Popular Posts

Tuesday, February 22, 2022

ڈی این اے کیاھے؟What is DNA

 (ڈی این اے تخلیق الہی کا کرشمہ )



Pictures from Wikipedia.

1869 میں 𝓕𝓻𝓲𝓮𝓭𝓻𝓲𝓬𝓱 𝓜𝓲𝓮𝓼𝓬𝓱𝓮𝓻 نے ڈی این اے دریافت کیا جب اس نے خون کے سفید خلیات کے مرکزوں میں سے ایک ایسا مادہ دریافت کیا کہ جسمیں اس کی تحقیق کے مطابق نائٹروجن کی کثیر مقدار پائی گئی، لیکن اس کو یہ نہیں معلوم تھا کہ یہ مادہ جو اس نے الگ کیا ہے یہی 𝓓𝓝𝓐 کہلایا جائے گاجسطرح کمپیوٹر (کمپیوٹر) کے براؤزر پر نظر آنے والے صفحہ کے پیچھے 𝓗𝓣𝓜𝓛 کے رموز (واحد: رمز)  𝓒𝓸𝓭𝓮𝓼 کارفرما ہوتے ہیں اسی طرح زمین پر چلتی پھرتی زندگی کے پیچھے 𝓓𝓝𝓐 کے رموز ہوتے ہیں۔ یعنی کسی جاندار کی ظاہری شکل و صورت اور رویہ (طرزظاہری / 𝓹𝓱𝓮𝓷𝓸𝓽𝔂𝓹𝓮) دراصل اس کے خلیات میں موجود ڈی این اے کے اندر پوشیدہ وراثی رمز (جینیٹک کوڈ) سے بنتا ہے، ڈی این اے میں لکھا گیا پوری زندگی کا یہ افسانہ طرز وراثی / 𝓰𝓮𝓷𝓸𝓽𝔂𝓹𝓮 کہلاتا ہے۔ طرزظاہری اور طرزوراثی کے فرق کی وضاحت ایسی ہے کہ جیسے ایک ٹی وی کی اسکرین پر نظر آنے والا ڈراما ہو جو مکمل طور پر اپنے لیے لکھے گئے اسکرپٹ پر چلتا ہے، گویا ڈراما خود طرزظاہری کی مثال ہو اور اس کے لیے لکھا گیا اسکرپٹ طرزوراثتی ۔

ڈی این اے

اس طبی اصطلاح کو ہم آسان الفاظ میں کچھ یوں بیان کرسکتے ہیں کہ انسانی جسم لاتعداد خلیات یعنی سیلز کا مجموعہ ہوتا ہے، اسی طرح ہمارے جسم کا ہر ایک سیل ایک مالیکیول پر مشتمل ہوتا ہے، جسے ڈی این اے کہا جاتا ہے۔

ڈی این اے یعنی ’ڈی آکسی رائبو نیوکلک ایسڈ‘ کسی بھی انسان کا وہ مخصوص جینیاتی کوڈ ہے، جس کے ذریعے اس کے بارے میں معلومات حاصل کی جاسکتی ہیں اور یہ معلومات اس کی ظاہری شکل و صورت، زندگی، تاریخ اور شناخت پر مشتمل ہوتی ہیں۔

قدرت کا کرشمہ ہے کہ اس دنیا میں ہر انسان کا ڈی این اے دوسرے انسان سے یکسر مختلف ہے۔

ہر انسان میں کروموسومز کے تیئیس (23) جوڑے پائے جاتے ہیں یعنی 23 کروموسوم باپ سے آتے ہیں اور باقی 23 ماں سے حاصل ہوتے ہیں۔ کروموسوم کے ہر جوڑے میں 2 کرومیٹین ہوتے ہیں یعنی اگر کروموسومز 23 جوڑے ہیں تو کل 46 کرومیٹین ہوئے۔ کروموسومز دھاگے جینز سے بنے ہوتے ہیں اور یہ جینز پیغامات رکھتے ہیں کہ ہماری ممکنہ شکل و صورت، رنگ بال، ذہن مزاج حتی کہ بیماریاں کیا ہو سکتی ہیں۔ والدین کے جینز آپس میں ملتے ہیں تو ان میں والدین کی جینز کے سب خواص موجود ہوتے ہیں

ڈی این اے ٹیسٹ کیا ہے اور کیسے کیا جاتا ہے؟

ہر انسان کا ڈی این اے مختلف ہوتا ہے. ڈی این اے ٹیسٹ کے مدد سے انسان کے بارے میں مکمل معلومات حاصل کی جا سکتی ہیں.

