Popular Posts

Sunday, November 14, 2021

Hydrogen

 ہاٸیڈروجن

تعارف#

ہاٸڈروجن ایلیمنٹ کاٸنات میں سب سے زیادہ مقدار میں پایا جانے والا ایلیمنٹ ہے۔یہ ایک بے رنگ,بے بو اور بے ذاٸقہ گیس ہے۔اسکا اٹامک نمبر ایک جبکہ اٹامک ماس 1.08 ہے۔یہ ہمشہ کمپاٶنڈ کی حالت میں ہی پایا جاتا ہے۔یہ جس کمپاٶنڈ میں سب سے زیادہ پایا جاتا ہے وہ پانی ہے۔پانی کا ہر مالیکیول دو ہاٸیڈروجن اور ایک آکسیجن ایٹم پر مشتمل ہوتا ہے۔


دریافت#


ہاٸڈروجن گیس کی دریافت  1671ء میں دریافت ہوٸ جب ایک برطانوی کیمسٹ رابرٹ بواٸل نے ایسڈ اور میٹل(لوہا) کو آپس میں ملایا یعنی ان کا ری ایکشن ہوا تو اسکے نتیجہ میں ایک گیس خارج ہوٸ اور آج ہم اس گیس کو ہاٸڈروجن گیس کہتے ہیں۔ہاٸڈروجن ہمیشہ گیس ہی کی حالت میں پایا جاتا ہے اسکی وجہ یہ ہے کہ ہاٸیڈروجن ایٹم بہت زیادہ انسٹیبل ہوتا ہے اور پیریاڈک ٹیبل میں موجود زیادہ تر ایلیمنٹ کے ساتھ ری ایکٹ کرکے کپماٶنڈ بناتا ہے جیسا کہ ناٸیٹروجن کے ساتھ مل کر امونیا بناتا ہے۔اور اسکی دوسری وجہ یہ ہے کہ ہاٸیڈروجن گیس چونکہ دو ہاٸڈروجن ایٹمز پر مشتمل ہوتی ہے اور یہ ایٹم آپس میں اس قدر مضبوطی سے جڑے ہوتے ہیں کہ ایک مول ہاٸڈروجن گیس کو ایٹمز میں تبدیل کرنے کے لیے 435.7کلوجول انرجی مطلوب ہوگی جو کہ بہت زیادہ ہے۔یا یوں سمجھیں کہ اگر ہاٸڈروجن گیس کے ایک مول کو 5000K ٹمپریچر دیا جاۓ تب جاکر یہ ایٹمز میں تبدیل ہوگی،یہی وجہ ہے کہ ہاٸڈروجن گیس روم ٹمپریچر پر انرٹ ہوتی ہے۔


اگرچہ رابرٹ بواٸل نے اسے دریافت تو کرلیا لیکن اس وقت اس کو ایک علیحدہ عنصر نہیں سمجھا جاتا تھا۔اس پر جب مزید تحقیق ہوٸ تو معلوم ہوا کہ یہ ایک آتش گیر گیس ہے یعنی جب اسکو جلایا جاتا ہے تو یہ آگ کے شعلے پیدا کرتی ہے لیکن یہ آکسیجن کی طرح جلنے کے عمل کو تیز تو نہیں کرتی یعنی اگر آپ کے پاس ایک گلاس ٹیسٹ ٹیوب ہو اور اس میں آکسیجن گیس بھری ہو اور اس کے قریب ایک موم پتی لاٸیں،تو موم پتی کے روشنی پہلے کی نسبت بڑھ جاۓ گی۔اس کے برعکس اگر ٹیسٹ ٹیوب میں ہاٸڈروجن بھری ہو تو کمبسشن کے عمل کو تیز کرنے کی بجاۓ اسکے جلنے کے نتیجہ میں نہ صرف آگ کا شعلہ نکلے گا بلکہ ایک پٹاخے کی آواز بھی سناٸ دے گی جبکہ آکسیجن کے کیس میں ایسا نہیں ہوگا۔


1766ء میں سب سے پہلے ایک ساٸنسدان جسکا نام ہینری کیونڈش تھا،اس نے ہاٸیڈروجن کی علیحدہ عنصر حیثیت  کو پہچانا۔اسکے کچھ سال بعد ایک اور ساٸنسدان انٹونی لیوٸزیر(Antoni Lavoisier)نے اس گیس کا نام ہاٸڈروجن رکھا۔ہاٸڈروجن دو یونانی الفاظ ”ہاٸیڈرو“ اور ”جن“ کا ماخذ ہے۔ہاڈرو کا مطلب ہے پانی جبکہ جن کا مطلب ہے پید کرنے والا،یوں ہاٸیڈروجن کا مطلب ہوا پانی پیداکرنے والا کیونکہ اس کے جلنے سے پانی اور ہیٹ پیدا ہوتی ہے۔یعنی

2H2+O2⇒2H2O+Heat


استعمالات#


ہاٸڈروجن دوسرے عناصر کے ساتھ مل کر مرکبات(کپماٶنڈ) بناتا ہے جس میں پانی(H2O)،امونیا(NH3)،ٹیبل شوگر(C12H22O11)،ہاٸیڈوکلورک ایسڈ(HCl) اور ہاٸیڈروجن پیروآکساٸیڈ(H2O2) وغیرہ شامل ہیں۔ہاٸیڈروجن کھاد بنانے کے علاوہ راکٹ ایدھن،ویلڈنگ،اور غبارے وغیرہ بھرنے کے لیے استعمال ہوتا ہے،اور الیکٹرونکس کے شعبہ میں اسے سلیکن تیار کرنے کے عمل میں استعمال کیا جاتا ہے۔اسکے علاوہ اور بھی بہت سی جگہ پر ہاٸیڈروجن استعمال کی جاتی ہے۔

ہائیڈروجن کا سب سے اہم واحد استعمال امونیا (NH 3) کی تیاری میں ہے۔  امونیا ہائیڈروجن اور نائٹروجن کو ایک کیٹالسٹ کی موجودگی میں ہائی پریشر اور درجہ حرارت پر ملا کر بنایا جاتا ہے۔  ایک کیٹالسٹ ایک مادہ ہے جو کیمیائی رد عمل کو تیز یا سست کرنے کے لئے استعمال ہوتا ہے۔  کیٹالسٹ رد عمل کے دوران کوئی تبدیلی نہیں کرتا ہے۔

  ہائیڈروجن کا ایک اور اہم استعمال خالص دھاتوں کی پیداوار میں ہے۔  ہائیڈروجن گیس خالص دھات پیدا کرنے کے لیے گرم دھاتی آکسائیڈ کے اوپر سے گزرتی ہے۔  مثال کے طور پر، مولیبڈینم کو ہائیڈروجن کو گرم مولیبڈینم آکسائیڈ پر منتقل کر کے تیار کیا جا سکتا ہے:


بہتات#


ہائیڈروجن پوری کائنات میں دو شکلوں میں پائی جاتی ہے۔  سب سے پہلے، یہ ستاروں میں ہوتا ہے.  ستارے ہائیڈروجن کو بطور ایندھن استعمال کرتے ہیں جس سے توانائی پیدا ہوتی ہے۔  وہ عمل جس کے ذریعے ستارے ہائیڈروجن استعمال کرتے ہیں اسے فیوژن کہا جاتا ہے۔  فیوژن وہ عمل ہے جس میں دو چھوٹے ایٹمز مل کر بڑا ایٹم تشکیل دیتے ہیں۔جیسا کہ ستاروں میں جب دو ہاٸٸڈروجن ایٹمز آپس میں ملتے ہیں تو اس کے نتیجہ میں ہیلیم ایٹم وجود میں آتا ہے اس عمل کو فیوزن کہتے ہیں اور اس کے نتیجہ میں بہت زیادہ ہیٹ اور لاٸٹ پیدا ہوتی ہے۔


 ہائیڈروجن ستاروں کے درمیان "خالی" جگہوں پر بھی پایا جاتا ہے۔  ایک زمانے میں سائنس دانوں کا خیال تھا کہ یہ جگہ واقعی خالی ہے، اس میں کسی قسم کا کوئی ایٹم نہیں ہے۔  لیکن، حقیقت میں، اس انٹرسٹیلر اسپیس (ستاروں کے درمیان کی جگہ) میں ایٹموں کی ایک چھوٹی سی تعداد ہے، جن میں سے زیادہ تر ہائیڈروجن ایٹم ہیں۔  ایک کیوبک میل انٹرسٹیلر اسپیس میں عام طور پر مٹھی بھر ہائیڈروجن اور دیگر ایٹموں سے زیادہ نہیں ہوتا ہے۔


 ہائیڈروجن زمین پر بنیادی طور پر پانی کی شکل میں ہوتی ہے۔  پانی کے ہر مالیکیول (H 2 O) میں دو ہائیڈروجن ایٹم اور ایک آکسیجن ایٹم ہوتا ہے۔ہائیڈروجن بہت سی چٹانوں اور معدنیات میں بھی پائی جاتی ہے۔  اس کی کثرت کا تخمینہ تقریباً 1500 حصے فی ملین ہے۔  یہ ہائیڈروجن کو زمین کی پرت میں دسواں سب سے زیادہ وافر عنصر بناتا ہے۔ ہائیڈروجن بھی زمین کے ماحول میں بہت کم مقدار میں پائی جاتی ہے۔  وہاں اس کی کثرت تقریباً 0.000055 فیصد بتائی گئی ہے۔  ہائیڈروجن فضا میں وافر نہیں ہے کیونکہ اس کی کثافت اتنی کم ہے۔  زمین کی کشش ثقل ہائیڈروجن ایٹموں کو اچھی طرح سے پکڑنے کے قابل نہیں ہے۔  وہ بہت آسانی سے بیرونی خلا میں تیرتے ہیں۔  زیادہ تر ہائیڈروجن جو کبھی فضا میں تھی اب باہر نکل گئی ہے۔


آٸسوٹوپس


ہاٸروجن کے تین آٸسوٹوپس ہوتے ہیں،پروٹیم یعنی اگر ہاٸڈروجن میں صرف ایک ہی الیکٹرون اور ایک ہی پروٹون موجود ہو تو اسکو پروٹیم کہتے ہیں،اسکے بعد ڈیوٹریم جس میں ایک ایک الکٹرون کے علاوہ یک نیوٹران بھی پایا جاتا ہے اور ٹریٹیم یعنی جس میں دو نیٹوٹران جبکہ ایک الکٹران اور ایک پروٹان پایا جاتا ہے۔اگر اسکی طبعی خصوصیات کی بات کی جاٸے تو یہ بے رنگ،بے بو گیس ہوتی ہے۔اسکا میلٹنگ پواٸینٹ 259.16C-جبکہ بواٸلنگ پواٸینٹ 252.879C- ہوتا ہے۔اسکے علاوہ ہاٸڈروجن ایک نان میٹالک ایلمنٹ ہے۔


ماحولیاتی اثرات#


آلودگی سے پاک ایندھن کی صلاحیت کی بنا پر محقیقین برسوں سے ہاٸڈروجن کا بڑی دلچسپی کے ساتھ مطالعہ کررہے ہیں۔اگرچہ ہاٸڈروجن کو بطور فیول استعمال کر کے آلودگی سے بچا جاسکتا ہے کیونکہ اس کے جلنے کے نتیجہ میں CO2 یا کوٸ دوسری مضر گیس پیدا نہیں ہوتی بلکہ صرف پانی پیدا ہوتا ہے۔لیکن ہاٸڈروجن کے ساتھ مسٸلہ یہ ہے کہ یہ دوسری گیس کی نسبت مہنگی ہے،اسکا اندازہ یوں لگاٸیے کہ ایک ٹینک ہاٸڈروجن گیس کی لاگت 50 ڈالر سے بھی زیادہ ہوسکتی ہے۔ہاٸیڈروجن ایندھن کے ایک اور مسٸلہ یہ ہے کہ ہاٸیڈروجن تیار کرنے کا عمل اتنا صاف نہیں ہے کیونکہ زیادہ تر ہاٸیڈروجن قدرتی گیس سے نکلتی ہے جوکہ کاربن ڈاٸ آکساٸیڈ پیدا کرتے ہیں۔اس لیے محقیقین ہاٸیڈروجن گیس کے متبادل ایسے دوست طریقوں کی تلاش میں ہیں جن کو استعمال کرکے آلودگی سے بچاجاسکے۔


تحریر:محمد شاہ رخ

Wednesday, August 25, 2021

Quail Farming



for Urdu version please click below
https://inworldwave.blogspot.com/2021/04/quail-farming.html


 The quail is a small bird and can weigh from 150 grams to 200 grams. Its life span is 3 to 4 years.  And its eggs weigh 7 to 15 grams.  Quails breed very fast and become edible in 5 to 6 weeks and females of different breeds of Coturnix start laying eggs after 7 to 8 weeks and quail lay 300 to 350 eggs a year  ۔  The female quail lays 300 eggs in the first year of her life and 150 to 170 eggs in the second year.  Female quail lay more eggs in the light.  It lays its eggs mostly in the afternoon.  The ability to lay eggs decreases every year.  Quail eggs are very beautiful and small in size.  The eggs hatch in about 17 days. The new hatchlings weigh about 6 to 7 grams. The quail do not hatch their eggs (hatch from eggs) but hatch from eggs to hatch.  The machine has to be used.  And about 9 to 11 grams of eggs are best for hatching from a machine.  For best quail farming, keep one male quail of 5 females.  Quail babies are very sensitive and can withstand severe weather in about 2 weeks.

 The quail is one of the smallest birds to be eaten. That is why it can be easily reared at home and on a commercial scale.  It does not require any special permission or license from the government.  Make a complete plan before raising quail. And then work according to that plan.  A complete plan includes breeding, food, safety measures, location, and business practices in the market.  Here I am giving some details for raising quail.

 Quail breed selection:

 There are 50 species of quail in Pakistan alone but only a few of them are commonly seen.  And raising about 18 species of quail is very beneficial.  Among them, Japanese quail, Bobwhite quail (white quail), American quail are more famous.  The Bob White Quail is a native bird of eastern South America.  Japanese quail have been reared in Pakistan and India for many years.

 Location selection:

 The most important step is to choose a place for quail to be reared on a domestic and commercial scale.  You can customize your quail cage or space by following the instructions below.

 Quails can be raised in both litter and cages.  But cages are more beneficial because the cages are easier to clean.  Diseases and other problems are rarely encountered.

 Choose a cage or a place (for quail rearing) that is airy and bright.  You can raise about 50 quails in a cage.  Its length is 120 cm, width is 60 cm and height is 25 cm.

 Use mesh to make the cage.

 For large quail, the netting should be about 5mm x 5mm.

 Plastic cages are very suitable for quail rearing.

 Quail breeding grounds or quail breeding cages should be kept away from wild animals and predators.

 Quail diet:

 Quail must be well fed to keep them healthy and healthy.  A quail eats about 20 to 25 grams of food daily.  About 27% of quail cubs and about 22 to 24% of older quails need to be given protein in their diet.  The following is a balanced quota for quail.

 Large or young quail 4 to 5 weeks 0 to 3 weeks Ingredients

 50 grams 48 grams wheat

 22 grams 22 grams 23 grams sesame

 14 grams 16 grams 20 grams keeper fish

 9 grams 8 grams 6 grams bran

 4.25 grams 3.25 grams 2.25 grams dog shell

 0.50 grams 0.50 grams 0.50 grams salt

 0.25 g 0.25 g 0.25 g mineral oil mix

 100 grams 100 grams 100 grams total

 Egg Production:

 The female quail must have adequate lighting to produce the desired eggs.  You can also provide artificial light with bulbs and heaters.  You can use a 40 to the 100-watt bulb for this purpose.  The light and temperature required to depend on the weather.  If you want to breed the best breed and hatch from their eggs, keep 5 females with 1 male quail.  To get more eggs, choose a breed of quail that lays more eggs and keep their cages and areas where the quail are kept clean.  Egg production is based on the provision of heat, food, water, etc.  Light plays a very important role in obtaining the desired number of eggs from female quail.  Quails should be illuminated according to the schedule below.

 Hours for lighting (temperature (age in degrees)

 H.

 24 35 First Week

 24 30 Second Week

 12 25 Third week

 12 21 - 22 Fourth Week

 12 21 Fifth Week

 13 21 Sixth Week

 14 21 Seventh week

 15 21 Eighth Week

 16 21 Ninth week

 16 21 In the remaining days

 Raising Quail Chicks:

 Quails never hatch their eggs.  You can place quail eggs under a hen to hatch or use a hatchery.  If you are using an egg-laying machine, the eggs hatch in 16 to 18 days.  Quail hatchlings should be placed in a brooder.  These quail babies need artificial temperature and light for 14 to 21 days from birth.  Quail babies are very sensitive.  They can be reared in areas with dirt and battery systems.  Here are some things to look for when selecting quail.

 Proper temperature

 Proper lighting

 Air passage

 Provide food and water on time

 Clean environment

 Keep the egg-laying female in light and temperature according to the schedule below.

 Hours for lighting (temperature (age in degrees)

 24 37.7 First Week

 24 35 Second Week

 12 22.2 Third week

 Quail Diseases:

 Quails are less susceptible to diseases than other birds of prey.  But still, it is important to take proper care of them to prevent every disease and weakness.  Proper care and good management are essential for making a profit.  There is currently no specific vaccine for the disease on the market.  Quails cannot tolerate climate change or sudden temperature changes.  If they are exposed to climate change and temperature changes, they get sick.  In the meantime, be very careful and cautious.  The following quail diseases are very dangerous.

 Coccidiosis:

 If quail are infected with insect bites, give them Coaxial 20 2 grams in a liter of water 3 times a day.  Otherwise, mix it in the diet as directed by the veterinarian.

 Ulcerative Enteritis:

 If the quail suffers from irritable bowel syndrome (a specific disease in which the large intestine becomes swollen for unknown or unknown reasons), Streptomycin should be mixed with one liter of water and given 3 times a day.  This will eliminate the disease.

 Hygienic Quail Farming Tips:

 Follow the tips below to make your quail healthier and more productive.

 Always keep the cage or space clean and dry.

 Be airy and bright.

 Keep quail of different ages separately.

 Separate sick quail from healthy quail.

 Bury the dead quail in the dust.

 Do not allow other birds, animals, and humans to enter your quail breeding grounds.

 Provide a clean and balanced diet.

 Provide them with clean, freshwater to drink.

 The pots in which they are fed and watered must be kept clean.

 Quail Marketing:

 Quail meat and eggs are very tasty and rich in vitamins.  That is why quail meat and eggs are in great demand.  The quail is a small bird and its eggs are small in size so people can easily buy it.  You don't have to work hard to sell your quail and their eggs.  You can easily sell quail in your area.  But it would be great if you had a good plan for selling your quail.  Because the demand is not the same everywhere.

 Quail rearing is an important source of daily vitamin-rich food and beneficial sources of income.  And commercial quail rearing can also be a way to reduce unemployment and you can earn a good income along with your job.  If you want to get into this business, you must first inspect a quail farm near you.  And then make your final decision.

 Keep your memory safe.

