Popular Posts

Saturday, March 30, 2024

بیت المقدس تین مذاہب کی مقدس جگہ۔اصل جنگ کیا ہے?۔۔

 


مسلمانوں کا قبلہ اول

عیسائیوں کے لئے یسوع کی جائے ولادت

یہودیوں کے لئے ہیکل سلیمان 



شروع کرتے ہیں حضرت ابراہیم علیہ السلام سے۔ جن کے دو بیٹے تھے اسماعیل اور اسحاق۔ 

اسحاق علیہ السلام کے بیٹے تھے حضرت یعقوب۔ 

یہیں سے کہانی شروع ہوتی ہے اسرائیل کی۔ اسرائیل یعنی اللہ کا بندہ۔ اور یہ لقب حضرت یعقوب علیہ السلام کو دیا گیا۔ 

حضرت یوسف علیہ السلام نے جب کفیل مصر بنے تو آپ کو حکم ہوا کہ اپنے تمام خاندان یعنی آل یعقوب کو مصر بلایا جائے۔ اور مصر کی سرزمین کا ایک مخصوص حصہ ان کے لئے مختص کیا گیا۔ اور اللہ کی طرف سے کہا گیا کہ اے آل یعقوب اس سرزمین میں تمھارے لئے برکتیں ہیں۔ 

حضرت یوسف علیہ السلام بارہ بھائی تھے اسی لئے اللہ تعالی نے ان کے لئے بارہ چشمے جاری کیے۔ اور یوں اس سرزمین کا نام حضرت یعقوب کے لقب سے اسرائیل پڑگیا۔ جسے آج یروشلم بھی کہا جاتا ہے۔ 

آپ کی نسل سے کم و بیش ستر ہزار انبیائے کرام آئے۔

حضرت یوسف کے بھائی یہودا کی نسل آگے بڑھی تو اس میں سے آنے والے تمام بنی اسرائیلی یہودی کہلائے۔ 

وقت گزرتا گیا اور حضرت موسی علیہ السلام کا دور آیا۔ جب فرعون نے مصر کی آپ پر تنگ کی تو بنو اسرائیل کے ساتھ آپکو مصر سے نکلنا پڑا۔ 

اس دوران بنی اسرائیل پر اللہ تعالی کی بہت سے کرم نوازیاں بھی ہوئیں، جس میں من و سلوی، چشموں کی بہتات، مچھلیوں کے شکار کا ذکر قرآن پاک سے بھی ملتا ہے۔ اور وہیں ہمیں ایک گائے کا ذکر بھی ملتا ہے، جس کے لوتھڑے سے مردے نے اللہ کے حکم سے زندہ ہوکر اپنے قاتل کا بتایا۔ اس گائے کی نشانیاں اللہ تعالی نے قرآن پاک میں بیان فرمائیں۔ جوکہ ایک سرخ مائل رنگت کی گائے تھی اور ایسی گائے آج بھی یہودیوں کے نزدیک مقدس مانی جاتی ہے۔ 

حضرت موسی علیہ السلام کے بعد دیگر نبی آئے۔ اس دوران میں حضرت موسی علیہ السلام اور ان کے دور کی کچھ باقیات، تورات، من و سلوی کا کچھ حصہ بنی اسرائیل نے ایک صندوق میں محفوظ کرلیا۔ یہ اللہ کی طرف حضرت آدم کو دیا گیا ایک خاص صندوق تھا جو نسل در نسل نبیوں کے پاس رہا۔ جسے قرآن میں تابوت سکینہ کے نام پکارا گیا ہے۔ اور یہ یہودیوں کو اپنی جان سے ذیادہ عزیز ہے۔ 

حضرت داؤد نے جب جالوت کو ہرا کر اس سے تابوت سکینہ حاصل کیا تو یوں بنی اسرائیل نے انہیں نبی تسلیم کرلیا۔ اور حضرت داؤد علیہ السلام نے اس صندوق کی حفاظت کے لئے ایک ہیکل تعمیر کروانا شروع کیا جو کہ انکی زندگی میں مکمل نہ ہوسکا۔ ان کے بیٹے حضرت سلیمان علیہ السلام نے جنوں کی مدد سے اس کو مکمل کروایا اور اسی دوران میں آپکی بھی وفات ہوگئی۔ 

