Popular Posts

Wednesday, July 2, 2025

CPR کیا ہے اور کیسے کیا جاتا ہے۔۔۔۔



"کارڈیو پلمونری ریسسیٹیشن (Cardiopulmonary Resuscitation) 

سانس اور دھڑکن بحال کرنے کی کوشش" 


اگر کسی مریض کا اچانک دل دھڑکنا بند ہو جائے تو فوری طور پر اس کے سینے پہ دل کے مقام کو مخصوص انداز اور رفتار سے بار بار شدید قوت کے ساتھ دبایا جاتا ہے تاکہ جسم میں خون کی گردش جاری رہے اور ساتھ مصنوعی سانس دینے کی کوشش بھی کی جاتی ہے تاکہ گردش کرتے خون میں آکسیجن کی کمی نہ آئے۔ اس محنت سے بعض اوقات دل کی دھڑکن رک کر دوبارہ بحال ہو جایا کرتی ہے۔ اس سارے طریقہ کار کو سی پی آر کا نام دیا جاتا ہے۔


 طریقہ کار یہ ہوتا ہے کہ اگر مریض زمین پہ ہے تو اس کے برابر دوزانو بیٹھ جائیں اور اگر بیڈ پہ لیٹا ہوا ہے تو بیڈ کے ساتھ کھڑے ہو جائیں یا بیڈ کے اوپر چڑھ کر اس کے برابر دوزانو بیٹھ جائیں۔ پھر دونوں ہتھیلیاں اوپر نیچے جوڑ کر مریض کے سینے پہ دل والے مقام پہ رکھ لیں۔ بازو بالکل سیدھے رکھیں اور کہنیوں کے مقام پہ خم نہ ڈالیں کیوں کہ اس عمل میں بہت زیادہ زور لگتا ہے۔ بازو سیدھے ہوں تو جسم کا سارا وزن ہتھیلیوں پہ ڈال کر زور لگانے میں آسانی ہو جاتی ہے۔ اس سب کے بعد مریض کا سینہ اتنے زور سے دبائیں کہ سینہ پانچ سینٹی میٹر (تقریباً دو انچ) تک نیچے جائے۔ (بچوں میں تقریباً چار سینٹی میٹر تک نیچے دبنا چاہیے) پھر سینے کو ڈھیلا چھوڑیں اور اسے واپس اپنی جگہ پہ آنے دیں (اس دوران اپنی پوزیشن میں کوئی فرق نہیں آنے دینا) پھر فوراً سینے کو دوبارہ دبائیں اور یہ عمل دہراتے رہیں۔ 


یہ سارا عمل اتنی تیزی سے کرنا ہوتا ہے کہ ایک منٹ میں تقریباً سو دفعہ سینہ دبایا جائے یعنی ہر سیکنڈ میں تقریباً دو دفعہ۔ سینہ دبانے کے دوران سانس کے ذریعے آکسیجن بھی پہنچانی ضروری ہوتی ہے۔ اس کا طریقہ کار یہ ہوتا ہے کہ سینہ دباتے ہوئے ساتھ ساتھ گنا جائے ، پھر تیس دفعہ سینہ دبانے کے بعد دو دفعہ سانس دینے کی کوشش کی جائے۔ ہسپتال میں تو مصنوعی سانس کے لیے ایمبو بیگ موجود ہوتا ہے تو ایک ڈاکٹر سانس کی نالی منہ میں ڈال کر ایمبو بیگ پکڑے تیار کھڑا ہوتا ہے ، جیسے ہی تیس دفعہ سینہ دبا کر پہلا ڈاکٹر ہاتھ روکتا ہے دوسرا ڈاکٹر فوراً دو دفعہ اس بیگ کو دبا کر مریض کے اندر سانس پہنچاتا ہے۔ اس کے بعد پھر سے سینہ دبانے والا اپنا کام شروع کر دیتا ہے۔ عام حالات میں اس ایمبو بیگ کی عدم موجودگی کی وجہ سے منہ سے منہ جوڑ کر سانس دیا جاتا ہے۔ اس میں منہ اس طرح جوڑنا ہوتا ہے کہ ہوا مریض کے منہ سے باہر نہ جائے۔ سانس دینے کے دوران مریض کا ناک بند کیا جاتا ہے تاکہ دی جانے والی سانس ناک کے رستے باہر نہ نکل جائے۔


