اس کے مقاصد تحقیق کے ہوتے ہیں. ٹیلی سکوپ کی فوکل لینتھ جتنی زیادہ ہوگی، زیر مشاہدہ جسم کو اتنا ہی زیادہ زوم کر کے دیکھا جاسکتا ہے. آسان لفظوں میں ٹیلی سکوپ کی لمبائی اس کی فوکل لینتھ کہلاتی ہے. 1000mm فوکل لینتھ والی ٹیلی سکوپ کی لمبائی (1000mm=1 meter) 1 میٹر ہوگی یعنی یہ ٹیلی سکوپ آپ کے بازو سے بھی لمبی ہوگی (ریفلیکٹو ٹیلی سکوپ کی فوکل لینتھ زیادہ ہوتی مگر لمبائی کم ہوتی ہے، مزید Reflective Telescope کے تعارف میں سمجھاتا ہوں).


3- آئی پیس Eye piece:

آئی پیس بھی کنویکس لینز Convex lense ہوتا ہے جسے آپ ٹیلی سکوپ پر لگا کر تصویر دیکھتے ہیں. جو روشنی ٹیلی سکوپ کے ڈایا میٹر سے گزر کر فوکل پوائنٹ پر اکھٹی ہوئی تھی اس روشنی کو فوکل پوائنٹ سے آپ کی آنکھ تک آئی پیس لاتا ہے. فوکل پوائنٹ سے آنکھ تک کا سفر بہت کم ہوتا ہے اس لیے آئی پیس چھوٹے سے لینز ہوتے ہیں. اس جمع شدہ روشنی کو پھیلا کر یا بڑا کر کے دکھانا آئی پیس کا ہی کام ہے. فوکل پوائنٹ سے آنکھ تک روشنی جتنا سفر کرتی ہے اسے آئی پیس کو فوکل لینتھ کہتے ہیں. ٹیلی سکوپ پر جس جگہ آئی پیس لگتا ہے وہ ٹیلی سکوپ کے منہ کے مخالف سمت پر بھی ہوسکتی ہے اور ٹیلی سکوپ کے اوپر بھی ہوسکتی ہے. آپ نے دیکھا ہوگا کہ مشاہدہ کرتے ہوئے لوگ اپنی آنکھ ٹیلی سکوپ کے جس حصہ پر لگائے ہوئے ہوتے ہیں وہ آئی پیس ہی ہوتا ہے. ٹیلی سکوپ کے جس حصہ پر آئی پیس لگتا ہے اس کا سٹینڈرڈ سائز 1.25 انچ ہوتا ہے. کچھ ٹیلی سکوپ میں یہی سائز 2 انچ بھی ہوتا ہے، یاد رہے یہ سائز آئی پیس کا نہیں ہے بلکہ آئی پیس جہاں پر لگے گا یہ اس جگہ کا سائز ہے. 

 آئی پیس 40mm سے 1mm تک کے ہوسکتے ہیں. آپ سوچ رہیں ہونگے کہ 40mm والا آئی پیس زیادہ بڑی تصویر دکھائے گا مگر اصل بات اس کی ضد ہے یعنی 40mm آئی پیس زیادہ روشنی لیتا ہے اور کم زوم والا امیج بناتا یے جبکہ کم ملی میٹر والا آئی پیس کم روشنی کے ساتھ بڑا امیج دکھائے گا. یعنی اگر آپ مکمل چاند کی تصویر دیکھنا چاہتے ہیں تو آپ کو بڑا آئی پیس 25mm, 32mm یا 40mm کا لگانا ہوگا، لیکن اگر آپ چاند کی سطح پر کسی خاص گڑھے یا پہاڑوں کی قطار کو واضح کر کے دیکھنا چاہتے ہیں تو آپ کو چاند کی تصویر زوم کرنا پڑے گی جو ٹیلی سکوپ خود تو نہیں کرسکتی مگر آپ چھوٹا آئی پیس جیسا کہ 20mm, 12mm, 9mm یا 4mm لگا کر چاند کی زوم امیج دیکھیں گے. آپ اسے یوں سمجھیں کہ:

جو تصویر آپ دیکھ رہے ہیں وہ فرض کریں کہ 100X زوم کی ہے. آپ کی ٹیلی سکوپ کی فوکل لینتھ 1000mm ہے اور آپ نے 10mm کا آئی پیس لگایا ہے. ٹیلی سکوپ کی فوکل لینتھ کو آئی پیس کی فوکل لینتھ سے تقسیم کریں یعنی 1000 ➗ 10 تو جواب آیا "100" لہذا آپ 100X زوم کی ہوئی تصویر دیکھ رہے ہیں. اگر آپ چاہتے ہیں کہ تصویر کو مزید زوم کیا جائے تو آپ صرف ٹیلی سکوپ پر لگا آئی پیس تبدیل کریں گے، پہلے 10mm کا آئی پیس لگا ہوا تھا، اسے اتر کر اسی کی جگہ 5mm کا آئی پیس لگا دیں گے تو اب تصویر مزید زوم ہوکر 200X ہوجائے گی. اس طرح آئی پیس تبدیل کرتے ہوئے آپ تصویر کی زومنگ بڑھا سکتے ہیں. ٹیلی سکوپ وہی رہے گی، سب کچھ ویسے ہی ہے صرف آئی پیس بدلنے سے آپ نے مطلوبہ زومنگ حاصل کر لی ہے.

نوٹ: ایسا ہر گز نہیں ہے کہ آپ ہر ٹیلی سکوپ کے ساتھ کوئی بھی آئی پیس لگا لیں، بلکہ ٹیلی سکوپ کی فوکل لینتھ اور ڈایا میٹر کے مطابق یہ دیکھا جاتا ہے کہ اس پر کم سے کم یعنی چھوٹے سے چھوٹا آئی پیس کونسا لگ سکتا ہے. اگر ٹیلی سکوپ کا ڈایا میٹر 100mm ہے اور فوکل لینتھ 1400mm ہے تو اس پر کم سے کم 4mm کا آئی پیس لگ سکتا ہے جو 350X زوم دیتا ہے.

 (1400 ➗ 4 = 350)

اگر آپ چھوٹا آئی پیس لگا کر زیادہ زوم امیج دیکھنا چاہتے ہیں تو یہ بھی ذہن میں رکھیں کہ جس فلکیاتی جسم کو دیکھ رہیں وہ کافی روشن ہو، کیونکہ پہلے بتایا گیا ہے کہ چھوٹا آئی پیس تصویر کو زوم زیادہ کرتا ہے مگر روشنی کم دکھاتا ہے.

نیچے پوسٹ پر لگی ہوئی تصویر میری ٹیلی سکوپ 1400mm Bushnell کی ہے. 