اسی وجہ سے اسے ہیکل سلیمانی کہا جاتا ہے۔

بعد ازاں بابل کے باشاہ بخت نصر نے اسرائیل پر حملہ کیا اور ہیکل سلیمانی کو بھی گرا دیا۔ اور تابوت سکینہ بھی اپنے ساتھ لے گیا۔ 

سیپرس دی گریٹ نے دوبارہ یہ شہر حاصل کیا۔ یہودیوں کو دوبارہ یہاں آباد کیا اور تابوت سکینہ کو بھی واپس لایا گیا۔ ہیکل سلیمانی ایک دفعہ پھر تعمیر کیا گیا۔ 

پھر وقت گزرا اور حضرت عیسی علیہ السلام کی آمد ہوئی۔ جنہیں نعوذبااللہ یہودیوں نے دجال، ناجائز اور کیا کیا لقب دیئے۔ یہاں سے یہودیوں میں سے دو الگ قومیں ہوگئیں ایک یہودی اور دوسرے عیسائی۔ 

یہودیوں نے سازش کرکے حصرت عیسی علیہ السلام کو صلیب پر چڑھانا چاہا اور اللہ تعالی نے انہیں اپنے پاس اٹھالیا۔ 

اس کے بعد یہودیوں اور عیسائیوں میں کئی چھوٹی موٹی جنگیں ہوئیں۔ پھر عیسائی رومی بادشاہ ٹائیٹس نے اس شدت سے یروشلم پر حملہ کیا کہ اس پورے علاقے کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ ہیکل سلیمانی کو گرادیا۔ جس کی صرف ایک دیوار اس وقت اپنی اصلی حالت میں موجود ہے جسے دیوار گریہ کہاجاتا ہے۔ جہاں یہودی جاکر تورات کی تلاوت کرتے ہیں اور گریہ و زارہ کرتے ہیں۔ تابوت سکینہ بھی نہ جانے کہاں غائب ہوگیا۔ 

ٹائٹس کے حملے کے بعد یہودی آخری نبی کے انتظار میں تھے۔ کیونکہ اللہ پاک کا ان سے وعدہ تھا کہ انہیں پھر عروج بخشا جائے گا۔

اس وعدہ کا ذکر سورہ البقرہ میں بھی موجود ہے کہ 


"اے بنی اسرائیل، ان نعمتوں کو یاد کرو جو تم پر کی گئیں، اور اپنا وعدہ پورا کرو (ایمان لاو) تاکہ ہم بھی اپنا وعدہ پورا کریں۔"


قیامت کی نشانیوں میں سے ایک نشانی یہ بھی ہے کہ ہیکل سلیمانی کی تین دفعہ تعمیر ہوگی۔ جوکہ دو دفعہ ہوچکی ہے۔

یہودی اپنے مسیحا اور آخری نبی کے انتظار میں تھے کہ ٹائیٹس کے حملے کے پانچ سو سال بعد نبی آخرالزمان کی ولادت ہوئی۔ یہاں یہودیوں کو یہ جھٹکا لگا کہ سارے نبی حضرت اسحاق کی نسل سے ہیں تو آخری نبی حضرت اسماعیل کی نسل سے کیونکر آگئے۔۔۔ اور انہوں نے ایمان لانے سے انکار کردیا۔

مسلمانوں کے لئے بھی وہ انبیاء کی ہی نشانی تھی اسی لئے ہیکل سلیمانی کو بیت المقدس کا نام دیا گیا۔ 

اسلام کے آغاز میں یہودیوں کو قائل کروانے کی خاطر ہی بیت المقدس کی جانب منہ کرکے نماز ادا کرنے کا حکم ہوا۔ کیونکہ یہودی اسی طرف منہ کرکے عبادت کیا کرتے تھے۔ 