72 شہدائے کربلا


1 حضرت امام حسین

2 حضرت عباس بن علی 

3 حضرت علی اکبر بن حسین 

4 حضرت علی اصغر بن حسین 

5 حضرت عبداللہ بن علی

6 حضرت جعفر بن علی

7 حضرت عثمان بن علی 

8 حضرت ابوبکر بن علی

9 حضرت ابوبکر بن حسن بن علی

10 حضرت قاسم بن حسن بن علی

11 حضرت عبداللہ بن حسن 

12 حضرت عون بن عبداللہ بن جعفر

13 حضرت محمد بن عبداللہ بن جعفر 

14 حضرت عبداللہ بن مسلم بن عقیل 

15 حضرت محمد بن مسلم 

16 حضرت محمد بن سعید بن عقیل

17 حضرت عبدالرحمن بن عقیل 

18 حضرت جعفر بن عقیل

19 حضرت حبیب ابن مظاہر اسدی 

20حضرت أنس بن حارث اسدی

21 حضرت مسلم بن عوسجہ اسدی 

22 حضرت قیس بن عشر اسدی

23 حضرت ابو ثمامہ بن عبداللہ 

24 حضرت بریر ہمدانی 

25 حضرت ہنزلہ بن اسد 

26 حضرت عابس شاکری 

27 حضرت عبدالرحمن رہبی

28 حضرت سیف بن حارث 

29 حضرت عامر بن عبداللہ ہمدانی

30 حضرت جندا بن حارث 

31 حضرت شوذب بن عبداللہ 

32 حضرت نافع بن حلال 

33 حضرت حجاج بن مسروق مؤذن

34 حضرت عمر بن کرضہ 

35 حضرت عبدالرحمن بن عبد رب 

36 حضرت جندا بن کعب

37 حضرت عامر بن جندا

38 حضرت نعیم بن عجلان 

39 حضرت سعد بن حارث

40 حضرت زہیر بن قین

41 حضرت سلمان بن مضارب 

42 حضرت سعید بن عمر

43 حضرت عبداللہ بن بشیر 

44 حضرت وھب کلبی

45 حضرت حرب بن عمر-شیخ الاسلام قیس

46 حضرت ظہیر بن عامر

47 حضرت بشیر بن عامر 

48 حضرت عبداللہ ارواح غفاری 

49 حضرت جون غلام ابوذر غفاری

50 حضرت عبداللہ بن امیر 

51 حضرت عبداللہ بن یزید 

52 حضرت سلیم بن امیر 

53 حضرت قاسم بن حبیب 

54 حضرت زید بن سلیم

55 حضرت نعمان بن عمر

56 حضرت یزید بن سبیت 

57 حضرت عامر بن مسلم 

58 حضرت سیف بن مالک 

59 حضرت جابر بن حجاج 

60 حضرت مسعود بن حجاج 

61 حضرت عبدالرحمن بن مسعود 

62 حضرت بیکر بن حئ

63 حضرت عمار بن حسن تائی

64حضرت زرغامہ بن مالک 

65 حضرت کینانہ بن عتیق

66 حضرت عقبہ بن سولت

67 حضرت حر بن یزید تمیمی 

68 حضرت عقبہ بن سولت

69 حضرت حبلہ بن علی شیبنی 

70 حضرت کنب بن عمر. 

71 حضرت عبداللہ بن یکتیر 

72 حضرت اسلم غلام ای ترکی رضوان الله تعالى عليهـم اجمعين

التماس درود و صلوات برائے جملہ شھدأ۔

اشرف غنی ولد شاہجہان ولد عبدالغنی

 اشرف غنی ولد شاہجہان ولد عبدالغنی-افغانستان کے موجودہ صدر جو چند دنوں کا مہمان لگ رہا ہے-ہمارے قوم پرست 20 سال کے بعد پہلی مرتبہ انکی موجودہ حالت پر سخت بے چین ہیں اور انکو پختونوں کا بہت بڑا لیڈر ثابت کرنے کیلئے زمین آسمان کی قلابے ملا رہے ہیں- جبکہ وہ خود امریکہ کو اُڑان بھرنے کے لئے پر تول رہا ہے-ایمل ولی خان کی بے چینی سے محسوس ہوتا ہے کہ وہ سوگ منانے کی تیاریاں کررہا ہے-ایام سوگ منانے سے قبل ہم  انکا مختصر تعارف کرانا چاہتے ہیں-

کیونکہ ایّام سوگ میں بعض لوگ معمولی چیزوں کو بھی بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں 

اشرف غنی کی سن پیدائش 1949 جائے پیدائش ولایت لوگر  ہے-

والدہ کا نام کوکبہ ہے-

ابتدائی تعلیم حبیبی لیسہ کابل سے حاصل کی ہے-پھر امریکن یونیورسٹی لبنان اور کولمبیا سے سیاسیات اور آئی آر میں ڈگری حاصل کی-

موصوف کا پردادا بہرام خان افغانستان،برطانیہ کی جنگ میں 1880 تک انگریزوں کا وفادار رہا- جبکہ انکا دادا عبدالغنی بھی انگریزوں کا رازدار نادر خان کی حکومت میں لوٹ کھسوٹ میں پیش پیش رہا-

انکی بیوی رولا غنی لبنان کی آرتھوڈاکس عیسائی ہے-رولا غنی کے   والد عیسائی اور والدہ یہودن ہے-فرانس میں جب حجاب کے خلاف تحریک چلی تو حجاب کی مخالفت میں رولا غنی پیش پیش تھی-

اشرف غنی کی بیٹی مریم غنی نے نیویارک یونیورسٹی سے فوٹو گرافی میں ماسٹر کیا ہے-اب بھی وہاں ملازمت کررہی ہے-یورپی تہذیب کی سب سے بڑی وکیل ہے-

اسکا ایک بیٹا طارق غنی کی پیدائش و رہائش دونوں امریکہ میں ہے-

70 کی دہائی میں اشرف غنی امریکیوں اور یورپئین کے لئے افغانستان میں ترجمانی کا کام کرتا تھا یہی سے امریکہ کے ساتھ قریبی تعلقات استوار کئے-

افغانستان پر روسی جارحیت سے قبل پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی افغانستان کے پرچم دھڑے کے ساتھ وابستگی تھی-دونوں جانب تعلقات کی بناء پر امریکہ کے لئے افغانستان میں جاسوسی کا کام بھی کرتا رہا-

 تعلیم کے سلسلہ میں امریکہ میں مقیم تھا کہ اس دوران روس نے افغانستان پر چڑھائی کی جسکی وجہ سے امریکہ میں مستقل سکونت اختیار کی-ورلڈبینک کے ساتھ طویل مدت تک کام کیا اور 1995 تک جنوبی اور مشرقی ایشیا میں ورلڈ بینک کے پروجیکٹ کی نگرانی کرتے رہے-جب افغانستان پر امریکہ نے صلیبی جنگ مسلط کرکے بدمست ہاتھی کی طرح چڑھ دوڑا تو وہاں پر اپنے کٹھ پتلی حامد کرزئی کو بٹھایا  اس دوران اشرف غنی کو امریکہ سے بلا کر 2002 سے 2004 تک حامد کرزئی کی کابینہ میں وزیر خزانہ رہے-

حامد کرزئی کے بعد ستمبر 2014 سے لے کر اب تک امریکہ کی شہ پر عہد صدارت پر براجمان ہے-امریکہ نے تو بڑی مشکل سے اپنی فوجوں کی جان بچا کر الٹے پاوں بھاگنے میں عافیت سمجھی-امریکہ کی طرف سے مایوس کن جواب کی وجہ سے اشرف غنی اور پاکستانی قوم پرستوں کی امیدیں دم توڑ کر مایوسی آخری حدوں کو چھو رہی ہے-

تمام عمر یورپ اور امریکہ میں گزارنے اور پھر امریکہ کے کہنے پر افغانستان آکر امریکی قبضے کو دوام بخشنے کے علاوہ اس نے پشتون قوم کے لئے کیا خدمات انجام دی ہے؟ قوم پرست گالیوں کے بجائے اسکی نشاندہی کرکے ممنون فرمائیں-اشرف غنی اور ایمل ولی خان کے آباء و اجداد میں کوئی چیز مشترک نہیں کیونکہ ایمل ولی خان کے پر دادا  حریت کے متوالے بن کر ساری زندگی انگریز دشمنی اور سامراج دشمنی میں گزاری جبکہ اشرف غنی کے پردادا  انگریز کا زرخرید غلام بن کر رہا-ایمل ولی خان کو بطور ہمدردی یہ مشورہ دینا چاہتا ہوں کہ اس نے باچا خان مرکز کو ڈھول سارنگی کی تربیت گاہ بنانے کا جو فیصلہ کیا ہے  یہ بے وقت کی راگنی ہے یہ وقت اس کے لئے بلکل مناسب نہیں ہے ہاں وہ اگر محرم کے مبارک مہینے میں تعزیے کے پروگراموں میں باقاعدہ زنجیرزنی کے ساتھ  شرکت کرے تو شائد اس سے انکے غم غلط ہونے مدد مل سکے

💫 حضورنبی کریم ﷺ نے متعدد نکاح کیوں کیے؟ 💫

 💫 حضورنبی کریم ﷺ نے متعدد نکاح کیوں کیے؟ 💫

ایک پروفیسر صاحب لکھتے ہیں کہ کافی عرصہ کی بات ہے کہ جب میں لیاقت میڈیکل کا لج جامشورو میں سروس کررہا تھا تو وہاں لڑکوں نے سیرت النبی ﷺ کانفرس منعقد کرائی اورتمام اساتذہ کرام کو مدعو کیا ۔ 

چنانچہ میں نے ڈاکٹر عنایت اللہ جوکھیو ( جو ہڈی جوڑ کے ماہر تھے) کے ہمراہ اس کانفرنس میں شرکت کی۔ اس نشست میں اسلامیات کے ایک لیکچرار نے حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی پرائیویٹ زندگی پر مفصل بیان کیا اور آپ کی ایک ایک شادی کی تفصیل بتائی کہ یہ شادی کیوں کی اور اس سے امت کو کیا فائدہ ھوا۔ 

یہ بیان اتنا موثر تھا کہ حاضرین مجلس نے اس کو بہت سراہا ۔ کانفرس کے اختتام پر ہم دونوں جب جامشورو سے حیدر آباد بذریعہ کار آرہے تھے تو ڈاکٹر عنایت اللہ جوکھیو نے عجیب بات کی...

اس نے کہا کہ ۔۔۔۔۔۔ آج رات میں دوبارہ مسلمان ھوا ھوں 

میں نے تفصیل پوچھی تو انہوں نے بتایا کہ آٹھ سال قبل جب وہ FRCS کے لیے انگلستان گئے تو کراچی سے انگلستان کا سفر کافی لمبا تھا ہوائی جہاز میں ایک ائیر ہوسٹس میرے ساتھ آ کر بیٹھ گئی ۔

ایک دوسرے کے حالات سے آگاہی کے بعد اس عورت نے مجھ سے پوچھا کہ تمہارا مذہب کیا ہے؟ 

میں نے بتایا اسلام ۔ ہمارے نبی ﷺ کا نام پوچھا میں نے حضرت محمد ﷺ بتایا ، پھر اس لڑکی نے سوال کیا کہ کیا تم کو معلوم ہے کہ تمہارے نبی ﷺ نے گیارہ شادیاں کی تھیں؟ 

میں نے لاعلمی ظاہر کی تو اس لڑکی نے کہا یہ بات حق اور سچ ہے ۔ اس کے بعد اس لڑکی نے حضور ﷺ کے بارے میں (معاذاللہ ) نفسانی خواہشات کے غلبے کے علاوہ دو تین دیگر الزامات لگائے، جس کے سننے کے بعد میرے دل میں (نعوذ بااللہ) حضور ﷺکے بارے میں نفرت پیدا ہوگئی اور جب میں لندن کے ہوائی اڈے پر اترا تو میں مسلمان نہیں تھا۔

آٹھ سال انگلستان میں قیام کے دوران میں کسی مسلمان کو نہیں ملتا تھا، حتیٰ کہ عید کی نماز تک میں نے ترک کر دی۔ اتوار کو میں گرجوں میں جاتا اور وہاں کے مسلمان مجھے عیسائی کہتے تھے۔

جب میں آٹھ سال بعد واپس پاکستان آیا تو ہڈی جوڑ کا ماہر بن کر لیاقت میڈیکل کالج میں کام شروع کیا ۔ یہاں بھی میری وہی عادت رہی ۔ آج رات اس لیکچرار کا بیان سن کر میرا دل صاف ہو گیا اور میں نے پھر سے کلمہ پڑھا ہے۔ 

غور کیجئے ایک عورت کے چند کلمات نے مسلمان کو کتنا گمراہ کیا اور اگر آج ڈاکٹر عنایت اللہ کا یہ بیان نہ سنتا تو پتہ نہیں میرا کیا بنتا؟ 

اس کی وجہ ہم مسلمانوں کی کم علمی ہے۔ ہم حضور ﷺ کی زندگی کے متعلق نہ پڑھتے ہیں اور نہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں ۔ 

کئی میٹنگز میں جب کوئی ایسی بات کرتا ہے تو مسلمان کوئی جواب نہیں دیتے، ٹال دیتے ہیں۔ جس سے اعتراض کرنے والوں کےحوصلے بلند ہوجاتے ہیں ۔ 

اس لئیے بہت اہم ہے کہ ہم اس موضوع کا مطالعہ کریں اور موقع پر حقیقت لوگوں کو بتائیں ۔ 

میں ایک دفعہ بہاولپور سے ملتان بذریعہ بس سفر کر رہا تھا کہ ایک آدمی لوگوں کو حضور ﷺ کی شادیوں کے بارے میں گمراہ کر رہا تھا۔ میں نے اس سے بات شروع کی تو وہ چپ ہوگیا اور باقی لوگ بھی ادھر ادھر ہوگئے۔

لوگوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت و ناموس کی خاطر جانیں قربان کی ہیں۔ کیا ہما رے پاس اتنا وقت نہیں کہ ہم اس موضوع کے چیدہ چیدہ نکات کو یاد کر لیں اور موقع پر لوگوں کو بتائیں ۔

اس بات کا احساس مجھے ایک دوست ڈاکٹر نے دلایا جو انگلستان میں ہوتے ہیں اور یہاں ایک جماعت کے ساتھ آئے تھے ۔ انگلستان میں ڈاکٹر صاحب کے کافی دوست دوسرے مذاہب سے تعلق رکھتے تھے ، وہ ان کو اس موضوع پر صحیح معلومات فراہم کرتے رہتے ہیں ۔

انہوں نے چیدہ چیدہ نکات بتائے، جو میں پیش خدمت کررہا ہوں۔ اتوار کے دن ڈاکٹر صاحب اپنے دوستو ں کے ذریعے ”گرجا گھر“ چلے جاتے ہیں ، وہاں اپنا تعارف اور نبی کریم ﷺکا تعارف کراتے ہیں ۔ عیسائی لوگ خاص کر مستورات آپ کی شادیوں پر اعتراض کرتی ہیں ۔ ڈاکٹر صاحب جو جوابات دیتے وہ مندرجہ ذیل ہیں:

◀️ (1) میرے پیارے نبی ﷺ نے عالم شباب میں (25 سال کی عمر میں) ایک سن رسیدہ بیوہ خاتون حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا سے شادی کی۔ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی عمر 40 سال تھی اور جب تک حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا زندہ رہیں آپ نے دوسری شادی نہیں کی۔

50 سال کی عمر تک آپ نے ایک بیوی پر قناعت کیا ۔ (اگر کسی شخص میں نفسانی خواہشات کا غلبہ ہو تو وہ عالم ِ شباب کے 25 سال ایک بیوہ خاتون کے ساتھ گزارنے پر اکتفا نہیں کرتا ) حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی وفات کے بعد مختلف وجوہات کی بناء پر آپ ﷺنے نکا ح کئے ۔

پھر اسی مجمع سے ڈاکٹر صاحب نے سوال پوچھا کہ یہاں بہت سے نوجوان بیٹھے ہیں ...... آپ میں سے کون جوان ہے جو 40 سال کی بیوہ سے شادی کرے گا....؟

سب خاموش رھے ۔ ڈاکٹر صاحب نے ان کو بتایا کہ نبی کریم ﷺ نے یہ کیا ہے ، پھر ڈاکٹر صاحب نے سب کو بتایا کہ جو گیارہ شادیاں آپ ﷺنے کی ہیں سوائے ایک کے، باقی سب بیوگان تھیں ۔ یہ سن کر سب حیران ہوئے ۔ 

پھر مجمع کو بتایا کہ جنگ اُحد میں ستر صحابہ رضی اللہ عنہم شہید ہوئے ۔ نصف سے زیادہ گھرانے بے آسرا ہوگئے ، بیوگان اور یتیموں کا کوئی سہارا نہ رہا۔

اس مسئلہ کو حل کرنے کے لیے نبی کریم ﷺ نے اپنے صحابہ رضی اللہ عنہم کو بیوگان سے شادی کرنے کو کہا ، لوگوں کو ترغیب دینے کے لئیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ۔۔۔

◀️ (2) حضرت سودہ رضی اللہ عنہا 

◀️ (3) حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا اور

◀️ (4)حضرت زینب بنت خزیمہ رضی اللہ عنہا سے مختلف اوقات میں نکاح کئے ۔ آپ کو دیکھا دیکھی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے بیوگان سے شادیاں کیں جس کی وجہ سے بے آسرا خواتین کے گھر آباد ہوگئے - 

◀️ (5) عربوں میں کثرت ازواج کا رواج تھا۔ دوسرے شادی کے ذریعے قبائل کو قریب لانا اور اسلام کے فروغ کا مقصد آپ ﷺ کے پیش نظر تھا۔ 

ڈاکٹر صاحب نے بتایا کہ عربوں میں دستور تھا کہ جو شخص ان کا داماد بن جاتا اس کے خلاف جنگ کرنا اپنی عزت کے خلاف سمجھتے۔ 

ابوسفیان رضی اللہ عنہ اسلام لانے سے پہلے حضور ﷺکے شدید ترین مخالف تھے ۔ مگر جب ان کی بیٹی ام حبیبہ رضی اللہ عنہا سے حضور ﷺ کا نکاح ہوا تو یہ دشمنی کم ہو گئی۔ ہوا یہ کہ ام حبیبہ رضی اللہ عنہا شروع میں مسلمان ہو کر اپنے مسلمان شوہر کے ساتھ حبشہ ہجرت کر گئیں ، وہاں ان کا خاوند نصرانی ہو گیا ۔

حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا نے اس سے علیحدگی اختیار کی اور بہت مشکلات سے گھر پہنچیں ۔ حضور ﷺ نے ان کی دل جوئی فرمائی اور بادشاہ حبشہ کے ذریعے ان سے نکاح کیا.