کامنٹس میں تصاویر دیکھیں:


پہلا کامنٹ: Hans Lippershey کی خیالی تصویر

دوسرا کامنٹ: Galileo کی بنائی ہوئی پہلی ٹیلی سکوپس میں ایک.

تیسرا کامنٹ: ٹیلی سکوپ کے سٹرکچر میں ڈایا میٹر، فوکل پوائنٹ، فوکل لینتھ اور آئی پیس کی فوکل لینتھ دکھائی گئی ہے.


تحریر جاری ہے....


محمد عبدالوہاب courtesy 

COVID 19 FULL INFORMATION FOR PAKISTAN

           مکمل معلومات  کرونا ویکسین



پاکستان میں لگنے والی کرونا ویکسین ھمارے دوست ملک چین نے فراہم کی جو کہ "سائنو فارم" کے نام سے ھے


سوال


کرونا کی ویکسین کیا ھے یہ کیسے انسانی جسم کو کرونا سے بچائے گی؟ 


جواب 


کرونا کی جتنی بھی ویکسین اس وقت ہیں ان سب کا کام کرنے کا بنیادی اصول ایک ہی ھے

 

یہ ویکسین بنیادی طور پر "mRNA " ہیں یعنی یہ جیسے ہی انسانی جسم میں میں داخل ھوتی ہیں ھمارے جسم میں موجود خلیے فوری الرٹ ہوجاتے اور ایک خاص قسم کے پروٹین سیل "سپائیک پروٹین" بناتے۔۔۔


سپائیک پروٹین جیسے ہی خلئے بناتے قدرت کا نظام ایسا فوری ھمارا مدافعتی نظام ایکٹو ھوجاتا ھے کہ اب جسم میں باہر سے کوئی چیز ایسی آگئی ھے جو جسم کا حصہ نہی ھے پھر مدافعتی نظام ان پروٹینز کے مقابلے میں انٹی باڈیز بنانا شروع کردیتا ھے۔۔۔


بنیادی طور پر یہ انٹنی باڈیز بننا ھمارے جسم کو یہ سکھاتا ھے کہ مستقبل میں پہلے تو اس بیماری کو جسم میں داخل ھو بھی گئی حملہ نہی کرنے دینا اور انسان کو محفوظ بنانا ھے۔۔۔


سوال 


پاکستان میں لگنے والی کرونا ویکسین (سائنوفارم) کو کیسے سٹوریج کیا جاتا ھے کتنے ٹمپریچر پر موثر رہتی ویکسین؟ 


جواب 


کرونا کی ویکسین کو ڈائریکٹ سورج کی شعاؤں سے بچا کر 2 سے لیکر 8 درجے کے ٹمپریچر پر رکھا جاتا ھے جس سے یہ موثر رہتی ھے 


سوال 


کرونا کی ویکسین کی کتنی مقدار اور جسم کے کون سے حصہ پر لگائی جاتی ھے؟ 


جواب 


ویکسین 0.5 ملی لیٹر خوراک "ڈولے " کے اوپر گوشت میں لگائی جاتی ھے


اگر آپ دائیں ہاتھ سے کام کاج کرتے تو بائیں بازو 

اور اگر بائیں ہاتھ سے کام سر انجام دیتے تو دائیں بازو پر لگے گی۔


سوال 


کرونا ویکسین کی کتنی خوراکیں لگوانی ہیں اور کتنے وقفے سے لگوانی ھے یہ کتنے عرصہ تک کرونا وائرس سے محفوظ رکھے گی؟ 


جواب 


کرونا ویکسین جوکہ پاکستان میں میسر ھے اس کی دو خوراکیں لگنی ہیں 

پہلی خوراک کے 3 ہفتے سے لیکر 3 ماہ بعد تک دوسری خوراک لگوائی جاسکتی ھے

ابھی یہ بات طے نہی ھے کہ کرونا ویکسین کتنے عرصہ تک کرونا سے محفوظ رکھے گی۔۔


سوال 


کرونا ویکسین لگنے کے بعد کوئی خطرناک اثرات تو سامنے نہ آسکتے؟ 


جواب 


نہی! معمولی بخار سے لیکر جسم میں درد ھوسکتا اس کےلئے سادہ پیناڈول لی جاسکتی ھے 

اس کے علاوہ جتنے بھی اثراتے جیسے بانجھ پن وغیرہ وہ ساری افواہیں ہیں دنیاء میں ایک بھی کیس ایسا سامنے نہی آیا 


سوال 


کرونا کی ویکسین کن کو لگائی جاسکتی ھے؟ 


جواب


کرونا کی ویکسین 18 سال سے اوپر افراد میں لگائی جاسکتی ھے

اور ہائی رسک گروپس جیسے پھیپڑوں، دل اور شوگر کے مریض۔۔


سوال 


کن کن حالات میں کرونا کی ویکسین نہی لگوانی چاہئے؟ 


جواب


1۔اگر پہلی خوراک سے الرجی/ ری ایکشن ھوا ھو تو دوسری خوراک نہی لگوانی


2.ویکسینیشن کے وقت بخار ھونے کی صورت میں یہ ویکسین نہی لگوانی جب بخار اتر جائے پھر لگوانی ھے


3.کرونا کا پازیٹو کیس اگر معمولی علامات ھوں جیسے ہی آئسولیشن ختم ھوتی لگوا سکتے 

اگر زیادہ علامات ہیں تو پھر جب تک سٹیبل نہی ھوتا ٹھیک نہی ھوجاتا نہی لگوانی 


4.وہ مریض جن کو immunosuppressive drugs دی جارہی ھوں دوائی ختم ھونے کے 28 دن بعد ویکسین لگوا سکتے


5.وہ مریض جو کہ پیچیدہ امراض کا شکار اور مدافعتی نظام کمزور ھے ان پر ویکسین کا اثر بہت کم ھے ان کےلئے کرونا سے بچاؤ کےلئے احتیاط سب سے بہترین ہیں


اگر جگر یا گردے کی پیوند کاری ھوئی ھے 3 ماہ بعد ویکسین لگوائی جاسکتی ھے

اگر کینسر کا مرض ھے تو آخری کیمو تھراپی کے 28 دن بعد ویکسین لگوائی جا سکتی ھے


سوال


کیا حاملہ خواتین اور دودھ پلاتی ماؤں کو ویکسین لگوانی چاہیئے؟


جواب


ابھی تک اس پر بہت کم ڈیٹا میسر ھے مگر حکومت پاکستان اور انٹر نیشنل گائیڈ لائنز کے مطابق پاکستان میں میسر ویکسین حاملہ عورتوں اور دودھ پلاتی ماؤں کو لگوائی جاسکتی ھے 

ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے مطابق کیونکہ یہ ان ایکٹو جراثومے سے بنی ویکسین ھے لہزا پہلے جو حمل کے دوران ویکیسن ان ایکٹو ویکسین لگتی ان کے موثر نتائج ہیں 

لہزا امید کی جاسکتی ھے کرونا ویکسین حمل اور دودھ پلاتی ماؤں کےلئے مفید ثابت ھوگی


سوال 


ویکسین لگنے کے بعد کیا کرونا سے بچاؤ کی احتیاط ویسے کرنی پڑیں گی جیسے ویکسین لگنے سے پہلے کی جاتی ہیں؟


جواب 


امریکہ میں سی ڈی سی نے اس پر نئی ہدایات نامہ جاری کی ہیں


اگر آپ ویکسین لگوا چکے تو آپ دوسرے لوگ جن کی ویکسینیشن ھوچکی ماسک اور سماجی فاصلوں کے بغیر مل سکتے

آپ گھر میں یا وہ لوگ جو کرونا کے لو کنٹیکٹ میں ہیں ان سے بھی ماسک کے بغیر ملا جاسکتا ھے


باہر نارمل چھوٹی چھوٹی پارٹیاں اکٹھ کرسکتے مگر بڑے اکٹھ ہجوم کی صورت میں احتیاطی تدابیر اپنانی ھونگی


ویکسین کے بعد کرونا ایکسپوز ھونے کی صورت میں اگر علامات نہی آتی آپ پر ھوگا ائسیولیشن اختیار کرنی اور کرونا کا ٹیسٹ کرانا یا نہی آپ کی چوائس

لیکن پاکستان نے اس بارے ابھی کوئی ہدایات جاری نہی کی ہیں۔۔


کرونا کے دوران نارمل زندگی اور سب لوگ تب محفوظ ھوجائیں گے جب 70 سے لیکر 80 فیصد تک آبادی کو ویکسین لگادی جائے گی 

یا پھر اتنے فیصد آبادی کرونا سے متاثر ھوچکی ھوگی مگر اس سے لاکھوں انسانی جانیں جا چکی ھونگی 

لہزا جتنا ھوسکے ویکسین جلد سے جلد لگوائیں

اپنے پیاروں کو کرونا سے محفوظ رکھتے ھوئے

پاکستان کو کرونا فری ملک بننے کےلئے حکومت کا ساتھ دیں 


اللہ پاک سب کو اپنی پناہ میں رکھیں آمین


ڈاکٹر محمد ذوالقرنین

کنسلٹنٹ انٹروینشنل

Thursday, May 20, 2021

دیوار گریہ (Wailing Wall)








*یہودی دیوار گریہ کے ساتھ کس لئے آہ و زاری کرتے ہیں؟

*بنیادی پتھر کیا ہے؟

*یہودی عقائد و عبادات:

*یہودی موسیٰ ؑ کو موشے پکارتے ہیں۔

*یہودیوں کی با جماعت عبادت اور قبلہ:

*شجر غرقد کیا ہے؟

*جنت البقیع کا پرانا نام بقیع الغرقد کیوں تھا؟

*یہودی کیوں ہر جگہ دھڑا دھڑ شجر غرقد کی شجرکاری کررہے ہیں؟


یہ وہی دیوار ہے جسے مسلمان دیوار براق کہتے ہیں۔ یہودی روایات کے مطابق اس دیوار کی تعمیر حضرت سلیمان ۴ نے کی اور موجودہ دیوار گریہ اسی دیوار کی بنیادوں پر قائم ہے۔ یہ مقام دنیا کے قدیم ترین شہر یروشلم (بیت المقدس) میں واقع یہودیوں کی ایک انتہائ اہم یاد گار اور مقدس ترین مزہبی مقام ہے۔ جس کے زمانہ رونا گڑگڑانا اور گریہ و زاری کرنا یہودیوں کا انتہائ اہم مذہبی فریضہ ہے۔ ان کے عقیدے کے مطابق یہ دیوار دراصل تباہ شدہ ہیکل سلیمانی کا باقی رہ جانے والا حصہ ہے۔ دو ہزار سال قبل بھی یہودی اس دیوار کے سامنے کھڑے ہو کر گریہ و زاری کرتے تھے۔ بطور احترام ان کے لئے اس دیوار اور عبادت گاہ کے قریب یرملکا (Yarmulke) پہننا ضروری ہوتا ہے۔ یرملکا وہ چندیا پر منڈھی چھوٹی ٹوپی جو یہودی مرد پہنتے ہیں جس کو عبرانی زبان میں کپا ( Kippah) بھی کہا جاتا ہے۔ یہودی اس دیوار کے سامنے گریہ و زاری کر کے ہیکل سلیمانی کی تباہی پر اپنے دکھ اور پچھتاوے کا اظہار کرتے ہیں ۔یہ دیوار 488 میٹر طویل اور مختلف مقامات پر اس کی کم از کم بلندی 19  میٹر اور زیادہ سے زیادہ تقریبا” 40 میٹر ہے۔ اس دیوار کے مغرب کی طرف ایک تنگ گلی نما راستہ ہے جو کو البراق ایلی (ALBURAQ ALLEY) کہا جاتا ہے- یہ گلی 36 میٹر طویل اور صرف 3.6  میٹر چوڑی ہے- مسلمانوں کے عقیدے کے مطابق یہی وہ جگہ ہے جہاں براق کی سواری اتری تھی- دیوار گریہ پتھروں کی کل 45  تہوں پر مشتمل ہے جن میں 28تہیں زمین کے اوپر جبکہ 17 تہیں زمین کے نیچے ہیں۔ اس دیوار میں چار قدیم گیٹ اور کچھ نئے گیٹ بھی موجود ہیں - 

پوری دنیا سے یہودی اس دیوار کے سامنے گریہ کرنے آتے ہیں اور ان کے لئے یہ مسلمانوں کے نزدیک خانہ کعبہ جتنی اہمیت و عظمت رکھتا ہے۔ جو یہودی کسی وجہ سے دیوار گریہ تک رسائ نہیں رکھتے ان کے لئے اسرائیلی حکومت کی طرف سے ایک ویب سائٹ پر چوبیس گھنٹے دیوار گریہ کے مناظر لائیو نشر کئے جاتے ہیں جس پرآپ دنیا کے کسی بھی ملک سے گریہ و دعا  کر سکتے ہیں۔ اس لائیو کیمرہ کا ویب لنک مندرجہ ذیل ہے،

https://www.skylinewebcams.com/en/webcam/israel/jerusalem-district/jerusalem/western-wall.html

اسلامی نقطہ نظر:

