اشرف غنی ولد شاہجہان ولد عبدالغنی-افغانستان کے موجودہ صدر جو چند دنوں کا مہمان لگ رہا ہے-ہمارے قوم پرست 20 سال کے بعد پہلی مرتبہ انکی موجودہ حالت پر سخت بے چین ہیں اور انکو پختونوں کا بہت بڑا لیڈر ثابت کرنے کیلئے زمین آسمان کی قلابے ملا رہے ہیں- جبکہ وہ خود امریکہ کو اُڑان بھرنے کے لئے پر تول رہا ہے-ایمل ولی خان کی بے چینی سے محسوس ہوتا ہے کہ وہ سوگ منانے کی تیاریاں کررہا ہے-ایام سوگ منانے سے قبل ہم انکا مختصر تعارف کرانا چاہتے ہیں-
کیونکہ ایّام سوگ میں بعض لوگ معمولی چیزوں کو بھی بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں
اشرف غنی کی سن پیدائش 1949 جائے پیدائش ولایت لوگر ہے-
والدہ کا نام کوکبہ ہے-
ابتدائی تعلیم حبیبی لیسہ کابل سے حاصل کی ہے-پھر امریکن یونیورسٹی لبنان اور کولمبیا سے سیاسیات اور آئی آر میں ڈگری حاصل کی-
موصوف کا پردادا بہرام خان افغانستان،برطانیہ کی جنگ میں 1880 تک انگریزوں کا وفادار رہا- جبکہ انکا دادا عبدالغنی بھی انگریزوں کا رازدار نادر خان کی حکومت میں لوٹ کھسوٹ میں پیش پیش رہا-
انکی بیوی رولا غنی لبنان کی آرتھوڈاکس عیسائی ہے-رولا غنی کے والد عیسائی اور والدہ یہودن ہے-فرانس میں جب حجاب کے خلاف تحریک چلی تو حجاب کی مخالفت میں رولا غنی پیش پیش تھی-
اشرف غنی کی بیٹی مریم غنی نے نیویارک یونیورسٹی سے فوٹو گرافی میں ماسٹر کیا ہے-اب بھی وہاں ملازمت کررہی ہے-یورپی تہذیب کی سب سے بڑی وکیل ہے-
اسکا ایک بیٹا طارق غنی کی پیدائش و رہائش دونوں امریکہ میں ہے-
70 کی دہائی میں اشرف غنی امریکیوں اور یورپئین کے لئے افغانستان میں ترجمانی کا کام کرتا تھا یہی سے امریکہ کے ساتھ قریبی تعلقات استوار کئے-
افغانستان پر روسی جارحیت سے قبل پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی افغانستان کے پرچم دھڑے کے ساتھ وابستگی تھی-دونوں جانب تعلقات کی بناء پر امریکہ کے لئے افغانستان میں جاسوسی کا کام بھی کرتا رہا-
تعلیم کے سلسلہ میں امریکہ میں مقیم تھا کہ اس دوران روس نے افغانستان پر چڑھائی کی جسکی وجہ سے امریکہ میں مستقل سکونت اختیار کی-ورلڈبینک کے ساتھ طویل مدت تک کام کیا اور 1995 تک جنوبی اور مشرقی ایشیا میں ورلڈ بینک کے پروجیکٹ کی نگرانی کرتے رہے-جب افغانستان پر امریکہ نے صلیبی جنگ مسلط کرکے بدمست ہاتھی کی طرح چڑھ دوڑا تو وہاں پر اپنے کٹھ پتلی حامد کرزئی کو بٹھایا اس دوران اشرف غنی کو امریکہ سے بلا کر 2002 سے 2004 تک حامد کرزئی کی کابینہ میں وزیر خزانہ رہے-
حامد کرزئی کے بعد ستمبر 2014 سے لے کر اب تک امریکہ کی شہ پر عہد صدارت پر براجمان ہے-امریکہ نے تو بڑی مشکل سے اپنی فوجوں کی جان بچا کر الٹے پاوں بھاگنے میں عافیت سمجھی-امریکہ کی طرف سے مایوس کن جواب کی وجہ سے اشرف غنی اور پاکستانی قوم پرستوں کی امیدیں دم توڑ کر مایوسی آخری حدوں کو چھو رہی ہے-
تمام عمر یورپ اور امریکہ میں گزارنے اور پھر امریکہ کے کہنے پر افغانستان آکر امریکی قبضے کو دوام بخشنے کے علاوہ اس نے پشتون قوم کے لئے کیا خدمات انجام دی ہے؟ قوم پرست گالیوں کے بجائے اسکی نشاندہی کرکے ممنون فرمائیں-اشرف غنی اور ایمل ولی خان کے آباء و اجداد میں کوئی چیز مشترک نہیں کیونکہ ایمل ولی خان کے پر دادا حریت کے متوالے بن کر ساری زندگی انگریز دشمنی اور سامراج دشمنی میں گزاری جبکہ اشرف غنی کے پردادا انگریز کا زرخرید غلام بن کر رہا-ایمل ولی خان کو بطور ہمدردی یہ مشورہ دینا چاہتا ہوں کہ اس نے باچا خان مرکز کو ڈھول سارنگی کی تربیت گاہ بنانے کا جو فیصلہ کیا ہے یہ بے وقت کی راگنی ہے یہ وقت اس کے لئے بلکل مناسب نہیں ہے ہاں وہ اگر محرم کے مبارک مہینے میں تعزیے کے پروگراموں میں باقاعدہ زنجیرزنی کے ساتھ شرکت کرے تو شائد اس سے انکے غم غلط ہونے مدد مل سکے
No comments:
Post a Comment