◀️ (6) حضرت جویریہ رضی اللہ عنہا کا والد قبیلہ مصطلق کا سردار تھا۔ یہ قبیلہ مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کے درمیان رہتا تھا ۔ حضور ﷺ نے اس قبیلہ سے جہاد کیا ، ان کا سردار مارا گیا ۔ 

حضرت جویریہ رضی اللہ عنہا قید ہوکر ایک صحابی رضی اللہ عنہ کے حصہ میں آئیں ۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے مشورہ کر کے سر دار کی بیٹی کا نکاح حضور ﷺ سے کر دیا اور اس نکاح کی برکت سے اس قبیلہ کے سو گھرانے آزاد ہوئے اور سب مسلمان ہو گئے ۔

◀️ (7) خیبر کی لڑائی میں یہودی سردار کی بیٹی حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا قید ہو کر ایک صحابی رضی اللہ عنہ کے حصہ میں آئیں ۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے مشورے سے ا ن کا نکاح حضور اکرم ﷺ سے کرا دیا ۔ 

◀️ (8) اسی طر ح میمونہ رضی الله عنہا سے نکاح کی وجہ سے نجد کے علاقہ میں اسلام پھیلا ۔ ان شادیوں کا مقصد یہ بھی تھا کہ لوگ حضور ﷺکے قریب آسکیں ، اخلاقِ نبی کا مشاہدہ کر سکیں تاکہ انہیں راہ ہدایت نصیب ہو ۔

◀️ (9) حضرت ماریہ رضی اللہ عنہا سے نکاح بھی اسی سلسلہ کی کڑی تھا۔ آپ پہلے مسیحی تھیں اور ان کا تعلق ایک شاہی خاندان سے تھا۔ ان کو بازنطینی بادشاہ شاہ مقوقس نے بطور ہدیہ کے آپ ﷺکی خدمت اقدس میں بھیجا تھا۔

◀️ (10) حضرت زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا سے نکاح متبنی کی رسم توڑنے کے لیے کیا ۔ حضرت زید رضی الله عنہ حضور ﷺ کے متبنی(منہ بولے بیٹے) کہلائے تھے، ان کا نکاح حضرت زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا سے ہوا ۔ مناسبت نہ ہونے پر حضرت زید رضی الله عنہ نے انہیں طلاق دے دی تو حضور ﷺنے نکاح کر لیا اور ثابت کردیا کہ متبنی ہرگز حقیقی بیٹے کے ذیل میں نہیں آتا.

◀️ (11) اپنا کلام جاری رکھتے ہوئے ڈاکٹر صاحب نے بتایا کہ علوم اسلامیہ کا سرچشمہ قرآنِ پاک اور حضور اقدس ﷺ کی سیرت پاک ہے۔ 

آپ ﷺکی سیرت پاک کا ہر ایک پہلو محفوظ کرنے کے لیے مردوں میں خاص کر اصحاب ِ صفہ رضی الله عنہم نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ۔ عورتوں میں اس کام کے لئیے ایک جماعت کی ضرورت تھی۔ 

ایک صحابیہ سے کام کرنا مشکل تھا ۔ اس کام کی تکمیل کے لئیے آپ ﷺ نے کئی نکاح کیے ۔ آپ نے حکما ً ازواجِ مطہرات رضی اللہ عنہن کو ارشاد فرمایا تھا کہ ہر اس بات کو نوٹ کریں جو رات کے اندھیرے میں دیکھیں ۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا جو بہت ذہین، زیرک اور فہیم تھیں، حضور ﷺ نے نسوانی احکام و مسائل کے متعلق آپ کو خاص طور پر تعلیم دی ۔

حضور اقدس ﷺ کی وفات کے بعد حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا 48 سال تک زندہ رہیں اور 2210 احادیث آپ رضی اللہ عنہا سے مروی ہیں ۔

صحابہ کرام رضی اللہ علیہم اجمعین فرماتے ہیں کہ جب کسی مسئلے میں شک ہوتا ہے تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو اس کا علم ہوتا ۔

اسی طرح حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی روایات کی تعداد 368 ہے ۔ 

ان حالا ت سے ظاہر ہوا کہ ازواجِ مطہرات رضی اللہ عنہن کے گھر، عورتوں کی دینی درسگاہیں تھیں کیونکہ یہ تعلیم قیامت تک کے لئیے تھیں اور سار ی دنیا کے لیے تھیں اور ذرائع ابلاغ محدود تھے، اس لیے کتنا جانفشانی سے یہ کام کیا گیا ہو گا، اس کا اندازہ آج نہیں لگایا جاسکتا۔ 

آخر میں ڈاکٹر صاحب نے بتایا کہ یہ مذکورہ بالا بیان میں گرجوں میں لوگوں کو سناتا ہوں اور وہ سنتے ہیں ۔ باقی ہدایت دینا تو اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے ۔

اگر پڑھے لکھے مسلمان ان نکات کو یاد کرلیں اور کوئی بدبخت حضور ﷺ کی ذات پر حملہ کرے تو ہم سب اس کا دفاع کریں ۔ 

اللہ تعالیٰ ہم سب کو توفیق دے اور عمل کرنے والا بنائے ۔ (آمین )

Friday, June 11, 2021

Budget 2021

 *مکمل بجٹ تفصیلات*🇵🇰


*شوکت ترین کی طرف سے پیش کیے گئے بجٹ کے اہم نکات :*


1. وفاقی بجٹ کا حجم 8 ہزار 487ارب روپے رکھا گیا ہے،20 ارب کے کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کو اپریل 2021ء میں سر پلس کیا گیا۔ بسڈی کاتخمینہ 682ارب لگایا گیا۔


2. عمران خان کی قیادت میں معیشت کو کئی طوفانوں سے نکال کر ساحل تک لائے، احساس پروگرام کی نقد امداد میں اضافہ کیا، ہم استحکام سے معاشی نمو کی جانب گامزن ہوئے ہیں۔


3. حکومت ملک کو ترقی کی راہ پر ڈالنے میں کامیاب ہوئی ہے، معاشی ترقی ہر شعبے میں ریکارڈ کی گئی ہے۔


4. کپاس کے علاوہ تمام فصلوں کی پیداوار میں اضافہ ہوا۔


5. سروسز شعبے میں نمایاں اضافہ ہوا، جس سے غربت میں کمی آئی۔


6. کورونا وائرس کی تیسری لہر میں بڑے پیمانے پر کاروبار کی بندش سے اعتراض کیا، ماضی میں حکومت کو اس طرح کے برے حالات کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔وباء سے نمٹنے کے لیے 100 ارب روپے رکھے جا رہے ہیں۔


7. فی کس آمدنی میں 15 فیصد اضافہ ہوا ہے، کم سے کم اجرت 20 ہزار روپے ماہانہ کی جا رہی ہے، وفاقی سرکاری ملازمین کو 10 فیصد ایڈہاک ریلیف فراہم کیا جائے گا، تمام پنشنرز کی پنشن میں 10 فیصد اضافہ کیا جائے گا، اردلی الاؤنس 14 ہزار روپے سے بڑھا کر ساڑھے 17 ہزار روپے کیا جا رہا ہے۔


8. لارج اسکیل مینوفیکچرنگ کے شعبے میں روزگار کے مواقع پیدا ہوئے۔ کورونا وائرس کی وباء کے باوجود فی کس آمدنی میں 15 فیصد اضافہ ہوا۔ اس سال ایکسپورٹ میں 14 فیصد اضافہ ہوا۔


9. ملک میں ٹیکسوں کی وصولی 4 ہزار ارب کی نفسیاتی حد عبور کر چکی ہے، ٹیکس وصولیوں میں 18 فیصد بہتری آئی ہے، ٹیکس ری فنڈ کی ادائیگی میں 75 فیصد اضافہ کیا ہے، اس سال ایکسپورٹ میں شاندار نمو دیکھنے میں آئی۔


10. ترسیلاتِ زر میں 25 فیصد ریکارڈ اضافہ ہوا ہے، روپے کی قدر میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے۔ الیکٹرک گاڑیوں کے لیے سیلز ٹیکس کی شرح میں 17 فیصد سے ایک فیصد تک کمی۔ کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 2018ء میں ایک بہت برا چیلنج تھا اس پر قابو پالیا گیا ہے ۔ اوورسیز پاکستانیوں نے کھاتوں میں بہتری لانے میں اہم کردار ادا کیا۔


11. کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ سرپلس ہو گیا ہے۔ بیرونِ ملک سے ترسیلات میں اضافہ عمران خان کی قیادت پر اعتماد ہے۔ ٹیلی مواصلات پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی کی شرح میں 17فیصد سے 16 فیصد کمی کی تجویز ہے۔ بیرونِ ملک سے ترسیلات میں 25 فیصد اضافہ ہوا ہے۔


12. گزشتہ سال کے مقابلے میں خام تیل کی قیمت میں 180 فیصد اضافہ ہوا۔ چینی کی سطح پر بین الاقوامی سطح پر 56 فیصد اضافہ ہوا، ملکی سطح پر چینی کی قیمت میں 18 فیصد اضافہ ہوا۔ اگلے سال کیلئے معاشی ترقی کا ہدف 4.8 رکھا ہے۔ روزگار کے مواقع پیدا کریں گے، برآمدات میں اضافہ کیا جائے گا۔


13. کنسٹرکشن انڈسٹری سے وابستہ صنعتوں کو فروغ ملا ہے۔ ہاؤسنگ اسکیموں کیلئے ٹیکسوں میں رعایت کا پیکیج وضع کیا گیا ہے۔ کم آمدنی والوں کیلئے گھروں کی تعمیر کیلئے 3 لاکھ کی سبسڈی دی جا رہی ہے، بینکوں کو مکانات کی تعمیر کیلئے ایک سو ارب روپے قرض کی درخواست ملی ہے۔


14. مکانات کی تعمیر کیلئے 70 ارب روپے کی منظوری ہو چکی ہے، ادائیگی جاری ہے، اس وقت پاکستان میں ایک کروڑ رہائشی مکانات کی کمی ہے، ہم تاریخ کا رخ موڑنا چاہتے ہیں۔


15. کراچی ٹرانسفارمیشن پلان کے لیے 739 ارب روپے مختص کرنے کی تجویز ہے، وفاقی حکومت کراچی ٹرانسفارمیشن پلان کے لیے 98 ارب روپے دے گی، کراچی ٹرانسفارمیشن پلان کے لیے سرکاری و نجی شعبے کے اشتراک سے 509 ارب روپے شامل ہوں گے۔


16. داسو ہائیڈرو پاور پراجیکٹ سے بجلی پیدا کرنے کے لیے 8 5 ارب روپے مختص کرنے کی تجویز پیش کی گئی ہے، اس پراجیکٹ کے پہلے مرحلے کے لیے 57 ارب روپے مختص کیئے گئے ہیں۔


17. تین بڑے ڈیموں داسو، بھاشا اور مہمند کی تعمیر ہماری ترجیح ہوگی، دیامر بھاشا ڈیم کے لیے 23 ارب روپے مختص کرنے کی تجویز پیش کی گئی ہے، مہمند ڈیم کے لیے 6 ارب روپے مختص کرنے کی تجویز ہے، نیلم جہلم پاور پراجیکٹ کے لیے 14 ارب روپے مختص کرنے کی تجویز ہے، آبی تحفظ کے لیے 91 ارب روپے مختص کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔


18. احساس پروگرام کے تحت ایک درجن سے زائد پروگراموں کا آغاز کیا گیا ہے۔ زرعی شعبے کے لیے 12 ارب روپے مختص کرنے کی تجویز ہے، ٹڈی دل اور فوڈ سیکیورٹی پراجیکٹ کے لیے 1 ارب روپے مختص کرنے کی تجویز ہے۔


19. چاول، گندم، کپاس، گنے اور دالوں کی پیداوار بڑھانے کے لیے 2 ارب روپے مختص کرنے کی تجویز ہے، زیتون کی کاشت بڑھانے کے لیے 1 ارب روپے مختص کرنے کی تجویز پیش کی گئی ہے۔


20. کسانوں کو 31 سو ارب روپے آمدن ہوئی جو گزشتہ سال 23 سو ارب روپے تھی، گندم، گنے، چاول کی پیداوار میں اضافہ ہوا ہے، اگلے سال زرعی شعبے کیلئے 12 ارب روپے مختص کیئے ہیں۔


21. ترقیاتی بجٹ کو 630 ارب سے بڑھا کر 900 ارب روپے کرنے کی تجویز ہے، ترقیاتی بجٹ میں 40 فیصد سے زیادہ کا اضافہ کر رہے ہیں۔


22. اگلے دو سے تین سال میں 6 سے 7 فیصد گروتھ کے اقدامات کر رہے ہیں، اگلے مالی سال کے لیے معاشی ترقی کا ہدف 4 اعشاریہ 8 فیصد رکھا ہے۔


23. کورونا سے نمٹنے کے لیے 100 ارب روپے رکھے جائیں گے، تنخواہ دار پر کوئی نیا ٹیکس نہیں لگایا جائے گا، ٹیکس نظام کو سادہ بنانے کے لیے نئے قوانین لا رہے ہیں۔


24. سندھ کے لیے 14 سے زائد ترقیاتی منصوبے شروع کیے جائیں گے۔ ٹیلی کام سیکٹر کے لیے ایکسائز ڈیوٹی 17 سے 16 فیصد کر دی گئی۔ 850 سی سی گاڑیوں میں ساڑھے چار فیصد ٹیکس کی چھوٹ دی جائے گی۔ چھوٹی گاڑیوں پر سیلز ٹیکس 17 سے 12.5 فیصد کیا جا رہا ہے۔


25. آزادکشمیرکے لیے 60 ارب روپے مختص کیے گئے، گلگت بلتستان کےلیے 47 ارب روپے مختص کیے گئے۔ ہائرایجوکیشن پر 66 ارب روپے خرچ کیے جائیں گے۔ بجلی کی ترسیل کیلئے 118ارب روپے مختص کیے جائیں گے۔ موبائل فون کے استعمال پر ود ہولڈنگ ٹیکس میں کمی کی جا رہی ہے۔ 12 فیصد سے دس فیصد کیا جائے گا اور بعد میں یہ 8 فیصد ہو جائے گی۔


وفاقی وزیر شوکت ترین کی تقریر


قومی اسمبلی میں بجٹ کی تقریر کے دوران وفاقی وزیر خزانہ نے کہا کہ وزیراعظم عمران خان کی قیادت میں معیشت کوبحران سےنکال کرلائے۔ ہماری حکومت نے مشکل حالات کا مقابلہ کیا۔ یہ کامیابی وزیراعظم کی قیادت کے بغیرممکن نہیں تھی۔ ہمیں خراب حالات ورثے میں ملے۔ کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 20ارب ڈالرکی بلند ترین سطح پرتھا۔ وزیراعظم کی سربراہی میں معیشت کو بڑے بحرانوں سے نکال لائے ہیں۔


انہوں نے کہا کہ بجٹ کا حجم 8ہزار 487 ارب روپے ہو گا، 20 ارب ڈالر کے کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کو سرپلس میں بدل دیا۔ سابق حکومت نے قرض لیکر زر مبادلہ ذخائر بڑھائے،بڑا چیلنج ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچایا تھا۔ گزشتہ دور میں درآمدات میں 100 فیصد اضافہ ہوا تھا، شرح سود مصنوعی طور پر کم رکھی گئی ، بجٹ خسارہ جی ڈی پی کا 6.6 فیصد تھا۔


وفاقی وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ آئندہ 2 سال میں 6 سے 7 فیصد گروتھ کو یقینی بنانا چاہتے ہیں، ترسیلات زرمیں ریکارڈ اضافہ بیرون ملک پاکستانیوں کا وزیراعظم پراعتماد کا اظہار ہے۔ 40ملین افرادکواحساس کےذریعےنقدامدادی رقوم دی گئی، کم آمدنی والےطبقےکواحساس پروگرام کےذریعےامدادفراہم کی گئی، صحت کےشعبےمیں خاطرخواہ اقدامات کیے۔


شوکت ترین نے کہا کہ گزشتہ مالی سال زراعت کےشعبےمیں ترقی کی شرح منفی میں تھی، رواں سال زراعت کے شعبےنے 9 فیصدترقی کی، حکومت میں آئےتوزرعی شعبےمیں ٹڈی دل حملےکاسامناکیا، زراعت کےشعبےمیں تاریخی کامیابی حاصل کی۔ ہمیں زراعت پر توجہ دینا پڑے گی اگلے سال کسانوں کو رعایتیں دیں گے، چاہتے ہیں آئندہ سال ہمیں باہر سے زرعی چیزیں منگوانی نہ پڑے۔ ہر کاشتکار گھرانے کو ڈیڑھ لاکھ بلاسود قرض ملے گا۔


انہوں نے کہا کہ کوروناوباکی دو اضافی لہروں کا سامنا کرنا پڑا، استحکام سےمعاشی نموکی طرف گامزن ہوئے، اخراجات میں کمی اور کفایت شعاری مہم پرعمل پیرا رہے، مشکل فیصلے کیے بغیر اس صورتحال سے نکلنا ممکن نہیں تھا، کورونا وبا کی وجہ سے معیشت کومستحکم کرنے میں وقت لگا۔ غذائی اجناس درآمدکرنےکی وجہ 2019میں کم پیداوارتھی۔ ادائیگیوں کےتوازن میں استحکام پیداکیا۔ برآمدات میں14فیصداضافہ ہوا۔


وفاقی وزیر خزانہ نے کہا کہ لوگوں کی آمدنی میں اضافہ ہواہے، زرمبادلہ کےذخائر3ماہ کی درآمدات کیلئے کافی ہیں، زرمبادلہ کے ذخائر 16ارب ڈالر ہو گئے ہیں۔ برآمدات ماضی کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے، ٹیکسوں کی وصولی 4 ہزار ارب روپے کی نفسیاتی حد عبور کر چکی ہے۔ ٹیکس وصولیوں میں 18فیصداضافہ ہواہے۔


شوکت ترین کا کہنا تھا کہ سی پیک کے نئےمنصوبے 28 ارب ڈالر کے ہیں، اب تک 13 ارب ڈالر کے 17 بڑے منصوبے مکمل کیے۔ 21 ارب ڈالر کے مزید 21 منصوبوں پر کام جاری ہے۔ ریلوے کے ایم ایل ون منصوبے کے لیے 9 ارب ڈالر رکھے گئے۔ زرعی شعبے کے لیے 12 ارب مختص کیے گئے۔ ٹڈی دی ایمرجنسی اور فوڈ سکیورٹی کے لیے 12 ارب روپے مختص کیے۔ نیلم جہلم پراجیکٹ کے لیے 14 ارب روپے رکھے گئے۔ ہم نے خام تیل کی قیمتوں میں 45 فیصد اضافہ کیا ہے۔ آبی گزرگاہوں کی مرمت اور بہتری کیلئے 3 ارب روپے مختص رکھے گئے ہیں۔


اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ آئندہ دو سال میں 6 سے 7 فیصد گروتھ حاصل کرنا چاہتے ہیں، یہ بجٹ ترقی کا تیز خیمہ ثابت ہو گا، ملک میں ایک کروڑ مکانات کی کمی ہے، ہاؤسنگ پروگرام کی وجہ سے صنعتوں کو فروغ ملا، کم آمدنی والوں کو گھر بنانے کے لیے تین لاکھ تک سبسڈی دے رہے ہیں۔ آئندہ سال ہرگھرانےکوصحت کارڈ دیا جائے گا۔


توانائی منصوبوں کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ بڑےڈیموں کی تعمیر ترجیح ہے، بجٹ میں .بھاشا ڈیم کے لیے 23 ارب روپے رکھے گئے ہیں، مہمند ڈیم کے لیے 6 ارب روپے رکھے گئے ہیں، نیلم جہلم کے لئے 14 روپے مختص کیے گئے ہیں۔ داسو ڈیم کے لیے 57 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔ جامشورو کوئل منصوبے کے لیے 22 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔ کراچی کے ون منصوبے سمیت دیگر منصوبوں کے لیے ساڑھے 16 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔


ان کا کہنا تھا کہ ایم ایل ون منصوبے کو تین پیکیج مراحل میں شروع ہو گا، پہلا مرحلہ تین رواں سال مارچ میں شروع ہوچکا ہے، آخری پیکیج کا آغاز آئندہ سال 2022ء میں ہو گا۔


وفاقی وزیر خزانہ نے کہا کہ پسماندہ علاقوں کی ترقی کے لیے فنڈز مختص کیے گئے ہیں، یہ پیکیج وزیراعظم عمران خان کے ویژن کا عکاس ہیں، اس کے لیے 100 ارب روپے رکھے گئے ہیں، کراچی ٹرانسفارمر پیکیج کے لیے 700 ارب روپے سے زائد رکھے گئے ہیں اس کے لیے 98 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔


انہوں نے کہا کہ پرائیویٹ پارٹنر شپ اور سپریم کورٹ آف پاکستان کے فنڈز سے ملا کر 500 ارب روپے مختص کیے ہیں۔ چھوٹی صنعتوں کےفروغ کیلئے 12ارب روپےخرچ کیے جائیں گے۔ ترقیاتی بجٹ 630 سے 900ارب روپے کر رہے ہیں، بجلی کی ترسیل کیلئے 118ارب روپےمختص کیے گئے ہیں۔ ہائرایجوکیشن پر 66 ارب روپے خرچ کیے جائیں گے۔ پی آئی اے کو 20 اورپاکستان سٹیل کو 16ارب روپے دیئے جائیں گے۔ آزاد کشمیرکے لیے 60 ارب روپے مختص کیے گئے۔ گلگت بلتستان کے لیے 47 ارب روپے مختص کیے گئے۔

Thursday, June 10, 2021

"دوربین / ٹیلی سکوپ ( Telescope 🔭)

(حصہ دوم)  

اس تحریر کے پہلا حصہ موجود ہے.     