 مسلمان اس دیوار کو دیوارِ براق کہتے ہیں۔دو وجوہات کی بنا مسلمان اس دیوار کو مقدس کہتے ہیں۔ پہلی تو یہ کہ اس دیوار کو الإسراء والمعراج سے نسبت ہے، شبِ معراج میں حضور پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی براق یہیں آکر رُکی تھی۔

بنیادی پتھر:

 یہودیوں کی مقدس ترین عبادت گاہ یا قدیم ترین سناگاگ اس دیوار کے عین پیچھے واقع ہے جسے بنیادی پتھر یا مقدس پتھر بھی کہا جاتا ہے۔ اس کے قریب ہی یہودیوں کا مقدس ترین کنیسہ ہے، جس کو بنیادی پتھر کہا جاتا ہے۔ زیادہ تر یہودی ربیوں کے مطابق اس مقدس پتھر کے اوپر، کوئی یہودی پیر نہیں رکھ سکتا اور جو ایسا کرتا ہے، عذاب میں مبتلا ہوجاتا ہے بہت سے یہودیوں کے مطابق وہ تاریخی چٹان جس پر قبۃ الصخرۃ واقع ہے، مقدس بنیادی پتھر ہے۔ جبکہ کچھ یہودیوں کے عقیدے کے مطابق یہ مقدس بنیادی پتھر دیوارِ گریہ کے بالکل مخالف سمت میں واقع الکاس آبشار کے نزدیک ہے۔ یہ مقام مقدس ترین مقام تھا، جب مقدس معبد قائم تھا۔ یہودی روایات کے مطابق دیوارِ گریہ کی تعمیر داؤد نے کی تھی اور موجودہ دیوارِ گریہ اُسی دیوار کی بنیادوں پر قائم کی گئی تھی، جس کی تاریخ ہیکلِ سلیمانی سے جاملتی ہے۔


یہودی عقائد:

حالانکہ یہودیت ميں كئی فقہ شامل ہيں، سب اس بات پر متفق ہيں کہ دين كی بنياد بيشک نبی موسٰی نے ركھی، مگر دين كا دارومدار تورات اور تلمود كے مطالعہ پر ہے، نہ كہ كسی ايک شخصیت كی پیروی کرنے پر۔

تورات:

یہودیت كی يہ سب سے مقدس كتاب قديم عبرانی زبان ميں ہے۔ اس كے پانج اجزاء ہيں جن كو موسٰی علیہ السلام كی پانچ كتابيں" بھی کہا جاتا ہے چونكہ عقيدہ كے مطابق صرف يہ پانچ موسٰی پر نازل ہوئی تھيں اور تناخ كے باقی حصے اللہ نے اور پيغمبروں يا عام انسانوں كے ذمے لگائے تھے۔

تورات ميں كائنات اور انسانی تخليق كا قصّہ درج ہے جو آدم اور حوّا سے شروع ہوتا ہے، نوح اور سيلاب كا بيان ديتا ہے اور پھر ابراہیم كی رسالت، بياہ اور بيٹوں كا قصہ بيان كرتا ہے۔ تورات كی اس کہانی كا مقصد يہ بيان كرنا ہے كہ اللہ نے ابراہیم سے ايک وعدہ يا معاہدہ كيا تھا كہ تم ميری عبادت كرو اور ميرے احكامات كی پيروی كرو اور ميں تمہاری نسل ميں سے بڑی بڑی قوميں پيدا كروں گا۔

آج یہودیت ميں يہ عہد بہت اہميت ركھتا ہے اور اسی كے بل بوتے پر اس دين كے ديگر اعمال مبنی ہيں۔ مثلاً مردوں پر ختنہ كی رسم فرض ہے، جو اسلام ميں سنتِ ابراہیمی کہلاتی ہے، چونكہ وہ اسی معاہدے كی علامت سمجھی جاتی ہے۔ جو اس رسم كو پورا نہ كرے وہ ہالاخا (یہودی شرع) كے مطابق یہودی نہیں ماناجاتا۔

قوم كی تاريخ كے علاوہ ان پانچ كتابوں ميں احكامات بھی شامل ہیں۔ خصوصا وہ "دس احكامات" (Ten Commandments) جن كا مغرب ميں چرچا رہتا ہے۔ تورات میں کل 613 احکامات مندرج ہیں جو شرع اورقوانین، معاشرے اور اخلاقیات سے تعلق رکھتے ہیں۔

عبرانی زبان ميں "تورات" كے لغوی معنے ہيں سبق۔ چنانچہ تورات ميں وہ کچھ شامل ہے جس سے ايک دينی قوم كو سبق ہو اور جس پر تاريخ اور شریعت كی بنياد کھڑی ہو ـ


To Orthodox Jews, Moses is called Moshe Rabbenu, `Eved HaShem, Avi haNeviim zya"a: "Our Leader Moshe, Servant of God, Father of all the Prophets (may his merit shield us, amen)".


عبادات:


یہوديوں پر روز كی عبادت فرض ہے۔ مگر ايک یہودی خاندان كا پورا ہفتہ شابات (سبت) كے 26 گھنٹوں كی تياری اور انتظار ميں گزر جاتا ہے كيونكہ وہ 26 گھنٹے پوری طرح عبادت كے لیے وقف ہوتے ہيں۔

شابات (سبت) كا آغاز جمعہ كی شام سورج كے ڈھلنے پر ہوتا ہے اور اختتام ہفتہ كی رات كو تين ستارے نظر آنے پر۔ اس عبادت کے دوران دين كے پيروكار مندرجہ ذیل پرھیز کرتے ہیں۔ 

- پيسے كمانے والے كام نہیں كرتے

- پيسوں كے ذكر سے پرہيز كرتے ہيں

- بجلی كو نہیں چھيڑتے يعنی جو بتياں جلی ہيں ان كو بجھاتے نہیں ہيں اور بجھی بتيوں كو جلاتے نہیں ہيں

- آگ سے آگ نہیں جلاتے يعنی چولھا بند رہتا ہے

- گاڑی نہیں چلاتے

-- اور ديگر پابندياں

روز کی عبادات:

روز کی تین عبادات مقرر ہیں جن میں سے صبح اور دوپہر کی فرض ہیں اور شام کی اپنے آپ پر واجب کی جا سکتی ہے ـ یہودیت میں دیگر احکام اس وقت تک اختیاری ہوتے ہیں جب تک انسان ان کو اپنی روزمرہ زندگی کا حصہ بنانے کی نیت نہ کر لےـ اس نیت کے بعد وہ واجب ہو جاتے ہیں اور ان میں اور فرائض میں کوئی فرق نہیں رہتا ـ

