Popular Posts

Monday, December 30, 2024

واخان پٹی Wa Khan Corridor

   


‏صرف چند کلومیٹر کی اس  

"واخان پٹی" پر اگر پاکستان اپنا کنٹرول حاصل کر لے تو پاکستان ۔براستہ تاجکستان۔۔روس(ماسکو) تک زمینی رسائی حاصل کر سکتا ہے۔

چین،تاجکستان،افغانستان اور پاکستان سے یہ گھری پٹی

پاکستان کی"نہر سویز"یا"پانامہ کینال"بن سکتی ہے۔


  واخان راہداری کو وہی اہمیت حاصل ہے جو سمندر میں نہر پانامہ ،نہر سوئیز کوحاصل ہے واخان کی پٹی کو انگریزوں نے افغانستان کی دُم بھی کہا ہے واخان راہداری پاکستان کے انتہائی شمالی علاقے، چینی سنکیانگ، افغانی بدخشاں اور تاجکستان کے درمیان واقع ہے یہ اصل میں ایسا پہاڑی علاقہ ہے جو ان ممالک کے درمیان تنگ دروں پر مشتمل ہے اس پورے علاقے کو واخان راہداری، واخان پٹی یا واخان کوریڈور کہتے ہیں یہاں رہنے والے لوگ وخی ہیں جن کی زبان بھی وخی ہے لوگوں کی ثقافت مشترکہ ہے اور آپس میں رشتہ داریاں بھی ہیں 

اس پٹی کی لمبائی مشرق سے مغرب تک 310 کلومیٹر اور چوڑائی 15 کلومیٹر ہے مشرق کی طرف کوہ بابا تنگی کے دامن میں چوڑائی سکڑ کے 10 کلومیٹر رہ جاتی ہے یہی علاقہ ہے جو سوختہ ،رباط اور سوماتاش کے راستے چینی صوبہ سنکیانگ سے مل جاتا ہے، سرحدِ واخان کا یہ حصہ پامیر میں افغان کرغیز علاقے کے ساتھ متصل واقع ہے۔ واخان کا دریا آبِ پنجہ کہلاتا ہے جو واخجیر گلیشیر سے نکلتا ہے اور روشن کے مقام پر دریائے آمو سے جاملتا ہے یہ دونوں دریامشرق سے مغرب کی طرف بہتے ہیں۔ واخان کے شمالی حصے کو پامیر کہتے ہیں جہاں واخی اور پامری قوم آباد ہے۔ 

پاکستان کے ہنزہ سے اوپری علاقے گلمت، پسو، شمشال، سوست اور چہ پرسان کا علاوہ والی ثقافت کا حامل ہے۔ زمانہ قدیم میں ان ملکوں کی سرحدوں پر آباد قبائل اس راہداری کو ایک دوسرے کے ساتھ تجارت کے لیے استعمال کرتے تھے، پاکستان کو ملانے والا دروازہ پاس افغانستان میں سویت یونین کی مداخلت کے بعد تجارت کیلئے بند ہوگیا لیکن چہ پرسان اور واخان کے درمیان تعلق برقرار رہا اور اس کی وجہ ارشاد پاس جیسے چند قدیم راستے ہیں جن پر لوگ سفر کرنے کی جرات کرتے ہیں۔ ان لوگوں کو ایک دوسرے ملک میں جانے پر کوئی سرحدی پابندیاں نہیں ہیں۔

واخان راہداری کا علاقہ جہاں ختم ہوتا ہے اس سے کچھ اوپر تاجکستان اور کرغیزستان کی سرحدی پٹی شروع ہوجاتی ہے جس میں واقع “پامیر ہائی وے” کو دنیا کی خطرناک، ویران اور اکیلی ترین سڑک کہا جاتا ہے۔ یہ سڑک افغانستان، تاجکستان، ازبکستان اور کرغیزستان میں واقع ہے۔ 

وسطی ایشیا کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک کرغزستان کے شہر اوش سے تاجکستان کے شہر دوشنبہ تک 1200 کلومیٹر طویل سڑک دنیا کے اعلیٰ ترین مناظر بھی پیش کرتی ہے جس کے دوران ویران دشت، بلند و بالا صحرا، برف سے ڈھکی چوٹیاں اور 4000 میٹر سے بلند دروں سے واسطہ پڑتا ہے۔ یہ وہ علاقہ ہے جہاں انسانوں سے زیادہ برفانی چیتوں اور مارکوپولو شیپ جیسے نایاب جانوروں کی بود و باش ہے۔

سلسلہ ہائے کوہ پامیر کو دنیا کی چھت بھی کہا جاتا ہے اور یہاں کئی ایسی چوٹیاں ہیں جن کی بلندی7000 ہزار میٹر سے متجاوز ہے۔ دنیا میں ہمالیہ، قراقرم، اور ہندوکش سلسلوں کو چھوڑ کر کہیں اتنے بلند پہاڑوں کی بہتات نہیں ہے۔ یہ علاقہ زلزلوں کی آماج گاہ ہے جس کے باعث یہاں کے پہاڑی سلسلے غیر مستحکم ہیں اور مٹی کے تودے گرنا روزمرہ کا معمول ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سنسنی کے متلاشی موٹر سائیکل سوار پامیر ہائی وے کی طرف کھنچے چلے آتے ہیں۔

یہ سڑک 19ویں صدی کے وسط میں روسیوں نے اس وقت تعمیر کی تھی جب برطانوی اور روسی سلطنتوں کے درمیان وسطی ایشیا پر غلبہ حاصل کرنے کے لیے 'گریٹ گیم' اپنے عروج پر تھی۔ اسی سڑک سے شاہراہِ ریشم کی ایک حصہ بھی گزرتا ہے اور آپ اب بھی پہاڑیوں کی چوٹیوں پر قدیم قلعوں کے کھنڈر دیکھ سکتے ہیں جنھیں تجارتی گزرگاہ کی حفاظت کے لیے تعمیر کیا گیا تھا۔

20ویں صدی میں سوویت یونین نے سڑک کی مرمت کروائی لیکن اب بھی اس کے بڑے حصے بجری اور کچی مٹی پر مشتمل ہیں اور پکے حصے کب کے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو گئے ہیں۔

سڑک کا بڑا حصہ اس علاقے سے گزرتا ہے جسے واخان کی پٹی کہا جاتا ہے۔ سڑک خاصی دور تک افغانستان اور تاجکستان کی سرحد پر واقع تند و تیز دریائے پنج کے ساتھ ساتھ سفر کرتی ہے۔ دریا کے دونوں کناروں پر اسماعیلیوں کی چھوٹی چھوٹی بستیاں ہیں۔یہ علاقہ قدرتی طور پر پاکستان کا حصہ ہونا چاہیے۔۔

کر گزرو۔منقول

Wednesday, December 25, 2024

Pak Tea House



1940ء میں ایک سکھ بوٹا سنگھ نے "انڈیا ٹی ہاؤس" کے نام سے یہ چائے خانہ شروع کیا بوٹا سنگھ نے 1940ء سے 1944ء تک اس چائے خانہ و ہوٹل کو چلایا مگر اس کا کام کچھ اچھے طریقے سے نہ جم سکا۔ بوٹا سنگھ کے چائے خانہ پر دو سکھ بھائی سرتیج سنگھ بھلا اور کیسر سنگھ بھلا جو گورنمنٹ کالج کے سٹوڈنٹ تھے اپنے دوستوں کے ہمراہ اکثر چائے پینے آتے تھے۔ 1940ء میں یہ دونوں بھائی گورنمنٹ کالج سے گریجوایشن کر چکے تھے اور کسی کاروبار کے متعلق سوچ رہے تھے کہ ایک روز اس چائے خانہ پر بیٹھے، اس کے مالک بوٹا سنگھ سے بات چل نکلی اور بوٹا سنگھ نے یہ چائے خانہ ان کے حوالے کر دیا۔


پاک ٹی ہاؤس لاہور میں مال روڈ پر واقع ہے جو کہ انار کلی بازار اور نیلا گنبد کے قریب ھے۔ قیام پاکستان کے بعد حافظ رحیم بخش صاحب جالندھر سے ہجرت کر کے لاہور آۓ تو انہیں پاک ٹی ہاؤس 79 روپے ماہانہ کرایہ پر ملا۔ یہ چائے خانہ "انڈیا ٹی ہاؤس" کے نام سے ہی چلتا رہا بعد میں "انڈیا" کاٹ کر "پاک" کا لفظ لکھ دیا گیا۔


دبلا پتلا بدن، دراز قد، آنکھوں میں ذہانت کی چمک، سادہ لباس، کم سخن، حافظ رحیم بخش کو دیکھ کر دِلی و لکھنؤ کے قدیم وضعدار بزرگوں کی یاد تاذہ ہو جاتی۔ حافظ صاحب کے دو بڑے بیٹوں علیم الدین اور سراج الدین نے پاک ٹی ہاؤس کی گدی کو سنبھالا۔