سترہ ماہ بعد ہماری عبادت کا رخ بیت المقدس سے بیت اللہ کی جانب موڑ دیا گیا۔ کیونکہ مسلمانوں کا شروع سے قبلہ اول وہی رہا۔ جسے پہلے حضرت آدم اور پھر حضرت ابراہیم نے تعمیر کیا۔ 

حضرت عمر رض کے دور حکومت میں اسرائیل یعنی یروشلم پر عیسائیوں کا قبضہ تھا۔ بیت المقدس کے ہی احاطے میں انہوں نے گرجا گھر تعمیر کیا ہوا تھا۔ اور عین تابوت سکینہ والی جگہ وہ گند پھینکا کرتے تھے یہودیوں کی نفرت میں۔ یروشلم کی فتح کے وقت جب حضرت عمر وہاں گئے تو عیسائیوں پر برہم ہوئے۔ وہاں صفائی کروا کر مسجد تعمیر کروائی، اور قرآن میں موجود معراج والے واقعے کی نسبت سے اس مسجد کو اقصی کا نام دیا۔ 

یہودیوں کی دیوار گریہ بھی اسی احاطے میں موجود تھی تو زائرین کی حثیت سے انہیں بھی وہاں آنے کی اجازت دے دی گئی۔ 

خلافت عباسیہ تک یروشلم ایک مسلم شہر رہا۔ 

اس کے بعد عسائیوں نے دوبارہ یروشلم پر حملہ کرکے اس پر قبضہ کرلیا۔ صلاح الدین ایوبی نے عیسائیوں کے خلاف پچاس سے زائد جنگیں کرکے بیت المقدس دوبارہ حاصل کیا۔ اور پھر سات سو سالوں تک یہ خلافت عثمانیہ کے زیر سلطنت رہا۔ یہودیوں کو بھی دیوار گریہ تک اپنے مذہبی اقدامات کی آزادی رہی۔ اور یہودی آہستہ آہستہ پھر یروشلم میں آباد ہونا شروع ہوگئے۔ اس دوران میں کئی بار انہوں نے خلافت عثمانیہ کے سلطان کو پیسوں کے عوض یروشلم انہیں سونپنے کا لالچ دیا لیکن ناکام رہے۔ 

اور پھر دوسری جنگ عظیم میں عیسائی سپاہی ہٹلر نے چن چن کر یہودیوں مارا۔ قریبا ساٹھ لاکھ کے قریب یہودیوں کا قتل عام کیا گیا اور یہ دربدر بھاگنے پر مجبور ہوگئے۔ اس دوران میں انہیں یہ اندازہ ہوچکا تھا کہ انہیں اب خود اپنی پہچان بنانی ہے۔ اور بائبل میں موجود یہودیوں کے آخری عروج سے قبل والی کئی نشانیاں بھی ظاہر ہوچکی تھیں۔ اور وہ یہ تسلیم کرچکے تھے کہ انکا آخری مسیحا اب دجال ہوگا جس کی بدولت پوری دنیا میں انکا دوبارہ بول بالا ہوگا۔ 

انہوں نے برطانیہ سے ساز باز کرکے خود کو الگ ریاست تسلیم کروالیا۔ یوں اسرائیل باقاعدہ ایک ملک کی صورت میں دنیا کے نقشے پر ابھرا۔ پھر آہستہ آہستہ انہوں نے فلسطین اور دیگر مصری علاقوں پر بھی قبضہ کرلیا۔ عرب ممالک اسرائیل کے خلاف جنگ پر آئے لیکن اس وقت تک یہ خود کو اتنا مضبوط کرچکے تھے عرب ممالک کو اس ایک چھوٹے سے ملک سے منہ کی کھانی پڑی۔ عسائیوں نے بھی دیکھ لیا کہ اب ان سے لڑ کر کچھ وصول نہیں ہونا تو باقاعدہ گرجا گھروں میں پادریوں نے تقریبات منعقد کیں اور یہودیوں کے لئے معافی کا اعلان کیا گیا۔ یوں سیاسی اور اقتصادی مفاد پرستی نے دو ہزار سالوں سے ایک دوسرے کے ازلی و جانی دشمنوں کو ایک صف پر لا کھڑا کیا۔ اور قرآن کی بات بھی سچ ہوگئی کہ

