Popular Posts

Tuesday, February 22, 2022

جنات کا سائنسی تجزیہ


‏جنات اللہ کی مخلوق ہیں یہ ہمارا یقین ہے ، 

وہ آگ سے پیدا کیے گئے ،

 ان میں شیاطین و نیک صفت دونوں موجود ہیں

  اس پر بہت کچھ لکھا جا چکا ہے یہ تھریڈ اس بارے میں نہیں ہے ۔ 

یہ تھریڈ جنات کی سائینٹیفیک تشریح کے بارے میں ہے ۔ 

کیا وہ ہمارے درمیان ہی موجود ہیں ؟


 اور زیادہ اہم سوال یہ کہ ہم انہیں دیکھ کیوں نہیں سکتے ؟ 

لفظ جن کا ماخذ ہے ‘‘نظر نہ آنے والی چیز’’ اور اسی سے جنت یا جنین جیسے الفاظ بھی وجود میں آئے ۔ 

جنات آخر نظر کیوں نہیں آتے ؟

 اس کی دو وجوہات بیان کی جا سکتی ہیں ۔

  پہلی وجہ یہ کہ انسان کا ویژن بہت محدود ہے ۔

   اللہ تعالیٰ نے اس کائینات میں ‏جو (electromagnetic spectrum) 

   بنایا ہے اس کے تحت روشنی 19 اقسام کی ہے ۔ 

   جس میں سے ہم صرف ایک قسم کی روشنی دیکھ سکتے ہیں جو سات رنگوں پر مشتمل ہے ۔

    میں آپ کو چند مشہور اقسام کی روشنیوں کے بارے میں مختصراً بتاتا ہوں ۔ 

اگر آپ gamma-vision میں دیکھنے کے قابل ہو جائیں تو آپ کو دنیا ‏میں موجود ریڈی ایشن نظر آنا شروع ہو جائے گا ۔


 اگر آپ مشہور روشنی x-ray vision میں دیکھنے کے قابل ہوں تو آپ کے لیے موٹی سے موٹی دیواروں کے اندر دیکھنے کی اہلیت پیدا ہو جائے گی ۔

 اگر آپ infrared-vision میں دیکھنا شروع کر دیں تو آپ کو مختلف اجسام سے نکلنے والی حرارت نظر آئے گی ۔

‏روشنی کی ایک اور قسم کو دیکھنے کی صلاحیت ultraviolet-vision کی ہو گی جو آپ کو اینرجی دیکھنے کے قابل بنا دے گا ۔ 

اس کے علاوہ microwave-vision اور radio wave-vision جیسی کل ملا کر 19 قسم کی روشنیوں میں دیکھنے کی صلاحیت سوپر پاور محسوس ہونے لگتی ہے ۔


کائینات میں پائی جانی والی تمام ‏چیزوں کو اگر ایک میٹر کے اندر سمو دیا جائے تو انسانی آنکھ صرف 300 نینو میٹر کے اندر موجود چیزوں کو دیکھ پائے گی ۔ 

جس کا آسان الفاظ میں مطلب ہے کہ ہم کل کائینات کا صرف % 0.0000003 فیصد حصہ ہی دیکھ سکتے ہیں ۔ 

انسانی آنکھ کو دکھائی دینے والی روشنی visible light کہلاتی ہے اور یہ‏ الٹرا وائیلٹ اور انفراریڈ کے درمیان پایا جانے والا بہت چھوٹا سا حصہ ہے ۔ 


ہماری ہی دنیا میں ایسی مخلوقات موجود ہیں جن کا visual-spectrum ہم سے مختلف ہے ۔

 سانپ وہ جانور ہے جو انفراریڈ میں دیکھ سکتا ہے 

 ایسے ہی شہد کی مکھی الٹراوائیلٹ میں دیکھ سکتی ہے ۔

  دنیا میں سب سے زیادہ رنگ ‏مینٹس شرمپ کی آنکھ دیکھ سکتی ہے ،

   الو کو رات کے گھپ اندھیرے میں بھی ویسے رنگ نظر آتے ہیں جیسے انسان کو دن میں ۔

    امیرکن کُک نامی پرندہ ایک ہی وقت میں 180 ڈگری کا منظر دیکھ سکتا ہے ۔ 

    جبکہ گھریلو بکری 320 ڈگری تک کا ویو دیکھ سکتی ہے ۔

     درختوں میں پایا جانے والا گرگٹ ایک ہی وقت میں ‏دو مختلف سمتوں میں دیکھ سکتا ہے

      جبکہ افریقہ میں پایا جانے والا prongs نامی ہرن ایک صاف رات میں سیارے saturn کے دائیرے تک دیکھ سکتا ہے ۔ اب آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ انسان کی دیکھنے کی حِس کس قدر محدود ہے اور وہ اکثر ان چیزوں کو نہیں دیکھ پاتا جو جانور دیکھتے ہیں ۔

‏ترمذی شریف کی حدیث نمبر 3459 کے مطابق نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ 

جب تم مرغ کی آواز سنو تو اس سے اللہ کا فضل مانگو کیوں کہ وہ اسی وقت بولتا ہے جب فرشتے کو دیکھتا ہے.........