لاھور کے گم گشتہ چاۓ خانوں میں سب سے مشہور چاۓ خانہ پاک ٹی ہاؤس تھا جو ایک ادبی، تہذیبی اور ثقافتی علامت تھا۔ پاک ٹی ہاؤس شاعروں، ادیبوں، نقاد کا مستقل اڈہ تھا جو ثقافتی، ادبی محافل کا انعقاد کرتی تھیں۔ پاک ٹی ہاؤس ادیبوں کا دوسرا گھر تھا اور کسی کو اس سے جدائی گوارا نہیں تھی وہ ٹی ہاؤس کے عروج کا زمانہ تھا۔


ان دنوں لاھور میں دو بڑی ادبی تنظیمیں، حلقہ ارباب ذوق اور انجمن ترقی پسند مصنفین ہوتی تھیں۔ صبح سے لیکر رات تک ادبی محفلیں جمی رہتی تھیں۔ یہاں ملک بھر سے نوجوان ان شخصیات سے ملاقات کرنے کیلۓ آتے تھے۔ اتوار کو ٹی ہاؤس میں تِل دھرنے کو جگہ نہیں ہوتی تھی۔ جو کوئی آتا کرسی نہ بھی ہوتی تو کسی دوست کے ساتھ بیٹھ جاتا تھا۔ یہاں شعر و ادب پر بڑے شوق سے بحثیں ہوتی تھیں۔


ٹی ہاؤس میں بیٹھنے والے ادیبوں اور شاعروں میں سے سواۓ چند ایک کے باقی کسی کا بھی کوئی مستقل ذریعہ معاش نہیں تھا۔ کسی ادبی پرچے میں کوئی غزل، نظم یا کوئی افسانہ لکھ دیا تو پندرہ بیس روپے مل جاتے تھے لیکن کبھی کسی کے لب پر تنگی معاش کا شکوہ نہیں تھا۔ ایسا کبھی نہیں تھا کہ کسی دوست کی جیب خالی ہے تو وہ ٹی ہاؤس کی چاۓ اور سگریٹوں سے محروم رہے۔ جس کے پاس پیسے ہوتے تھے وہ نکال کے میز پر رکھ دیتا تھا۔ جس کی جیب خالی ہوتی علیم الدین صاحب اس کے ساتھ بڑی فراخ دلی سے پیش آتے تھے۔ اس وقت کے ادیبوں میں سے شاید ہی کوئی ادیب ہو جس نے پاک ٹی ہاؤس کی چاۓ کا ذائقہ نہ چکھا ہو۔


پاک ٹی ہاؤس کا بڑا دلکش ماحول ہوتا تھا۔ نائیلون والا چمکیلا فرش، چوکور سفید پتھر کی میزیں، دیوار پر لگی قائدآعظم کی تصویر، گیلری کو جاتی ہوئی سیڑھیاں، بازار کے رخ پر لگی شیشے دار لمبی کھڑکیاں جو گرمیوں کی شاموں کو کھول دی جاتی تھیں اور باہر لگے درخت بھی دکھائی دیتے تھے۔ دوپہر کو جب دھوپ پڑتی تو شیشوں سے گلابی روشنی اندر آتی تھی۔


ٹی ہاؤس کے اندر کونے والے کاؤنٹر پر علیم الدین کا مسکراتا ہوا سانولا چہرا ابھرتا اور بل کاٹتے وقت پیچھے کہیں دھیمے سروں میں ریڈیو بج رہا ہوتا تھا۔ علیم الدین کی دھیمی اور شگفتہ مسکراھٹ تھی۔ اس کے چمکیلے ہموار دانت موتیوں کی طرح چمکتے تھے ٹی ہاؤس کی فضا میں کیپسٹن سگریٹ اور سگار کا بل کھاتا ہوا دھواں گردش کرتا تھا۔ ٹی ہاؤس کی سنہری چاۓ، قہوہ اور فروٹ کیک کی خوشبو بھی دل کو لبھاتی تھی۔ کبھی کبھی کاؤنڑ پر رکھا ہوا ٹیلیفون یک دم بج اٹھتا تھا۔


ہجرت کر کے آنے والوں کو پاک ٹی ہاؤس نے اپنی گود میں پناہ دی۔ کسی نے کہا میں انبالے سے آیا ہوں میرا نام ناصر کاظمی ہے۔ کسی نے کہا میں گڑھ مکستر سے آیا ہوں میرا نام اشفاق احمد ہے۔ کسی نے کہا میرا نام ابن انشاء ہے اور میرا تعلق لاہور سے ہے۔


وہ بڑے چمکیلے اور روشن دن تھے۔ ادیبوں کا سارا دن ٹی ہاؤس میں گزرتا تھا۔ ذیادہ تر ادیبوں کا تخلیقی کام اسی زمانے میں انجام پایا تھا۔ ناصر کاظمی نے بہترین غزلیں اسی زمانے میں لکھیں۔ اشفاق احمد نے گڈریا اسی زمانے میں لکھا۔ شعر و ادب کا یہ تعلق پاک ٹی ہاؤس ہی سے شروع ہوا تھا۔


صبح آٹھ بجے پاک ٹی ہاؤس میں کم لوگ آتے تھے۔ ناصر کاظمی سگریٹ انگلیوں میں دباۓ، سگریٹ والا ہاتھ منہ کے ذرا قریب رکھے ٹی ہاؤس میں داخل ہوتا تھا اور اشفاق احمد سائیکل پر سوار پاک ٹی ہاؤس آتا تھا۔


پاک ٹی ہاؤس میں داخل ہوں تو دائیں جانب شیشے کی دیوار کے ساتھ ایک صوفہ لگا ھوا تھا۔ سامنے ایک لمبی میز تھی۔ میز کی تینوں جانب کرسیاں رکھی ہوئی تھیں۔ ناصر کاظمی، انتظار حسین، سجاد باقر رضوی، پروفیسر سید سجاد رضوی، قیوم نظر، شہرت بخاری، انجم رومانی، امجد اسلام امجد، احمد مشتاق، مبارک احمد وغیرہ کی محفل شام کے وقت اسی میز پر لگتی تھی۔


اے حمید، انور جلال شمزہ، عباس احمد عباسی، ھیرو حبیب، سلو، شجاع، ڈاکٹر ضیاء وغیرہ قائد آظم کی تصویر کے نیچے جو لمبی میز اور صوفہ بچھا تھا، وہاں اپنی محفل سجاتے تھے۔ ڈاکٹر عبادت بریلوی اور سید وقار عظیم بھی وقت نکال کر پاک ٹی ہاؤس آتے تھے۔ ھر مکتبہ فکر کے ادیب، شاعر، نقاد اور دانشور اپنی الگ محفل بھی سجاتے تھے۔


سعادت حسن منٹو، اے حمید، فیض احمد فیض، ابن انشاء، احمد فراز، منیر نیازی، میرا جی، کرشن چندر، کمال رضوی، ناصر کاظمی، پروفیسر سید سجاد رضوی، استاد امانت علی خان، ڈاکٹر محمد باقر، انتظار حسین، اشفاق احمد، قیوم نظر، شہرت بخاری، انجم رومانی، امجد اسلام امجد، احمد مشتاق، مبارک احمد، انورجلال شمزہ، عباس احمد عباسی، ہیرو حبیب، سلو، شجاع، ڈاکٹر ضیاء، ڈاکٹر عبادت بریلوی، سید وقار عظیم وغیرہ پاک ٹی ہاؤس کی جان تھے۔


ساحر لدھیانوی بھارت جا چکا تھا اور وہاں فلمی گیت لکھ کر اپنا نام امر کر رھا تھا۔ شاعر اور ادیب اپنے اپنے تخلیقی کاموں میں مگن تھے۔ ادب اپنے عروج پہ تھا اس زمانے کی لکھی ھوئی غزلیں، نظمیں، افسانے اور مضامین آج کے اردو ادب کا قیمتی سرمایہ ہیں۔ اس زمانے کی بوئی ہوئی ذرخیز فصل کو ھم آج کاٹ رہے ہیں۔


پاک ٹی ہاؤس کئی نشیب و فراز سے گزرا اور کئی مرتبہ بند ہو کر خبروں کا موضوع بنتا رہا۔


عرصہ دراز تک اہل قلم کو اپنی آغوش میں پناہ دینے کے بعد 2000ء میں جب ٹی ہاؤس کے مالک نے اسے بند کرنے کا اعلان کیا تو ادبی حلقوں میں تشویس کی لہر دوڈ گئی اور اھلِ قلم نے باقاعدہ اس فیصلے کی مزاحمت کرنے کا اعلان کر دیا۔


دراصل ٹی ہاؤس کے مالک نے یہ بیان دیا تھا کہ "میرا ٹی ہاؤس میں گزارہ نہیں ہوتا میں کوئی دوسرا کاروبار کرنا چاہتا ہوں" ادبی تنظیموں نے مشترکہ بیان دیا کہ ٹی ہاؤس کو ٹائروں کی دکان بننے کی بجاۓ ادیبوں کی بیٹھک کے طور پر جاری رکھا جاۓ کیونکہ اس چاۓ خانے میں کرشن چندر سے لیکر سعادت حسن منٹو تک ادبی محفلیں جماتے رھے۔