یہود و نصری ایک دوسرے کے دوست ہیں۔ 

یہودیوں کے عقائد کے مطابق وہ ہیکل سلیمانی کی حفاظت نہیں کرپائے تو خود کو قصوروار کہتے ہیں۔ خود کو سزا دینے کے لئے زنجیروں اور چمڑے سے پیٹتے ہیں۔ اور دیوار گریہ کے پاس آہ و زاری کرتے ہیں۔ 

وہ ایمان رکھتے ہیں تیسری بار انہیں پوری دنیا پر حکمرانی حاصل ہوگی۔ اس کے لئے انہیں مسجد اقصی کو گرانا ہوگا۔ جس کی تیارہ وہ کرچکے ہیں۔ کب سے مسجد اقصی کے نیچے بارودی سرنگیں بچھا دی گئی ہیں۔ اس کے بعد ہیکل سلیمانی تعمیر کرکے تابوت سکینہ وہاں رکھنا ہے۔ تابوت سکینہ بھی وہ دوبارہ حاصل کرچکے ہیں۔ 

لیکن مسئلہ تھا سرخ گائے۔۔۔ کیونکہ ان کے عقیدے کے مطابق وہ ناپاک ہیں اور جب تک پاک نہیں ہوجاتے ہیکل سلیمانی تعمیر نہیں کرسکتے۔ اور پاک ہونے کے لئے سرخ گائے کی قربانی دینا ہوگی۔ 

وہ گائے جس کی نشانیاں قرآن پاک میں بیان کی گئیں۔ جو اسوقت بھی انہیں ڈھونڈنے میں مشکل ہوئی تھی۔ اب بھی ایک سو سال تک وہ ویسی گائے کی تلاش کرتے رہے۔ ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے بچے پیدا کرنے کا کامیاب تجربہ کیا انہوں نے۔ پھر اس تجربے کی بدولت ویسی نشانیوں والی گائے پیدا کرنے کی کوشش کی گئی لیکن ناکام رہے۔ دوہزار انیس میں ایک امریکی ریاست سے پانچ عدد ویسی گائیں انہیں مل گئیں۔ جن کے جسم پر سرخ رنگ کے علاوہ اور کوئی بال نہیں تھا۔ انہیں کبھی کام کے لئے استعمال نہیں کیا گیا تھا۔ اگلی نشانی کہ ان پر کسی بیماری کا اثر نہیں ہونا چاہیے، پوری دنیا میں کووڈ پھیلا کر مختلف جانوروں کے ساتھ انہیں بھی ٹیسٹ کیا گیا اور ان پر اس بیماری کا کوئی اثر نہ ہوا۔  


Red heifer found

Mastery of Red heifer


یہ گوگل میں سرچ کرکے آپ اس متعلق تفصیل سے پڑھ سکتے ہیں۔ 

الغرض قرب قیامت اور دجال کے ظہور والی تمام تر تیاریاں وہ مکمل کرچکے ہیں۔ 

اپنی مرضی کے ڈاکٹر، انجینئر بچے پیدا کرنا، نائن ڈی ٹیکنالوجی کی مدد سے ایک جگہ ہوتے ہوئے کئی جگہ موجود رہنا، اپنی مرضی کے موسم بنانا، جب چاہو بارش برسا دینا، چند دنوں میں پوری دنیا گھوم لینا یہ سب دجالی نشانیاں ہیں جو آج کے دور میں کوئی مشکل کام نہیں ہے۔ ہمارے اسلام میں بتائی گئی قیامت کی نشانیوں کی انہوں نے اتنے اچھے سے تیاری کرلی ہے کہ غرقد کے درخت لگا دیے۔ جو انہیں پناہ دیں گے۔ باب لد جس جگہ احادیث کے مطابق دجال کا حضرت عیسی ع کے ہاتھوں قتل ہونے کا ذکر موجود ہے اس جگہ وہ دجال کے فرار کے لئے ایئر پورٹ بنا چکے ہیں۔ 