 اور جب گدھے کی رینکنے کی آواز سنو تو شیطان مردود سے اللہ کی پناہ مانگو کیوں کہ اس وقت وہ شیطان کو دیکھ رہا ہوتا ہے ۔

‏جب میں نے مرغ کی آنکھ کی ساخت پر تحقیق کی تو مجھے یہ جان کر حیرت ہوئی کہ مرغ کی آنکھ انسانی آنکھ سے دو باتوں میں بہت بہتر ہے ۔ 

پہلی بات کہ جہاں انسانی آنکھ میں دو قسم کے light-receptors ہوتے ہیں وہاں مرغ کی آنکھ میں پانچ قسم کے لائیٹ ریسیپٹرز ہیں ۔ 

اور دوسری چیز fovea جو‏انتہائی تیزی سے گزر جانے والی کسی چیز کو پہچاننے میں آنکھ کی مدد کرتا ہے جس کی وجہ سے مرغ ان چیزوں کو دیکھ سکتا ہے جو روشنی دیں اور انتہائی تیزی سے حرکت کریں


 اور اگر آپ گدھے کی آنکھ پر تحقیق کریں تو آپ دیکھیں گے کہ اگرچہ رنگوں کو پہچاننے میں گدھے کی آنکھ ہم سے بہتر نہیں ہے لیکن‏ گدھے کی آنکھ میں rods کی ریشو کہیں زیادہ ہے اور اسی وجہ سے گدھا اندھیرے میں درختوں اور سائے کو پہچان لیتا ہے یعنی آسان الفاظ میں گدھے کی آنکھ میں اندھیرے میں اندھیرے کو پہچاننے کی صلاحیت ہم سے کہیں زیادہ ہے ۔ 

البتہ انسان کی سننے کی حِس اس کی دیکھنے کی حس سے بہتر ہے اگرچہ دوسرے‏ جانوروں کے مقابلے میں پھر بھی کم ہے 

مثال کے طور پہ نیولے نما جانور بجو کے سننے کی صلاحیت سب سے زیادہ یعنی 16 ہرٹز سے لے کر 45000 ہرٹز تک ہے

 اور انسان کی اس سے تقریباً آدھی یعنی 20 ہرٹز سے لے کر 20000 ہرٹز تک ۔ 

 اور شاید اسی لیے جو لوگ جنات کے ساتھ ہوئے واقعات رپورٹ کرتے ہیں وہ‏ دیکھنے کے بجائے سرگوشیوں کا زیادہ ذکر کرتے ہیں ۔

  ایک سرگوشی کی فریکوئینسی تقریباً 150 ہرٹز ہوتی ہے 

  اور یہی وہ فریکوئینسی ہے

   جس میں انسان کا اپنے ذہن پر کنٹرول ختم ہونا شروع ہوتا ہے ۔

    اس کی واضح مثال ASMR تھیراپی ہے

     جس میں 100 ہرٹز کی سرگوشیوں سے آپ کے ذہن کو ریلیکس کیا جاتا ہے ۔‏

     اس تھریڈ کے شروع میں ، میں نے جنات کو نہ دیکھ پانے کی دو ممکنہ وجوہات کا ذکر کیا تھا جن میں سے ایک تو میں نے بیان کر دی لیکن

      دوسری بیان کرنے سے پہلے میں ایک چھوٹی سی تھیوری سمجھانا چاہتا ہوں ۔ 

سنہ 1803 میں ڈالٹن نامی سائینسدان نے ایک تھیوری پیش کی تھی کہ کسی مادے کی سب سے چھوٹی‏ اور نہ نظر آنے والی کوئی اکائی ہو گی اور ڈالٹن نے اس اکائی کو ایٹم کا نام دیا ۔

 اس بات کے بعد 100 سال گزرے جب تھامسن نامی سائینسدان نے ایٹم کے گرد مزید چھوٹے ذرات کی نشاندہی کی جنہیں الیکٹرانز کا نام دیا گیا ۔

  پھر 7 سال بعد ردرفورڈ نے ایٹم کے نیوکلیئس کا اندازہ لگایا ،

   صرف 2 سال‏بعد بوہر نامی سائینسدان نے بتایا کہ الیکٹرانز ایٹم کے گرد گھومتے ہیں

    اور دس سال بعد 1926 میں شورڈنگر نامی سائینسدان نے ایٹم کے اندر بھی مختلف اقسام کی اینرجی کے بادلوں کو دریافت کیا ۔

جو چیز 200 سال پہلے ایک تھیوری تھی ، آج وہ ایک حقیقت ہے ، اور آج ہم سب ایٹم کی ساخت سے واقف ہیں‏ حالانکہ اسے دیکھ پانا آنکھ کے لیے آج بھی ممکن نہیں ۔ 

ایسی ہی ایک تھیوری 1960 میں پیش کی گئی جسے string theory کہتے ہیں ۔ اس کی ڈیٹیلز بتانے سے پہلے میں ایک بات کی وضاحت کرنا ضروری سمجھتا ہوں ۔ 

