Popular Posts

Friday, September 16, 2022

شاہراہ قراقرم Karakorm HighWay

 شاہراہ قراقرم  کی تعمیر کا آغاز 1966 میں ہوا اور تکمیل 1978 میں ہوئی۔ شاہراہ قراقرم کی کُل لمبائی 1,300 کلومیٹر ہے جسکا 887 کلو میٹر حصہ پاکستان میں ہے اور 413 کلومیٹر چین میں ہے۔ یہ شاہراہ پاکستان میں حسن ابدال سے شروع ہوتی ہے اور ہری پور ہزارہ, ایبٹ آباد, مانسہرہ, بشام, داسو, چلاس, جگلوٹ, گلگت, ہنزہ نگر, سست اور خنجراب پاس سے ہوتی ہوئی چائنہ میں کاشغر کے مقام تک جاتی ہے۔


اس سڑک کی تعمیر نے دنیا کو حیران کر دیا کیونکہ ایک عرصے تک دنیا کی بڑی بڑی کمپنیاں یہ کام کرنے سے عاجز رہیں۔ ایک یورپ کی مشہور کمپنی نے تو فضائی سروے کے بعد اس کی تعمیر کو ناممکن قرار دے دیا تھا۔ موسموں کی شدت, شدید برف باری اور لینڈ سلائڈنگ جیسے خطرات کے باوجود اس سڑک کا بنایا جانا بہرحال ایک عجوبہ ہے جسے پاکستان اور چین نے مل کر ممکن بنایا۔ایک سروے کے مطابق اس کی تعمیر میں 810 پاکستانی اور 82 چینی اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ رپورٹ کے مطابق شاہراہ قراقرم کے سخت اور پتھریلے سینے کو چیرنے کے لیے 8 ہزار ٹن ڈائنامائیٹ استعمال کیا گیا اور اسکی تکمیل تک 30 ملین کیوسک میٹر سنگلاخ پہاڑوں کو کاٹا گیا۔یہ شاہراہ کیا ہے؟ بس عجوبہ ہی عجوبہ!کہیں دلکش تو کہیں پُراسرار, کہیں پُرسکون تو کہیں بل کھاتی شور مچاتی, کہیں سوال کرتی تو کہیں جواب دیتی۔ اسی سڑک کنارے صدیوں سے بسنے والے لوگوں کی کہانیاں سننے کا تجسس تو کبھی سڑک کے ساتھ ساتھ پتھروں پر سر پٹختے دریائے سندھ کی تاریخ جاننے کا تجسس !!شاہراہ قراقرم کا نقطہ آغاز ضلع ہزارہ میں ہے جہاں کے ہرے بھرے نظارے اور بارونق وادیاں "تھاکوٹ" تک آپ کا ساتھ دیتی ہیں۔تھاکوٹ سے دریائے سندھ بل کھاتا ہوا شاہراہ قراقرم کے ساتھ ساتھ جگلوٹ تک چلتا ہے پھر سکردو کی طرف مُڑ جاتا ہے۔تھاکوٹ کے بعد کوہستان کا علاقہ شروع ہوجاتا ہے جہاں جگہ جگہ دور بلندیوں سے اترتی پانی کی ندیاں سفر کو یادگار اور دلچسپ بنانے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔کوہستان کے بعد چلاس کا علاقہ شروع ہوتا ہے جوکہ سنگلاخ پہاڑوں پر مشتمل علاقہ ہے۔ چلاس ضلع دیا میر کا ایک اہم علاقہ ہے اسکو گلگت بلتستان کا دروازہ بھی کہا جاتا ہے۔ ناران سے بذریعہ بابو سر ٹاپ بھی چلاس تک پہنچا جا سکتا ہے۔ چلاس کے بعد شاہراہ قراقرم نانگا پربت کے گرد گھومنے لگ جاتی ہے اور پھر رائے کوٹ کا پُل آجاتا ہے یہ وہی مقام ہے جہاں سے فیری میڈوز اور نانگا پربت بیس کیمپ جانے کے لیے جیپیں کرائے پر ملتی ہیں۔ رائے کوٹ کے بعد نانگا پربت, دریائے سندھ اور شاہراہ قراقرم کا ایک ایسا حسین امتزاج بنتا ہے کہ جو سیاحوں کو کچھ وقت کے لیے خاموش ہونے پر مجبور کر دیتا ہے۔اس کے بعد گلگت ڈویژن کا آغاز ہوجاتا ہے جس کے بعد پہلا اہم مقام جگلوٹ آتا ہے جگلوٹ سے استور, دیوسائی اور سکردو بلتستان کا راستہ جاتا ہے۔ جگلوٹ کے نمایاں ہونے میں ایک اور بات بھی ہے کہ یہاں پر دنیا کے تین عظیم ترین پہاڑی سلسلے کوہ ہمالیہ, کوہ ہندوکش اور قراقرم اکھٹے ہوتے ہیں اور دنیا میں ایسی کوئی جگہ نہیں جہاں تین بڑے سلسلے اکھٹے ہوتے ہوں۔جگلوٹ کے بعد شمالی علاقہ جات کے صدر مقام گلگت شہر کا آغاز ہوتا ہے جو تجارتی, سیاسی اور معاشرتی خصوصیات کے باعث نمایاں حیثیت رکھتا ہے۔ نلتر, اشکومن, غذر اور شیندور وغیرہ بذریعہ جیپ یہیں سے جایا جاتا ہے۔ گلگت سے آگے نگر کا علاقہ شروع ہوتا ہے جس کی پہچان راکا پوشی چوٹی ہے۔ آپکو اس خوبصورت اور دیوہیکل چوٹی کا نظارہ شاہراہ قراقرم پر جگہ جگہ دیکھنے کو ملے گا۔ نگر اور ہنزہ شاہراہ قراقرم کے دونوں اطراف میں آباد ہیں۔ یہاں پر آکر شاہراہ قراقرم کا حُسن اپنے پورے جوبن پر ہوتا ہے میرا نہیں خیال کہ شاہراہ کے اس مقام پر پہنچ کر کوئی سیاح حیرت سے اپنی انگلیاں دانتوں میں نہ دباتا ہو۔ "پاسو کونز" اس بات کی بہترین مثال ہیں۔ہنزہ اور نگر کا علاقہ نہایت خوبصورتی کا حامل ہے۔ بلند چوٹیاں, گلیشیئرز, آبشاریں اور دریا اس علاقے کا خاصہ ہیں۔ اس علاقے کے راکاپوشی, التر, بتورہ, کنیانگ کش, دستگیل سر اور پسو نمایاں پہاڑ ہیں۔عطاآباد کے نام سے 21 کلومیٹر لمبائی رکھنے والی ایک مصنوعی لیکن انتہائی دلکش جھیل بھی ہے جو کہ پہاڑ کے گرنے سے وجود میں آئی۔سست کے بعد شاہراہ قراقرم کا پاکستان میں آخری مقام خنجراب پاس آتا ہے۔سست سے خنجراب تک کا علاقہ بے آباد, دشوار پہاڑوں اور مسلسل چڑھائی پر مشتمل ہے۔ خنجراب پاس پر شاہراہ قراقرم کی اونچائی 4,693 میٹر ہے اسی بنا پر اسکو دنیا کے بلند ترین شاہراہ کہا جاتا ہے۔ خنجراب میں دنیا کے منفرد جانور پائے جاتے ہیں جس میں مارکوپولو بھیڑیں, برفانی چیتے, مارموٹ, ریچھ, یاک, مارخور اور نیل گائے وغیرہ شامل ہیں۔اسی بنا پر خنجراب کو نیشنل پارک کا درجہ مل گیا ہے۔اس سڑک پر آپکو سرسبز پہاڑوں کے ساتھ ساتھ پتھریلے و بنجر پہاڑی سلسلے اور دیوقامت برفانی چوٹیوں, دریاؤں کی بہتات, آبشاریں, چراگاہیں اور گلیشیئر سمیت ہر طرح کے جغرافیائی نظارے دیکھنے کو ملتے ہیں جو نا صرف آپکا سفر خوبصورت بناتے ہیں بلکہ آپ کے دل و دماغ پر گہرا اثر چھوڑتے ہیں۔ شاہراہِ قراقرم محض ایک سڑک نہیں ہے بلکہ یہ دنیا کا آٹھواں عجوبہ ہے.