یہ سب تو قربت قیامت کی نشانیاں ہیں اور ہیکل سلیمانی نے بھی بن کر رہنا ہے۔ پھر اصل جنگ کیا ہے؟

اصل جنگ عقائد کی ہے۔ ہم اپنے عقائد میں اس قدر کمزور ہوچکے ہیں کہ نماز پڑھیں یا نہ پڑھیں ہمیں فرق نہیں پڑتا۔ اپنے بہن بھائیوں کا حق کھا کر خوشی محسوس کرتے ہیں اور فرقوں کے خرافات میں الجھے ہوئے ہیں۔ 

فلسطینوں کے لئے سوائے دعا اور احتجاج کے ہم کیا کرسکتے ہیں؟

کیا ہم اپنے عقائد کے اتنے مضبوط ہیں کہ ڈالر کہ بہکاوے میں نہ آئیں؟

کیا ہم یہودیوں کے مقابلے میں نکلنے والے خراسان مجاہدین کی لسٹ میں آتے ہیں یا بس سوشل میڈیا کے تماشائی ہیں؟

اگر آج دجال ظاہر ہوجائے اور توبہ کا دروازہ بند ہوجائے تو ہماری آخرت کے لئے کیا تیاری ہے؟

سوچ کر جواب ضرور دیجئے گا۔

Friday, March 29, 2024

روزے میں منہ سے بدبو کیوں آتی ہے اور اِسے کیسے ختم کیا جائے؟

 


منہ کی بدبو کی کئی وجوہات ہوتی ہیں جس میں سب سے اہم دانتوں کی ناقص صفائی اور دیکھ بھال میں غفلت ہے۔ تاہم روزوں میں منہ سے بدبو کے آنے کی کئی سائنسی وجوہات ہیں جنہیں جان کر ہم اسکا تدارک بھی کر سکتے ہیں اور روزہ بھی اعتماد سے رکھ سکتے ہیں۔


انسان کا منہ مخلتف طرح کے بیکٹیریا کا گڑھ ہے۔ آپکے منہ میں چھ عدد غدود ہوتے ہیں جنہیں سیلوری گلینڈ کہتے ہیں۔ ان سے تھوک نکلتا ہے۔ تھوک میں 99 فیصد پانی ہوتا ہے جبکہ ایک فیصد پروٹین اور نمکیات۔ ان میں سے سے اہم ایک پروٹین جو کے اینزائم ہوتا ہے، کو ایمولیس کہتے ہیں۔ اس کا مقصد منہ میں داخل ہوتی خوراک میں موجود کاربوہائیڈریٹس یا نشاستا کو توڑنا ہوتا ہے تاکہ اسے بہتر طور پر ہضم کیا جا سکے۔ اسکے علاوہ تھوک منہ کو تر رکھتا ہے جس سے دانتوں، مسوڑھوں اور زبان پر پانی کی تہہ رہتی ہے جس سے جسم میں منہ کے ذریعے داخل ہونے والے مضرِ صحت بیکٹریا کو پنپنے کا موقع نہیں ملتا۔ 

اب جب آپ روزے میں ہوتے ہیں تو ایک طویل وقفے تک کھانا یا پانی نہیں پیتے جس سے آپکے منہ میں تھوک کی مقدار کم ہو جاتی ہے۔ یوں دانتوں اور مسوڑھوں پر ان بیکٹریاز کی نشو ونما بڑھ جاتی ہے جو منہ میں بدبو پیدا کرتے ہیں۔ 

مگر صرف اس عمل سے ہی منہ میں سے بدبو پیدا نہیں ہوتی۔ جب آپ کھانا نہیں کھاتے تو آپکا جسم خود میں موجود چربی کو توڑ کر اس سے توانائی حاصل کرنا شروع کر دیتا ہے۔