تمام عبادات فرداً بھی ادا ہو سکتی ہیں اور باجماعت بھی تاہم باجماعت ادا کرنے میں فضیلت ہے خصوصاً اس لیے کہ جماعت جب اکٹھی ہو جائے تو وہ خدا کے دربار میں بطور بنی اسرائیل حاضر ہوتی ہے ـ جماعت کو پورا ہونے کے لیے کم از کم دس افراد کی ضرورت ہے ورنہ ایک ساتھ رہ کر بھی عبادت فرداً ہی قبول ہوجاتی ہے ـ یہودیت کے کئی مذاہب میں دس مردوں کو جماعت مانا جاتا ہے اور کئی میں دس افراد کو، خوا وہ مرد ہوں یا عورتیں ـ یہودی عبادتگاہ کو یونانی میں  سناگاگ Synogogue  انگریزی میں شول Shul جبکہ عبرانی میں بیت تفیلہ ( عبادت گاہ) یا بیت کنیست (جماعت خانہ) بھی کہا جاتا ہے۔

عموماً ہر شول میں ایک بڑا سا کمرہ ہوتا ہے جس میں جماعت اکٹھا ہوتی ہے، دو تین چھوٹے کمرے ہوتے ہیں اور کئی میں درسِ تورات کے لیے ایک الگ کمرہ ہوتا ہے جس کو بیت مِدراش کہتے ہیں ـ بڑے شولوں میں اکثر مِقواہ بھی موجود ہوتا ہے جو غسل کے لیے ہوتا ہےـ

شول کی جو دیوار یروشلم کی طرف ہوتی ہے، اس کے ساتھ ایک الماری لگی ہوتی ہے جس کو ارون قودیش کہا جاتا ہےـ اس میں تورات کا مٹھا (scroll) رکھا جاتا ہےـ اس کو صرف خاص مواقع پر ارون سے نکالا جاتا ہے چونکہ جب بھی تورات سامنے ہو تو اس کو پیٹھ نہیں کی جا سکتی ـ

جماعت تورات اور یروشلم کی طرف رخ کر کہ عبادت کرتی ہے جس طرح ہم مسلمان کعبہ کی طرف رخ کرکے نماز ادا کرتے ہیںـ مرد اور عورتیں الگ بیٹھتے ہیں ـ کئی میں مردوں اور عورتوں کی جماعتی ساتھ ساتھ بیٹھتی ہوتی ہے اور ان کے بیچھ میں پردہ کھینجا ہوا ہوتا ہےـ کئی شولوں میں عورتوں کی جماعت مردوں کے پیچھے ہوتی ہےـ تقلید پسند شولوں میں عورتوں کی جماعت مردوں کے پیچھے ایک بالکونی میں بیٹھتی ہےـ

ہال کے بیچ میں ایک منبر سا ہوتا ہے جس پر سے تہواروں پر توارت سے خزّان تلاوت کرتا ہے اور حاخام درس دیتا ہےـ

 

شاخاریت 

فجر کی عبادت ـ یہ سب سے لمبی اور دن کی سب سے اہم عبادت ہوتی ہے ـ اس کے چھ حصے ہیں ـ پہلے حصہ میں علما کی تفسیریں پڑھی جاتی ہیں ـ دوسرے میں توریت اور زبور کے اجزا پڑھے جاتے ہیں ـ تیسرے میں شماع پڑھی جاتی ہے، جو اس عبادت کا سب سے اہم حصہ ہے کیونکہ اس میں پوری قوم بنی اسرائیل کو پکارا جاتا ہے کہ وہ توحید کی شہادت دےـ اس کے بعد آمیدہ پڑھی جاتی ہے اور پھر مسیحا کی آمد کی دعا کی جاتی ہے جو زبور میں سے پڑھی جاتی ہے ـ آخر میں بنی اسرائیل کے فرائض کو دُہرایا جاتا ہے اور توحید کی شہادت بھی دہرائی جاتی ہےـ 

مِنخا 

دوپہر کی عبادت : اس میں آمیدہ پڑھی جاتی اور تہواروں پر توریت کا جز بھی پڑھا جاتا ہے ـ 

معاریب 

مغرب کی عبادت ـ اس میں شماع اور آمیدہ پڑھی جاتی ہیں ـ 


یہودیوں کا مقدس درخت:

شجر غرقد ( Lycium،boxthorn) کئی نام ہیں جن میں شجر یہود گونگا درخت یا یہود کا پاسباں درخت عام ہیں 

غرقد " ایک جنگلی درخت کا نام ہے جو خاردار جھاڑی کی صورت میں ہوتا ہے، مدینہ کا قبرستان جنت البقیع کا اصل نام بقیع الغرقد اسی لیے ہے کہ جس جگہ یہ قبرستان ہے پہلے وہ غرقد کی جھاڑیوں کا خطہ تھا۔ جو مدینہ کے اطراف، صحراوں میں پایا جاتا تھا۔ نبی کریم (ص) نے اس میدان کو غرقد سے پاک کروادیا تھا۔ 

ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا قیامت قائم نہ ہوگی یہاں تک کہ مسلمان یہودیوں سے جنگ کریں اور مسلمان انہیں قتل کر دیں یہاں تک کہ یہودی پتھر یا درخت کے پیچھے چھپیں گے تو پتھر یا درخت کہے گا اے مسلمان اے عبد اللہ یہ یہودی میرے پیچھے ہے آؤ اور اسے قتل کردو سوائے درخت غرقد کے کیونکہ وہ یہود کے درختوں میں سے ہے۔ یہودی نبی کریم (ص) کی اس حدیث پر من و عن یقین رکھتے ہیں جس کا ثبوت یہ ہے کہ یہودی دنیا میں ہر جگہ غرقد کی شجر کاری کو پروموٹ کرتے ہی۔اس کے لئے باقاعدہ فنڈز قائم کئے گئے ہیں اور غرقد کے درخت کی تصاویر پر مبنی ٹی شرٹس ، مگ ، جھنڈے، اور تصاویر تقسیم کی جاتی ہیں۔

ایک رپورٹ میں انکشاف کیا گیا تھا کہ یہودیوں نے گولان کی پہاڑیوں کو فتح کرنے کے بعد وہاں غرقد کی کاشت کردی ہے جبکہ افغانستان میں بھی اپنے قدم جمانے کے بعد وہاں خاموشی سے غرقد کاشت کئے جارہے ہیں ۔ اسرائیل نے بھارت کو بھی اپنے ملک کی تمام بنجر اراضی پر غرقد کی کاشت کرنے کے لئے کثیر رقوم دی ہیں۔اسرائیلی حکومت پچھلے 40سالوں سے غرقد کی شجرکاری میں مصروف ہے۔ ایک اندازے کے مطابق اسرائیل میں 2010 تک 24  کروڑغرقد کے درخت لگائے جاچکے ہیں ۔ 