جن احباب نے تحریر کا پہلا حصہ نہیں پڑھا وہ لازمی پڑھیں تاکہ دوسرا حصہ بہتر سے سمجھ سکیں. میں نے تحریر کے پہلے حصہ میں کہا تھا کہ اس تحریر کے صرف دو حصے ہونگے، مگر تحریر کو آسان اور مکمل کرنے کے لیے اس کے تین حصے کیے گیے ہیں. پہلا حصہ پوسٹ کیا جا چکا تھا (لنک کامنٹ میں دیکھ لیں)، دوسرا حصہ آپ پڑھ رہے ہیں، اس کے بعد تیسرا اور آخری حصہ لکھا جائے گا. 

ٹیلی سکوپ کے متعلق سابقہ حصہ میں کچھ سوالوں کے جواب تلاش کر رہے تھے اور ان کے جواب حاصل کرنے کے لیے درج ذیل نکات کو سمجھنا ضروری تھا:

1- ڈایا میٹر Diameter

2- فوکل لینتھ Focal length

3- آئی پیس Eye piece

4- فوکل پوائنٹ Focal point

5- لینز یعنی عدسہ Lense (ریفریکٹو ٹیلی سکوپ) 

6- شیشہ Mirror (ریفلیکٹو ٹیلی سکوپ)

7- ٹرائی پوڈ سٹینڈ / ماؤنٹ Mount


درج بالا نکات میں سے ہم نے پہلے تین نکات یعنی ٹیلی سکوپ کا ڈایا میٹر، فوکل لینتھ اور آئی پیس کے متعلق پڑھ لیا تھا. اب پوائنٹ نمبر 4 سے شروع کرتے ہیں.


4- فوکل پوائنٹ Focal point:

ٹیلی سکوپ کے عدسے یعنی لینز سے جب روشنی گزرتی ہے تو وہ بکھری ہوئی ہوتی ہے (یعنی پھیلی ہوئی ہوتی ہے) مگر عدسہ یعنی لینز اسے ایک پوائنٹ پر اکھٹا کرتا ہے. جو روشنی (تصویر) لینز کے ذریعے ٹیلی سکوپ میں داخل ہوتی ہے وہ لینز میں سے گزر کر اکھٹی ہونا شروع ہوجاتی ہے کیونکہ لینز روشنی کو اکھٹا کرنے یا پھیلانے کا کام کرتا ہے (لینز عدسہ کے تعارف میں مزید بتایا جائے گا). بکھری ہوئی روشنی ٹیلی سکوپ میں داخل ہونے کے بعد سفر کرتے ہوئے جس پوائنٹ پر اکھٹی ہوتی ہے اور امیج بناتی ہے اس پوائنٹ "فوکل پوائنٹ Focal Point" کہا جاتا ہے. جب تک روشنی اکھٹی ہوکر ایک جگہ امیج نا بنا لے، تصویر واضح نہیں ہوگی. اس فوکل پوائنٹ پر جمع ہوئی روشنی یعنی امیج کو آئی پیس کے ذریعہ دیکھا جاتا ہے. ہم پڑھ چکے ہیں کہ ٹیلی سکوپ میں داخل ہونے کے بعد روشنی فوکل پوائنٹ پر اکھٹا ہونے تک جتنا سفر کرتی ہے اسے ٹیلی سکوپ کی فوکل لینتھ Focal length کہا جاتا ہے اور فوکل پوائنٹ سے روشنی آئی پیس تک جتنا سفر کرے اسے آئی پیس کی فوکل لینتھ کہا جاتا ہے. فوکل پوائنٹ Optics آپٹکس میں خاص اہمیت کا حامل ہے. یہی وہ پوائنٹ ہے جہاں عکس/امیج/تصویر پر فوکس کیا جاتا ہے اور اسے diverge کر کے آنکھ تک پہنچایا جاتا ہے. فوکل پوائنٹ کے لیے درج ذیل الفاظ بھی استعمال کیے جاتے ہیں جس سے اس کی اہمیت واضح ہوجاتی ہے مثلاً

 Center of focus, prime focus، Focus of attention etc. 

آئی پیس کا کنکیو لینز Concave lense فوکل پوائنٹ سے امیج کو پھیلا کر آنکھ تک لاتا ہے اور تصویر آنکھ کے لیے قابل مشاہدہ بن جاتی ہے.

 

5- لینز/عدسہ Lense:

لینز کے متعلق درج بالا نکات میں بات ہوتی رہی ہے. ٹیلی سکوپ ہو یا مائیکرو سکوپ، لینز دونوں کا ایک اہم حصہ ہے. کسی جسم سے آتی ہوئی روشنی کو ایک پوائنٹ پر اکھٹا کرنا اور پھر اس پوائنٹ سے روشنی کو بکھیر کر آنکھ کے لیے قابلِ مشاہدہ بنانا، یہ لینز یعنی عدسہ کا ہی کام ہے. جانداروں کی آنکھوں میں بھی لینز لگا ہوا ہوتا ہے اور انسانی آنکھ کی نظر کمزور ہونے کی صورت میں بھی لینز (نظر کی عینک، عدسہ، Glasses) لگا کر آنکھ کی بینائی بہتر کی جاتی ہے. لینز یعنی عدسہ کی فوکل لینتھ اس کی اہم خاصیت ہے جسے ہم ملی میٹر mm میں ظاہر کرتے ہیں. کسی لینز کی فوکل لینتھ جتنی زیادہ ہوگی، اس کی پاور (تصویر / عکس کو میگنفائی magnify کرنے کی صلاحیت، یا روشنی کو پھیلانے یا اکھٹا کرنے کی صلاحیت) اتنی ہی کم ہوگی. لینز یعنی عدسہ کی پاور کا مطلب اگر ہم میگنیفکیشن magnification لیں تو اس مثال سے آپ سمجھ جائیں گے کہ لینز کو فوکل لینتھ اور پاور ایک دوسرے کے الٹ ہیں، یعنی فوکل لینتھ کم کتنے سے میگنیفکیشن زیادہ ملے گی. مثال وہی دیتا ہوں جو حصہ اول میں دی تھی کہ آپ کے پاس جو لینز، عدسہ یا آئی پیس ہے وہ 40mm کا ہے اور اس سے آپ کسی جسم کا مشاہدہ کر رہے ہیں، وہ جسم آپ کو زیادہ روشن اور واضح نظر آئے گا مگر زیادہ میگنفائی ہوا نہیں ملے گا، یعنی جسامت میں زیادہ بڑا دکھائی نہیں دے گا. جبکہ اگر آپ لینز کی فوکل لینتھ کم کر دیں اور ایسا آئی پیس یا لینز استعمال کریں جس کی فوکل لینتھ 20mm ہے تو اب نظر آنیوالے جسم کی روشنی پہلے سے نسبتاً کم ہوگی مگر وہ جسم زیادہ میگنفائیڈ magnified ہوگا. لہذا ٹیلی سکوپ کا استعمال کرتے ہوئے آپ اس چیز کا خیال کرنا ہے کہ ٹیلی سکوپ کے ڈایا میٹر اور فوکل لینتھ کے مطابق کونسا آئی پیس بہتر رہے گا.

لینز یعنی عدسہ 🔎 کی دو بڑی اقسام ہیں:

1- کنویکس لینز یا محدب عدسہ Convex Lense

2- کنکیو لینز یا مقعر عدسہ Concave Lense

ان دونوں عدسوں یا lenses کے متعلق ہم مڈل کلاسز میں پڑھتے رہے ہیں. ٹیلی سکوپ میں یہ دونوں لینز استعمال ہوتے ہیں. ان کی روشنی کو پھیلانے یا اکھٹے کرنے کی صلاحیت پر ٹیلی سکوپ اور مائیکروسکوپ میں ان کا استعمال ایک لازمی جزو ہے. لینزز اس طرح سے کام کرتے ہیں:

محدب عدسہ Concax lense روشنی کو اکھٹا کرنے کا To Converge کام کرتا ہے. روشنی عدسے میں سے گزرنے کے بعد اکھٹی ہوتی رہتی ہے اور ایک خاص پوائنٹ پر اکھٹی ہوجاتی ہے جسے فوکل پوائنٹ focal point کہتے ہیں. عدسہ یا لینز کی سطحیں دراصل روشنی کے لیے اسطرح سے رکاوٹ بنتی ہیں کہ روشنی اپنے راستے سے ہٹتی ہوئی خم / مڑ / جھک bend ہوجاتی ہے اور اس وجہ سے روشنی جھکتی ہوئی ایک پوائنٹ پر اکھٹی ہوجاتی ہے. ریفریکٹو Refractive ٹیلی سکوپ میں سامنے Convax lense ہی لگا ہوتا ہے جو زیر مشاہدہ جسم کی روشنی کو اکھٹا کرکے فوکل پوائنٹ پر جمع کرتا ہے. اس کے علاوہ نظر کی عینک میں کنویکس لینز استعمال ہوتا ہے. اگر آنکھ میں امیج فوکل پوائنٹ سے آگے بن رہا ہو تو دھندلا نظر آتا ہے لہذا اسے فوکل پوائنٹ پر واپس لانے کے لیے یا پیچھے لانے کے لیے کنویکس لینز Convax lense استعمال کیا جاتا ہے جو روشنی یعنی تصویر کو فوکل پوائنٹ پر اکھٹا کرتا ہے.

مقعر عدسہ Concave lense روشنی کو بکھیرنے کا To Diverge کام کرتا ہے. روشنی عدسے سے گزر کر پھیل جاتی ہے اور پھیلتی ہوئی ایک حد پر قابل مشاہدہ بن جاتی ہے. فوکل پوائنٹ پر جمع شدہ روشنی کو پھیلا کر قابل مشاہدہ بنانے کےیے کنکیو لینز Concave lense ہی استعمال کیا جاتا ہے. ٹیلی سکوپ میں استعمال ہونیوالے جتنے بھی آئی پیسز Eyepieces ہوتے ہیں وہ کنکیو لینز ہی ہوتے ہیں جو فوکل پوائنٹ پر موجود جمع شدہ روشنی یا امیج کو اسطرح پھیلا کر آنکھ تک لاتے ہیں کہ امیج بڑا دکھائی دیتا ہے اور آسانی سے مشاہدہ ہوجاتا ہے. نظر کی عینک میں بھی کنکیو لینز استعمال ہوتا ہے، جب آنکھ میں امیج فوکل پوائنٹ سے پیچھے یا پہلے بن رہا ہو تو اس امیج کو فوکل پوائنٹ پر لانے کے لیے کنکیو لینز کے ذریعہ روشنی یا تصویر کو پھیلا کر آگے لایا جاتا ہے. لہذا ٹیلی سکوپ میں سامنے ڈایا میٹر کے طور پر کنویکس لینز Convax lense استعمال ہوتا ہے (اگر ٹیلی سکوپ ریفریکٹو ہے). اور آئی پیس کے لیے کنکیو لینز Concave استعمال ہوتا ہے.


6- شیشہ / مرر Mirror:

شیشہ کچھ دھاتوں کو ملا کر انہیں پالش کرنے سے بنتا ہے اور پالش اسطرح سے کیا جاتا ہے کہ اس کی سطح ریفلیکٹو ہو یعنی روشنی کو رفلیکٹ کرے، یا پھر کسی عدسے پر ایسی دھات چڑھا دی جاتی ہے Coating جو رفلیکٹ کر سکے. شیشہ ریت سے بھی بنتا ہے، ریت یعنی سلیکون ڈائی آکسائیڈ کو تقریباً 1700 ڈگری سینٹی گریڈ پر گرم کر کے پگھلایا جاتا ہے اور خاص طریقہ کار سے شیشہ تیار کیا جاتا ہے. اس طرح شیشہ روشنی کو یعنی کسی بھی تصویر کو رفلیکٹ کرتا ہے. رفلیکشن Reflection کا مطلب کا مطلب روشنی کا کسی شے سے ٹکرا کر واپس کسی زاویہ پر مڑ جانا ہے، جبکہ لینز lense میں سے روشنی گزر جاتی ہے اور گزرنے کے بعد ایک زاویے پر مڑ جاتی ہے جسے ریفریکشن Refraction کہتے ہیں. ریفلیکٹو ٹیلی سکوپس میں شیشہ ہی استعمال ہوتا ہے، ٹیلی سکوپس میں استعمال ہونیوالا شیشہ بہت مہنگا ہوتا ہے اس کی وجہ شیشے کا انتہائی صاف شفاف ہونا ہے. ٹیلی سکوپ کے شیشہ پر چھوٹی سی خراش، ذرات یا کوئی نشان بہت بڑے نظر آئیں گے اور زیر مشاہدہ تصویر کو واضح نہیں دکھائیں گے. اسی وجہ سے ریفلیکٹو ٹیلی سکوپس عموماً ریفریکٹو ٹیلی سکوپس سے مہنگی ہوتی ہیں. لہذا شیشہ روشنی کو رفلیکٹ کرتا ہے جبکہ عدسہ روشنی کو رفریکٹ کرتا ہے.


7- ٹرائی پوڈ سٹینڈ / ماؤنٹ Mount / Tripod:

ٹیلی سکوپ اپنے ماؤنٹ کے بغیر نا مکمل ہے. ماؤنٹ نا صرف ٹیلی سکوپ کو سہارا دیتا ہے بلکہ فلکیاتی مشاہدے کے لیے اتنا ہی ضروری ہے جتنی کہ ٹیلی سکوپ ہے.

پہلی بات تو یہ کہ ٹرائی پوڈ اور ماؤنٹ میں کچھ فرق ہے.

ٹرائی پوڈ کسی بھی تین پایوں والے / تپائی سٹینڈ کو کہتے ہیں جو کچھ ہلکی ٹیلی سکوپ، موبائل اور کیمرہ وغیرہ کے لیے استعمال ہوتا ہے.

جبکہ ماؤنٹ ٹرائی پوڈ کے اوپر فکس ہوا ہوتا ہے اور اس کا مقصد ٹیلی سکوپ کو دو اطراف یا تین اطراف میں حرکت دینا ہے. آپ کو معلوم ہوگا کہ زمین کی محوری حرکت کی وجہ سے تمام فلکیاتی اجسام مشرق سے مغرب کی جانب حرکت کرتے ہوئے نظر آتے ہیں. (زمین کی اور فلکیاتی اجسام کی حرکت پر تفصیلی گفتگو کسی اور متعلقہ پوسٹ میں ہوگی). لہذا تمام فلکیاتی اجسام چونکہ حرکت میں ہیں اس لیے آپ ٹیلی سکوپ سے جس فلکیاتی جسم کو دیکھ رہے ہیں وہ کچھ سیکنڈز یا منٹس کے بعد آپ کی نظر سے سرکتا ہوا نکل جائے گا، لہذا آپ کو دوبارہ سے ٹیلی سکوپ اس فلکیاتی جسم کی جانب کرنی ہوگی اور ایسے سلسلہ چلتا رہے گا، اس مقصد کے لیے ماؤنٹ استعمال ہوتا ہے تاکہ ٹیلی سکوپ کو فلکیاتی اجسام کے ساتھ گو ٹو go to رکھا جائے. مگر ماؤنٹ اپنی حرکات کے لحاظ سے دو قسم کے ہیں اور یہ خودکار یا کمپیوٹرائزڈ ہو سکتے ہیں. اگر ماؤنٹ خودکار ہے تو آپ ایک بار فلکیاتی جسم کو تلاش کر لیں اس کے بعد ماؤنٹ کی Slow motion نوب کو گھماتے رہیں اور فلکیاتی جسم کے ساتھ گو ٹو رہیں لیکن اگر ماؤنٹ کمپیوٹرائزڈ ہے تو سافٹ وئیر کے ذریعے فلکیاتی جسم کو ڈھونڈنا اور اس کے ساتھ گو ٹو رہنا خودبخود ہوگا. یہاں ایک بات اچھی طرح سے سمجھ لیں کہ ٹیلی سکوپ کمپیوٹرائزڈ نہیں ہوتی بلکہ اس کے نیچے لگا ہوا ماؤنٹ کمپیوٹرائزڈ یا خودکار ہوسکتا ہے. یعنی آپ کسی بھی ٹیلی سکوپ کے نیچے کمپیوٹرائزڈ ماؤنٹ لگا دیں تو عام لوگوں کی نظر میں ٹیلی سکوپ کمپیوٹرائزڈ بن گئی ہے. اگر ٹیلی سکوپ کا وزن بہت کم ہے تو آپ اسے کیمرہ یا موبائل کے ٹرائی پوڈ پر بھی فکس کر سکتے ہیں. ماؤنٹ کی دو اقسام یہ ہیں:

پہلی قسم "Altazimuth Mount" جو کہ سادہ ماؤنٹ اور ٹیلی سکوپ کو دوطرفہ حرکت دیتا ہے یعنی Altitude اور Azimuth. اس ماؤنٹ کے ذریعے ٹیلی سکوپ کو اوپر سے نیچے اور دائیں سے بائیں تو حرکت دی جا سکتی ہے یعنی 2D آپ X ایکسز اور Y ایکسز میں حرکت دے سکتے ہیں مگر Z ایکسز میں حرکت نہیں دے سکتے. اس کی مثال میں ایسے سمجھاتا ہوں کہ:

آپ کا رخ میری جانب ہے، آپ گردن کے سہارے اوپر اور نیچے بھی اپنے چہرے کو حرکت دے سکتے ہیں اور دائیں سے بائیں بھی، اب میں کہتا ہوں کہ آپ اپنا چہرہ میری جانب ہی رکھیں اور کمر کی مدد سے دائیں یا بائیں جھکیں، یہ آپ کی Z ایکسز میں حرکت ہے. اب آپ خود کو Altazimuth Mount سمجھیں اور فلکیاتی جسم، میری حرکت کے ساتھ اگر آپ مجھے ٹریک کرنا چاہتے ہیں تو کچھ منٹس تک آپ مجھے ٹریک کر سکتے ہیں مگر کئی گھنٹوں مجھ پر نظر رکھنے کے لیے آپ یعنی Altazimuth mount ناکافی ہیں کیونکہ آسمان پر فلکیاتی اجسام صرف مشرق سے مغرب ہی نہیں بلکہ ہلکا سا جھکاؤ جنوب سے شمال کی طرف بھی ہوتا ہے جس وجہ سے Z ایکسز میں انہیں ٹریک کرنا لازمی ہے. Dobsonian Mount بھی Altazimuth mount کی ہی ایک قسم ہے. یہ ماؤنٹ ٹرائی پوڈ کے بغیر ہی زمین پر تکھا جا سکتا ہے، یہ Altazimuth mount کی ایک نئی قسم ہے جو وزنی ٹیلی سکوپ کو بغیر ٹرائی پوڈ کے زمین پر رکھنے کے لیے آسانی پیدا کرتی ہے.