ادیبوں اور شاعروں نے اس چاۓ خانے کی بندش کے خلاف مظاہرہ کیا اور یہ کیس عدالت میں بھی گیا اور بعض عالمی نشریاتی اداروں نے بھی احتجاج کیا۔ آخر کار 31 دسمبر 2000ء کو یہ دوبارہ کھل گیا اور اہل قلم یہاں دوبارہ بیٹھنے لگے لیکن 6 سال کے بعد مئ 2006ء میں یہ دوبارہ بند ہو گیا اس بار ادیبوں اور شاعروں کی طرف سے کوئی خاص احتجاج دیکھنے میں نہیں آیا۔


اس طرح یہ تاریخی، ادبی اور ثقافتی ورثہ نصف صدی تک اہل قلم کی میزبانی کرنے کے بعد اپنے پیچھے علم و ادب کی دنیا کی کئ داستانیں چھوڑ گیا۔ اب اس کے بند شٹر اور اوپر لکھا ہوا بورڈ صرف ماضی کے ایک ادبی ورثہ کی یاد دلانے لگا۔


نگینہ بیکری، چوپال، شیزان اور عرب ہوٹل کی طرح یہ بھی ماضی کا حصہ بن گیا۔


پاک ٹی ہاؤس کی بحالی لاہور کے ادیبوں، شاعروں اور دانشوروں کا ایک مسلسل درینہ مطالبہ تھا۔ پاک ٹی ہاؤس کا افتتاح 14 اگست کو کیا جانا تھا لیکن نہ ہو سکا۔ سیاسی وجوہات کی بنا پر افتتاح کی نئی تاریخ 6 ستمبر رکھی گئی لیکن بے سود۔ 20 اکتوبر 25 اکتوبر اور 25 دسمبر 2012ء کو کیے گئے وعدے بھی وفا نہ ہو سکے۔ پاک ٹی ہاؤس کی جدائی ختم ہوئی اور وصل کا وقت آ گیا۔ میاں نواز شریف نے بالآخر 23 مارچ کو پاک ٹی ہاؤس میں چائے پی کر اور اس کا افتتاح کر کے ادیبوں اور شاعروں کے لیے اس کے دروازے ایک بار پھر کھول دئیے۔


اے حمید ایک جگہ لکھتے ہیں کہ "میں اور اشفاق احمد دیر تک ٹی ہاوس میں بیٹھے گزرے زمانے کو، گزرے زمانے کے چہروں کو یاد کرتے رہے، کیسے کیسے لوگ تھے، کیسے کیسے چمکیلے چہرے تھے جو ادب کے آسمان پر ستارے بن کر چمکے اور پھر اپنے پیچھے روشنی کی لکیریں چھوڑ کر نظروں سے غائب ہو گئے۔ کبھی ٹی ہاوس کے کاؤنٹر پر رکھے گلدان میں نرگس اور گلاب کے پھول مہکا کرتے تھے۔ شیشوں میں سے ان پر سردیوں کی دھوپ پڑتی تو وہ بجلی کے بلب کی طرح روشن ہو جاتے۔ اب کاؤنٹر پر نہ گلدان ہے نہ گلدان کے پھول ہیں۔ صرف میں اور اشفاق احمد میز کے آمنے سامنے سر کو جھکاۓ بیٹھے پرانے دنوں کو یاد کر رہے ہیں۔ ایک دن آۓ گا کہ اس میز پر کوئی اور بیٹھا ہمیں یاد کر رہا ہو گا " ـــــــــــــــــــ


حیف صد حیف اے حمید تو پاک ٹی ہاؤس میں محفل جمانے کی حسرت لیے اگلے جہان روانہ ہو گئے لیکن ہم لوگ انہیں ہمیشہ یاد رکھیں گے۔

محمد سفیر سلہری 

Copied …

Tuesday, December 24, 2024

Haemophilia ہیموفیلیا

 


ہیموفیلیا خون کی بیماری ہے جس میں خون ٹھیک طریقے سے جم (clot) نہیں پاتا۔ اس کی وجہ سے چوٹ لگنے یا سرجری کے بعد خون کا رُکنا یا کم ہونا مشکل ہو جاتا ہے ۔(یعنې وینه پکې ودریږې )

ہیموفیلیا مخصوص کلوٹنگ فیکٹرز proteins )کی کمی کی وجہ سے ہوتا ہے۔ یہ کلوٹنگ فیکٹرز وہ پروٹین ہیں جو خون کے جمنے کے لیے ضروری ہیں تاکہ خون کا بہاؤ روکا جا سکے۔ 

⬅ہیموفیلیا کی اقسام( Types )

ہیموفیلیا کی دو اہم اقسام ہیں

👈1 ہیموفیلیا A (کلاسک ہیموفیلیا)

  ہیموفیلیا A فیکٹر VIII (فیکٹر آٹھ) کی کمی یا عدم موجودگی کی وجہ سے ہوتا ہے۔

  یہ ہیموفیلیا کی سب سے عام قسم ہے اور تقریباً 80% کیسز میں یہ پایا جاتا ہے۔ ہیموفیلیا A کی شدت اس بات پر منحصر ہے کہ خون میں فیکٹر VIII کی کتنی مقدار ہے۔ شدید کیسز میں فیکٹر آٹھ کی سطح 1% سے کم ہو سکتی ہے۔


👈2 ہیموفیلیا B 

  ہیموفیلیا B فیکٹر IX (فیکٹر نو) کی کمی یا عدم موجودگی کی وجہ سے ہوتا ہے۔

   ہیموفیلیا B کم عام ہے اور ہیموفیلیا کے کیسز میں تقریبا 20% تک پائی جاتی ہیی۔

👈تیسری قسم ہیموفیلیا C بھی ہوتی ہیی جو عموماً کم شدت والی ہوتی ہے۔


⬅ہیموفیلیا کی جینیٹکس(Genetics of Haemophilia ):

ہیموفیلیا ایک X-linked recessive جینیاتی بیماری ہے، یعنی یہ بیماری ان جینز کی وجہ سے ہوتی ہے جو X کروموسوم پر موجود ہوتے ہیں۔ اس وجہ سے مردوں میں یہ بیماری زیادہ عام ہوتی ہے کیونکہ مردوں کے پاس صرف ایک X کروموسوم ہوتا ہے۔ خواتین میں چونکہ دو X کروموسوم ہوتے ہیں، اس لیے یہ بیماری عام طور پر ان میں نہیں ہوتی، مگر وہ اس بیماری کی کیریئر (carrier) ہو سکتی ہیں ۔

💚 کیریئر (carriar ):

👈خواتین جن کے پاس ایک X کروموسوم پر ہیموفیلیا کا جین ہوتا ہے، وہ اس بیماری کی کیریئر ہوتی ہیں لیکن ان میں اس بیماری کی علامات ظاہر نہیں ہوتیں۔ وہ اس جین کو اپنے بچوں کو منتقل کر سکتی ہیں۔

👈مرد: چونکہ مردوں کے پاس صرف ایک X کروموسوم ہوتا ہے، اگر وہ ہیموفیلیا کا جین وراثت میں پائیں گے تو انہیں ہیموفیلیا ہو جائے گا۔

👈 اگر ایک عورت ہیموفیلیا جین کی کیریئر ہو اور وہ مرد سے شادی کرے جسے ہیموفیلیا ہو، تو ان کے بچوں میں، خاص طور پر مرد بچوں میں، ہیموفیلیا کی بیماری ہو سکتی ہے۔

⬅ہیموفیلیا کی علامات (symptoms):

ہیموفیلیا کی علامات بیماری کی شدت کے مطابق مختلف ہو سکتی ہیں، لیکن عام علامات درج ذیل ہیں:

👈معمولی چوٹ یا سرجری سے خون زیادہ بہنا۔

👈 غیر معمولی یا بڑی چوٹیں آنا۔

👈جوڑوں میں خون بہنا (ہیمارتھروسز): خاص طور پر گھٹنوں، کہنیوں اور ٹخنوں میں خون بہنا، جس سے درد، سوجن اور اگر علاج نہ کیا جائے تو مستقل جوڑوں کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔

👈 پٹھوں میں خون بہنا جو سوجن، درد اور اکڑاؤ کا سبب بن سکتا ہے۔

👈پیشاب یا پاخانے میں خون: شدید کیسز میں، اندرونی خون بہنا۔

👈 جسم کے اندر خون بہنا۔

⬅ہیموفیلیا کا علاج (Treatment ):

فلحال ہیموفیلیا کا کوئی مکمل علاج نہیں ہے، لیکن اس کی (management) کی جا سکتی ہے۔ علاج کا مقصد خون میں کم کلوٹنگ فیکٹرز کو متعارف کروانا ہے تاکہ خون کا بہاؤ روکا جا سکے ۔

👈1. فیکٹر ریپلیسمنٹ تھراپی:

   اس تھراپی میں، خون میں کمی شدہ کلوٹنگ فیکٹر (فیکٹر VIII ہیموفیلیا A کے لیے اور فیکٹر IX ہیموفیلیا B کے لیے) خون میں شامل کیا جاتا ہے۔

  یہ علاج ضرورت کے مطابق (جب خون بہنا شروع ہو) یا باقاعدگی سے (خون بہنے سے بچنے کے لیے) دیا جا سکتا ہے۔

  فیکٹرز کو انسانی پلازما سے حاصل کیا جا سکتا ہے یا ریکمبننٹ DNA ٹیکنالوجی (recombinant DNA technology )سے تیار کیا جا سکتا ہے۔


👈2. ڈیس موپریسین (DDAVP):

  یہ دوا صرف معتدل ہیموفیلیا A میں کام آتی ہے، کیونکہ یہ جسم میں فیکٹر VIII کی مقدار بڑھانے میں مدد کرتی ہے۔


👈3. اینٹی فبریانولک تھراپی:

   ٹرانیکسیمک ایسڈ جیسے ادویات خون کے جمنے کے عمل کو مزید مستحکم کرنے کے لیے دی جاتی ہیں۔


⬅احتیاطی تدابیر

👈 ایسی سرگرمیاں جن میں چوٹ لگنے کا خطرہ ہو ان سے گریز کریں۔

👈 شدید ہیموفیلیا والے افراد کو اکثر باقاعدگی سے فیکٹر انفیوژن کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ خون بہنے کے واقعات سے بچا جا سکے۔

⬅کزن میریج (cousin marriage )🙏🙏🙏

کزن میریج کے نتیجے میں جینیاتی بیماریوں genetic disorders کاخطرہ بڑھ جاتا ہے، خاص طور پر اگر خاندان میں پہلے ہی ہیموفیلیا یا دیگر جینیاتی بیماریاں موجود ہوں۔ اس لیے اگر کسی خاندان میں ہیموفیلیا موجود ہو، تو کزن میریج سے پرہیز کرنا ایک اہم احتیاطی تدبیر ہو سکتی ہے تاکہ بچوں میں ان بیماریوں کے ظاہر ہونے کے امکانات کم ہوں۔


#نوٹ: ایک اور خون کی بیماری تھیلسمیا ہوتی ہے جس میں خون کے سرخ خلیات (Red Blood Cells) میں ہیموگلوبن کا مقدار متاثر ہوجاتا ہیی 

Thursday, December 19, 2024

شلجم Turnips



تحقیق سے معلوم ہوا کہ شلجم 

خاص طور پر پٹھوں کی کمزوری، کمر درد

ٹانگوں کے درد، دل، جگر، آنکھوں، ہڈیوں، جوڑوں کا درد، یورک ایسڈ کم کرتا ہے،

کولیسٹرول نارمل کرتا ہے قبض دور کرتا ہے

شلجم ابال کر بیسن کے ساتھ گوندھ کر روٹی بنا کر کھانے سے شگر کنٹرول کرنے میں معاون ہے البتہ گندم چھوڑنا ہوگی. 


چونکہ اس میں فائبر زیادہ ہے

سلاد کے طور پر کھانے سے پیٹ بھر جاتا ہے وزن کم کرنے والوں کا دوست ہے. 


آئیے 

ایک قابل بھروسہ ویب سائٹ

کے تعاون سے

سیب اور شلجم

میں موجود

مفید اجزاء کا تناسب دیکھتے ہیں. 


سب سے اہم بات 

شلجم میں سیب سے 10 گنا زیادہ وٹامن سی ہوتا ہے

یعنی سیب میں 24 فیصد

شلجم میں 200فیصد. 


وٹامن B1

 سیب میں 7 فیصد شلجم میں 29 فیصد. 


وٹامن B6

 سیب میں 14 فیصد شلجم میں 58 فیصد 


سوڈیم

 سیب میں 0 اور شلجم میں 32 فیصد


پوٹاشیم

سیب میں 12 اور شلجم میں 39 فیصد 


کیلشیم

سیب میں 5 اور شلجم میں 43 فیصد 


میگنیشیم

سیب میں 5، شلجم میں 22 فیصد


فاسفورس

 سیب میں 7 اور شلجم میں 33 فیصد


آئرن

سیب میں 8، شلجم میں 36 فیصد


مینگنیز

سیب میں 6، شلجم میں 42 فیصد


کاپر

سیب 10، شلجم 61. 


زنک

سیب 2 فیصد، شلجم 21 فیصد. 


سیلینئیم

سیب میں 0 زیرو، شلجم میں 11 فیصد


فائبر

سیب 9، شلجم 13 فیصد. 


پروٹین

سیب 1 فیصد، شلجم 6 فیصد


اب آپ خود اندازہ لگا سکتے ہیں

اگر سیب دستیاب نہ ہو، مہنگا ہو تو

شلجم مناسب قیمت میں بآسانی دستیاب ہوسکتا ہے. 


اگر سیزن نہ ہو تو اسے قدرتی سرکہ میں

اچار بنا کر سال بھر محفوظ رکھ سکتے ہیں. 


روزانہ کسی بھی نئی شکل میں نیا ذائقہ بنا کر استعمال کر سکتے ہیں. 

شلجم کو چھیل کر باریک باریک ٹکڑوں میں کاٹ کر رسی میں پرو کر سکھا لیتے ہیں پھر پورا سال اسے استعمال کر سکتے ہیں 


جب میں نے سرچ کیا کہ دنیا بھر میں اس سے

کیا، کیا بنایا جاسکتا ہے تو یہ سب سامنے آیا

شلجم سلاد،. بھجیا، سوپ ، حلوہ، کانجی، اچار، کسٹرڈ، چٹنی، کباب، جیم، کیک، آئسکریم جی ہاں آئسکریم بھی ۔


.

Turnips are made up of many constituents, including:

Nutrients: Turnips contain vitamins, minerals, fiber, and carbohydrates: 

Vitamins: Turnips contain vitamin C, vitamin B6, thiamine, riboflavin, folate, and vitamin K 

Minerals: Turnips contain calcium, iron, magnesium, phosphorus, potassium, and sodium 

Fiber: Turnips contain dietary fiber 

Carbohydrates: Turnips contain carbohydrates 

Glucosinolates: Turnips contain glucosinolates, which are made up of glucose, amino acid, and sulfate 

Phytochemicals: Turnips contain flavonoids, phenolics, indoles, and volatiles 

Amino acids: Turnips contain 17 free amino acids, including essential amino acids 

Turnips are low in calories and fat, and high in vitamin C and fiber. Turnip greens contain more nutrients than turnip roots, including vitamins A and K, carotenoids, lutein, and antioxidants. 

Turnips have many health benefits, including: 

Antimicrobial: Turnips have antimicrobial properties

Antioxidant: Turnips have antioxidant properties

Antitumor: Turnips have antitumor properties

Antiinflammatory: Turnips have antiinflammatory properties

Cardioprotective: Turnips have cardioprotective properties.

.

Nutrient Substances

The chemical composition analysis of the root of turnip showed that it is rich in multiple nutritional profiles including carbohydrate, protein, dietary fiber, vitamin C, essential amino acid, and mineral element, but less fat (21). Turnip leaves possess more nutrients compared with turnip roots.

Wednesday, December 18, 2024

جون ایلیا John Aaliya

 


,❤️جون ایلیا کو اکثر لوگ ایک عیسائی خاتون سمجھت

 تھے مگر محبت کے شاعر جون ایلیا بیسویں صدی کے ایک عظیم مسلمان مرد شاعر تھے۔🌹

👇👇

جون ایلیا کا نام سب نے سنا ہوگا اور اکثر لوگ سمجھتے تھے کہ یہ کوئی عیسائی خاتون ہے ۔ اس کے برعکس جون ایلیا ایک مسلمان مرد شاعر تھے۔ انکا اصل نام سید حسین سبطِ اصغر نقوی ہے،انہیں عام طور پر اپنے قلمی نام جون ایلیا سے پہچانے جاتے ہیں،آپ ایک پاکستانی شاعر تھے۔ جدید ترین اردو شاعروں میں سے ایک، جو اپنے غیر روایتی طریقوں کے لیے مشہور ہیں، انہوں نے "فلسفہ، منطق، اسلامی تاریخ، مسلم صوفی روایت، مسلم مذہبی علوم، مغربی ادب اور قبالہ کا علم حاصل کیا۔" وہ اردو، عربی ، سندھی، انگریزی، فارسی، سنسکرت اور عبرانی۔میں روانی رکھتے تھے۔

🎈جون ایلیا 14 دسمبر 1931 کو امروہہ، ہندوستان میں ایک تعلیم یافتہ شیعہ گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد، شفیق حسن ایلیا، ادب اور فلکیات کے اسکالر تھے جو عربی، انگریزی، فارسی، عبرانی اور سنسکرت زبانوں پر عبور رکھتے تھے اور برٹرینڈ رسل جیسے معروف دانشوروں کے ساتھ خط و کتابت کرتے تھے۔ جون ایلیا اپنے بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹے تھے۔ 