مختلف ویب سائٹس اور وکیپیڈیا سے مدد لی گئ۔

#wailing_wall

#دیوارگریہ

#یہودی

#شجرغرقد

Wednesday, May 19, 2021

DNA میں خدا کے نشانیاں


100  کھرب One Hundred Trillion بے جان ایٹموں Atom

سے ملکر ایک انسانی خلیہ Cell بنتا ہے۔جس میں زندگی ہوتی ہے۔اس میں زندگی کون ڈالتا ہے۔100 کھرب (One Hundred Trillion) خلیوں (Cells) سے ایک انسان بنتا ہے۔اور ہر خلیہ Cell ایک DNA سالمہ کا حامل ہوتا ہے۔ہر DNA  میں انسانی جسم کے متعلق تین ارب Three Billion مختلف موضوعات کی معلومات Information ہوتی ہے۔اگر اس معلومات کو آپ کسی کتاب میں لکھنا چاہیں تو اسکی ایک ہزار جلدیں Volume بنیں گی اور ہر جلد 10 لاکھ صفحات (Pages) پر مشتمل ہوگا۔ اگر آپ اس معلومات کو کمپیوٹر کی Hard Disk میں ڈالنا چاہیں تو   اسکے لئے آپکو  215 ارب (215 Billion GB) کی Hard Disk  چاہیئے ہوگی۔D.N.A میں جو معلومات درج ہوتی ہے۔اسی کے مطابق انسان کی ظاہری شکل و صورت عادات اور رویہ بنتا ہے۔

جس طرح کمپیوٹر کے براؤزر پر نظر آنے والے صفحہ(Page) کے پیچھے (HTML) کے (Codes) کار فرما ہوتے ہیں۔


اس لئے مشہور ملحد رچرڈ ڈاکنز نے بھی کہا ہے کہ:

The machine code of

the genes is uncannily computer like.

انسانی ڈے این اے میں جینز کا مشین کوڈ  غیر معمولی طور پر کمپیوٹر جیسا ہے۔

(River out of Eden Page 17)


بل گیٹس (Bill Gates) نے کہا کہ:

“DNA is like a computer program but far,far more advanced than any software ever created.

ڈی  این اے ایک کمپیوٹر پروگرام  ہی کی طرح ہے۔

لیکن آج تک جتنے بھی سافٹ ویئر بنائے گئے ہیں ان سے زیادہ  ترقی یافتہ ہے۔

(The Road Ahead Page 188)


یہ صرف ایک انسان کی بات ہے اور دنیا میں ساڑھے سات ارب (7.5 Billion) موجود ہیں اور اس سے پہلے کتنے انسان گذرے ہیں۔اور کتنے کھرب انسان گزریں گے۔ہم  نہیں جانتے۔یہ صرف انسانوں کی بات  تھی۔انسان کے علاوہ زمین پر ساڑھے  آٹھ  ملین 8.7 Million جانداروں کی نوع (Species) موجود ہیں۔ اور ہر جاندار کی مختلف انواع (Species) ہوتی ہیں۔


کیا یہ اتنا پیچیدہ(Complex) اور ڈیزائن کیا ہوا(Designed) ڈی این اے خودبخود بن گیا۔کیا اس میں یہ معلومات اپنے آپ آ گئی؟ کیا آپ کہہ سکتے ہیں کہ ایک کمپیوٹر  پروگرام بغیر کسی سافٹ ویئر انجینئر کے بن گیا ہے۔جبکہ ڈی این اے دنیا کے بڑے سے بڑے کمپیوٹر پروگرام  سے بھی  کھربوں گنا زیادہ ترقی یافتہ Advanced ہے۔اور کسی سافٹ ویئر سے بھی بہت ہی  زیادہ پیچیدہ ہے۔


معلومات کے لئے عالم کی ضرورت ہوتی ہے۔ڈیزائن کے لئے DESIGNER کی ضرورت ہوتی ہے۔پروگرام کے لیے ایک اعلی باکمال PROGRAMMER  کی ضرورت ہوتی ہے۔


هُوَ اللّـٰهُ الْخَالِقُ الْبَارِئُ الْمُصَوِّرُ ۖ لَـهُ الْاَسْـمَآءُ الْحُسْنٰى ۚ يُسَبِّـحُ لَـهٝ مَا فِى السَّمَاوَاتِ وَالْاَرْضِ ۖ وَهُوَ الْعَزِيْزُ الْحَكِـيْمُ


وہ اللہ ہی  ہے جو تخلیق کرنے والا ٹھیک ٹھیک وجود  میں لانے والا چیزوں کو صورت دینے ولا ہے۔  تمام اچھے نام اسی کے ہیں۔ کائنات کی ہر چیز اسکی پاکائی بیان کرتی ہے۔ وہ بہت ہی غالب اور حکمت والا ہے۔الحشر:24


وَفِىْ خَلْقِكُمْ وَمَا يَبُثُّ مِنْ دَآبَّةٍ اٰيَاتٌ لِّقَوْمٍ يُوْقِنُـوْنَ


اور تمہاری تخلیق میں اور اان جانداروں  میں جن کو زمین میں پھیلایا گیا ہے یقین کرنے والوں کے لئے بڑی نشانیاں ہیں۔

الجاثیہ آیت:4

Tuesday, May 18, 2021

فضائل مسجد اقصیٰ



تین اہم مساجد میں سے ایک:

اس مسجد کی ایک فضیلت اور خصوصیت یہ ہے کہ یہ مسجد اُن تین مساجد میں شامل ہے جن کی طرف سفر کرنے کی بطورخاص اجازت دی گئی ہے اور اس کی طرف سفر کرنے کو عبادت کا درجہ دیا گیا ہے۔


حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا:

 تین مساجد کے علاوہ کسی اور مسجد کی طرف سفر نہ کیا جائے(اور وہ تین مساجد یہ ہیں): مسجد حرام ، مسجد نبوی، مسجد اقصیٰ ‘‘

(بخاری،١١٨٩)


یعنی: اگر کوئی انسان عبادت اور تقرب الی اللہ کی نیت سے کسی مسجد کی طرف سفر کرکے جانا چاہتا ہے تو باقی مساجد ثواب کے اعتبار سے برابر ہیں اس لیے ان مساجد میں کسی کو کسی پر ترجیح حاصل نہیں لیکن یہ تین مساجد اس حکم سے مستثنیٰ ہیں، اس لیے ان کی طرف سفر کرنا جائز ہے۔


مسلمانوں کا قبلہ اول تھا


جب تک مسلمانوں کے لیے کعبہ شریف کا قبلہ مقرر نہیں کیا گیا تھا اُس وقت تک مسلمانوں کے لیے قبلہ یہی ’’مسجد اقصیٰ‘‘ تھی، اس طرح یہ مسلمانوں کا پہلا قبلہ تھی، اس بنیاد پر اس کی جو فضیلت اور مسلمانوں کے دل میں اس کا جو مقام ہونا چاہیے وہ بالکل واضح ہے۔


حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:


ہم نے تقریباً سولہ یا سترہ مہینوں تک نبی کریمﷺ کے ساتھ بیت المقدس کی طرف منہ کر کے نمازیں پڑھیں پھر ہمارا قبلہ کعبہ کو مقرر کردیا گیا 

(بخاری: ۳۳۹۲)


 زمین پر قائم ہونے والی دوسری مسجد:


مسجد اقصی کی فضیلت کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ اس زمین پر بیت اللہ کے بعد جو مسجد قائم ہوئی وہ یہی مسجد اقصی ہے۔

 حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! زمین پر سب سے پہلے کون سی مسجد بنائی گئی؟ تو آپ نے جواب میں فرمایا: مسجد حرام… میں نے پھر پوچھا: اس کے بعد؟ (یعنی مسجد حرام کے بعدکون سی مسجد بنائی گئی؟) تو آپﷺ نے ارشاد فرمایا: مسجد اقصیٰ‘‘… (بخاری: ۳۳٤٤)


 مبارک سرزمین سے نسبت:


مسجد اقصی کی ایک فضیلت یہ ہے کہ یہ مسجد جس سرزمین پر واقع ہے اللہ تعالی نے اس سرزمین کو مبارک قراردیا ہے۔


ارشاد باری تعالیٰ ہے:


سبحان الذی اسریٰ بعبدہ لیلا من المسجد الحرام الی المسجد الاقصی الذی بارکنا حولہ (الاسرائ:۱)


ترجمہ: پاک ہے وہ ذات جس نے راتوں رات اپنے بندے کو مسجد حرام سے مسجد اقصی تک سیر کرائی جس کے ارد گرد ہم نے برکت رکھی ہے


بعض اہل علم فرماتے ہیں: اگر اس مسجد کے لیے اس قرآنی فضیلت کے علاوہ اور کوئی فضیلت نہ ہوتی تب بھی یہی ایک فضیلت اس کی عظمت و بزرگی اور شان کے لیے کافی تھی۔


سرزمین محشر:


مسجد اقصی کی ایک فضیلت یہ بھی ہے کہ یہ جس سرزمین پر واقع ہے وہ سرزمین حشر کی جگہ ہے۔


حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! ہمیں بیت المقدس کے بارے میں بتلائیے؟ تو آپﷺ نے فرمایا: وہ سرزمین حشر کی جگہ ہے…

( ابن ماجہ: ۱٤٠٧)


 معراج رسولﷺ کی ایک منزل:


مسجد اقصیٰ کی ایک یہ فضیلت بھی قابل ذکرہے کہ جس وقت اللہ تعالی نے خاتم النبیینﷺ کو عظیم اعزاز معراج کی صورت میں عطاء فرمایا، جو ایک عظیم معجزہ بھی ہے، تو سفر میں ایک اہم منزل وہ پڑاؤ تھاجو آپ نے مسجد اقصیٰ میں فرمایا، پھریہی وہ جگہ ہے جہاں سے آپ کو آسمان کی بلندیوں کی طرف لیجایا گیا۔


حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کی یہ حدیث ملاحظہ فرمائیں۔ نبی کریمﷺ فرماتے ہیں:


’’میرے پاس براق لایا گیا، یہ ایک سفیدرنگت کی لمبی سواری تھی ، گدھے سے کچھ بڑی اورخچرسے کچھ چھوٹی، اس کا ایک قدم انتہائے نظر کی مسافت پر پڑتا تھا۔ نبی کریمﷺ فرماتے ہیں: میں اُس پر سوار ہوا، یہاں تک کہ میں بیت المقدس پہنچ گیا، وہاں پہنچ کر اس سواری کواس حلقے سے باندھ دیا جس حلقے سے دیگر انبیاء کرام علیہم السلام (اپنی سواریاں)باندھتے ہیں، پھر میں مسجد میں داخل ہوا، اس میں دورکعات ادا کیں، پھر باہر نکل آیا، حضرت جبرئیل علیہ السلام دودھ اورشراب کا ایک الگ الگ برتن میرے پاس لائے، میں نے ان میں سے دودھ والا برتن لے لیا،اس پر حضرت جبرئیل علیہ السلام نے فرمایا: آپ نے فطرت ( کے عین مطابق چیز کو) پسند فرمایا ہے۔ اس کے بعد وہ ہمیں آسمان کی طرف لے کر چل پڑے‘‘…(مسلم:162)


نماز میں کئی گُنا اضافہ:


اس مسجد کی ایک اہم فضیلت یہ بھی ہے کہ اسلام کے اہم ترین رکن نماز کااجر وثواب اس مسجد میں کئی گنا بڑھا دیا جاتا ہے، جو اس بات کی دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک اس مسجد کا مقام ومرتبہ دیگر مساجد کے مقابلے میں ایک امتیازی شان رکھتا ہے۔


حضرت ابوذررضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:ایک مرتبہ ہم رسول اللہ ﷺ کے پاس بیٹھے اس موضوع پر گفتگو کررہے تھے کہ آیارسول اللہﷺ کی مسجد (یعنی مسجد نبوی) کی فضیلت زیادہ ہے یا بیت المقدس والی مسجد(یعنی مسجد اقصیٰ) کی؟چنانچہ یہ باتیں سن کر رسول اللہﷺ نے فرمایا:


’’میری مسجد میں پڑھی جانے والی ایک نماز اُس مسجد(مسجد اقصیٰ) کی چار نمازوں سے افضل ہے۔ اور وہ نماز کی جگہ تو بہت ہی خوب ہے!۔ عنقریب ایسا زمانہ آئے گا کہ لوگوں کو اگرگھوڑے کی ایک لگام کے برابر بھی کوئی ایسی جگہ مل جائے کہ جس سے وہ مسجد اقصیٰ کی زیارت کرسکیں تو ان کے نزدیک یہ زیارت پوری دنیا سے بہتر ہوگی‘‘۔

 (حاکم:4/509)


اللہ اکبر! یہ حدیث نبی کریمﷺ کی نبوت کی نشانیوں میں سے اور پیشین گوئیوں میں سے ہے، اس میں آپ نے اس بات کی طرف اشارہ فرمادیا کہ ایک وہ وقت آئے گا جب مسلمانوں کے دلوں میں اس مسجد کی قدروقیمت بہت بڑھ جائے گی اور اس مسجد کے بارے میں دشمنان اسلام کی عداوتیں بہت بڑھ جائیں گی، ان کی عداوتوں کی وجہ سے مسلمان اس مسجد کے لیے ترسیں گہ حتیٰ کہ انسان یہ سوچے گا کہ کاش اگر مجھے گھوڑے کی لگام جتنی کو ئی ایسی جگہ بھی مل جاتی جہاں سے میں مسجد اقصیٰ کی دیکھ لیتا تو وہ اس خوشی کو دنیا بھر کی خوشیوں سے بہتر سمجھے گا!!