 منہ سے سانس دینے کے دوران مریض کے سینے کے ابھار کو دیکھا جاتا ہے اگر سانس دینے کے دوران مریض کی چھاتی بلند ہو رہی ہو تو سانس ٹھیک دیا جا رہا ہے۔ اگر پیٹ بلند ہو رہا ہو یا چھاتی اور پیٹ میں کوئی فرق نہ پڑ رہا ہو تو درست طریقے سے سانس نہیں دیا جا رہا۔ ایسے میں یہ دیکھیں کہ حلق میں کوئی چیز نہ پھنسی ہوئی ہو جو سانس کی نالی میں رکاوٹ کا باعث بن رہی ہو یا حلق کی پوزیشن ایسی نہ ہو جس کی وجہ سے سانس آگے نہ جا پا رہا ہو۔ (ساتھ لگائی گئی ویڈیو کے آخر میں میں حلق کی درست پوزیشن کے متعلق دیکھ سکتے ہیں) 


دو دفعہ سانس دینے کے بعد پھر سے فوراً سینہ دبانا شروع کر دیا جاتا ہے، یہ سارا عمل تب تک دہرایا جاتا جب تک مریض کی دھڑکن دوبارہ بحال نہ ہو جائے یا یہ یقین نہ ہو جائے کہ اب اس مریض کے دل کی دھڑکن دوبارہ چلنے کا کوئی امکان باقی نہیں رہا۔ عموماً یہ عمل چند منٹ کیا جاتا ہے لیکن اگر ہمیں ہسپتال میں مریض کے بچنے کا کوئی امکان نظر آ رہا ہو تو ہم دیر تک (بیس تیس منٹ) بھی اسے جاری رکھتے ہیں۔ بعض مریضوں میں ایسا بھی ہوتے دیکھا ہے کہ دل کی دھڑکن رکنے کے بعد چل پڑے اور پھر کچھ دیر بعد دوبارہ رک جائے ، تو ان میں ایک سے زیادہ دفعہ بھی سی پی آر کیا جاتا ہے۔


یہ ایک انتہائی اہم عمل ہے اور عام عوام کے لیے بھی اسے سیکھنا ضروری قرار دینا چاہیے۔ اس طرح کسی جگہ اچانک کسی انسان کے دل کی دھڑکن رک جانے پہ ایمبولینس آنے تک اس کی زندگی بچانے کی کوشش کی جا سکتی ہے۔ یہ اور اس طرح کے کچھ مزید جان بچانے کے طریقہ کار نصابی پڑھائی کا حصہ بنانے چاہئیں تاکہ عام عوام ایمرجنسی صورت حال میں ایک دوسرے کے لیے مددگار ثابت ہو سکیں۔ لیکن یہ بات یاد رکھنے والی ہے کہ یہ عمل دل کی دھڑکن رکنے کے فوراً بعد کیا جائے تو سود مند ثابت ہو سکتا ہے۔ اگر دل کی دھڑکن رکے ہوئے کچھ منٹ گزر چکے ہوں تو یہ عمل لاحاصل ہے۔ کیونکہ تب تک خون کی گردش رکنے سے دماغ کے سیلز آکسیجن کی کمی سے مرنا شروع ہو چکے ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ یہ سارا عمل درست طریقے سے کرنا بھی ضروری ہے، ورنہ اس کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔


ہسپتال میں ہم عموماً کسی بھی مریض کے دل کی دھڑکن رک جانے پہ سی پی آر کر کے اسے بچانے کی کوشش ضرور کیا کرتے ہیں۔ عموماً اس کا فائدہ نہیں ہوتا مگر ہم اس طریقہ کار سے کئی مریضوں کی جان بچانے میں کامیاب بھی ہو جاتے ہیں۔


۔۔۔۔۔ ڈاکٹر نوید خالد تارڑ ۔۔۔۔۔

Popular Posts