دوسری قسم "Equatorial Mount" ہے جو کہ جدید اور بہتر قسم ہے اور ٹیلی سکوپ کو تین طرفہ 3D حرکت کرواتی ہے. ٹیلی سکوپ اس ماؤنٹ کے ذریعے X, Y اور Z ایکسز پر حرکت کر سکتی ہے. اس ماؤنٹ کے ذریعے ٹیلی سکوپ سے کسی فلکیاتی جسم کو کئی گھنٹے تک ٹریک کیا جا سکتا ہے. آسٹروفوٹوگرافی کے لیے بہترین ماؤنٹ یہی ہے. German Equatorial Mount بھی اسی ماؤنٹ کی ایک قسم ہے جس میں ٹیلی سکوپ کی مخالف جانب وزن (Counter weight) رکھ کر ٹیلی سکوپ کے وزن کو کنٹرول کیا جاتا ہے. 

درج بالا دونوں ماؤنٹ سادہ بھی ہوتے ہیں اور اگر ان کے ساتھ موٹر لگا دی جائے تو یہ کمپیوٹرائزڈ بھی ہوتے ہیں اور سافٹ وئیر کی مدد سے موٹر فلکیاتی اجسام کو ٹریک کرتے ہوئے ٹیلی سکوپ کا فوکس قائم رکھتی ہیں. ایک بار پھر بتاتا چلوں کہ "ٹیلی سکوپ کمپیوٹرائزڈ نہیں ہوتی بلکہ ٹیلی سکوپ کا ماؤنٹ کمپیوٹرائزڈ یا مینول ہوسکتا ہے".

درج بالا 7 نکات جو ٹیلی سکوپ کے متعلق جاننے اور استعمال کرنے کے لیے نہایت ضروری تھے، مکمل ہوئے. ان نکات سے لازمی آپ کو یہ معلوم ہوا ہوگا کہ ٹیلی سکوپ صرف ایک ٹیوب ہے مگر اس کے ساتھ باقی حصے مشاہدے کا اہم حصہ ہیں.

اب واپس آتے ہیں ٹیلی سکوپ کی اقسام پر، مگر یہاں ہمیں زیادہ دیر نہیں لگے گی، کیونکہ جتنا کچھ ہم اوپر سیکھ چکے ہیں اس کے بعد ٹیلی سکوپ کی اقسام اور ان میں فرق فوراً سمجھ آجائے گا.


ٹیلی سکوپ کی دو بڑی اقسام:

ریفریکٹو ٹیلی سکوپ Refractive Telescope:

یہ ٹیلی سکوپ سادہ قسم کی ہے اور سب سے پہلی ٹیلی سکوپس بھی ریفریکٹو ہی تھیں. اس ٹیلی سکوپ میں سامنے محدب عدسہ Convax Lense لگا ہوا ہوتا ہے. روشنی لینز یعنی عدسہ میں سے گزرنے کے بعد جھکتی ہوئی ایک پوائنٹ پر اکھٹی ہوجاتی ہے جسے فوکل پوائنٹ کہتے ہیں. اس نقطہ پر سے جمع شدہ روشنی کو آئی پیس کے ذریعے دیکھا جاتا ہے. جس جسم کا مشاہدہ کیا جا رہا ہو اس کی روشنی ٹیلی سکوپ میں اگر جمع نا ہو، یعنی فوکل پوائنٹ پر روشنی کے اکھٹے ہونے سے امیج نا بنے تو ہم اس جسم کا مشاہدہ نہیں کر سکتے کیونکہ مشاہداتی جسم کی روشنی جب ایک نقطہ پر اکھٹی ہوجائے گی تو اسے آئی پیس کے ذریعے زوم کیا جائے گا. اس طرح زیر مشاہدہ جسم اپنی جسامت میں کچھ بڑا دکھائی دے گا.

کچھ ریفریکٹو ٹیلی سکوپس جدید قسم کی ہیں جو عدسے میں سے 99 فیصد یا 99.9 فیصد کے قریب روشنی کو گزارتی ہیں اور مشاہدہ بہت بہتر ہوتا ہے اس لیے ایسی جدید اور اعلیٰ عدسے والی ٹیلی سکوپس کافی مہنگی ہوتی ہیں. ریفریکٹو ٹیلی سکوپ پر آئی پیس کی جگہ، ٹیلی سکوپ کے سامنے والے لینز کے بالکل مخالف جانب ہوتی ہے. ریفریکٹو ٹیلی سکوپ میں روشنی عدسے سے گزرنے کے بعد صرف فوکل پوائنٹ پر ہی جمع ہوگی، اس روشنی کو موڑ کر فوکل لینتھ کو بڑھایا نہیں جا سکتا ہے.


ریفلیکٹو ٹیلی سکوپ Reflective Telescopes:

ریفلیکٹو ٹیلی سکوپس جدید اور بہتر ہیں. ریفلیکٹو ٹیلی سکوپس میں سامنے شیشہ Mirror لگا ہوتا ہے جسے پرائمری مرر کہتے ہیں، اور پرائمری مرر کے سامنے مخالف سمت پر سیکنڈری مرر لگا ہوا ہوتا ہے. روشنی ٹیلی سکوپ میں داخل ہونے کے بعد پرائمری مرر سے ٹکراتی ہے، پرائمری مرر سے ٹکرا کر رفلیکٹ ہوکر روشنی سیکنڈری مرر سے ٹکراتی ہے. سیکنڈری مرر سے روشنی فوکل پوائنٹ پر جمع ہوجاتی ہے جہاں سے امیج کو آئی پیس کے ذریعے دیکھا جا سکتا ہے.

جب روشنی پرائمری مرر سے سیکنڈری مرر تک جاتی ہے تو اس وجہ سے روشنی کی فوکل لینتھ (یعنی ٹیلی سکوپ کی فوکل لینتھ) بڑھ جاتی ہے. بڑی اور مہنگی ریفلیکٹو ٹیلی سکوپس کا ڈایا میٹر عموماً بڑا ہوتا ہے جس وجہ سے کافی روشنی ٹیلی سکوپ میں داخل ہوسکتی ہے مگر یہ روشنی چونکہ زیادہ ہوتی ہے اس لیے فوکل پوائنٹ تک پہنچنے کے لیے اسے زیادہ سفر کرنا پڑتا ہے، اگر وہی سفر روشنی رفلیکٹ ہوئے بغیر بالکل سیدھا کرے تو ٹیلی سکوپ کی جسامت / باڈی کافی لمبی ہوگی (تقریباً 4 میٹر کے قریب). لہذا ٹیلی سکوپ میں لگے ہوئے پرائمری اور سیکنڈری مرر، روشنی کا سفر مخلاف سمت میں پورا کروا کر یعنی ایک شیشہ سے دوسرے شیشہ پر رفلیکٹ کروا کر پورا کروا لیتے ہیں. اس طرح ٹیلی سکوپ کی جسامت لمبائی میں صرف 2 یا 3 فٹ ہوتی ہے مگر اسی ٹیلی سکوپ کو فوکل لینتھ 4000mm ہوتی ہے. روشنی پرائمری مرر سے رفلیکٹ ہوکر سیکنڈری مرر اور پھر سیکنڈری مرر سے رفلیکٹ ہوکر فوکل پوائنٹ پر پینچتی ہے تو اس ایک خاص رویے پر اس طرح موڑ دیا جاتا ہے کہ امیج آئی پیس کی سمت میں دکھائی دے.

ٹیلی سکوپ میں لگے ہوئے شیشے کافی مہنگے ہوتے ہیں، لہذا ان کی خصوصی دیکھ بھال کرنی پڑتی ہے. صفائی کے لیے خاص آپٹکس والا نرم کپڑا استعمال کیا جاتا ہے.

ٹیلی سکوپ چاہے ریفریکٹو ہو یا ریفلیکٹو، دونوں کے ساتھ آئی پیس کوئی بھی استعمال کیے جا سکتے ہیں.

درج بالا نکات اور ٹیلی سکوپس کی اقسام کے متعلق مزید کوئی سوال ہوتو آپ پوچھ سکتے ہیں.

اس تحریر کا حصہ سوم اور آخری حصہ انشاءاللہ جلد لکھ کر شئیر کروں گا. اُس حصہ میں ہم ٹیلی سکوپ کے متعلق یہ پڑھیں گے کہ:

اس کی قیمت کیا ہوتی ہے، کہاں سے مل سکتی ہے، آسٹروفوٹوگرافی کیسے کی جاتی ہے وغیرہ.

زیرِ نظر پوسٹ میں تصویر میری ٹیلی سکوپ کی ہے.

کامنٹس میں پہلا کامنٹ اس تحریر کے پہلے حصہ "حصہ اول" کا ہے. اس کے بعد متعلقہ تصاویر کامنٹس میں ہونگیں. 


نیچے کامنٹس میں تصاویر دیکھیں:

1-پہلی تصویر: میری 1400mm Bushnell ٹیلی سکوپ. 

2-دوسری تصویر: ریفریکٹو ٹیلی سکوپ.

3-تیسری تصویر: ریفلیکٹو ٹیلی سکوپ

4-چوتھی تصویر: Altazimuth Mount

5-پانچویں تصویر: Equatorial Mount

6-چھٹی تصویر: ریفریکٹو اور ریفلیکٹو ٹیلی سکوپس کے اندرونی حصہ کی.

7-ساتویں تصویر: Altazimuth اور Equatorial پر ٹیلی سکوپس کی.


تحریر جاری ہے...

محمد عبدالوہاب

سپیس سائنسز 🚀 Space Sciences گروپ

Wednesday, June 2, 2021

مفتی محمد تقی عثمانی ایک عہدساز_شخصیت




کون جانتا تھا کہ 27 ’’اُکتوبر‘‘ 1943ء کو ہندوستان کے صوبہ اُترپردیش کے ضلع سہارنپورؔ کے مشہور قصبہ دیوبندؔ میں پیدا ہونے والے اِس فرزند نے عالمِ اِسلام کے اُفق پر کس چمک دمک کے ساتھ طلوع ہو کر چمکنا ہے کہ اِن کے مقابلے میں باقی سب کی چمک دمک ماند پڑجائے گی 


پاکستان بننے سے چار سال پہلے دارالعلوم دیوبند کے شیخ الحدیث اور بانیانِ پاکستان اور بعداَزاں مفتیٔ اَعظم پاکستان مفتی محمدشفیع عثمانی صاحب رحمۃ اللہ کے گھر میں اُن کے سب سے چھوٹے بیٹے محمد تقی عثمانی کی شکل میں ایک ایسا گوہر نایاب پیدا ہوا‘ 

جس کی چمک سے آج پوری دنیا کی علمی محفلیں پُر رونق ہیں۔ 

اگرچہ مفتی محمد تقی عثمانی صاحب اپنے والد کے سب سے چھوٹے بیٹے ہیں۔ لیکن اپنی خدمات میں وہ اپنے بڑے بھائی مفتیٔ اَعظم پاکستان مفتی محمد رفیع عثمانی صاحب سے بھی بہت آگے ہیں۔ اور اگر حقیقتِ حال کو مدنظر رکھا جائے‘ تو اِس وقت اَہلِ حق میں اِن کی ٹکر کی کوئی دوسری علمی شخصیت پاکستان کیا پوری دُنیا میں دیکھنے کو نہیں ملتی 

سات براعظم میں پھیلی پوری اُمتِ مسلمہ میں یہ ایک واحد شخصیت ہیں‘ جن کی بات پر عرب و عجم اور دنیا جہاں میں پھیلی اُمت سرِ تسلیم خم کرتی ہے۔ اور ہر مشکل کی گھڑی میں اُمت کے طبقات کی پہلی اور آخری نظر اِنہی کی طرف جاتی ہے 


افریقہ میں قادیانیوں کے غیرمسلم ہونے سے متعلق کیس چل رہا تھا، اور عدالت میں دلائل دینے تھے‘ 

تو افریقہ کے مسلمانوں کی پوری دُنیا میں اِس مقصد کےلئے جس ہستی کی طرف نظر گئی‘ 

وہ مفتی محمد تقی عثمانی صاحب تھے۔ 

جو افریقیوں کی دعوت پر افریقہ گئے، 

اور کورٹ مین اپنے دلائل سے قادیانیوں کو کافر قرار دلوانے میں کامیاب رہے 


فجی سے لے کر مغرب کے آخری کنارے تک، 

اور ناروے سے لے کر جنوب کے آخری کنارے تک پھیلی ہوئی پوری اُمت جس کو اپنا متفقہ مفتیٔ اَعظم مانتی ہے، اور جس کے فتاویٰ کو حرفِ آخر کا درجہ دیتی ہے‘ وہ ہے مفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم العالیہ 

جس سے اگر اُمتِ مسلمہ میں کوئی ناواقف ہے‘ 

تو وہ صرف اور صرف پاکستانی قوم ہے‘ 

جو چراغ تلے اندھیرے والے محاورے کا عملی نمونہ بنی ہوئی ہے، 

اور پاکستان کی اکثر آبادی مفتی صاحب سے یا تو سرے سے واقف ہی نہیں‘ 

یا پھر صرف نام کی حد تک شناسا ہے 


مفتی تقی عثمانی صاحب وہ ہستی ھیں ‘ 

جسے سعودی عرب عرصۂ دراز سے نیشنیلٹی دے کر مستقل سعودی شہریت اور رِہائش کا اِصرار کررہا ہے‘ 

مگر یہ درویش اپنی مٹی سے محبت کا قرض چکانے کےلئے حرمین کا پڑوس چھوڑے ہوئے ہے۔


جسے اپنے ملک کے حکام نے بھلے ملک کا سب سے بڑا ایوارڈ نہ دیا ہو‘ 

مگر اُردن کے بادشاہ نے اُن کی دینی خدمات کے اِعتراف میں اُنہیں اپنے ملک کا سب سے بڑا ایورڈ دیا ہے 

صرف اِسلامی دُنیا کے حکمران نہیں‘ 

بلکہ برطانیہ (اِنگلینڈ) کے سابقہ وزیراعظم  ڈیوڈکیمرون سے لے کر شمالی (لاطینی) اَمریکہ کے صُدُور تک مفتی تقی صاحب سے وقت لے کر اُن سے اِسلام کے نظامِ معیشت پر آگاہی لیتے ہیں، 

اور اپنے سودی نظام کے مقابلے میں اپنے ہاں اُسے نافذ العمل کروانے کےلئے مشورے لیتے ہیں 


جنہیں خطابات کےلئے صرف پاکستان یا دیگرممالک کے مدارس سے ہی دعوت نامے نہیں ملتے‘ 

بلکہ دُنیا کی نامور اور مشہورِ زمانہ یونیورسٹیوں سے لے کر ورلڈ اِکنامک فورم جیسے عالمی فورمز پر معیشت کے موضوع پر خطاب اور آگاہی پروگراموں کےلئے مہمانِ خصوصی کے طور پر بلایا جاتا ہے۔


ڈیڑھ سو سے زائد عربی، اُردو، فارسی اور انگریزی زَبانوں پر مبنی کتابوں کا علمی خزانہ اُمت کو لکھ کر ہدیہ کرچکے ہیں 

اور یہ کوئی ڈیڑھ سو کتابچے نہیں‘ 

بلکہ ایک کتاب کئی کئی جلدوں پر محیط ہے، 

اور ہر ہرجلد میں ہزاروں صفحات ہیں۔


پاکستان کی اَعلیٰ عدالت سپریم کورٹ کے شریعت ایپلٹ بینچ کے کم و بیش بیس سال چیف جسٹس رہ چکے ہیں 

اور اِس دَوران کئی تاریخی اور یادگار فیصلے صادر فرماچکے ہیں۔ جن میں ’’رِبا (یعنی سود)‘‘ کے خلاف تاریخی فیصلہ ہمارے عدالتی فیصلوں کے ماتھے کے جھومر کے طور پر تاقیامت چمکتا دمکتا اور یاد گار رہے گا 


سود سے لتھڑی ہوئی آلودہ بینکاری کے مقابلے میں دُنیا کو سود سے پاک اِسلامی اُصولوں پر مبنی بینکاری کا مکمل نظام لکھ کر دے چکے ہیں۔ 


(#نوٹ: 

موجودہ اِسلامی بینکاری کے نام سے مشہور بینک اِن کے بتائے ہوئے نظام پر عمل کر رہے ہیں یا نہیں‘ 

اِس میں مفتی صاحب کا کوئی دَوش نہیں. 