 جون کی ابتدائی تعلیم امروہہ کے سید المدارس میں ہوئی، جو دارالعلوم دیوبند سے وابستہ ایک مدرسہ ہے۔


 پاکستان کے مشہور صحافی، ماہر نفسیات رئیس امروہی اور جنگ اخبار کے پہلے ایڈیٹر اور فلسفی سید محمد تقی جون ایلیا کے بھائی تھے، جب کہ مشہور خطاط اور مصور صادقین، فلمساز کمال۔ امروہی ان کے کزن تھے۔ پاکستانی سینئر اداکار منور سعید بھی جون ایلیا کے رشتے دار ہیں۔

جون ایلیا نے آٹھ سال کی عمر میں میں نے پہلا پیار کیا اور اپنی پہلی نظم لکھی مگر اپنا پہلا شعری مجموعہ ساٹھ سال کی عمر میں شائع کیا۔ جون ایلیا کی تعلیم امروہہ کے مدرسوں میں ہوئی جہاں انہوں نے اردو، عربی اور فارسی سیکھی۔ اسے نصابی کتابوں میں کوئی دلچسپی نہیں تھی ۔ بڑے ہونے کے بعد وہ فلسفہ اور ادب میں دلچسپی لینے لگے۔ انہوں نے اردو، فارسی اور فلسفہ میں ایم اے کی ڈگریاں حاصل کیں۔ وہ انگریزی، پہلوی اور عبرانی، سنسکرت اور فرانسیسی بھی جانتے تھے۔ جوانی میں وہ کمیونزم کی طرف راغب ہو گئے۔

تقسیم کے بعد ان کے بڑے بھائی پاکستان چلے گئے تھے۔ 1956 میں اپنی ماں اور باپ کی موت کے بعد جون ایلیا کو بھی نا چاہتے ہوئے پاکستان جانا پڑا اوراسکے بعد وہ عمر بھر امروہہ اور ہندوستان کو یاد کرتے رہے۔ انہوں نے کہا کہ میں پاکستان آکر ہندوستانی بن گیا۔ جون ایلیا کو کام میں مشغول کرنے اور اسے ہجرت کے دباؤ سے آزاد کرنے کے لیے، رئیس امروہوی نے ایک علمی اور ادبی جریدہ "انشا" شروع کیا، جس میں جون ایلیا نے اداریے لکھے۔ بعد میں اس رسالے کو "ورلڈ ڈائجسٹ" میں تبدیل کر دیا گیا۔ اس عرصے کے دوران جان نے قبل از اسلام مشرق وسطیٰ کی سیاسی تاریخ مرتب کی اور باطنیت اور فلسفہ پر کتابوں کا انگریزی، عربی اور فارسی میں ترجمہ کیا۔ انہوں نے کل 35 کتابیں مرتب کیں۔ وہ اردو ڈویلپمنٹ بورڈ (پاکستان) سے بھی وابستہ رہے، جہاں انہوں نے ایک عظیم اردو لغت کی تیاری میں اہم کردار ادا کیا۔


جون ایلیا کا مزاج بچپن سے ہی رومانوی تھا۔ وہ اکثر اپنے تصور میں اپنے محبوب سے باتیں کیا کرتے تھا۔ جون ایلیا جس زمانے میں ’’انشا‘‘ میں کام کر رہے تھے اس دوران ان کی ملاقات مشہور صحافی اور افسانہ نگار زاہدہ حنا سے ہوئی۔سال 1970 میں دونوں کی شادی ہوگئی۔ زاہدہ حنا نے ان کا خوب خیال رکھا اور وہ آپس میں خوش تھے لیکن دونوں کے مزاج میں فرق نے آہستہ آہستہ اپنا رنگ دکھایا۔ آخر کار تین بچوں کی پیدائش کے بعد دونوں میں طلاق ہو گئی۔ انکی دو بیٹیاں سنینا ایلیا، فینانا فرنام ، اور ایک بیٹا زریون ایلیا ہیں۔جون ایلیا کی شخصیت کو ان کے دوست نے کچھ یوں پیش کیا ہے۔ "ایک تیز مزاج لیکن انتہائی مخلص دوست، ایک مہربان اور صاف گو استاد، اپنے خیالات میں ڈوبا ہوا راہگیر، ایک دلچسپ بحث کرنے والا، ایک مغرور فلسفی، ایک جلد باز سوگوار، غیر معقول طور پر خودغرض اور سرکش۔ ایک عاشق، ایک ویران۔ جو ہر وقت تمباکو نوشی کرتا ہے، ایک محفل پسند، بہت کمزور لیکن جھگڑا کرنے کا شوقین ایک ہی وقت میں پوری دنیا کے ساتھ، ایک غیر محرم جو ہر وقت کو اپنا محرم سمجھتا ہے، انتہائی غیر ذمہ دار، بیمار، شدید جذبے کا شاعر، یہ فنکار ہے جسے جون ایلیا کہتے ہیں۔ جون ایلیا نے پاکستان پہنچتے ہی اپنی شاعری کا جھنڈا گاڑ دیا تھا، شاعری کے ساتھ ساتھ ان کے ڈرامائی انداز سے بھی سامعین محظوظ ہوئے۔


ان کی شرکت ہی مشاعروں کی کامیابی کی ضمانت تھی۔ ممتاز شعراء ان مشاعروں میں شرکت سے گھبراتے تھے جن میں جون ایلیا بھی شامل تھے۔ جان کو عجوبہ بن کر لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرنے کا شوق تھا۔ گرمیوں میں کمبل اوڑھ کر باہر نکلنا، رات کو دھوپ کا چشمہ لگانا اور لمبے جوتے پہن کر لوگوں سے ملنے نکلنا ان کا عام تھا۔ زاہدہ حنا سے علیحدگی جون کے لیے بہت بڑا صدمہ تھا۔ وہ نیم تاریک کمرے میں اکیلے بیٹھے رہا کرتے تھے۔ سگریٹ نے بھی ان کی صحت کو متاثر کیا۔ ان کا انتقال 8 نومبر (2002) کو ہوا۔

اپنی زندگی کی طرح وہ اپنی شاعری کی اشاعت سے بے پرواہ رہے۔ (1990) تقریباً ساٹھ سال کی عمر میں لوگوں کے اصرار پر اپنا پہلا شعری مجموعہ ’’شاید‘‘ شائع کیا۔ جون صاحب کا مرتب کردہ دوسرا مجموعہ ’’یعنی‘‘ بعد از مرگ (2003ء) شائع ہوا۔ جون ایلیا کے قریبی ساتھی خالد احمد انصاری نے ان کے بکھرے ہوئے کلام اور تصانیف کو اکٹھا کیا اور انہیں شائع کیا۔ جان ایک عظیم شاعر ہے اس لیے نہیں کہ اس کی شاعری صدیوں کی شاعرانہ روایت اور تنقیدی معیارات کے قائم کردہ تمام معیارات پر پورا اترتی ہے۔ وہ ایک عظیم شاعر ہیں کیونکہ شاعری کے سب سے بڑے موضوع، انسان کے جذباتی اور نفسیاتی حالات پر جون ایلیا نے جتنی نظمیں لکھی ہیں، اردو شاعری کی روایت میں اس کی مثال نہیں

Saturday, November 30, 2024

Guava امرود! پھل یا طاقت کا بے بہا خزانہ

 



امرود دو قسم کا ہوتا ہے ایک اندر سے سفید اور دوسرا سرخ ہوتا ہے۔ کچے امرود کا رنگ سبز اور پختہ امرود زرد سفیدی مائل اور خوشبودار ہوتا ہے۔


امرود کے فوائد

٭ امرود قوت ہاضمہ کو تقویت دیتا ہے۔ 

٭ اس کا کھانا مفرح ہوتا ہے۔ 

٭ کچا امرود قابض ہوتا ہے جبکہ پکا ہوا کھانے کے بعد ملین ہوتا ہے۔ 

٭ دل کو طاقت دیتا ہے۔ 

٭ مالیخولیا اور ذہنی پریشانی کو دور کرتا ہے۔ 

٭ امرود بھوک بڑھاتا ہے۔ 

٭ زکام اور بواسیر میں بے حد مفید ہے۔ 

٭ اس کے بیج پیٹ کے کیڑوں کے قاتل ہیں۔ 

٭ امرود کے پتے رگڑ کر پلانے سے دست کی بیماری ٹھیک ہوجاتی ہے۔ 

٭ اس کے پھولوں کا لیپ آنکھوں کے ورم کیلئےبے حد مفید ہوتا ہے۔ 

٭ امرود میں وٹامن اے اور سی کے علاوہ کیلشیم‘ لوہا اور فاسفورس ہوتے ہیں جو انسانی صحت میں بڑا اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ 

٭ امرود کی چھال کا جوشاندہ بنا کر غرارے کرنے سے مسوڑھوں کی جملہ امراض ٹھیک ہوتی ہیں۔ 

٭ امروددماغ کو تر رکھتا ہے۔ 

٭ اگر پھٹکڑی کے ہمراہ امرود کے پتوں کو رگڑکر جوشاندہ تیار کرکے کلیاں کی جائیں تو دانتوں کے درد کو فوراً فائدہ ہوتا ہے۔ 