Tuesday, September 13, 2022

ہپناگوگیا Hypnagogia

 



ہپناگوگیا وہ نیورولوجیکل فینومینا ہے جس میں خواب اور جاگنے کی حالتیں آپس میں مکس ہو جاتی ہیں اور یوں غیرمعمولی تجربات جنم لیتے ہیں اور انہیں اکثر لوگ غلط فہمی کی وجہ سے پیرانارمل یا مارورائی سمجھ لیتے ہیں۔

۔۔

ایک انٹرویو میں اداکارہ جیسیکا البا نے اپنے خوفناک تجربہ کو کچھ یوں بیان کیا:

"میرے والدین کے پرانے گھر میں ضرور کوئی چیز موجود تھی۔۔۔ کسی چیز نے میرے اوپر سے چادر کھینچ لی اور میں بلکل بھی بستر سے اٹھ نہیں پا رہی تھی۔۔ مجھے اس کا وزن محسوس ہوا اور میں اٹھ نا پائی، نا ہی چیخ سکتی تھی، نا ہی بات کر سکتی تھی، میں کچھ بھی نہیں کر پا رہی تھی۔۔ میں نہیں جانتی کہ یہ کیا تھا۔ میں اس کی وضاحت نہیں کر سکتی"


جیسیکا البا کا یہ واقعہ غیر معمولی تو ضرور ہے تاہم یہ منفرد بلکل بھی نہیں۔ شائد آپ کو بھی اس کا تجربہ ہوا ہو۔ میرے ساتھ ایسے قصے متعدد مرتبہ رونما ہوئے اور عموما اس وقت جب نیند کی شدید قلت ہوئی ہو۔ ایک لمحے میں آپ گہری نیند میں ہیں، اور ساتھ ہی دوسرے لمحے آپ کسی آواز یا احساس یا ایسی خوشبو کی وجہ سے اٹھ گئے ہیں جو درست نہیں لگ رہی۔ آپ جب آپ جاگ گئے ہیں آپ خود کو حرکت کرنے کے قابل نہیں پاتے۔ آپ اپنے بازو نہیں اٹھا سکتے یا سر کو نہیں ہلا سکتے۔ آپ محسوس کرتے ہیں کہ کمرے میں کوئی چیز ہے، بن بلائی، غیر دوستانہ اور شریر قسم کا کوئی وجود موجود ہے۔ آپ گہرا سانس لینے کی کوشش کرتے ہیں مگر ایسا لگتا ہے کہ آپ کے سینے پر کوئی سوار ہے اور آپ کے اس سانس لینے کے عمل میں دشواری پیدا کر رہا ہے تا کہ آپ مدد کے لیے کسی کو بلا نا سکیں۔ آپ چاہے جتنی بھی کوشش کریں آپ آواز نہیں نکال سکتے۔ آپ خود کو کمزور اور اس چیز کے مقابلے میں بے یارومددگار پاتے ہیں جو آپ سے آپ کی طاقت چھین رہی ہے۔


یہ ایک خوفناک تجربہ ہے اور لاکھوں لوگوں کے ساتھ رونما ہوتا ہے۔ زیادہ اہم بات یہ ہے کہ اس فینومینا کے بارے میں اچھی طرح سمجھا جا چکا ہے اور اس کے لیے کسی قسم کے پیرانارمل یا سوڈوسائنٹفک وضاحت کی کوئی ضرورت نہیں۔


ہپنوگوگیا ایسا نیورولوجیکل فینومینا ہے جو یا تو اس وقت رونما ہوتا ہے جب انسان نیند سے بیدار ہو رہا ہو (hypnopompic) یا پھر سونے ہی لگا ہو (hypnagogic)۔ یہ ایسی درمیانی حالت ہے جہاں انسان نا پوری طرح بیدار ہوتا ہے اور نا ہی مکمل نیند میں ہوتا ہے۔ اس حالت میں بہت حقیقی قسم کی آوازوں اور تصاویر کا تجربہ ہو سکتا ہے۔ اگرچہ بصری یا سماعتی دھوکہ بہت عام ہیں تاہم آپ کو اپنے نام کی سرگوشی سننے سے لیکر اور کئی حسیات بشمول چھوئے جانے کا تجربہ بھی ممکن ہے۔ حقیقت میں یہ تجربات خواب ہیں جو آپ کو نیم بیدار حالت میں نظر آ رہے ہیں۔ یہ جاگتی حالت میں دیکھے گئے ان خواب کا تجربہ بہت عجیب اور خوفناک ہو سکتا ہے۔