اُنہوں نے مکمل نظام مرتب کر دیا ہے۔ 

اب اہلِ اِقتدار کی ذمہ داری ہے کہ وہ اِسلامی بینکوں کو مفتی تقی صاحب کے مروج کردہ اُصولوں پر چلانے کےلئے قانون سازی کرے۔ 

اگر کہیں کوئی کمی کوتاہی ہے‘ تو 

اُس میں مفتی تقی صاحب کا کوئی قصور نہیں 


اور یہ واحد اِسلامی مصنف ہیں‘ 

جنہوں نے آسان ترجمہ قرآن کو زمین کی بجائے فضاء میں لکھ کر عالمِ اِسلام میں ایک نئے ریکارڈ کا اِضافہ کیا۔ 

تین جلدوں پر مبنی آج تک لکھے گئے تراجمِ قرآنیہ میں سب سے سلیس بامحاورہ اور شستہ اُردو سے مزین خوبصورت ’’آسان ترجمۂ قرآن‘‘ سارے کا سارا اپنے عالمی اَسفار کے دَوران جہاز کی پرواز میں لکھا، 

اور یوں ایک نیا ریکارڈ بھی قائم کرگئے 


اِن سے پہلے چند لوگوں نے انگریزی میں قرآن کا ترجمہ کیا تھا‘ مگر وہ لوگ چونکہ باقاعدہ مولوی اور عربی پر اِتنی مہارت نہیں رکھتے تھے‘ 

بلکہ اُنہوں نے قرآن کے اُردو تراجم کو انگریزی میں نقل کیا تھا؛ 

اِس لئے اُن انگریزی تراجم میں وہ چاشنی نہ تھی۔ 


اِس طرح مفتی تقی عثمانی صاحب وہ پہلے عالمِ دین ہیں‘ جنہیں بذاتِ خود عربی پر مادری زُبان جتنا عُبور تھا، اور انگریزی میں بھی مہارتِ تامہ حاصل تھی۔ 

یوں دونوں زُبانوں پر مکمل عبور کی وجہ سے اِن کا لکھا گیا انگریزی ترجمۂ قرآن پاک آج یورپ کے مسلمانوں کی متاعِ عزیز بنا ہوا ہے، 

اور بلاشبہ اُردو کی طرح انگریزی میں بھی اِن کے جیسا ترجمہ قرآن دوسرا نہیں ملتا۔


زندگی کے ایک لمحے کو قیمتی بنانے والے اور اُسے ذریعۂ آخرت بنانا کوئی مفتی تقی صاحب سے سیکھے۔ کہ جہاز کی پرواز کے دوران کے وقت کو بھی ضائع ہونے سے بچایا، 

اور اُردو کا سب سے خوبصورت، مستند ، بامحاورہ آسان ترجمۂ قرآن لکھنے جیسے خوبصورت کام میں لگاکر ذخیرۂ آخرت بنا لیا 


سن 2009 میں پی آئی اے 

(پاکستان اِنٹرنیشنل اِئیرلائن) 

پر پوری دُنیا میں سب سے زیادہ ٹریولنگ کرنے والے مفتی تقی عثمانی صاحب تھے۔ 

جس پر پی آئی اے نے اِنہیں بطور اِعزاز عمر بھر کےلئے پی آئی اے پر سفر کرنے کی صورت میں اِن کو ایک تہائی یا آدھے کرائے میں سفر کرنے کی سہولت دے رکھی ہے 


مفتی تقی عثمانی صاحب اپنی مادری زُبان اُردو کے ساتھ دیگر چار زُبانوں ’’عربی، انگریزی، فارسی، اور ہسپانوی(Spanish)‘‘ پر بھی مکمل عبور رکھتے ہیں۔ خاص کر عربی اور انگریزی میں بہت ہی زیادہ مہارت رکھتے ہیں۔ 

چنانچہ اُن کے اُردو سے زیادہ عربی اور انگریزی کے بیانات سے اِنٹرنیٹ بھرا پڑا ہے 


اِس کے علاوہ مفتی محمد تقی عثمانی صاحب پاکستان کے علاوہ دُنیا بھر میں کن کن عہدوں پر فائز رہ چکے ہیں ؟ 

یا ابھی تک فائز ہیں‘ 

اُن کی تفصیل ذیل میں ملاحظہ فرمائیں 

.

تاحالجنعہدوں_پرفائز ہیں:

1:

چیئرمین شریعہ بورڈ آف اسٹیٹ بینک پاکستان۔

2:

نائب مہتمم، اور شیخ الحدیث  جامعہ دارالعلوم کراچی۔

3:

چیئرمین  اِنٹرنیشنل شریعہ اسٹینڈرڈ کونسل، اَکاؤنٹنگ اینڈ ایڈیٹنگ آرگنائزیش آف اِسلامک فائنانشل اِنسٹیٹیوشن ،بحرین۔

4:

مستقل ممبر، اور نائب صدر اِنٹرنیشنل فقہ الاسلامی اکیڈمی، جدہ، سعودی عرب۔

5:

آرگن آف آرگنائزیشن آف اِسلامک کانفرنس (OIC)۔

6:

ممبر رابطۃ العالم الاسلامی فقہ اکیڈمی مکہ، سعودی عرب۔

7:

مستقل ممبر، اور نائب صدر اِنٹرنیشنل فقہ الاسلامی اکیڈمی، جدہ،سعودی عرب، (اسپانسرڈOIC)۔

8:

چیئرمین سنٹرآف اِسلامک اِکنامکس، پاکستان (1991)۔

9:

چیئرمین شریعہ بورڈ، سنٹرل بینک بحرین۔

10:

چیئرمین شریعہ بورڈ، ابوظہبی اِسلامی بینک، 

یواے ای(UAE)۔

11:

چیئرمین شریعہ بورڈ، میزان بینک لمیٹڈ کراچی پاکستان۔

12:

چیئرمین شریعہ بورڈ اِنٹرنیشنل اِسلامک ریٹنگ ایجنسی، بحرین۔

13:

چیئرمین شریعہ بورڈ،پاک کویت تکافُل کراچی۔

14:

چیئرمین شریعہ بورڈ ، پاک قطر تکافُل کراچی۔

15:

چیئرمین شریعہ بورڈ ’’JS‘‘ اِنویسٹمنٹ اِسلامک فنڈز، کراچی۔

16:

چیئرمین شریعہ بورڈ ’’JS‘‘ اِسلامک پینشن سیونگ فنڈز۔

17:

چیئرمین شریعہ بورڈ عارف حبیب اِنویسٹمنٹ_پاکستان اِنٹرنیشنل اِسلامک فنڈ، کراچی۔

18:

چیئرمین ’’ Arcapita‘‘ اِنویسٹمنٹ فنڈز، بحرینْ

19:

ممبر متحدہ شریعہ بورڈ اِسلامک ڈیویلپمنٹ بینک، جدہ، سعودی عرب۔

20:

ممبر شریعہ بورڈ، گائیڈنس فائنانشل گروپ، 

یو۔ایس۔اے(USA)۔

.

#ماضیمیںجنعہدوںپرفائزرہ_چکے:

21:

جسٹس فیڈرل شریعت کورٹ آف پاکستان،(’’1980‘‘تا،مئی’’1982‘‘)

22:

چیف جسٹس،شریعت ایپلٹ بینچ،سپریم کورٹ آف پاکستان، (’’1982‘‘تا،مئی’’2002‘‘)۔

23:

چیئرمین سنٹرآف اِسلامک اِکنامکس، پاکستان (1991)۔

24:

ممبر سنڈیکیٹ یونیورسٹی آف کراچی،(’’1985‘‘تا’’1988‘‘)۔

25:

ممبر بورڈ آف گورنمنٹ اِنٹرنیشنل اِسلامی یونیورسٹی، اِسلام آباد، (’’1985‘‘تا’’1989‘‘)۔

26:

ممبر اِنٹرنیشنل اِنسٹیٹیوٹ آف اِسلامک اِکنامکس ،(’’1985‘‘تا’’1988‘‘)۔

27:

ممبر کونسل آف اِسلامک آئیڈیا لوجی،(’’1977‘‘تا’’1981‘‘)۔

28:

ممبر، بورڈ آف ٹرسٹیز اِنٹرنیشنل اِسلامک یونیورسٹی، اِسلام آباد،(’’2004‘‘تا’’2007‘‘)۔

29:

ممبر، کمیشن آف اِسلامائزیشن آف اِکانومی، پاکستان آف پاکستان۔

۔

جس کو دُنیا جہان نے اِعزازاً  اِس قدر بڑے بڑے عہدے دے رکھے ہیں، 

اور اپنے نیشنل لیول کے اِداروں کا چیئرمین بنا رکھا ہے، اُسے پاکستانی حکومت ایک بلٹ پروف گاڑی دینے کو تیار نہیں۔ 

اور وجہ صرف اِسلام دُشمنی ہے، 

اور کچھ نہیں 


مفتی تقی عثمانی صاحب کو صرف مسلم ہی نہیں‘ 

بلکہ دُنیا جہان کے تعلیم یافتہ اور باشعور لوگ بہت عزت اور قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔

لیکن نہ تو پاکستانی قوم اُن کو صحیح سے جانتی ہے، اور اُس قدر کی۔ اور نہ ہی پاکستان کی حکومتوں نے کبھی اُن سے اُن کی صلاحیتوں کے بقدر کوئی بڑا کام کیا 


جو شخص امریکہ اور طالبان جیسی دو متحارب طاقتوں کو مذاکرات کی میز پر لاسکتا ہے‘ 


اُس شخص سے اگر حکومتِ پاکستان چاہے‘ 

تو دینی چھوڑ دُنیاوی اِعتبار سے کتنے فوائد حاصل کرسکتی ہے۔ اور ملک و قوم کی تعمیر و ترقی میں کس قدر گراں مایہ خدمات لے سکتی ہے ؟ 

مگر افسوس ہمارے دولت پرست حکمرانوں پر‘ 

جنہوں نے کبھی پاکستان کے گوہر نایاب کو جاننے اور پہچاننے کی کوشش نہ کی۔ 


ضیاء الحق مرحوم نے اُن کی صلاحیتوں کا معترف ہوکر اُنہیں سپریم کورٹ کی شریعت ایپلٹ کا چیف جسٹس لگایا تھا‘ 

مگر جنرل نامشرف نے ’’سود‘‘ کو حرام قرار دینے کے فیصلے سے پیچھے نہ ہٹنے پر زبردستی قبل اَز وقت معزول کردیا 

مفتی تقی صاحب کی تعریف میں دیوان بھی لکھ دیے جائیں‘ تو وہ بھی کم ہیں۔ 

بس اِتنا کہنا چاہوں گا کہ اگر آج کی دُنیا میں اِقبال کے شعر کی کوئی زندہ مثال ہے‘ تو 

وہ مفتی محمد تقی عثمانی صاحب کے سوا کوئی دوسرا نہیں۔ 

یوں لگتا ہے کہ اِقبال اپنی قبر سے اُٹھ کر دوبارہ سے مفتی محمد تقی عثمانی صاحب کی خدمات کو سراہتے ہوئے یہ شعر کہ رہے ہیں :


ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے

بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا

منقول

الاسلامک میڈیا الاسلامک میڈیا

شہد کے فائدے (HONEY)




 آج ہم آپ کیلئے ہر بیماری کا علاج کرنے والی ایک میگا میڈیسن کا نُسخہ لیکر آئے ہیں اور مزے کی بات یہ ہے کی اسے بنانا بھی سب سے آسان ہے اور فائدے ہر دوائی سے زیادہ ہیں۔

ہو سکتا ہے آپ نے یہ نُسخہ پہلے بھی پڑھ رکھا ہو کیونکہ بہت جگہ شائع ہو چُکا ہےلیکن اس نُسخے سے جُڑی کچھ خاص باتیں کہیں نہیں لکھی جاتیں اس لئے برائے مہربانی اس پوسٹ کو پُورا لازمی پڑھ لیں۔

صبح اُٹھتے ہی سب سے پہلے نہار منہ  ایک بڑا سادہ پانی کا گلاس لیں (درمیانہ ٹھنڈا بھی لیا جاسکتا ہے۔ اس گلاس میں ایک بڑا کھانے کا چمچ اصلی خالص شہد اچھی طرح مکس کرکے پی لیں اور جو شہد چمچ پر لگا رہ جائے اُسے چاٹ لیں۔

شہد پینے کے بعد ایک گھنٹے تک کُچھ مت کھائیں۔ ایک گھنٹہ گُزر جائے تو ناشتہ کرلیں۔ بس اتنا سا نُسخہ ہے!

سب سے پہلے اسلامی حوالہ: حضورِاکرم ﷺ کا ساری زندگی مُبارک یہ معمول تھا کہ صبح اُٹھ کر شہد پانی میں ملا کر پیا کرتے تھے اور کبھی جب گرمی زیادہ ہوتی تھی تو عصر کے وقت بھی پیا کرتے تھے اس لئے سب سے پہلے یہ بات اپنے دماغ سے نکال دیں کہ شہد گرم ہوتا ہے۔ کیونکہ اگر اس کی تاثیر تھوڑی بہت گرم ہو بھی تو پانی میں ملا لینے سے معتدل ہو جاتا ہے۔

راز کی بات جو اس نُسخے میں چُھپی ہو ئی ہے وہ یہ کی جب آپ شہد کا استعمال شروع کرتے ہیں تو چونکہ جسم اس معمول کا عادی نہیں ہوتا اس لئے اکثر کُچھ لوگوں کا معدہ مزاحمت کرتا ہے اور لوگ یہ سمجھ لیتے ہیں کہ شہد انہیں راس نہیں۔ یہ بالکل غلط نظریہ ہے۔ یاد رکھئے شہد کی شفاء کے اصل راز کو پانے کیلئے آپ کو اسے 40 دن لازمی استعمال کرنا چاہئیے تاکہ جسم شہد کا عادی ہو جائے پھر دیکھئے کیسے ایک نئی زندگی کا آغاز ہوتا ہے۔

ہر قسم کی بیماری ختم ہوجائے گی یقین مانئے اتنے فائدے ہیں کہ لکھے ہی نہیں جا سکتے۔

خاص الخاص قبض جسے اُم الامراض کہا جاتا ہے جڑ سے ختم ہو جاتی ہے اور قبض ختم ہونے کا مطلب سب ٹھیک ہوجانا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ لوگوں کی اکثریت کو علم ہی نہیں ہوتا کہ اُنہیں قبض ہے۔ قبض کے بارے میں رائج عام تصور یہ ہے کہ حاجت کے دوران اگر زیادہ دیر انتظار کرنا پڑے یا زور زیادہ لگانا پڑے تو اسے قبض کہتے ہیں۔۔۔۔

اگر آپ کا بھی ایسا خیال ہے تو اسے ٹھیک کرلیں یہ قبض کی آخری سٹیج ہوتی ہے جس کے بعد بواسیر شروع ہوتی ہے۔

قبض ایک ایسا خبیث مرض ہے جس میں بڑی آنت کا پانی خُشک ہو جاتا ہے جس کی وجہ سے آنت میں چکناہٹ کم ہوجاتی ہے۔ خُشکی بڑھ جانے کی وجہ سے بڑی آنت فُضلے کو مقعد کی جانب دھکیلنے کی صلاحیت سے محروم ہونے لگتی ہے جس کے نتیجے میں گیس جیسا موذی مرض جنم لیتا ہے جس میں آجکل ہر دُوسرا پاکستانی گرفتار ہے۔ گیس کی زیادتی ہزار بیماریوں کی جڑ ہے جو جسمانی بھی ہیں اور نفسیاتی بھی۔ اگر تحقیق کا شوق ہے تو گوگل پر IBS یعنی (Irritable Bowel Syndrome) سرچ کریں اور اپنے چودہ طبق روشن کریں۔

پانی میں شہد ملا کر پینے سے وزن بھی تیزی سے کم ہوناشروع ہوتا ہے۔ شہد میں ایک عجیب خاصیت یہ پائی جاتی ہے کہ جب آپ شہد کو 40 دن تک استعمال کرکے اسے اپنی روٹین بنا لیتے ہیں تو شہد آپ کے وزن کو آپ کے ڈھانچے کی ہڈیوں کے وزن کی مناسبت سے سیٹ کرنا شروع کر دیتا ہے۔ 6 ماہ شہد والا پانی استعمال کرتے ہوئے ہوجائیں تو جو مرضی کھائیں جو مرضی پئیں آپ کا وزن آپ کی قدرتی ساخت سے اُوپر نہیں جائے گا یعنی اگر آپ کا قد 6 فٹ ہے تو آپ کا قُدرتی وزن 65 سے 70 کلو کے درمیان ہی رہنا چاہئے۔۔۔۔۔ شہد میں یہ کرشمہ چُھپا ہے۔

جو مرد جنسی طور پر کمزور ہیں اور جن عورتوں کو ہارمونز کا پرابلم ہے وہ صرف 40 دن استعمال کرکے دیکھیں آپ کو خود بخود سب سمجھ آنا شروع ہو جائے گا۔ اتنی سمجھ آئے گی کہ آپ اگر شہر سے باہر جائیں گے تو شہد کی شیشی بھی انشاءاللہ آپ کے سامان کا حصّہ ہوگی۔


Saturday, May 29, 2021

اعتمرنا_موباٸل_ایپلیکیشن ETAMARNA MOBILE APPLICATION اردو, English



حرمین میں عمرہ ،نماز اور طواف ادا کرنے کے لئے اعتمرنا ایپ کا بڑے پیمانے پر استعمال کیا جاتا ہے۔ اس ایپ کو ان کاموں کو انجام دینے کے لئے اجازت نامہ حاصل کرنے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ اس ایپ کے ذریعہ اجازت حاصل کیے بغیر ایک عازم ان مناسک کو نہیں ادا کرسکتا: عمرہ ، طواف ، حرمین میں نمازیں۔

میرا یہ خیال ہے کہ اس ایپلی کیشن کو حج سے متعلقہ مناسک ادا کرنے کے لئے بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔ لہذا میری رائے میں عازمین حج کو یہ ایپ پہلے سے انسٹال کرنی چاہئے اور حج کے لئے سعودیہ جانے سے قبل وزارت حج اور نجی حج منتظمین کے ذریعہ اس ایپ پر تربیت فراہم کرنے کے لئے کچھ انتظامات کیے جائیں۔ یہ بالکل ضروری معلوم ہوتا ہے کیونکہ اس ایپ کو استعمال کیے بغیر عازم حج مطلوبہ مناسک انجام نہیں دے سکتا ہے۔

اعتمرنا ایپلی کیشن ڈاؤن لوڈ لنک:

اینڈرواٸڈ:

https://play.google.com/store/apps/details?id=com.sejel.eatamrna

ایپل:

https://apps.apple.com/us/app/eatmarna/id1532669630

 اعتمرنا ایپ کے ذریعہ انجام دٸے جانے والے کاموں کی ایک مختصر وضاحت: 

1) حرم مسجد میں نماز پڑھنے کے لئے ضروری اجازت نامہ جاری کرنا۔

2) حرم مسجد میں عمرہ کرنے اور نماز ادا کرنے کے لئے ضروری اجازت نامہ جاری کرنا

3) مسجد نبوی میں روضہ شریف میں نماز پڑھنے کرنے کے لئے ضروری اجازت نامہ جاری کرنا۔

4) توکلنا ایپ سے اجازت نامے کی معلومات دکھانے کیلٸے۔

5) عمرہ سروے

#Eatamrna_mobile_applicaion

Eatamna app is extensively used to perform Umrah and prayers at Harmain. This app is used to obtain a permit for performing these tasks. Without obtaining the permit through this app, an Azim cannot perform manasiks: Umrah, Tawaf, Prayers at Harmain.