انسان کی حرکت آگے اور پیچھے ، دائیں اور بائیں ، اوپر اور نیچے ہونا ممکن ہے جسے‏جسے تین ڈائیمینشنز یا 3D کہتے ہیں ۔ ہماری دنیا یا ہمارا عالم انہی تین ڈائیمینشز کے اندر قید ہے ہم اس سے باہر نہیں نکل سکتے ۔


 لیکن string theory کے مطابق مزید 11 ڈائیمینشنز موجود ہیں ۔ میں ان گیارہ کی گیارہ ڈائیمینشنز میں ممکن ہو سکنے والی باتیں بتاؤں گا ۔ 

اگر آپ پہلی ڈائیمینش‏....

میں ہیں تو آپ آگے اور پیچھے ہی حرکت کر سکیں گے ۔ 


اگر آپ دوسری ڈائیمینشن....

 میں داخل ہو جائیں تو آپ آگے پیچھے اور دائیں بائیں حرکت کر سکیں گے ۔

تیسری ڈائیمینشن .....

میں آپ آگے پیچھے دائیں بائیں اور اوپر نیچے ہر طرف حرکت کر سکیں گے اور یہی ہماری دنیا یا جسے ہم اپنا عالم کہتے ہیں ، ہے ۔‏اگر آپ کسی طرح سے

 چوتھی ڈائیمینشن....

  میں داخل ہو جائیں تو آپ وقت میں بھی حرکت کر سکیں گے ۔ 

پانچویں ڈائیمینشن.....

 میں داخل ہونے پر آپ اس عالم سے نکل کر کسی دوسرے عالم میں داخل ہونے کے قابل ہو جائیں گے جیسا کہ عالم ارواح ۔

چھٹی ڈائیمینشن .....

میں آپ دو یا دو سے زیادہ عالموں میں حرکت کرنے کے‏قابل ہو جائیں گے اور میرے ذہن میں عالم اسباب کے ساتھ عالم ارواح اور عالم برزخ کا نام آتا ہے ۔


ساتویں ڈائیمینشن....

 آپ کو اس قابل بنا دے گی کہ اس عالم میں بھی جا سکیں گے جو کائینات کی تخلیق سے پہلے یعنی بِگ بینگ سے پہلے کا تھا۔

آٹھویں ڈائیمینشن....

 آپ کو تخلیق سے پہلے کے بھی مختلف عالموں‏ میں لیجانے کے قابل ہو گی ۔

نویں ڈائیمینشن....

 ایسے عالموں کا سیٹ ہو گا جن میں سے ہر عالم میں فزیکس کے قوانین ایک دوسرے سے مکمل مختلف ہوں گے ۔ ممکن ہے کہ وہاں کا ایک دن ہمارے پچاس ہزار سال کے برابر ہو ۔

اور آخری اور دسویں ڈائیمینشن ۔۔۔

 اس میں آپ جو بھی تصور کر سکتے ہیں ، جو بھی سوچ‏ سکتے ہیں اور جو بھی آپ کے خیال میں گزر سکتا ہے ، اس ڈائیمینشن میں وہ سب کچھ ممکن ہو گا ۔

اور میری ذاتی رائے کے مطابق جنت ۔۔۔ شاید اس ڈائیمینشن سے بھی ایک درجہ آگے کی جگہ ہے کیوں کہ

 حدیث قدسی میں آتا ہے کہ جنت میں میرے بندے کو وہ کچھ میسر ہو گا جس کے بارے میں نہ کبھی کسی آنکھ نے‏دیکھا ، نہ کبھی کان نے اس کے بارے میں سنا اور نہ کبھی کسی دل میں اس کا خیال گزرا ۔ 

 اور دوسری جگہ یہ بھی آتا ہے کہ میرا بندہ وہاں جس چیز کی بھی خواہش کرے گا وہ اس کے سامنے آ موجود ہو گی ۔

بالیقین جنات ، ہم سے اوپر کی ڈائیمینشن کے beings ہیں....

 اور یہ وہ دوسری سائینٹیفیک وجہ ہے

  جس کی‏ بناء پر ہم انہیں نہیں دیکھ سکتے ۔ 

  ان دس ڈائیمینشنز کے بارے میں جاننے کے بعد آپ یہ سمجھ سکتے ہیں کہ

   جنات کے بارے میں قرآن ہمیں ایسا کیوں کہتا ہے کہ وہ تمہیں وہاں سے دیکھتے ہیں جہاں سے تم انہیں نہیں دیکھتے ، 

یا پھر عفریت اتنی تیزی سے سفر کیسے کر سکتے ہیں جیسے سورۃ سباء میں ذکر ہے‏کہ ایک عفریت نے حضرت سلیمانؑ کے سامنے ملکہ بلقیس کا تخت لانے کا دعویٰ کیا تھا ۔ 