آپکے جگر میں ایک عمل ہوتا ہے جسے کیٹوجینسس کہتے ہیں۔ اس سے جگر، چربی کے مالکیولز کو کییٹونز میں تبدیل کرتاہے جو جسم میں گلوکوز سے متبادل کے طور پر توانائی کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔

روزے کی حالت میں کیٹوجینسس کا عمل بڑھ جاتا ہے جس سے کیٹونز منہ میں تھوک میں بھی آ جاتے ہیں اور منہ میں موجود مضر بیکٹریا بھی انہیں کھاتے ہیں جس سے بو آتی ہے۔اسکے علاوہ کیٹونز سانس کے ذریعے بھی خارج ہوتے ہیں۔ کیٹونز کی دراصل خود بھی ایک بو ہوتی ہیں۔ کیٹونز  ایک خاص طرح کے مالیکولز کا ایک گروپ ہے۔ 

آپ نے کبھی نیل پالش کو صاف کرنے والا ریمور سونگھا ہے؟ اس میں بھی کیٹون گروپ کا ایک خاص کیمیکل ہوتا ہے جسے ایسیٹون کہتے ہیں۔ لہذا یہ بھی ایک وجہ ہے منہ سے بدبو آنے کی کہ کیٹونز کی بذات ِ خود ایک بدبو ہوتی ہے۔


اس سب کے علاوہ چوتھی وجہ روزے میں منہ سے بدبو آنے کی یہ ہے کہ جب آپ زیادہ دیر تک کھانا نہیں کھاتے تو آپکے معدہ میں تیزاب اور دیگر ایمزائمز جو کھانے کو ہضم کرنے کے لیے خارج ہوتے رہتے ہیں، خوراک نہ ملنے کی صورت  زیادہ ہو جاتے ہیں۔اس سے معدے میں تیزابیت کا لیول بڑھ جاتا یے اور خوراک کی نالی کے اوپری حصے یعنی ایسوفیگس تک بھی یہ تیزاب آتا ہے۔ اس سے بھی منہ سے بدبو خارج ہوتی ہے۔


یہ وہ عوامل ہیں جن سے روزے کی حالت میں یا زیادہ دیر کھنا پینا ترک کرنے سے بدبو آتی ہے۔


اب اس سب کا تدارک کیسے کیا جائے؟ 


1. افطار کے بعد جسم میں پانی کی کمی کو پورا کیا جائے تاکہ روزے کے حالت میں منہ کم سے کم خشک رہے۔

سحری پر پانی مناسب مقدار میں پیا جائے۔ آپ اونٹ نہیں کہ پانی جمع کریں۔ تاہم مناسب مقدار میں پانی پیئیں تاکہ جسم میں پانی کی کمی کم سے کم ہو۔


2. پھل خاص طور پر وہ پھل جن میں فائبر زیادہ ہوں جیسے کہ سیب، ناشپاتی وغیرہ کا استعمال زیادہ کریں تاکہ معدے سے تیزاب سانس کی نالی تلک نہ آئے۔


3. دانتوں کو سونے سے پہلے اور سحری کرنے کے بعد اچھے سے صاف کریں، دانتوں کا خلال کریں اور منہ کی صفائی کا خاص خیال رکھیں۔ ہو سکے تو ماؤتھ واش بھی استعمال کریں۔


4.افطار میں زیادہ مرغن کھانے نہ کھائیں۔ کیونکہ اس سے تیزابیت میں اضافہ ہوتا ہے اور سارا دن آپ کھٹے ڈکار مار مار کے بے حال ہو جاتے ہیں۔اور منہ سے بدبو الگ چھوڑتے ہیں۔


پرانے زمانوں میں علم کم تھا لہذا لوگ منہ کی بدبو کا علاج نہیں کرسکتے تھے مگر آج آپکے پاس سائنس کا علم ہے، اسکا استعمال کریں اور ان تمام باتوں پر عمل کر کے دوسروں کو اپنے منہ کی بدبو سے بے ہوش کرنے سے بچائیں۔


تحریر= ڈاکٹر حفیظ الحسین


Popular Posts