تمام انبیاء کرام علیہم السلام کی اجتماع گاہ:


ایک طویل حدیث میں، جسے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ نے راویت کیا ہے کہ: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اِسی مسجد میں سب انبیاء علیہم السلام کی ایک نمازمیں امامت کرائی، حدیث کے الفاظ کچھ اس طرح ہیں :


 نمازکا وقت آیا تومیں نے ان کی امامت کرائی

( صحیح مسلم: 172 )


دجال سے محفوظ جگہ:


مسجد اقصیٰ ایک ایسی پاکیزہ سرزمین میں واقع ہے، جہاں ’’کانا دجال‘‘ بھی داخل نہیں ہوسکے گا، جیسا کہ حدیث میں فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے :


’’ وہ دجال ساری زمین گھومے گا مگر حرم اوربیت المقدس میں داخل نہیں ہوسکے گا


( مسنداحمد : 19665 )


مسجد اقصیٰ میں نماز گناہوں کی معافی کا سبب:


سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ

ﷺ :جب سلیمان بن داؤد علیہ السلام بیت المقدس کی تعمیر سے فارغ ہوئے تو انہوں نے اللہ تعالیٰ سے تین دعائیں کیں:

(۱)یا اللہ!میرے فیصلے تیرے فیصـلے کے مطابق (درست)ہوں۔

(۲)یا اللہ!مجھے ایسی حکومت عطا فرما کہ میرے بعد کسی کو حکومت نہ ملے

(۳)یااللہ! جو آدمی اس مسجد (بیت المقدس)میں صرف نماز پڑھنے کے ارادے سے آئے وہ گناہوں سے اس طرح پاک ہوجائے جیسے وہ اس دن گناہوں سے پاک تھا جب اس کی ماں نے اسے پیدا کیا تھا نبی کریم ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے سلیمان علیہ السلام کی پہلی دودعائیں تو قبول فرمالی ہیں(کہ ان کا ذکر توقرآن مجید میں موجود ہے)مجھے امید ہے کہ ان کی تیسری دعا بھی قبول کرلی گئی ہوگی۔(سن، ابن ماجہ :۱۴۰۸)


فتح کی بشارت


عوف بن مالک رضی اللہ عنہ کی ایک حدیث میں نبی کریم ﷺ نے فرمایا:

قیامت کی چھ نشانیاں شمار کرلو،ایک میری موت اور پھر بیت المقدس کی فتح.

(صحیح البخاری،٣١٧٦)


سرزمین بیت المقدس اور قرب قیامت


قیامت سے قبل فتنوں کے ادوار میں ان علاقوں خصوصاً شام (بیت المقدس) میں رہائش اختیار کرنے کی ترغیب دلائی گئی ہے۔


(جامع ترمذی:۲۲۱۷)


نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ میری والدہ نے خواب دیکھاتھا کہ ان سے ایک نور نکلا جس سے شام کے محلات روشن ہوگئے۔

(مستدرک حاکم:۳۵٤٤، ابن حبان:٦٤٠٤) قیامت کے قریب جب فتنے بکثرت ہونگے تو ایمان اور اہل ایمان (زیادہ تر) شام کے علاقوں میں ہی ہونگے۔


(مستدرک حاکم:۸٤١٣)


شام کیلئے خوشخبری ہے اللہ کے فرشتوں نے اس پر(حفاظت کیلئے) اپنے پرپھلارکھے ہونگے۔


(جامع ترمذی،۳۹۵٤)


فتنوں کے زمانے میں اہل اسلام کی مختلف علاقوں میں مختلف جماعتیں اور لشکرہونگے اس دور میں آپﷺ نے شام اور اہل شام کے لشکر کو اختیار کرنے کی ترغیب دلائی کیونکہ اس دور میں ان کی حفاظت کی ذمہ داری اللہ تعالیٰ نےلی ہوگی۔(یہ مہدی اور عیسیٰ علیہ السلام کا لشکر ہوگا )


ابو داود ،۲٤٨٣)


آخری وقت زمانہ قرب قیامت میں خلافت اسلامیہ کامرکز ومحور ارض مقدسہ ہوگی۔( ابو داود،۲۵۳٣)


قیامت سے قبل مدینہ منورہ()ویران ہوجائے گا اوربیت المقدس آباد ہوگا تو یہ زمانہ بڑی لڑائیوں اور فتنوں کا ہوگا، اس کے بعد دجال کا خروج ہوگا۔

(ابو داود،٤٦٩٤)


دجال کا فتنہ اس امت کابہت بڑا فتنہ ہے اس سے ہر نبی نے اپنی قوم کو ڈرایا ہے 

(بخاری:۳۳۳۷)


مگر دجال چارمقامات پر داخل نہیں ہو سکے گا 

(۱)مکۃ المکرمہ

 (۲)مدینہ منورہ

(۳)بیت المقدس ،مسجد الاقصیٰ

( ٤)طور۔

(مسند احمد:۲۳٤٨٣)


حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا نزول بھی ان ہی علاقوں دمشق کے مشرق میں سفید مینار کے پاس ہوگا۔

( ابن ماجہ :٤٠٧٥)


حضرت عیسیٰ علیہ السلام دجال کو’’باب لد‘‘ کے پاس قتل کردیں گے۔


(صحیح مسلم:۲۹۳۷)


باب لد فلسطین کے علاقے میں بیت المقدس کے قریب ہے، پر جس اسرائیل غاصب نے قبضہ کیا ہوا ہے


فتنہ یاجوج وماجوج کی ہلاکت اور انتہاء بھی بیت المقدس کے قریب’’جبل الخمر‘‘ کے پا س ہوگی۔(صحیح مسلم:۲۹۳۷)


قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہوگی کہ جب تک یہودیوں کو صفحہ ہستی سے مٹا نہ دیاجائے، قیامت سے پہلے یہ وقت ضرور آئے گاکہ مسلمان یہودیوں کو چن چن کر قتل کریں گے حتی کہ اگر کوئی یہودی کسی درخت یا پتھر کے پیچھے چھپے گا تو وہ بھی بول اٹھے گا کہ اے مسلمان! میرے پیچھے یہودی چھپاہوا ہے آکر اسے قتل کردو۔


(صحیح بخاری:۲۹۲۶،۳۵۹۳،صحیح مسلم:۲۲،۲۹۲۱)


اللہ کریم اپنی حفظ و امان میں رکھے

Popular Posts