یا پھر کشش ثقل کا ان پر اثر کیوں نہیں ہوتا اور وہ اڑتے پھرتے ہیں ۔


 یا پھر کئی دوسرے سوالات جیسے عالم برزخ ، جہاں روحیں جاتی ہیں ، 

 یا عالم ارواح جہاں تخلیق سے پہلے اللہ تعالیٰ نے تمام ارواح سے عہد لیا‏تھا کہ تم کسی اور کی عبادت نہیں کرو گے اور سب نے ہوش میں اقرار کیا تھا ، 

 یا قیامت کے روز دن کیسے مختلف ہو گا ،

  یا شہداء کی زندگی کس عالم میں ممکن ہے ۔ 

ان تمام عالموں یعنی عالم برزخ ، عالم ارواح یا عالم جنات کے بارے میں تحقیقی طور پر سوچنا ایک بات ہے ،

 لیکن جس چیز نے ذاتی طور پر‏پر میرے دل کو چھوا ......

 وہ سورۃ فاتحۃ کی ابتدائی آیت ہے ۔

الحمد للہ رب العالمین ۔


 تمام تعریفیں اس اللہ کے لیے ، جو تمام عالموں کا رب ہے ۔ 

 اور میں سمجھتا ہوں کہ ‘‘تمام عالم’’ کے الفاظ کا جو اثر اب میں اپنے دل پر محسوس کرتا ہوں ، وہ پہلے کبھی محسوس نہ کیا تھا...

ڈی این اے کیاھے؟What is DNA

 (ڈی این اے تخلیق الہی کا کرشمہ )



Pictures from Wikipedia.

1869 میں 𝓕𝓻𝓲𝓮𝓭𝓻𝓲𝓬𝓱 𝓜𝓲𝓮𝓼𝓬𝓱𝓮𝓻 نے ڈی این اے دریافت کیا جب اس نے خون کے سفید خلیات کے مرکزوں میں سے ایک ایسا مادہ دریافت کیا کہ جسمیں اس کی تحقیق کے مطابق نائٹروجن کی کثیر مقدار پائی گئی، لیکن اس کو یہ نہیں معلوم تھا کہ یہ مادہ جو اس نے الگ کیا ہے یہی 𝓓𝓝𝓐 کہلایا جائے گاجسطرح کمپیوٹر (کمپیوٹر) کے براؤزر پر نظر آنے والے صفحہ کے پیچھے 𝓗𝓣𝓜𝓛 کے رموز (واحد: رمز)  𝓒𝓸𝓭𝓮𝓼 کارفرما ہوتے ہیں اسی طرح زمین پر چلتی پھرتی زندگی کے پیچھے 𝓓𝓝𝓐 کے رموز ہوتے ہیں۔ یعنی کسی جاندار کی ظاہری شکل و صورت اور رویہ (طرزظاہری / 𝓹𝓱𝓮𝓷𝓸𝓽𝔂𝓹𝓮) دراصل اس کے خلیات میں موجود ڈی این اے کے اندر پوشیدہ وراثی رمز (جینیٹک کوڈ) سے بنتا ہے، ڈی این اے میں لکھا گیا پوری زندگی کا یہ افسانہ طرز وراثی / 𝓰𝓮𝓷𝓸𝓽𝔂𝓹𝓮 کہلاتا ہے۔ طرزظاہری اور طرزوراثی کے فرق کی وضاحت ایسی ہے کہ جیسے ایک ٹی وی کی اسکرین پر نظر آنے والا ڈراما ہو جو مکمل طور پر اپنے لیے لکھے گئے اسکرپٹ پر چلتا ہے، گویا ڈراما خود طرزظاہری کی مثال ہو اور اس کے لیے لکھا گیا اسکرپٹ طرزوراثتی ۔

ڈی این اے

اس طبی اصطلاح کو ہم آسان الفاظ میں کچھ یوں بیان کرسکتے ہیں کہ انسانی جسم لاتعداد خلیات یعنی سیلز کا مجموعہ ہوتا ہے، اسی طرح ہمارے جسم کا ہر ایک سیل ایک مالیکیول پر مشتمل ہوتا ہے، جسے ڈی این اے کہا جاتا ہے۔

ڈی این اے یعنی ’ڈی آکسی رائبو نیوکلک ایسڈ‘ کسی بھی انسان کا وہ مخصوص جینیاتی کوڈ ہے، جس کے ذریعے اس کے بارے میں معلومات حاصل کی جاسکتی ہیں اور یہ معلومات اس کی ظاہری شکل و صورت، زندگی، تاریخ اور شناخت پر مشتمل ہوتی ہیں۔

قدرت کا کرشمہ ہے کہ اس دنیا میں ہر انسان کا ڈی این اے دوسرے انسان سے یکسر مختلف ہے۔