ڈی این اے کیا ہے؟

ڈی این اے یعنی کہ ڈی آکسی رائبو نیوکلیک ایسڈ انسانوں اور تمام جانداروں کے جسم میں پایا جانے والا وراثتی مادہ ہے۔ انسانی جسم کی اکائی سیل یونی خلیہ ہوتی ہے۔ اس خلیے کے درمیان میں نیوکلئیس پایا جاتا ہے جس کے اندر ڈی این اے ہوتا ہے۔ انسانی جسم کے تمام خلیوں میں ایک جیسا ہی ڈی این اے پایا جاتا ہے۔ ہر انسان کا ڈی این اے دوسرے انسان سے مختلف ہوتا ہے۔

ہر انسان اپنے ڈی این اے کا پچاس فیصد حصہ اپنی والدہ سے وصول کرتا ہے اور بقیہ پچاس فیصد والد سے۔ ان دونوں ڈی این اے کے مخصوص مرکب سے انسان کا اپنا ڈی این اے بنتا ہے۔ ڈی این اے میں انسان کے بارے میں سب معلومات ہوتی ہیں مثلاً اس کی جنس، بالوں کا رنگ، آنکھوں کا رنگ، سونے کے اوقات، عمر اور جسمانی ساخت وغیرہ۔ اس کے علاوہ اس انسان کو کون کون سی بیماریاں لاحق ہیں، یہ بھی اس کے ڈی این اے سے معلوم کیا جا سکتا ہے۔

ڈی این اے ٹیسٹ کیسے کیا جاتا ہے؟

جس شخص کا بھی ڈی این اے ٹیسٹ مقصود ہو اس کا بال،خون، ہڈی اور گوشت یا ان میں سے کسی ایک چیز کا نمونہ لیا جاتا ہے۔ سب سے پہلے انسانی خلیے میں سے ڈی این اے الگ کیا جاتا ہے اور پھر پولیمیریز چین ری ایکشن نامی طریقے کی مدد سے اس ڈی این اے کی لاکھوں کاپیاں بنا لی جاتی ہیں۔ ان لاکھوں کاپیوں کی مدد سے ڈی این اے کی جانچ بہتر طریقے سے ہو سکتی ہے۔ ڈی این اے کو جانچنے کے بعد ڈی این اے فنگر پرنٹ بنایا جاتا ہے۔ دو مختلف نمونوں کے ڈی این اے فنگر پرنٹ میں مماثلت دیکھ کر ان میں کسی تعلق کا تعین کیا جا سکتا ہے۔

حادثات کی صورت میں جب لاش کی شناخت بالکل نا ممکن ہو تب ڈی این کے ذریعے ہی شناخت عمل میں لائی جاتی ہے۔ ڈی این اے ٹیسٹ کی مدد سے جانچا جاتا ہے کہ اس لاش کا ڈی این اے کس خاندان سے مل رہا ہے۔ ڈی این اے میں موجود جینیٹک کوڈ کے تقابلی جانچ سے معلوم کیا جاسکتا ہے کہ دو مختلف اشخاص میں کوئی خونی رشتہ ہے کہ نہیں ا۔سی لیے جھلسی ہوئی یا ناقابل شناخت لاشوں کے ڈی این اے نمونے لے کر دعویٰ دار لواحقین کے نمونوں سے ملائے جاتے ہیں۔ اگر جینیٹک کوڈ ایک جیسے ہوں تو خونی رشتہ ثابت ہو جاتا ہے اور لاش لواحقین کے حوالے کر دی جاتی ہے۔

ڈی این اے ٹیسٹ کے بعد ابہام کی بالکل گنجائش نہیں ہوتی۔ پاکستان میں فرانزک لیب، فرانزک سائنس دان اور ماہر عملے کی کمی کے باعث اس ٹیسٹ کو انجام دینے میں کافی مشکلات کا سامنا رہتا ہے اور اس کو مکمل ہونے میں ہفتہ بھی لگ جاتا ہے۔

ڈی این اے ٹیسٹ کیوں کیا جاتا ہے؟

ڈی این اے ٹیسٹ کے چند عام مقاصد درج ذیل ہیں۔

ولدیت ثابت کرنے کے لیے

اگر یہ جاننا ہو کہ کسی انسان کے حقیقی والدین کون ہیں تو اس انسان کا ولدیت کا دعویٰ کرنے والوں کے ساتھ ڈی این اے میچ کر کے دیکھا جاتا ہے۔ اگر دونوں کے ڈی این اے مماثلت ہو تو ولدیت کا دعویٰ درست قرار پاتا ہے۔

مجرم کی شناخت کے لیے

ڈی این اے کی مدد سے مجرم کی شناخت بھی آسانی سے کی جا سکتی ہے۔ اگر جائے وقوع سے مجرم کا بائیولوجیکل نمونہ ملے تو اس کا ڈی این اے حاصل کر کے مکمل رپورٹ مرتب کر لی جاتی ہے۔ اس ڈی این اے کو اس خاص کیس میں نامزد ملزمان کے ڈی این اے سے میچ کرکے مجرم کی نشاندہی کی جا سکتی ہے۔

جین تھیراپی

اگر کسی خاندان میں کوئی مخصوص بیماری ہو تو وہ اپنے بچوں کی پیدائش سے پہلے ڈی این اے ٹیسٹ کی مدد سے جان سکتے ہیں کہ ان کے بچے میں بھی یہ بیماری ہوگی یا نہیں۔

جینیٹک جینیالوجی

اگر کوئی اپنے آبائو اجداد کے متعلق معلومات حاصل کرنا چاہے تو وہ بھی ڈی این ٹیسٹ کے ذریعے ممکن ہے۔

نئ تحقیق میں اب بیماریوں کا تدارک ممکن ھو سکے گا۔

#𝓢𝓪𝓵𝓮𝓮𝓶𝓑𝓱𝓾𝓽𝓽𝓪

No comments:

Popular Posts