I am figuring out that this application may also be used to perform Hajj related manasik. So in my opinion Azmeen Hajj should install this app in advance and some arrangement should be done to provide training on this app by Hajj Ministries and Private Hajj Organisers before leaving to Saudia for Hajj. This looks to be absolute necessary as without using this app, Azim Hajj may not be able to perform required manasik. 

 *Below is the link to download Eatamrna app:

Android:

https://play.google.com/store/apps/details?id=com.sejel.eatamrna

Apple:

https://apps.apple.com/us/app/eatmarna/id1532669630

 *A brief description of tasks performed by Eatamna:* 

1) Issuing necessary permit to pray at Haram Mosque

2) Issuing necessary permit to perform Umrah and pray at Haram Mosque

3) Issuing necessary permit to vist and pray in the Rawdha in the Prophet's ﷺ Mosque.

4) Show the permit info from Tawklna app.

5) Umrah survey

Tuesday, May 25, 2021

رضیہ سلطانہ، مشرق کی پہلی فیمینسٹ



عورت جب گھر میں فارغ بیٹھتی ہے تو اسے محبت سُوجھتی ہے‘ دربار میں پیش ہونے والے ’پریم کہانی‘ سے متعلق کیس پر جب ہندوستان کی واحد خاتون حکمران نے یہ الفاظ کہے اس وقت اسے معلوم نہیں تھا کہ نہ صرف جلد ہی یہ تعلق خود اس کا دامن تھامنے والا ہے بلکہ تخت و تاج کے لیے خطرہ بھی بننے والا ہے۔

اصطبل میں کام کرنے والا غلام اور وہ بھی حبشی، جب نظر میں آیا تو اس کے دل کے تار بجتے چلے گئے جسے اس نے چھپانے کی بھی زیادہ کوشش نہیں کی، اسے امیرالامرا بنا دیا گیا، بے تکلفی اتنی بڑھی کہ جب گھوڑے پر سوار ہوتی تو وہی غلام بغل میں ہاتھ ڈال کر سوار کرواتا، جس پر ترک النسل امرا جل بُھن جاتے۔

اسے احساس ہوتا بھی، لیکن یہ سب غیرارادی طور پر ہو جاتا، غلام سے دلچسپی کی وجہ شاید یہ بھی ہو کہ وہ خود بھی خاندان غلاماں سے تھیں۔

رضیہ سلطانہ 1205 میں پیدا ہوئیں، ان کے آٹھ بھائی تھے لیکن والد کے سب سے زیادہ قریب وہی تھیں کیونکہ ان کے زیادہ تر بھائی ریاست چلانے کی صلاحیت نہیں رکھتے تھے جسے التتمش نے بہت پہلے محسوس کر لیا تھا۔ رضیہ رنگ و روپ کےعلاوہ بھی ہر اس ہنر سے آشنا تھیں جو حکمران بننے کے لیے ضروری ہو، یہی وجہ ہے کہ التتمش نے ان کی پرورش انہی خطوط پر کی۔ تلوار بازی، گھڑ سواری کے ساتھ ساتھ اچھی تعلیم بھی دلوائی گئی نوعمری میں پردہ بھی شروع کروا دیا گیا۔

التتمش نے انہیں اپنا جانشیں مقرر کیا تو خاندان ہی نہیں پورے ملک میں چہ میگوئیاں شروع ہو گئیں کہ ’عورت حکمران کیسے ہو سکتی ہے؟‘ التتمش کے انتقال کے بعد وصیت پر عمل نہیں کیا گیا اور رضیہ کے بھائی رکن الدین نے تخت پر قبضہ کر لیا۔ سب کا خیال تھا کہ رضیہ عام خاتون کی طرح رو دھو کر چپ کر جائیں گی مگر وہ ’عام‘ نہیں تھیں۔

تخت کی جانب قدم

ان کا بھائی رکن الدین حکمرانی کے لیے انتہائی نااہل ثابت ہوا، جلد ہی نامناسب سرگرمیوں میں گھر گیا۔ اس کی والدہ (رضیہ کی سوتیلی ماں) نے التتمش کی دیگر بیویوں کو قتل کروا دیا جو اعلیٰ خاندانوں سے تعلق رکھتی تھیں جس پر ان کے رشتہ دار حکومت کے خلاف ہو گئے، اس صورت حال کا فائدہ رضیہ کو ہوا اور وہ لوگوں تک یہ پیغام پہنچانے میں کامیاب رہیں کہ اصل جانشیں وہی ہیں، ناقص طرز حکمرانی کا یہ سلسلہ صرف سات ماہ چلا اور بغاوت ہو گئی، رکن الدین کو تخت چھوڑنا پڑا۔

   چاروں طرف مچے اس شور ’عورت حکمران کیسے ہو سکتی ہے‘ کے باوجود رضیہ نے تخت سنبھال لیا۔ پہلے ہی روز وہ بغیر پردہ کے (کھلے چہرے کے ساتھ) مردوں کا لباس پہنے شان بے نیازی سے دربار میں آئیں تو سب حیران رہ گئے، کچھ کُھسر پُھسر ہونا شروع ہوئی ہی تھی کہ ان کی بارعب آواز نے سب کو خاموش کر دیا۔

وہ خود کو سلطانہ کے بجائے سلطان کہلوانا پسند کرتیں، کہتیں ’سلطانہ کا مطلب ہے سلطان کی بیوی یعنی وہی دوسرا درجہ، جبکہ میں تو خود سلطان ہوں‘ چند روز بعد ہی کچھ سرکش گروہوں نے اس خیال کے ساتھ بغاوت کر دی کہ ایک عورت آخر کتنی مزاحمت کر لے گی لیکن رضیہ نے نہ صرف بغاوت کو کچلا بلکہ سازشوں کا سیاسی سوجھ بوجھ سے مقابلہ کیا، جس پر سب کے دلوں میں اس کا رعب تو پیدا ہو گیا تاہم ’عورت‘ والی پُرخاش دور ہو سکی نہ حبشی غلام کی قربت ہضم ہوئی۔ وہ ایک باقاعدہ سلطان کے طور پر سامنے آئیں۔ جنگ کے موقع پر جنگی لباس پہن اور تلوار بھالے لیے خود جنگ میں شریک ہوتیں، انہیں مردوں کے ساتھ بہت بہادری کے ساتھ لڑتے دیکھا گیا۔ انہوں نے تقریباً ساڑھے تین سال حکومت کی۔

     وہ اس وقت جوان، جاذب نظر اور غیرشادی شدہ تھیں، ہندوستان ہی نہیں کئی دلوں پر بھی راج کر رہی تھیں جن میں بٹھنڈہ کا حاکم ملک التونیہ بھی شامل تھا اور نکاح کا پیغام بھی بھجوا چکا تھا تاہم رضیہ کی نظر التفات حبشی غلام جمال الدین عرف یاقوت پر تھی جب یہ قصے التونیہ تک پہنچے تو اس نے رقابت میں لاہور کے حاکم ملک اعزاز الدین کو ساتھ ملا کر رضیہ کے خلاف جنگ کا اعلان کر دیا دہلی کے امرا بھی ان کے ساتھ تھے۔

    رضیہ کو اطلاع ملی تو وہ جمال الدین یاقوت اور لشکر سمیت روکنے کے لیے نکل پڑیں لیکن دہلی میں انہی باغیوں نے انہیں گھیر لیا جو عورت کی حکمرانی اور غلام سے تعلق کے خلاف تھے۔ ابھی معرکہ جاری ہی تھا کہ ملک التونیہ کا لشکر بھی پہنچ گیا۔ شدید لڑائی ہوئی۔ رضیہ کے لیے وہ بڑا جاں کُن لمحہ تھا جب آنکھوں کے سامنے جمال الدین یاقوت کو مرتے دیکھا، رضیہ کو قید کر لیا گیا۔ باغیوں نے ان کے بھائی معزالدین کو بادشاہ بنا دیا۔ امکان یہی تھا کہ رضیہ کو قتل کر دیا جائے گا تاہم التونیہ نے پیشکش کی اگر وہ اس سے شادی کر لیں تو وہ جان بخشی کروا سکتا ہے۔ رضیہ نے کچھ لمحے سوچنے کے بعد ہاں کر دی۔

شادی اور جنگجویانہ فطرت

کہا جاتا ہے کہ رضیہ نے التونیہ سے شادی صرف اس لیے کی تھی کہ زندہ رہیں اور پھر سے اپنا تخت حاصل کر سکیں کچھ ہی عرصہ میں انہوں نے التونیہ کو اس بات پر قائل کر لیا کہ دہلی کے تخت کی اصل حقدار وہی ہیں، اس لیے ایک بھرپور حملہ کرنا چاہیے التونیہ چونکہ انہیں بہت پسند کرتا تھا اس لیے مان گیا، حملے کے لیے تیاری شروع کر دی گئی، جو کافی عرصہ چلی، کھکڑوں، جاٹوں اور ارد گرد کے زمینداروں کی حمایت حاصل کی گئی، لشکر تیار کیے گئے اور پھر ایک روز حملے کے لیے روانگی ہوئی، جس کی قیادت التونیہ اور رضیہ کر رہے تھے۔

معزالدین کے بہنوئی اعزازالدین بلبن لشکر سمیت مقابلے کے لیے آیا، شدید لڑائی ہوئی لیکن رضیہ اور التونیہ کو شکست ہوئی اور فرار ہو کر واپس بٹھنڈہ جانا پڑا۔

کچھ عرصہ بعد پھر منتشر فوج کو جمع کر کے ایک بار پھر دہلی پر حملہ کیا نتیجہ اب کے بھی مختلف نہ تھا، رضیہ اور التونیہ کو ایک بار پھر فرار ہونا پڑا۔

موت، مدفن

کافی گھنٹوں تک گھوڑے سرپٹ دوڑتے رہے، وہ کتھل کا علاقہ تھا، انتہائی تھک ہار چکے تھے، کچھ معمولی زخمی بھی تھے، ایک درخت کے نیچے گھوڑے روکے، وہیں سستانے کے لیے بیٹھے، بھوک سے برا حال ہو رہا تھا، وہاں سے گزرنے والے ایک شخص نے انہیں کھانے کا کچھ سامان دیا، چند گھنٹے بعد 14 اکتوبر 1240 کو اسی درخت کے نیچے سے لاشیں ملیں۔

    موت کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ پیچھا کرتے ہوئے فوجیں وہاں پہنچ گئی تھیں اور دوسرا خیال یہ ہے کہ جس شخص نے کھانے کا سامان دیا تھا اسی نے بعد میں ساتھیوں سمیت آ کر قتل کر دیا تھا کیونکہ رضیہ نے بیش قیمت زیورات بھی پہن رکھے تھے۔

بعدازاں رضیہ کے بھائی نعش کو دہلی لے گئے اور ترکمانی دروازے کے پاس بلبل خانے میں دفن کر کے مقبرہ بنوایا جو آج بھی رجی سجی کی درگاہ کے نام سے موجود ہے۔

یہ تھی مشرق کی وہ پہلی فیمینسٹ، جس نے پدرشاہی معاشرے میں ہوا کے مخالف اڑنے کی کوشش کی، اڑی بھی مگر شکار ہوئی۔

Friday, May 21, 2021

ہبل اسپیس ٹیلی سکوپ


                     



آج سے 400 سال پہلے کائنات کا مشاہدہ عام آنکھ سے کیا جاتا تھا. آسمان پر ملکی وے گلیکسی کی سیجیٹیریس آرم ایک سفید بادل دکھنے کے علاوہ کتنے ستارے چھپائے ہوئے ہے، کوئی نہیں جانتا تھا. رنگین آسمان صرف ستاروں سے آراستہ دکھتا تھا. ہم اپنی گلیکسی اور آسمان پر دکھنے والے ستاروں کو ہی کل کائنات سمجھتے تھے.

پھر 1610 میں گلیلیو نے پہلی ٹیلی سکوپ بنا کر یہ بات عیاں کی کہ زحل ایک خوبصورت رنگ بھی رکھتا ہے، مشتری کے گرد اس کے چاند بھی ہیں، ستاروں کے علاوہ گیسوں کے بادل بھی ہیں جنہیں بعد میں نیبولا کہا گیا اور نظام شمسی میں سیاروں کے دریافت کا آغاز ہوا.

ٹیلی سکوپ کی بات کی جائے تو فوراً ذہن میں ایک نام آتا ہے "ہبل اسپیس ٹیلی سکوپ". گلیلیو کی ٹیلی سکوپ نے جس طرح کائنات کے متعلق کچھ راز کھولے اس طرح ٹیلی سکوپ میں جدت کے ساتھ ساتھ کائنات کا مشاہدہ اور معلومات بڑھتی چلی گئیں. 24 اپریل 1990 کو انسان نہیں جانتا تھا کہ جو شاہکار یہ خلا میں بھیجنے والا ہے اس سے کتنی بڑی اور انقلابی تحقیق ہوگی اور ہمارا کائنات کو دیکھنے کا زاویہ اور کس حد تک بدل جائے گا. ہبل اسپیس ٹیلی سکوپ کی تحقیق سے پہلے یعنی آج سے صرف 31 سال پہلے ہمارے لیے کائنات صرف قریب قریب کے ستاروں کے جھرمٹ اور ملکی وے گلیکسی تھی. مگر ہبل اسپیس ٹیلی سکوپ نے انسان کو حیران کر دیا کہ ملکی وے سے سینکڑوں گنا بڑی گلیکسیز بھی کائنات میں محو سفر ہیں اور کم و بیش 2000 ارب گلیکسیز قابلِ مشاہدہ کائنات میں انجان منزل کی طرف رواں ہیں.

24 اپریل 1990 کو shuttle Discovery (STS-31) سے خلا میں بھیجا گیا. ہبل اسپیس ٹیلی سکوپ کا نام امریکہ کے مشہور ماہر فلکیات ڈاکٹر ایڈون ہبل مکمل نام Edwin Powell Hubble کے نام پر رکھا گیا. ایڈون ہبل

20 نومبر 1889 کو یونائیٹڈ سٹیٹ آف امریکہ میں پیدا ہوئے، آپ نے اپنی تحقیق سے شعبہ فلکیات میں بہت زبردست خدمات انجام دیں (ڈاکٹر ایڈون ہبل پر ایک پوسٹ جلد شئیر کروں گا).

ہبل اسپیس ٹیلی سکوپ کو خلا میں بھیجنے کا مقصد یہ تھا کہ زمین کے ایٹماسفئر میں فضا سے نکل کر صاف شفاف ماحول میں مشاہدہ کیا جائے تاکہ تحقیق بہتر ہو. ہبل اسپیس ٹیلی سکوپ نے واقع اس قدر جدید تحقیق کی کائنات کے متعلق ہماری معلومات کا رخ ہی بدل گیا. 

ہبل اسپیس ٹیلی سکوپ کو 25 اپریل 1990 میں خلا میں چھوڑ دیا گیا. پہلی تصویر ہبل ٹیلی سکوپ سے 20 مئی 1990 کو لی گئی جو Star cluster NGC 3532 کی تھی.

ہبل اسپیس ٹیلی سکوپ کی اگر خصوصیات اور ساخت دیکھی جائے تو:

اس کی لمبائی ہے 43.5 فٹ یعنی 13.2 میٹر ہے، یعنی ایک سکول بس جتنا سائز. لانچ کے وقت ہبل اسپیس ٹیلی سکوپ کا وزن 10ہزار 886 کلوگرام تھا. اس کا ڈایا میٹر 14 فٹ یعنی 4.2 میٹر ہے. ٹیلی سکوپ کے متعلق معلومات میں ڈایا میٹر اور فوکل لینتھ اہم خصوصیات ہیں. ہبل اسپیس ٹیلی سکوپ کی فوکل لینتھ 47.6 میٹر ہے جو 189 فٹ بنتی ہے. میرے پاس اس وقت ٹیلی سکوپ کا ڈایا میٹر 100mm اور فوکل لینتھ 1400mm ہے (ٹیلی سکوپ اور آسٹروفوٹوگرافی کے متعلق پوسٹ بھی جلد آپ کو دیکھنے کو ملے گی).

ہبل اسپیس ٹیلی سکوپ زمین سے 547 کلومیٹر کی بلندی پر Low orbit میں زمین 🌏 کے گرد گھوم رہی ہے. اس کی رفتار 27300 کلومیٹر فی گھنٹہ ہے، اس طرح یہ 94 منٹ میں زمین کے گرد ایک چکر مکمل کر لیتی ہے. ہبل اسپیس ٹیلی سکوپ بہت ہی شاندار انداز میں بالکل درست طریقے سے کام کر رہی ہے. ایک میل دور بھی اگر ایک انسانی بال جتنا روشن جسم موجود ہوتو ہبل اس پر فوکس کر کے تفصیل بتا سکتی ہے.

ہبل اسپیس ٹیلی سکوپ کے پرائمری مرر کا ڈایا میٹر 94.5 انچ یعنی 2.4 میٹر ہے. اس پرائمری مرر کا وزن 828 کلوگرام ہے. سیکنڈری مرر 12 انچ یعنی 0.3 میٹر ڈایا میٹر کا ہے اور اس کا وزن 12.3 کلوگرام ہے. ہبل اسپیس ٹیلی سکوپ سورج سے روشنی کی مدد سے بیٹری چارج کر کے انرجی حاصل کرتی ہے یعنی سولر پینلز کے ذریعے انرجی حاصل کرکے اسے بیٹری میں سٹور کرنے کا سسٹم موجود ہے. ہبل اسپیس ٹیلی سکوپ پر 25 فٹ کے دو سولر پینل موجود ہیں جو 5500 واٹ کی انرجی پیدا کرتے ہیں جبکہ ہبل ٹیلی سکوپ کا استعمال تقریباً 2100 واٹ ایوریج ہے، اس میں (Nickle-Hydrogen (NiH کی 6 بیٹریاں ہیں جن کی سٹوریج کیپسٹی تقریباً 22 درمیانی کار بیٹریوں کے برابر ہے.

ہبل اسپیس ٹیلی سکوپ اب تک 1990 سے 13 لاکھ سے زائد مشاہدات کر چکی ہے. ان مشاہدات پر ماہر فلکیات 15000 سے زائد پیپرز لکھ چکے ہیں جنہیں آگے مزید 7 لاکھ 83 ہزار پیپرز میں استعمال کیا گیا ہے. اس طرح ہبل اسپیس ٹیلی سکوپ دنیا کے ان آلات میں سے ایک ہے جس پر سب سے زیادہ لکھا گیا ہو.

ہبل اسپیس ٹیلی سکوپ ایک ہفتے میں 150gb سائنٹفک ڈیٹا بھیجتی ہے. ایک سال میں ہبل 10Tb دس ٹیرا بائیٹ نیا ڈیٹا بھیجتی ہے. اب تک 150tb ڈیٹا یبل بھیج چکی ہے.