ہر انسان میں کروموسومز کے تیئیس (23) جوڑے پائے جاتے ہیں یعنی 23 کروموسوم باپ سے آتے ہیں اور باقی 23 ماں سے حاصل ہوتے ہیں۔ کروموسوم کے ہر جوڑے میں 2 کرومیٹین ہوتے ہیں یعنی اگر کروموسومز 23 جوڑے ہیں تو کل 46 کرومیٹین ہوئے۔ کروموسومز دھاگے جینز سے بنے ہوتے ہیں اور یہ جینز پیغامات رکھتے ہیں کہ ہماری ممکنہ شکل و صورت، رنگ بال، ذہن مزاج حتی کہ بیماریاں کیا ہو سکتی ہیں۔ والدین کے جینز آپس میں ملتے ہیں تو ان میں والدین کی جینز کے سب خواص موجود ہوتے ہیں

ڈی این اے ٹیسٹ کیا ہے اور کیسے کیا جاتا ہے؟

ہر انسان کا ڈی این اے مختلف ہوتا ہے. ڈی این اے ٹیسٹ کے مدد سے انسان کے بارے میں مکمل معلومات حاصل کی جا سکتی ہیں.

ڈی این اے کیا ہے؟

ڈی این اے یعنی کہ ڈی آکسی رائبو نیوکلیک ایسڈ انسانوں اور تمام جانداروں کے جسم میں پایا جانے والا وراثتی مادہ ہے۔ انسانی جسم کی اکائی سیل یونی خلیہ ہوتی ہے۔ اس خلیے کے درمیان میں نیوکلئیس پایا جاتا ہے جس کے اندر ڈی این اے ہوتا ہے۔ انسانی جسم کے تمام خلیوں میں ایک جیسا ہی ڈی این اے پایا جاتا ہے۔ ہر انسان کا ڈی این اے دوسرے انسان سے مختلف ہوتا ہے۔

ہر انسان اپنے ڈی این اے کا پچاس فیصد حصہ اپنی والدہ سے وصول کرتا ہے اور بقیہ پچاس فیصد والد سے۔ ان دونوں ڈی این اے کے مخصوص مرکب سے انسان کا اپنا ڈی این اے بنتا ہے۔ ڈی این اے میں انسان کے بارے میں سب معلومات ہوتی ہیں مثلاً اس کی جنس، بالوں کا رنگ، آنکھوں کا رنگ، سونے کے اوقات، عمر اور جسمانی ساخت وغیرہ۔ اس کے علاوہ اس انسان کو کون کون سی بیماریاں لاحق ہیں، یہ بھی اس کے ڈی این اے سے معلوم کیا جا سکتا ہے۔

ڈی این اے ٹیسٹ کیسے کیا جاتا ہے؟

جس شخص کا بھی ڈی این اے ٹیسٹ مقصود ہو اس کا بال،خون، ہڈی اور گوشت یا ان میں سے کسی ایک چیز کا نمونہ لیا جاتا ہے۔ سب سے پہلے انسانی خلیے میں سے ڈی این اے الگ کیا جاتا ہے اور پھر پولیمیریز چین ری ایکشن نامی طریقے کی مدد سے اس ڈی این اے کی لاکھوں کاپیاں بنا لی جاتی ہیں۔ ان لاکھوں کاپیوں کی مدد سے ڈی این اے کی جانچ بہتر طریقے سے ہو سکتی ہے۔ ڈی این اے کو جانچنے کے بعد ڈی این اے فنگر پرنٹ بنایا جاتا ہے۔ دو مختلف نمونوں کے ڈی این اے فنگر پرنٹ میں مماثلت دیکھ کر ان میں کسی تعلق کا تعین کیا جا سکتا ہے۔

حادثات کی صورت میں جب لاش کی شناخت بالکل نا ممکن ہو تب ڈی این کے ذریعے ہی شناخت عمل میں لائی جاتی ہے۔ ڈی این اے ٹیسٹ کی مدد سے جانچا جاتا ہے کہ اس لاش کا ڈی این اے کس خاندان سے مل رہا ہے۔ ڈی این اے میں موجود جینیٹک کوڈ کے تقابلی جانچ سے معلوم کیا جاسکتا ہے کہ دو مختلف اشخاص میں کوئی خونی رشتہ ہے کہ نہیں ا۔سی لیے جھلسی ہوئی یا ناقابل شناخت لاشوں کے ڈی این اے نمونے لے کر دعویٰ دار لواحقین کے نمونوں سے ملائے جاتے ہیں۔ اگر جینیٹک کوڈ ایک جیسے ہوں تو خونی رشتہ ثابت ہو جاتا ہے اور لاش لواحقین کے حوالے کر دی جاتی ہے۔

ڈی این اے ٹیسٹ کے بعد ابہام کی بالکل گنجائش نہیں ہوتی۔ پاکستان میں فرانزک لیب، فرانزک سائنس دان اور ماہر عملے کی کمی کے باعث اس ٹیسٹ کو انجام دینے میں کافی مشکلات کا سامنا رہتا ہے اور اس کو مکمل ہونے میں ہفتہ بھی لگ جاتا ہے۔