٭ امرود کے پتے رگڑ کر جلی ہوئی جگہ پر لگانے سے جلن ختم ہوتی ہے اور چھالے نہیں بنتے۔ متواتر استعمال سے جلد آرام آجاتا ہے۔ امرود طبیعت کو نرم کرتا ہے اور خون کو صاف کرتا ہے۔ 

٭ اس کے پھول رگڑ کر پینے سے (چھان کر) پتے کی پتھری ٹھیک ہوتی ہے بشرطیکہ مرض بڑھا ہوا نہ ہو۔ 

٭امرود کے خشک پتوں کا سفوف زخموں کو خشک کرتا ہے۔ 

٭ضعف معدہ کیلئے اگر ایک سیر کچے امرود میں ڈیڑھ سیر پانی ملا کر اتنا پکایا جائے کہ وہ گل جائیں بعد میں کپڑے میں ڈال کر اچھی طرح سے پانی نچوڑیں پھر اس پانی میں تین پاؤ چینی ملا کر شربت تیار کریں۔ دو چمچے بڑے ایک گلاس پانی میں ملا کر پینا ضعف معدہ کو بے حد مفید ہے۔ 

٭اگر سرچکراتا رہتا ہو تو امرود کے تازہ پتے ایک تولہ لے کر انہیں ایک سیرپانی میں جوش دے کر چھان لیں اور اس میں آدھا تولہ نمک ملا کر خالی پیٹ دن میں ایک یا دو دفعہ استعمال کرنے سے فائدہ ہوتا ہے۔

٭ کھانسی اور نزلہ کو دور کرنے کے لیے آدھا کچا امرود جسے گدرا بھی کہتے ہیں گرم راکھ میں دبا کر تھوڑی دیر کے بعد نکال کر صاف کرکے تھوڑا نمک ملا کر کھانے سے کھانسی اور نزلہ سے یقیناً آرام ہوجاتا ہے۔ 

٭ امرود خون کی حدت کو دور کرتا ہے۔ 

٭ مثانہ کی سوزش کو دور کرتا ہے۔ 

٭ نزلے کو روکنے کے لیے امرود کی نرم کونپلیں آٹے کے چھان کے ساتھ جوشاندہ بنا کر تھوڑی چینی ملا کر پینے سے فوراً فائدہ ہوتا ہے۔

معدے کی تیزابیت کا دشمن: 

٭ بلغم کو روکنے کے لیے امرود کے ساتھ اجوائن دیسی ملا کر کھانا مفید ہوتا ہے۔ 

٭ امرود اور اجوائن دیسی ملا کر کھانے سے آنکھوں کے آگے اندھیرا آنا‘ سرکا گھومنا بھی ٹھیک ہوجاتا ہے۔ 

٭ امرود کا زیادہ کھانا پیٹ میں ہوا پیدا کرتا ہے۔ 

٭امرود پیاس کی شدت کو کم کرتا ہے۔ 

٭امرود معدے کی تیزابیت کا دشمن ہوتا ہے۔ ۔

٭پیٹ کی بے شمار بیماریوں میں امرود کا استعمال مفید ہوتا ہے۔ 

٭ امرود خود ہاضم ہوتا ہے اور دوسری غذاؤں کو ہضم کرنے میں مدد دیتا ہے۔ ۔

٭امرود کے استعمال سے آنتیں صاف ہوجاتی ہیں۔ 

٭جگر کا فعل امرود کھانے سے درست ہوجاتا ہے۔ 

٭رات کو منہ میں پانی آنے کی شکایت بھی امرود کے مسلسل استعمال سے ٹھیک ہوجاتی ہے۔ ۔

٭امرود کو کھانے کے بعد کھانا زیادہ بہتر ہضم ہوتا ہے مگر امرود کھانے کے بعد پانی کم از کم ایک گھنٹے بعد پیا جائے تو بہتر ہے۔ ۔

٭پیٹ کا اپھارہ دور ہوتا ہے بشرطیکہ مقدار کے مطابق کھایا جائے۔ ۔

٭بواسیری قبض کو دور کرتا ہے۔ ۔

٭ دائمی قبض دور کرنے کیلئے صبح ناشتے میں آدھ پاؤ سے تین پاؤ تک امرود کالی مرچ اور نمک چھڑک کر کھانا مفید ہے۔ 

٭ امرود کے بیج آنتوں میں رکے ہوئے زہریلے اجزاء کو خارج کرتے ہیں۔ ۔۔

٭امرود کو صرف سونگھنا ہی متلی کو دور کرتا ہے۔ 

٭منہ کی سوجن دور کرنے کے لیے امرود کے پتوںکو ایک سیر پانی میں جوش دے کر غرارے کرنا مفید ہے۔ ۔

٭ہیضے والے کو امرود کے پتوں کا جوشاندہ پلانے سے قے اور دست بند ہوجاتے ہیں۔ ۔

٭ گردے کی پتھری کو توڑتا ہے۔۔

Tuesday, November 26, 2024

دعاءِانبیا

 دعاءِ حضرت آدم علیہ السلام


رَبَّنَا ظَلَمْنَا أَنفُسَنَا وَإِن لَّمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَكُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِينَ

ترجمہ: "اے ہمارے رب! ہم نے اپنی جانوں پر ظلم کیا، اور اگر تو ہمیں معاف نہ کرے اور ہم پر رحم نہ کرے تو ہم خسارہ اٹھانے والوں میں سے ہوجائیں گے۔"

(سورة الاعراف، 7:23)


---


دعاءِ حضرت یونس علیہ السلام


لَا إِلَهَ إِلَّا أَنتَ سُبْحَانَكَ إِنِّي كُنتُ مِنَ الظَّالِمِينَ

ترجمہ: "تیرے سوا کوئی معبود نہیں، تو پاک ہے، بے شک میں ہی ظالموں میں سے تھا۔"

(سورة الانبیاء، 21:87)


---


دعاءِ حضرت نوح علیہ السلام


رَبِّ اغْفِرْ لِي وَلِوَالِدَيَّ وَلِمَنْ دَخَلَ بَيْتِيَ مُؤْمِنًا وَلِلْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ وَلَا تَزِدِ الظَّالِمِينَ إِلَّا تَبَارًا

ترجمہ: "اے میرے رب! مجھے، میرے والدین کو، میرے گھر میں داخل ہونے والے مومن کو، مومن مردوں اور مومن عورتوں کو معاف فرما، اور ظالموں کو ہلاکت کے سوا کچھ نہ دے۔"

(سورة نوح، 71:28)


---


دعاءِ حضرت ابراہیم علیہ السلام


رَبِّ اجْعَلْنِي مُقِيمَ الصَّلَاةِ وَمِن ذُرِّيَّتِي رَبَّنَا وَتَقَبَّلْ دُعَاءِ

ترجمہ: "اے میرے رب! مجھے اور میری اولاد کو نماز قائم کرنے والا بنا، اے ہمارے رب! اور میری دعا قبول فرما۔"

(سورة ابراہیم، 14:40)


---


دعاءِ حضرت داود علیہ السلام


رَبَّنَا أَفْرِغْ عَلَيْنَا صَبْرًا وَثَبِّتْ أَقْدَامَنَا وَانْصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكَافِرِينَ

ترجمہ: "اے ہمارے رب! ہم پر صبر نازل فرما، ہمارے قدم جما دے اور ہمیں کافروں کے خلاف فتح عطا فرما۔"

(سورة البقرة، 2:250)


---


دعاءِ حضرت ایوب علیہ السلام


أَنِّي مَسَّنِيَ الضُّرُّ وَأَنتَ أَرْحَمُ الرَّاحِمِينَ

ترجمہ: "بے شک، مجھے تکلیف پہنچی ہے اور تو سب سے زیادہ رحم کرنے والا ہے۔"

(سورة الانبیاء، 21:83)


---


دعاءِ حضرت زکریا علیہ السلام


رَبِّ لَا تَذَرْنِي فَرْدًا وَأَنتَ خَيْرُ الْوَارِثِينَ

ترجمہ: "اے میرے رب! مجھے تنہا نہ چھوڑ، حالانکہ تو سب سے بہتر وارث ہے۔"

(سورة الانبیاء، 21:89)


---


دعاءِ حضرت یوسف علیہ السلام


رَبِّ قَدْ آتَيْتَنِي مِنَ الْمُلْكِ وَعَلَّمْتَنِي مِن تَأْوِيلِ الْأَحَادِيثِ فَاطِرَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ أَنتَ وَلِيِّي فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ تَوَفَّنِي مُسْلِمًا وَأَلْحِقْنِي بِالصَّالِحِينَ

ترجمہ: "اے میرے رب! تُو نے مجھے حکومت عطا کی اور خوابوں کی تعبیر کا علم سکھایا۔ زمین و آسمان کا پیدا کرنے والا، تو ہی دنیا اور آخرت میں میرا ولی ہے۔ مجھے مسلمان ہونے کی حالت میں موت دے اور نیک لوگوں کے ساتھ ملا دے۔"