ہبل اسپیس ٹیلی سکوپ نے واقع ہی 1990 سے 2020 تک فلکیاتی تحقیق میں انقلاب برپا کر دیا ہے، ہبل کے ذریعے ہمیں 13.4 ارب سال پرانے اجسام فلکی دیکھ چکے ہیں. اس نام سے بچوں، بڑوں اور حتیٰ کہ سائنسدانوں کو بھی پیار 😍 ہے. یہ عظیم شاہکار مزید کچھ سال میں ریٹائر ہوجائے گا. ایک اندازے کے مطابق شاید 2030 یا اس سے قبل ہبل اسپیس ٹیلی سکوپ ریٹائر ہوجائے مگر اس کی جگہ لینے کے لیے "جیمز ویب اسپیس ٹیلی سکوپ" تقریباً تیار ہوچکی ہے اور اس سال اکتوبر میں یا اگلے سال اسے بھی لانچ کر دیا جائے  ا، یہ ہبل اسپیس ٹیلی سکوپ سے بہت جدید ہے.


 تحریر  عبدالوہاب 

"دوربین / ٹیلی سکوپ ( Telescope 🔭) کا مختصر تعارف

(حصہ اول)

تحریر: محمد عبدالوہاب



آسانی کے لیے تحریر کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے.


آپ سب لوگ جو فلکیات میں دلچسپی رکھتے ہیں ان کی خواہش ہوتی ہے کہ ہمارے پاس اپنی ٹیلی سکوپ ہو تاکہ جو کچھ سپیس سائنسز گروپ اور دیگر فلکیاتی گروپس میں دیکھتے ہیں ان کا مشاہدہ خود بھی کر سکیں، مگر ساتھ ہی ذہن ضروری سوالات ابھرتے ہیں کہ :

👈 ٹیلی سکوپ کیسے کام کرتی ہے.... 

👈 ٹیلی سکوپ کہاں سے خریدی جائے....

👈 کیسے خریدی جائے.....

👈 کونسی خریدی جائے....

👈 کتنے میں ملے گی... 

👈 اس سے تصاویر بنائی جا سکتی ہیں...

👈 جو ٹیلی سکوپ خریدے گیں اس سے کہاں تک دیکھا جا سکتا ہے اور کونسے فلکیاتی اجسام دیکھے جا سکتے ہیں... وغیرہ

اس تحریر میں ہم ٹیلی سکوپ کا تعارف کہ یہ کیسے کام کرتی ہے اور اس کے متعلق کچھ بنیادی معلومات اسطرح سے پڑھیں گے اور سیکھیں گے درج بالا سوالات کا آسانی سے جواب مل جائے اور دوسروں کو بھی ٹیلی سکوپ کا تعارف اور ضرورت کے مطابق ٹیلی سکوپ کا چناؤ کروا سکیں.

اگر میں یہ کہوں کہ آج سے کچھ سیکنڑوں اور ہزاروں سال پہلے لوگ جتنا خوبصورت آسمان عام آنکھ سے دیکھتے تھے، آج ویسا ہم نہیں دیکھ سکتے ہیں. جہاں نسل انسانی ترقی کی رفتار بڑھاتی جارہی اور ناممکنات کو ممکن کرتی جارہی ہے وہاں اپنے ماحول میں پھیلنے والی آلودگی پر آنکھیں بھی بند کیے ہوئے ہے، جس وجہ سے آج آسمان پر گیسی، دھول اور روشنائی آلودگی اس قدر پھیلی دکھائی دیتی ہے کہ ہزاروں ستاروں میں سے شہری علاقوں میں 100 سے بھی کم ستارے نظر آتے ہیں 😥. فلکیاتی مشاہدوں کے لیے شہری علاقوں سے دور پہاڑی علاقوں یا صحرا کا رُخ کرنا پڑتا ہے. خیر ترقی دور حاضر کی ضرورت ہے تاکہ آنے والے دور کو آسان بنایا جائے مگر اس کے ساتھ آلودگی پر قابو پانا بھی ضروری ہے. 

لفظ ٹیلی سکوپ Telescope کا مطلب ہے دور بین یعنی دور دیکھنا. ٹیلی سکوپ یا دور بین ایک ایسا آلہ ہے جس کی مدد سے آپ دور کی اشیاء کو عام کی انکھ کی نسبت بہتر، قریب اور بڑا دیکھ سکتے ہیں، دن میں بھی اور رات میں روشن فلکیاتی اجسام کو بھی.

سب سے پہلے ٹیلی سکوپ 1608 میں نیدر لینڈ کے ایک شیشہ ساز Hans Lippershey نے بنانے کی کوشش کی جو صرف 3X زوم کر سکتی تھی. اس نے یہ خیال میگنیفائنگ گلاس سے لیا اور چیزوں کو برا کر کے دیکھنے اور قریب سے دیکھنے کے لیے ٹیلی سکوپ بنانا چاہی، مگر وہ ایک بہتر ٹیلی سکوپ بنانے میں کامیاب نہیں ہوسکا، مگر 1609 میں گیلیلیو Galileo ٹیلی سکوپ کی ایجاد کا سہرا اپنے سر پر سجا کر آج بھی مقبول ہے. اس کی بنائی ہوئی ٹیلی سکوپ 8X زوم کر سکتی تھی جو کہ بعد بہتر کرکے 20X زوم تک پہنچ گئی تھی. 

ٹیلی سکوپ کیسے کام کرتی ہے..؟

اس سے پہلے ہمیں یہ جاننا ہوگا کہ ہمیں کوئی شے کیسے دکھائی دیتی ہے. جب تک کسی جسم سے روشنی خارج ہو کر یا ٹکرا کر ہماری آنکھ تک نا پہنچے، ہم اس جسم کو نہیں دیکھ سکتے. کسی جسم کا نظر آنا یا اس کی تصویر دکھائی دینا سے یہی مراد ہے کہ اس جسم سے روشنی خارج ہو کر یا ٹکرا کر ہماری آنکھ تک پہنچ رہی ہے، اس کے بعد ہماری آنکھ انتہائی حساس طریقے اس عکس کو مختلف تہوں اور مراحل سے گزارتے ہوئے آپٹک نرو (انکھ اور دماغ کے درمیان رابطے کی پٹیاں) کے ذریعے دماغ تک پہنچا دیتی ہے. تو اس طرح معلوم ہوا کہ ہماری آنکھ صرف روشنی کو دیکھتی ہے اسی طرح ٹیلی سکوپ بھی صرف انہی اجسام کو دکھائے گی جو روشن ہیں یا روشنی ان سے ٹکرا کر ٹیلی سکوپ تک پہنچ رہی ہے. ٹیلی سکوپ میں عدسے یا شیشے اس آنیوالی روشنی کو یا عکس / تصویر کو بڑا کر کے دکھاتے ہیں. اس مقصد کے لیے ٹیلی سکوپ کی دو بڑی اور بنیادی اقسام ہیں:

1- Refractive Telescope ریفریکٹو ٹیلی سکوپ

2- Reflective Telescope ریفلیکٹو ٹیلی سکوپ


کچھ احباب ٹیلی سکوپ کی دو مزید اقسام بھی بتاتے ہیں کہ وہ کمپیوٹرائزڈ بھی ہو سکتی ہے اور خود کار بھی، مگر ایسا نہیں ہے. ٹیلی سکوپ صرف خودکار یعنی Manual ہی ہوتی ہے جبکہ اس کے نیچے رکھا ہوا ٹرائی پوڈ Tripod سٹینڈ کمپیوٹرائزڈ یا خودکار ہوتا ہے. اس بات کی وضاحت نیچے Tripod کا تعارف کرواتے ہوتے کرتا ہوں. 

آپ نے جتنی بھی ٹیلی سکوپ دیکھیں یا استعمال کی ہوں، وہ یا تو Refractive ہوگی یا پھر Reflective ہوگی.

دونوں یہ دونوں اقسام اپنی نوعیت میں منفرد اور اہم خصوصیات کی حامل ہیں. ان دونوں اقسام میں فرق دیکھنے سے پہلے کچھ پوائنٹس نوٹ کر لیں:

1- ڈایا میٹر Diameter

2- فوکل لینتھ Focal length

3- آئی پیس Eye piece

4- فوکل پوائنٹ Focal point

5- لینز یعنی عدسہ Lense (ریفریکٹو ٹیلی سکوپ) 

6- شیشہ Mirror (ریفلیکٹو ٹیلی سکوپ)

7- ٹرائی پوڈ سٹینڈ / ماؤنٹ Mount 


1- ٹیلی سکوپ کا ڈایا میٹر Diameter:

اگر ٹیلی سکوپ ریفریکٹو Refractive ہو تو ٹیلی سکوپ کے سامنے کنویکس لینز لگا ہوتا ہے جو سامنے سے آنیوالی روشنی کو گزار کر اکھٹا کرتا ہے. اور اگر ٹیلی سکوپ ریفلیکٹو Reflective ہو تو سامنے ایک شیشہ جسے پرائمری مرر کہتے ہیں، لگا ہوتا ہے جو سامنے سے آنیوالی روشنی کو رفلیکٹ کر کے سیکنڈری مرر پر ڈالتا ہے. یہ دونوں یعنی "ریفریکٹو ٹیلی سکوپ ہو تو لینز اور اگر ریفلیکٹو ٹیلی سکوپ ہو تو شیشہ" ٹیلی سکوپ کا ڈایا میٹر کہلاتے ہیں. انہیں Objective lense یا Objective Mirror بھی کہتے ہیں کیونکہ یہاں سے گزر کر ہی روشنی ٹیلی سکوپ میں داخل ہوتی ہے اور قابلِ مشاہدہ بنتی ہے ٹیلی سکوپ کے ڈایا میٹر کو اپرچر Aperture بھی کہہ سکتے ہیں. جتنا بڑا ٹیلی سکوپ کا ڈایا میٹر ہوگا اتنی ہی زیادہ روشنی اکھٹی ہوگی، زیادہ رقبہ/ایریا دیکھا جا سکے گا اور مدھم اجسام Faint objects بھی بہتر دیکھے جا سکیں گے. ٹیلی سکوپ کا ڈایا میٹر 60mm یعنی تقریباً 2.3 انچ سے لے کر 354mm یعنی 14 انچ تک زیادہ استعمال ہوتی ہیں. اس سے زیادہ ڈایا میٹر والی ٹیلی سکوپ بہت کم لوگوں کے پاس ہوتی ہے کیونکہ اس کا سائز اور وزن بہت زیادہ ہوجاتا ہے اور بغیر بڑی گاڑی کے آپ اسے کہیں لیجا نہیں سکتے ہیں. کچھ Binoculars (دو آنکھوں والی چھوٹی دوربین) کا ڈایا میٹر بھی 20mm سے 70mm تک ہوتا ہے. اس سے زیادہ ڈایا میٹر والی Binoculars بہت کم ہوتی ہیں اور زیادہ تر لوگ 20mm سے 50mm ڈایا میٹر والی Binocular استعمال کرتے ہیں. اگر کسی ٹیلی سکوپ کا ماڈل یہ ہو 76700 تو اس کا مطلب ہے کہ اس ماڈل کی ٹیلی سکوپ کا ڈایا میٹر 76mm ہے اور فوکل لینتھ 700mm ہے. آسان لفظوں میں ٹیلی سکوپ کا فرنٹ یا منہ 🤭 اس کا ڈایا میٹر کہلاتا ہے.


2- فوکل لینتھ Focal length:

اگر ٹیلی سکوپ Refractive ہو تو اس کے لینز سے روشنی گزر کر ایک خاص پوائنٹ پر اکھٹی ہوجاتی جسے فوکل پوائنٹ کہتے ہیں جبکہ ٹیلی سکوپ اگر Refractive ہوتو روشنی پرائمری سے سیکنڈری مرر پر گرتی ہے اور سیکنڈری مرر سے فوکل پوائنٹ پر اکھٹی ہوتی ہے، روشنی ٹیلی سکوپ میں داخل ہونے کے بعد فوکل پوائنٹ پر پہنچنے تک جتنا سفر کرتی ہے اسے فوکل لینتھ Focal length کہتے ہیں. فوکل لینتھ 350mm سے لے کر 4000mm تک ہوسکتی ہے. اس سے زائد فوکل لینتھ والی ٹیلی سکوپ انتہائی مخصوص ہوتی ہے اور اس کے مقاصد تحقیق کے ہوتے ہیں. ٹیلی سکوپ کی فوکل لینتھ جتنی زیادہ ہوگی، زیر مشاہدہ جسم کو اتنا ہی زیادہ زوم کر کے دیکھا جاسکتا ہے. آسان لفظوں میں ٹیلی سکوپ کی لمبائی اس کی فوکل لینتھ کہلاتی ہے. 1000mm فوکل لینتھ والی ٹیلی سکوپ کی لمبائی (1000mm=1 meter) 1 میٹر ہوگی یعنی یہ ٹیلی سکوپ آپ کے بازو سے بھی لمبی ہوگی (ریفلیکٹو ٹیلی سکوپ کی فوکل لینتھ زیادہ ہوتی مگر لمبائی کم ہوتی ہے، مزید Reflective Telescope کے تعارف میں سمجھاتا ہوں).


3- آئی پیس Eye piece:

آئی پیس بھی کنویکس لینز Convex lense ہوتا ہے جسے آپ ٹیلی سکوپ پر لگا کر تصویر دیکھتے ہیں. جو روشنی ٹیلی سکوپ کے ڈایا میٹر سے گزر کر فوکل پوائنٹ پر اکھٹی ہوئی تھی اس روشنی کو فوکل پوائنٹ سے آپ کی آنکھ تک آئی پیس لاتا ہے. فوکل پوائنٹ سے آنکھ تک کا سفر بہت کم ہوتا ہے اس لیے آئی پیس چھوٹے سے لینز ہوتے ہیں. اس جمع شدہ روشنی کو پھیلا کر یا بڑا کر کے دکھانا آئی پیس کا ہی کام ہے. فوکل پوائنٹ سے آنکھ تک روشنی جتنا سفر کرتی ہے اسے آئی پیس کو فوکل لینتھ کہتے ہیں. ٹیلی سکوپ پر جس جگہ آئی پیس لگتا ہے وہ ٹیلی سکوپ کے منہ کے مخالف سمت پر بھی ہوسکتی ہے اور ٹیلی سکوپ کے اوپر بھی ہوسکتی ہے. آپ نے دیکھا ہوگا کہ مشاہدہ کرتے ہوئے لوگ اپنی آنکھ ٹیلی سکوپ کے جس حصہ پر لگائے ہوئے ہوتے ہیں وہ آئی پیس ہی ہوتا ہے. ٹیلی سکوپ کے جس حصہ پر آئی پیس لگتا ہے اس کا سٹینڈرڈ سائز 1.25 انچ ہوتا ہے. کچھ ٹیلی سکوپ میں یہی سائز 2 انچ بھی ہوتا ہے، یاد رہے یہ سائز آئی پیس کا نہیں ہے بلکہ آئی پیس جہاں پر لگے گا یہ اس جگہ کا سائز ہے. 

 آئی پیس 40mm سے 1mm تک کے ہوسکتے ہیں. آپ سوچ رہیں ہونگے کہ 40mm والا آئی پیس زیادہ بڑی تصویر دکھائے گا مگر اصل بات اس کی ضد ہے یعنی 40mm آئی پیس زیادہ روشنی لیتا ہے اور کم زوم والا امیج بناتا یے جبکہ کم ملی میٹر والا آئی پیس کم روشنی کے ساتھ بڑا امیج دکھائے گا. یعنی اگر آپ مکمل چاند کی تصویر دیکھنا چاہتے ہیں تو آپ کو بڑا آئی پیس 25mm, 32mm یا 40mm کا لگانا ہوگا، لیکن اگر آپ چاند کی سطح پر کسی خاص گڑھے یا پہاڑوں کی قطار کو واضح کر کے دیکھنا چاہتے ہیں تو آپ کو چاند کی تصویر زوم کرنا پڑے گی جو ٹیلی سکوپ خود تو نہیں کرسکتی مگر آپ چھوٹا آئی پیس جیسا کہ 20mm, 12mm, 9mm یا 4mm لگا کر چاند کی زوم امیج دیکھیں گے. آپ اسے یوں سمجھیں کہ:

جو تصویر آپ دیکھ رہے ہیں وہ فرض کریں کہ 100X زوم کی ہے. آپ کی ٹیلی سکوپ کی فوکل لینتھ 1000mm ہے اور آپ نے 10mm کا آئی پیس لگایا ہے. ٹیلی سکوپ کی فوکل لینتھ کو آئی پیس کی فوکل لینتھ سے تقسیم کریں یعنی 1000 ➗ 10 تو جواب آیا "100" لہذا آپ 100X زوم کی ہوئی تصویر دیکھ رہے ہیں. اگر آپ چاہتے ہیں کہ تصویر کو مزید زوم کیا جائے تو آپ صرف ٹیلی سکوپ پر لگا آئی پیس تبدیل کریں گے، پہلے 10mm کا آئی پیس لگا ہوا تھا، اسے اتر کر اسی کی جگہ 5mm کا آئی پیس لگا دیں گے تو اب تصویر مزید زوم ہوکر 200X ہوجائے گی. اس طرح آئی پیس تبدیل کرتے ہوئے آپ تصویر کی زومنگ بڑھا سکتے ہیں. ٹیلی سکوپ وہی رہے گی، سب کچھ ویسے ہی ہے صرف آئی پیس بدلنے سے آپ نے مطلوبہ زومنگ حاصل کر لی ہے.

نوٹ: ایسا ہر گز نہیں ہے کہ آپ ہر ٹیلی سکوپ کے ساتھ کوئی بھی آئی پیس لگا لیں، بلکہ ٹیلی سکوپ کی فوکل لینتھ اور ڈایا میٹر کے مطابق یہ دیکھا جاتا ہے کہ اس پر کم سے کم یعنی چھوٹے سے چھوٹا آئی پیس کونسا لگ سکتا ہے. اگر ٹیلی سکوپ کا ڈایا میٹر 100mm ہے اور فوکل لینتھ 1400mm ہے تو اس پر کم سے کم 4mm کا آئی پیس لگ سکتا ہے جو 350X زوم دیتا ہے.

 (1400 ➗ 4 = 350)

اگر آپ چھوٹا آئی پیس لگا کر زیادہ زوم امیج دیکھنا چاہتے ہیں تو یہ بھی ذہن میں رکھیں کہ جس فلکیاتی جسم کو دیکھ رہیں وہ کافی روشن ہو، کیونکہ پہلے بتایا گیا ہے کہ چھوٹا آئی پیس تصویر کو زوم زیادہ کرتا ہے مگر روشنی کم دکھاتا ہے.

نیچے پوسٹ پر لگی ہوئی تصویر میری ٹیلی سکوپ 1400mm Bushnell کی ہے. 

کامنٹس میں تصاویر دیکھیں:


پہلا کامنٹ: Hans Lippershey کی خیالی تصویر

دوسرا کامنٹ: Galileo کی بنائی ہوئی پہلی ٹیلی سکوپس میں ایک.

تیسرا کامنٹ: ٹیلی سکوپ کے سٹرکچر میں ڈایا میٹر، فوکل پوائنٹ، فوکل لینتھ اور آئی پیس کی فوکل لینتھ دکھائی گئی ہے.


تحریر جاری ہے....


محمد عبدالوہاب courtesy 

Popular Posts