ڈی این اے ٹیسٹ کیوں کیا جاتا ہے؟

ڈی این اے ٹیسٹ کے چند عام مقاصد درج ذیل ہیں۔

ولدیت ثابت کرنے کے لیے

اگر یہ جاننا ہو کہ کسی انسان کے حقیقی والدین کون ہیں تو اس انسان کا ولدیت کا دعویٰ کرنے والوں کے ساتھ ڈی این اے میچ کر کے دیکھا جاتا ہے۔ اگر دونوں کے ڈی این اے مماثلت ہو تو ولدیت کا دعویٰ درست قرار پاتا ہے۔

مجرم کی شناخت کے لیے

ڈی این اے کی مدد سے مجرم کی شناخت بھی آسانی سے کی جا سکتی ہے۔ اگر جائے وقوع سے مجرم کا بائیولوجیکل نمونہ ملے تو اس کا ڈی این اے حاصل کر کے مکمل رپورٹ مرتب کر لی جاتی ہے۔ اس ڈی این اے کو اس خاص کیس میں نامزد ملزمان کے ڈی این اے سے میچ کرکے مجرم کی نشاندہی کی جا سکتی ہے۔

جین تھیراپی

اگر کسی خاندان میں کوئی مخصوص بیماری ہو تو وہ اپنے بچوں کی پیدائش سے پہلے ڈی این اے ٹیسٹ کی مدد سے جان سکتے ہیں کہ ان کے بچے میں بھی یہ بیماری ہوگی یا نہیں۔

جینیٹک جینیالوجی

اگر کوئی اپنے آبائو اجداد کے متعلق معلومات حاصل کرنا چاہے تو وہ بھی ڈی این ٹیسٹ کے ذریعے ممکن ہے۔

نئ تحقیق میں اب بیماریوں کا تدارک ممکن ھو سکے گا۔

#𝓢𝓪𝓵𝓮𝓮𝓶𝓑𝓱𝓾𝓽𝓽𝓪

Sunday, February 20, 2022

100 Quran Ayats for better society. 100 مختصر مگر انتہائی موثر پیغامات

 *ایک بہترین معاشرے کی تشکیل کے لئے ‏قران پاک کے 100 مختصر مگر انتہائی موثر پیغامات*