ہیپناگوگیا سے متعلقہ چیز وقتی فالج بھی ہے جسے اکثر sleep paralysis کہا جاتا ہے۔ نارمل نیند کے دوران REM (ریپد آئی موومنٹ) کے وقفے آتے ہیں جن میں ہمارا دماغ ہماری سپائنل کالم کے موٹر نیورونز کو روکتا ہے اور یوں سوائے آنکھوں کے اور کوئی حرکت نہیں ہو پاتی۔ ایسا صرف گہری خواب آور نیند کے دوران ہوتا ہے۔ اس کی بظاہر وجہ ہماری اپنی حفاظت ہے۔ اس سیف گارڈ کی غیرموجودگی میں ہم جس چیز کا خواب دیکھ رہے ہیں اسی پر عمل کرنا بھی شروع کر دیں گے اور یوں ممکنہ طور پر خود کو نقصان پہنچا لیں گے۔ نیند میں چلنے والوں کا یہی مسئلہ ہوتا ہے۔ ہپناگوگیا کے جاگتے ہوئے خواب کے دوران یہ فالج برقرار رہتا ہے کیونکہ جو نیورونز متاثر ہوئے ہیں وہ ابھی مکمل طور پر بحال نہیں ہوئے ہوتے۔ اسی لیے یہ جاگتے خواب درحقیقت مکمل جاگتی شعوری حالت اور خواب آور نیند کا مکسچر ہیں۔ ہم واقعی جاگ رہے ہوتے ہیں، مگر یہ فالج اور خواب کی وجہ سے عجیب و غریب تصاویر ابھی ہمارے ذہن میں موجود ہوتے ہیں اور ان کا اثر ابھی زائل نہیں ہوا ہوتا۔


یہ ہپناگوگیا یا sleep paralysis کتنا عام ہے؟ 2011 میں ایک ریسرچ پیپر میں Brian Sharpless اور Jacques Barber نے تیس سے زیادہ سٹڈیز کو اکٹھا کیا جو sleep paralysis پر تھیں اور ان کا تعلق مختلف کلچرز اور گروپس سے تھا۔ ان کا مشترکہ سامپل سائز چھتیس ہزار سے زائد ہو گیا۔ انہوں نے نتیجہ اخذ کیا کہ تقریبا آتھ فیصد لوگوں کو sleep paralysis کا تجربہ ہوتا ہے جو کہ ہائی رسک گروپس میں اٹھائس فیصد تک بڑھ جاتا ہے (وہ لوگ جو کم کا ٹکڑوں میں نیند لیتے ہیں جیسا کہ طلباء) اور ان لوگوں میں یہ پینتیس فیصد تک دیکھا گیا ہے جو انگزائٹی اور ڈپریشن کا شکار ہوتے ہیں۔ یہ آبادی کی بہت بڑا حصہ ہیں۔


اندرونی بمقابلہ بیرونی تجربہ

تنقیدی سوچ رکھنے والوں کے لیے یہان اہم سبق یہ بھی بھی ہے کہ ہم دنیا کے بارے میں تجربات حاصل کرنے کے لیے اپنے دماغ کو استعمال کرتے ہیں مگر ہمارے دماغ کبھی کبھار غلطی یا glitch کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ہپنوگوگیا کے واقعات ایسے دماغی اغلاط کا نتیجہ ہی ہیں جہاں وہ دو سٹیٹ کے درمیان پھنسا ہوتا ہے۔ سب سے بڑا مسئلہ اسی وجہ سے ہوتا ہے کہ یہ فرض کر لیا جاتا ہے ہے کہ یہ فینومینا کسی بیرونی عنصر کی وجہ سے رونما ہوا ہے جبکہ وہ دماغ کا اندرونی واقعہ ہی ہوتا ہے۔


خود کئی ہپنوگوگیا کے واقعات کا شکار ہونے کے بعد میں آپ کو بتا سکتا ہوں کہ یہ بہت ڈرامائی اور ڈرا دینے والا تجربہ ہوتا ہے چاہے آپ ان سے واقف بھی ہوں کہ یہ کیا چیز ہیں۔ اس لیے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ جب کوئی ان سے گزرتا ہے تو وہ غیر معمولی وضاحتوں کی تلاش کیوں کرتا ہے۔ 