(سورة یوسف، 12:101)


---


دعاءِ حضرت یعقوب علیہ السلام


إِنَّمَا أَشْكُو بَثِّي وَحُزْنِي إِلَى اللَّهِ وَأَعْلَمُ مِنَ اللَّهِ مَا لَا تَعْلَمُونَ

ترجمہ: "میں اپنی پریشانی اور غم کا اظہار صرف اللہ سے کرتا ہوں، اور اللہ سے وہ جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے۔"

(سورة یوسف، 12:86)


---


دعاءِ حضرت موسیٰ علیہ السلام


رَبِّ اشْرَحْ لِي صَدْرِي، وَيَسِّرْ لِي أَمْرِي، وَاحْلُلْ عُقْدَةً مِّن لِّسَانِي، يَفْقَهُوا قَوْلِي

ترجمہ: "اے میرے رب! میرا سینہ کھول دے، میرا کام آسان کر دے اور میری زبان کی گرہ کھول دے، تاکہ وہ میری بات سمجھ سکیں۔"

(سورة طہ، 20:25-28)


---


دعاءِ حضرت عیسیٰ علیہ السلام


إِن تُعَذِّبْهُمْ فَإِنَّهُمْ عِبَادُكَ وَإِن تَغْفِرْ لَهُمْ فَإِنَّكَ أَنتَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ

ترجمہ: "اگر تو انہیں عذاب دے تو یہ تیرے بندے ہیں، اور اگر تو انہیں معاف کرے تو یقیناً تو غالب حکمت والا ہے۔"

(سورة المائدہ، 5:118)


---


دعاءِ حضرت محمد ﷺ


اللّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ الْهُدَى وَالتُّقَى وَالْعَفَافَ وَالْغِنَى

ترجمہ: "اے اللہ! میں تجھ سے ہدایت، پرہیزگاری، پاک دامنی اور غنا مانگتا ہوں۔"

(صحیح مسلم، 2721)


---


اس عظیم دعاوں کے ذخیرے کو دوسروں کے ساتھ بھی شیئر کریں تاکہ وہ بھی اس سے فائدہ اٹھا سکیں۔ روزانہ حدیث اور دیگر اسلامی علم کے لیے ہمارے پیج کو لائک اور فالو کریں۔ اللہ ہمیں علم اور عمل کی توفیق عطا فرمائے، آمین۔


خوبصورت حدیث:


حضرت بلال (رَضِيَ اللهُ عَنْهُ) کو جنت میں قدموں کی آواز سن کر نبی کریم ﷺ نے فرمایا:

"اے بلال! مجھے بتاؤ کہ تم کون سا عمل کرتے ہو جس کی وجہ سے میں جنت میں تمہارے قدموں کی آہٹ سن رہا تھا؟"

حضرت بلال نے عرض کیا: "یا رسول اللہ ﷺ! جب بھی میں وضو کرتا ہوں تو دو رکعت نماز ادا کرتا ہوں۔"

(صحیح بخاری، 1149)


---


اللہ ہمیں ان عظیم ہستیوں کی دعائیں اپنی زندگی میں شامل کرنے اور عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین!

Saturday, November 23, 2024

اینڈوسکوپی کیا ہے؟ Endoscopy / Colonoscopy

 

آج ہم اینڈسکوپی کو سمجھیں گئے ، کہ یہ پیٹ اور معدے کی کس کس بیماریوں اور صورتوں میں کی جاتی ہے ،اور اس کی سب سے اہم خصوصیات یہ ہے، کہ اینڈسکوپی معدے اور آنتوں کی درجنوں بیماریوں کی تشخیص کے لیے سب سے اچھا ٹیسٹ مانا جاتا ہے۔ لہذا اگر کسی مریض کو ڈاکٹر اینڈوسکوپی کا مشورہ دیتا ہے ،تو مریض کو یہ ٹیسٹ ضرور کروانا چائیے، عموماً اس کے زیادہ سیریس سائیڈ ایفیکٹ نہیں ہوتے اور نہ اس ٹیسٹ سے ڈرنے کی ضرورت ہے۔ باقی یہ ٹیسٹ عموماً گیسٹرو کا سپیشلسٹ ڈاکٹر کرتا ہے، قیمت تقریباً 4 سے 10 ہزار تک ہو سکتی ہے۔


اینڈوسکوپی کیا ہے۔

یہ ایک طریقہ کار ہے ،جس میں ایک آلہ جسم میں (جیسے معدہ ، چھوٹی آنت اور بڑی آنٹ وغیرہ میں ) داخل کیا جاتا ہے، تاکہ اس کے اندرونی حصوں کا معائنہ کیا جاسکے۔ اس ٹیسٹ میں کیمرے کے زریعے ڈاکٹر معدے یا آنٹ میں زخم ، السر، رسولی وغیرہ کو دیکھ سکتا ہے، اور السر ،زخم معدے کے کس حصے میں ہے اور السر، زخم کتنا بڑا ہے یا چھوٹا ہے،،یہ پتا بھی چلتا ہے، اگر کسی مریض کو خدا و نخواستہ رسولی ، انفیکشنز جیسے ایچ پیلوری یا کینسرکا امکان ہو تو پھر معدے یا آنٹ سےچھوٹا سا سمپل لیا جاتا ہے، Biopsy کے لیے۔


معدے کی اینڈوسکوپی کو گیسٹروسکوپی کہتے ہیں۔

درج ذیل صورتوں میں گیسٹروسکوپی کی جاتی ہے،جیسے: 


1:جس مریض کی عمر 55 سال سے زیادہ ہو چاہے اس کو معدے کا ہلکا مسلہ کیوں نہ ہو 

2:جس معدے کے مریض کا وزن کم ہو رہا ہو

3:اگر کسی مریض کو بار بار، قے الٹی یا خون کی الٹی کا مسلئہ ہو

4: اگر کسی مریض کو نگلنے میں دشواری یا درد ہو 

5:اگر کسی مریض کو دائمی پیٹ کا مسلئہ یا درد ہو


بڑی آنٹ کی اینڈوسکوپی کو کالونوسکوپی کہتے ہیں،

یہ ایک ایسا طریقہ کار ہے،جس میں بڑی آنت کا معائنہ کرنے کے لیے مقعد کے ذریعے ایک آلہ داخل کیا جاتا ہے۔


درج ذیل صورتوں میں کالونوسکوپی کی جاتی ہے۔ جیسے 

1:اگر کسی پیٹ کے مریض کا وزن کم ہو رہا ہو

2: کسی مریض کو لمبے عرصے سے پیٹ درد اور موشن کا مسلئہ ہو

3: اگر مریض کو خون کے پاخانے آتے ہوں،

4: اگر کسی مریض کو IBD جیسی آنتوں کی بیماری ہو

5:اگر کسی مریض کو colon polyps اور colon cancer کا خطرا ہو


بہرحال اینڈوسکوپی کا حتمی فیصلہ تو گیسٹرو کا ڈاکٹر کرے گا، باقی ہر مریض کو اپنے ڈاکٹر پر بھروسہ کرنا چاہیے اور ڈاکٹر کے مشورے پر عمل کرنا چاہیے۔ شکریہ 


Regards Dr Akhtar Malik

Monday, November 18, 2024

Space life

 ہم پاکستانی اور انڈین سنیتا ولیمز کی صحت کی خرابی کا بہت سنتے ہیں۔ اور یہ بھی سوچتے ہیں کہ ان کا وہاں علاج کیسے ہوتا ہوگا۔ بی بی سی کی اس پوسٹ میں یہی بتایا گیا ہے کہ اگر کوئی خلا میں بیمار ہو جائے تو اس کا علاج کیسے ہو گا، کیا وہاں کوئی ڈاکٹر ہے؟ اور وہاں ایک روبوٹ بھی بطور سرجن تعینات کیے جانے کے امکان ہیں۔ 

دو امریکی خلا باز سُنیتا ولیمز اور بیری ولمور آٹھ دن کے لیے خلا میں گئے لیکن تکنیکی خرابی کی وجہ سے انھیں وہاں آٹھ ماہ تک رہنا پڑ رہا ہے۔


بوئنگ سٹار لائنر کے ساتھ تکنیکی مسائل کے بعد امریکی خلائی ادارہ ناسا انھیں اب سپیس ایکس کے خلائی جہاز ڈریگن سے زمین پر واپس لانے کا ارادہ رکھتا ہے۔ سپیس ایکس ڈریگن خلائی جہاز پہلے بھی خلا میں جا چکا ہے۔


تاہم میڈیا رپورٹس کے مطابق انڈین نژاد خلاباز سُنیتا ولیمز جو اس وقت بین الاقوامی خلائی سٹیشن پر قیام پزیر ہیں ان کا وزن کم ہو رہا ہے اور وہ بیمار ہو رہی ہیں۔


رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ حال ہی میں جاری ہونے والی تصاویر میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ان کا وزن کافی کم ہو چکا ہے۔