*1 گفتگو کے دوران بدتمیزی نہ کیا کرو،* 

*سورۃ البقرۃ، آیت نمبر 83

*2 غصے کو قابو میں رکھو*

*سورۃ آل عمران ، آیت نمبر 134

*3 دوسروں کے ساتھ بھلائی کرو،*

*سورۃ القصص، آیت نمبر 77

*4 تکبر نہ کرو،* 

*سورۃ النحل، آیت نمبر 23 

*5 دوسروں کی غلطیاں معاف کر دیا کرو،* 

*سورۃ النور، آیت نمبر 22

*6 لوگوں کے ساتھ آہستہ بولا کرو،* 

*سورۃ لقمان، آیت نمبر 19

*7 اپنی آواز نیچی رکھا کرو،*

*سورۃ لقمان، آیت نمبر 19

*8 دوسروں کا مذاق نہ اڑایا کرو،* 

*سورۃ الحجرات، آیت نمبر 11

*9 والدین کی خدمت کیا کرو،*

*سورۃ الإسراء، آیت نمبر 23

*‏10 والدین سے اف تک نہ کرو،*

*سورۃ الإسراء، آیت نمبر 23

*11 والدین کی اجازت کے بغیر ان کے کمرے میں داخل نہ ہوا کرو،*  

*سورۃ النور، آیت نمبر 58

*12 لین دین کا حساب لکھ لیا کرو،*  

*سورۃ البقرۃ، آیت نمبر 282

*13 کسی کی اندھا دھند تقلید نہ کرو،*  

*سورۃ الإسراء، آیت نمبر 36

*14 اگر مقروض مشکل وقت سے گزر رہا ہو تو اسے ادائیگی کے لیے مزید وقت دے دیا کرو،*

*سورۃ البقرۃ، آیت نمبر 280

*15 سود نہ کھاؤ،*  

*سورۃ البقرة ، آیت نمبر 278

*16 رشوت نہ لو،*  

*سورۃ المائدۃ، آیت نمبر 42

*17 وعدہ نہ توڑو،*  

*سورۃ الرعد، آیت نمبر 20

*‏18 دوسروں پر اعتماد کیا کرو،*

*سورۃ الحجرات، آیت نمبر 12

*19 سچ میں جھوٹ نہ ملایاکرو،*  

*سورۃ البقرۃ، آیت نمبر 42

*20 لوگوں کے درمیان انصاف قائم کیا کرو،*  

*سورۃ ص، آیت نمبر 26

*21 انصاف کے لیے مضبوطی سے کھڑے ہو جایا کرو،*  

*سورۃ النساء، آیت نمبر 135

*22 مرنے والوں کی دولت خاندان کے تمام ارکان میں تقسیم کیاکرو،* 

*سورۃ النساء، آیت نمبر 8

*23 خواتین بھی وراثت میں حصہ دار ہیں،* 

*سورۃ النساء، آیت نمبر 7

*24 یتیموں کی جائیداد پر قبضہ نہ کرو،* 

*سورۃ النساء، آیت نمبر 2

*‏25 یتیموں کی حفاظت کرو،*

*سورۃ النساء، آیت نمبر 127 

*26 دوسروں کا مال بلا ضرورت خرچ نہ کرو،* 

*سورۃ النساء، آیت نمبر 6

*27 لوگوں کے درمیان صلح کراؤ،* 

*سورۃ الحجرات، آیت نمبر 10

*28 بدگمانی سے بچو،* 

*سورۃ الحجرات، آیت نمبر 12

*29 غیبت نہ کرو،* 

*سورۃ الحجرات، آیت نمبر 12

*30 جاسوسی نہ کرو،* 

*سورۃ الحجرات، آیت نمبر 12

*31 خیرات کیا کرو،* 

*سورۃ البقرة، آیت نمبر 271

*32 غرباء کو کھانا کھلایا کرو*

*سورة المدثر، آیت نمبر 44

*33 ضرورت مندوں کو تلاش کر کے ان کی مدد کیا کرو،* 

*سورة البقرۃ، آیت نمبر 273

*34 فضول خرچی نہ کیا کرو،*

*سورۃ الفرقان، آیت نمبر 67

*‏35 خیرات کرکے جتلایا نہ کرو،*

*سورة البقرۃ، آیت 262

*36 مہمانوں کی عزت کیا کرو،*

*سورۃ الذاريات، آیت نمبر 24-27

*37 نیکی پہلے خود کرو اور پھر دوسروں کو تلقین کرو،*  

*سورۃ البقرۃ، آیت نمبر44

*38 زمین پر برائی نہ پھیلایا کرو،* 

*سورۃ العنكبوت، آیت نمبر 36

*39 لوگوں کو مسجدوں میں داخلے سے نہ روکو،* 

*سورة البقرة، آیت نمبر 114

*40 صرف ان کے ساتھ لڑو جو تمہارے ساتھ لڑیں،* 

*سورة البقرة، آیت نمبر 190

*41 جنگ کے دوران جنگ کے آداب کا خیال رکھو،* 

*سورة البقرة، آیت نمبر 190

*‏42 جنگ کے دوران پیٹھ نہ دکھاؤ،* 

*سورة الأنفال، آیت نمبر 15

*43 مذہب میں کوئی سختی نہیں،*

*سورة البقرة، آیت نمبر 256

*44 تمام انبیاء پر ایمان لاؤ،*

*سورۃ النساء، آیت نمبر 150

*45 حیض کے دنوں میں مباشرت نہ کرو،* 

*سورة البقرة، آیت نمبر، 222

*46 بچوں کو دو سال تک ماں کا دودھ پلاؤ،* 

*سورة البقرة، آیت نمبر، 233

*47 جنسی بدکاری سے بچو،*

*سورة الأسراء، آیت نمبر 32

*48 حکمرانوں کو میرٹ پر منتخب کرو،*  

*سورۃ البقرۃ، آیت نمبر 247

*49 کسی پر اس کی ہمت سے زیادہ بوجھ نہ ڈالو،* 

*سورة البقرة، آیت نمبر 286

*50 منافقت سے بچو،* 

*سورۃ البقرۃ، آیت نمبر 14-16

*‏51 کائنات کی تخلیق اور عجائب کے بارے میں گہرائی سے غور کرو،* 

*سورة آل عمران، آیت نمبر 190

*52 عورتیں اور مرد اپنے اعمال کا برابر حصہ پائیں گے،* 

*سورة آل عمران، آیت نمبر 195

*53 بعض رشتہ داروں سے شادی حرام ہے،*  

*سورۃ النساء، آیت نمبر 23

*54 مرد خاندان کا سربراہ ہے،*