ہم یہ جانتے ہیں کہ یہ تاریخ میں ہمیشہ ہوتا چلا آیا ہے اور اس کے کئی تاریخی ریکارڈز حتی کہ پینٹنگز موجود ہیں جن میں ہپناگوگیا کے واقعات کو بیان کیا گیا ہے۔ لوگوں نے ان عجیب تجربات کو اپنے اپنے کلچرز کے تحت بیان کیا ہے۔ قرون وسطی کے یورپ میں لوگ سمجھتے تھے کہ اس دوران بدروحیں ان کے سینوں پر بیٹھی ہیں اور اپنی کالی طاقتوں سے ان کی جسمانی قوت سلب کر لی ہے۔ جب بھوت زیادہ مشہور تھے اس طرح کے واقعات اس سے منسوب تھے کہ وہ طاقت چرا کر لے جاتے ہیں۔ درحقیقت انگریزی کے لفظ nightmare (ڈراونے خواب) ایسے اعتقادات سے ہی نکلا ہے جس میں "maere" کا مطلب ایک زنانہ بدروح ہے جو نیند میں لوگوں کا گلا گھونٹتی ہے۔

جدید کلچرز میں لوگ اب بدروحوں پر یقین کم ہی رکھتے ہیں تو ایسے واقعات کے پیچھے ان میں سے کئی "ایلینز" کو ذمہ دار سمجھتے ہیں۔ شائد اس کی مشہور مثال مصنف Whitley Strieber ہے جو یہ یقین رکھتا ہے کہ اسے ایلینز نے اغوا کیا تھا اور اپنے اس تجربہ کو اپنی کتاب Communion: A True Story میں بیان کرتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ وہ نیند سے اٹھا تو اس نے کمرے میں کسی کی موجودگی کو محسوس کیا اور وہ اسی وقت فالج کا سا شکار ہو گیا۔ وہ جانتا تھا کہ وہ جاگا ہوا ہے اور خواب نہیں دیکھ رہا۔ یہ تفصیلات واضح طور پر ہپنوگوگیا کو بیان کر رہی ہیں۔ وہ کئی اور لوگوں کے دعوے تحریر کرتا ہے جو "اغوا" ہوائے اور ان میں سے اکثریت کے تجربات ویسے ہی ہیں جیسے ان نے اپنے بتائے۔


واضح طور پر ہپنوگوگیا کی وجہ نیورولوجیکل ہے اور اس میں کسی بیرونی وضاحت یعنی بھوت، بدروح، ہیگ یا ایلین کی کوئی ضرورت نہیں۔ درحقیقت جب بھی کوئی شخص ایسا عجیب و غریب تجربہ بیان کرے جو نیند کے قریب رونما ہوا ہو تو آپ کو تشکیک کا استعمال کرنا چاہیے۔


جیسا کہ دماغ کئی طریقوں سے غلطی یا glitch کا شکار ہو سکتا ہے اور ہم سب کسی نا کسی سطح پر دھوکہ اور فریب کاری کا شکار ہو سکتے ہیں۔ ہمارے دماغ ایکسٹریم جذبات اور حتی کہ نیند کی کچھ کمی کی وجہ سے ہی غلطی کر سکتے ہیں۔ ہم اپنی توجہ کیسے مرکوز کرتے ہیں اس میں غلطیاں رونما ہو سکتی ہیں اور انہیں جان بوجھ کر کوئی اور رخ بھی دیا جا سکتا ہے (جیسا کے سٹیج کے میجک شوز میں ہوتا ہے)


ہپنوگوگیا کے علم سے ہمارے لیے اصل سبق یہ ہے کہ ہم یہ فرض نہیں کر سکتے کہ ہمارے دماغ ہمیشہ بے عیب طور پر کام کرتے ہیں اور جو ہم سوچیں کہ ہم نے محسوس کیا ہے اور اصل ہی ہو۔ اور بسا اوقات بھوتوں والی کہانی ۔۔۔ محض کہانی ہی ہے۔ 


--------------------

(ترجمہ و تلخیص)


کتاب کا نام:

The Skeptics' Guide to the Universe

Dr. Steven Novella

Popular Posts