*سورۃ النساء، آیت نمبر 34

*55 بخیل نہ بنو،* 

*سورۃ النساء، آیت نمبر 37

*56 حسد نہ کرو،* 

*سورۃ النساء، آیت نمبر 54

*57 ایک دوسرے کو قتل نہ کرو،* 

*سورۃ النساء، آیت نمبر 29

*58 فریب (فریبی) کی وکالت نہ کرو،* 

*سورۃ النساء، آیت نمبر 135

*‏59 گناہ اور زیادتی میں دوسروں کے ساتھ تعاون نہ کرو،*

*سورۃ المائدۃ، آیت نمبر 2

*60 نیکی میں ایک دوسری کی مدد کرو،* 

*سورۃ المائدۃ، آیت نمبر 2

*61 اکثریت سچ کی کسوٹی نہیں ہوتی،* 

*سورۃ المائدۃ، آیت نمبر 100

*62 صحیح راستے پر رہو،* 

*سورۃ الانعام، آیت نمبر 153

*63 جرائم کی سزا دے کر مثال قائم کرو،* 

*سورۃ المائدۃ، آیت نمبر 38

*64 گناہ اور ناانصافی کے خلاف جدوجہد کرتے رہو،* 

*سورۃ الانفال، آیت نمبر 39

*65 مردہ جانور، خون اور سور کا گوشت حرام ہے،* 

*سورۃ المائدۃ، آیت نمبر 3

*‏66 شراب اور دوسری منشیات سے پرہیز کرو،* 

*سورۃ المائدۃ، آیت نمبر 90

*67 جوا نہ کھیلو،* 

*سورۃ المائدۃ، آیت نمبر 90

*68 ہیرا پھیری نہ کرو،* 

*سورۃ الاحزاب، آیت نمبر 70

*69 چغلی نہ کھاؤ،* 

*سورۃ الھمزۃ، آیت نمبر 1

*70 کھاؤ اور پیو لیکن فضول خرچی نہ کرو،* 

*سورۃ الاعراف، آیت نمبر 31

*71 نماز کے وقت اچھے کپڑے پہنو،* 

*سورۃ الاعراف، آیت نمبر 31

*72 آپ سے جو لوگ مدد اور تحفظ مانگیں ان کی حفاظت کرو، انھیں مدد دو،* 

*سورۃ التوبۃ، آیت نمبر 6

*73 طہارت قائم رکھو،* 

*سورۃ التوبۃ، آیت نمبر 108

*74 اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو،*  

*سورۃ الحجر، آیت نمبر 56

*‏75 اللہ نادانستگی میں کی جانے والی غلطیاں معاف کر دیتا ہے،* 

*سورۃ النساء، آیت نمبر 17

*76 لوگوں کو دانائی اور اچھی ہدایت کے ساتھ اللہ کی طرف بلاؤ،* 

*سورۃ النحل، آیت نمبر 125

*77 کوئی شخص کسی کے گناہوں کا بوجھ نہیں اٹھائے گا،*

*سورۃ فاطر، آیت نمبر 18

*78 غربت کے خوف سے اپنے بچوں کو قتل نہ کرو،* 

*سورۃ النحل، آیت نمبر 31

*79 جس چیز کے بارے میں علم نہ ہو اس پر گفتگو نہ کرو،*

*سورۃ النحل، آیت نمبر 36

*‏80 کسی کی ٹوہ میں نہ رہا کرو (تجسس نہ کرو)،* 

*سورۃ الحجرات، آیت نمبر 12

*81 اجازت کے بغیر دوسروں کے گھروں میں داخل نہ ہو،* 

*سورۃ النور، آیت نمبر 27

*82 اللہ اپنی ذات پر یقین رکھنے والوں کی حفاظت کرتا ہے،* 

*سورۃ یونس، آیت نمبر 103

*83 زمین پر عاجزی کے ساتھ چلو،* 

*سورۃ الفرقان، آیت نمبر 63

*84 اپنے حصے کا کام کرو۔ اللہ، اس کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور مومنین تمہارا کام دیکھیں گے۔* 

*سورة توبہ، آیت نمبر 105

*85 اللہ کی ذات کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو،* 

*سورۃ الکہف، آیت نمبر 110 

*‏86 ہم جنس پرستی میں نہ پڑو،* 

*سورۃ النمل، آیت نمبر 55

*‏87 حق (سچ) کا ساتھ دو، غلط (جھوٹ) سے پرہیز کرو،* 

*سورۃ توبہ، آیت نمبر 119

*88 زمین پر ڈھٹائی سے نہ چلو،*

*سورۃ الإسراء، آیت نمبر 37

*89 عورتیں اپنی زینت کی نمائش نہ کریں،* 

*سورۃ النور، آیت نمبر 31

*90 اللّٰه شرک کے سوا تمام گناہ معاف کر دیتا ہے،* 

*سورۃ النساء، آیت نمبر 48

*91 اللّٰه کی رحمت سے مایوس نہ ہو،* 

*سورۃ زمر، آیت نمبر 53

*92 برائی کو اچھائی سے ختم کرو،* 

*سورۃ حم سجدۃ، آیت نمبر 34

*93 فیصلے مشاورت کے ساتھ کیا کرو،* 

*سورۃ الشوری، آیت نمبر 38

*‏94 تم میں وہ زیادہ معزز ہے جو زیادہ پرہیزگار ہے،* 

*سورۃ الحجرات، آیت نمبر 13

*95 اسلام میں ترک دنیا نہیں ہے۔* 

*سورۃ الحدید، آیت نمبر 27

*96 اللہ علم والوں کو مقدم رکھتا ہے،* 

*سورۃ المجادلۃ، آیت نمبر 11

*97 غیر مسلموں کے ساتھ مہربانی اور اخلاق کے ساتھ پیش آؤ،* 

*سورۃ الممتحنۃ، آیت نمبر 8

*98 خود کو لالچ سے بچاؤ،*

*سورۃ النساء، آیت نمبر 32

*99 اللہ سے معافی مانگو وہ معاف کرنے اور رحم کرنے والا ہے ،* 

*سورۃ البقرۃ، آیت نمبر 199

*100 جو دست سوال دراز کرے اسے نہ جھڑکو بلکہ حسب توفیق کچھ دے دو،* 

*سورۃ الضحی، آیت نمبر 10

*اسے لازمی پڑھیں اور دیکھیں کہاں کہاں ہمیں اصلاح کی ضرورت ہے۔**

Popular Posts