تاہم ناسا کے حکام نے ای میل کے ذریعے بتایا ہے کہ خلائی سٹیشن پر موجود خلابازوں کا ان کے تفویض کردہ فلائٹ سرجن باقاعدگی سے معائنہ کرتے ہیں اور ان کی صحت اچھی ہے۔


لیکن یہاں ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر کوئی ایسی ہنگامی صورت حال پیش آ جائے جس میں فوری طبی امداد کی ضرورت ہو تو خلابازوں کا علاج کون کرے گا؟ کیا وہاں ڈاکٹر ہوں گے؟ انھیں کس قسم کی طبی سہولیات میسر ہیں؟

اگر خلاباز کی طبیعت اچانک خراب ہو جائے تو ان کا علاج کیسے ہوتا ہے؟

پچھلے کچھ عرصے سے امریکی خلائی ادارہ ناسا انسانوں کو بین الاقوامی خلائی سٹیشن بھیج رہا ہے تاکہ وہاں رہنے کے امکانات کو جانچا جا سکے اور تحقیق کی جا سکے۔


خلا میں خلابازوں کی مدد کرنا خاصا مشکل کام ہے۔ خاص طور پر جب ان کی صحت بگڑ جاتی ہے۔


امریکی ایرو سپیس اور دفاعی کمپنی نارتھروپ گرومین کارپوریشن نے اپنے ایک مضمون میں بتایا ہے کہ کس طرح خلا میں خلابازوں کو فوری طبی سہولیات کی ضرورت پڑتی ہے اور انھیں یہ کس طرح فراہم کی جا سکتی ہیں۔


خلابازوں کی صحت کی نگرانی کے لیے ناسا وقتاً فوقتاً ٹیلی میڈیسن سسٹم کی پیروی کرتا ہے جس سے مرض کا علاج ہوتا ہے۔ لیکن در اصل خلاباز ہی اس کا اہم حصہ ہوتے ہیں۔

خلابازوں کو خلا میں بھیجنے سے پہلے انھیں خلائی سٹیشن پر استعمال ہونے والے تمام طبی آلات کی ضروری تربیت دی جاتی ہے اور انھیں استعمال کرنے کا طریقہ بھی سکھایا جاتا ہے۔

عملے کو 40 گھنٹے تک کی ٹریننگ دی جاتی ہے۔

ایک تربیت یافتہ شخص کسی بھی طبی ہنگامی صورتحال کو سنبھال سکتا ہے۔ تربیت یافتہ فرد سر درد، کمر درد، جلد کے مسائل، جلد کی جلن، دانتوں کے مسائل وغیرہ کا علاج کر سکتا ہے لیکن اگر صحت کے سنگین مسائل پیدا ہوں تو کیا ہو گا؟


بی بی سی کی ہیلتھ رپورٹر فلیپا روکسبی کی سنہ 2016 کی رپورٹ کے مطابق بین الاقوامی خلائی سٹیشن کے پاس صرف ایک بنیادی طبی کٹ ہے۔ اس میں ایک فرسٹ ایڈ کٹ، صحت کی صورتحال پر ایک کتاب، ایک ڈی فبریلیٹر (ایک برقی چارج والا آلہ جو دل کی دھڑکن کو معمول پر لاتا ہے) شامل ہے۔ دیگر اشیا میں پورٹیبل الٹراساؤنڈ، آنکھوں کی جانچ کا آلہ وغیرہ شامل ہیں۔


یہ الٹراساؤنڈ مشین خلابازوں کے جسم کے اندر موجود چیزوں کی واضح تصاویر فراہم کر سکتی ہے تاہم الٹراساؤنڈ کے ذریعے لی گئی تصاویر زمین پر موجود طبی ٹیم کو بھیجی جاتی ہیں۔

زمین سے نگرانی

خلا باز کے ساتھ مسئلہ کیا ہے اور ان کا علاج کیا اور کیسے کیا جائے، اس کا تعین زمین پر موجود طبی ٹیم کرتی ہے۔


ناسا زمین سے خلابازوں کی صحت کی نگرانی کرتا ہے۔ ان کے پاس فلائٹ سرجن بھی ہیں۔


زمین پر رہتے ہوئے خلابازوں کی نگرانی ایرو سپیس میڈیسن کے ماہرین کرتے ہیں۔


ان کی جسمانی ورزش اور طبی تربیت کو یہ ماہرین مہینوں تک مانیٹر کرتے ہیں۔


اس دوران وہ خلابازوں کے ساتھ اچھے تعلقات استوار کر لیتے ہیں۔ خلا میں جاتے وقت ان کی صحت کی جانچ کرنا بہت ضروری ہوتا ہے۔


خلابازوں کی ہر ہفتے فلائٹ سرجن کے ساتھ ذاتی طبی کانفرنسں بھی ہوتی ہے۔ وہ زمین پر ایک کنٹرول سینٹر سے خلابازوں کی مسلسل نگرانی کرتے ہیں۔


اس کے علاوہ، ناسا خلابازوں کے بائیو میٹرک ڈیٹا اور الٹراساؤنڈ کے نتائج بھی جمع کرتا ہے۔ یہ مشینوں کے دوران خلابازوں کی صحت کا تجزیہ کرنے میں بہت مددگار ہے۔


ہیلن شرمین ایک برطانوی خلاباز تھیں۔ سنہ 1991 میں انھوں نے سوویت خلائی سٹیشن پر آٹھ دن گزارے۔


ان کا کہنا ہے کہ: ’جو لوگ طویل عرصے تک خلائی سٹیشن پر رہتے ہیں انھیں دن میں دو گھنٹے ورزش کرنی چاہیے۔ صفر کشش ثقل میں رہنے سے ہڈیوں کی کمزوری کو روکنے کے لیے تین مختلف مشینیں انھیں ورزش کرنے میں مدد کرتی ہیں۔‘


’ورزش کے آلے (اے آر ای ڈی) کو پٹھوں کو مضبوط کرنے کی مشقوں کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ خلائی سٹیشنوں پر رہنے والے ٹریڈمل بھی استعمال کرتے ہیں۔ جس کی پٹی کو سخت رکھا جاتا ہے تاکہ یہ خلا میں اِدھر اُدھر نہ ہو۔ ایک سائیکل ایرگومیٹر بھی استعمال کی جاتی ہے۔‘


خلائی امراض کی ماہر ڈاکٹر ورشا جین نے ناسا کے ساتھ خلا میں خواتین کی صحت پر کام کیا ہے۔


اس سے قبل انھوں نے بی بی سی کو بتایا تھا کہ خلا میں خواتین کے بیمار ہونے کا امکان مردوں کے مقابلے میں زیادہ ہوتا ہے۔ تاہم زمین پر واپس آنے کے بعد مردوں کے بیمار ہونے کا زیادہ امکان ہوتا ہے۔

روبوٹک سرجری

عملے میں ایک قابل ڈاکٹر کا ہونا ضروری ہے جو زمین سے ہزاروں میل دور طبی ہنگامی صورت حال میں مدد کر سکے۔


لیکن اگر خلا میں اچانک سرجری کی ضرورت پڑ جائے تو کیا ہو گا؟ کیا یہ ممکن ہے؟


اس کے لیے ناسا روبوٹ کو خلائی سرجن میں تبدیل کر رہا ہے، جسے زمین سے چلایا جا سکے گا اور طبی خدمات فراہم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔


ایک چھوٹے سرجیکل روبوٹ نے رواں سال فروری میں صفر کشش ثقل میں سرجری کا پہلا ڈیمو مکمل کیا۔ اس روبوٹ کا نام سپیس میرا ہے۔


ناسا کی جانب سے اٹھایا گیا یہ اہم قدم نہ صرف انسانوں کو طویل عرصے تک خلا میں کامیابی کے ساتھ سفر کرنے کے قابل بنائے گا بلکہ وہاں بغیر کسی پریشانی کے سرجیکل ایمرجنسی آپریشن بھی کیے جا سکیں گے۔


توقع ہے کہ اسے دور دراز کے علاقوں میں استعمال کیا جا سکے گا جہاں زمین پر بھی طبی خدمات دستیاب نہیں ہیں۔


خلا میں خلابازوں کی ہڈیوں کو نقصان کا خطرہ رہتا ہے۔


ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ مائیکرو گریویٹی میں طویل عرصے تک رہنے کی وجہ سے ان کی ہڈیوں کے سخت ہونے کا خطرہ ہوتا ہے۔


ہڈیوں اور پٹھوں میں کمزوری

خلا میں کشش ثقل کی کمی پٹھوں اور ہڈیوں کی کثافت کو کم کرتی ہے۔ خلا میں ہڈیوں کا کوئی وزن نہیں ہوتا۔ چونکہ ان پر زمین جیسا دباؤ نہیں ہوتا اس لیے ان کی کثافت کم ہو جاتی ہے۔ ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ اس کی وجہ سے ہڈیاں نازک ہوجاتی ہیں اور ان کے ٹوٹنے کا خطرہ ہوتا ہے۔


کشش ثقل کے بغیر عضلات تیزی سے کمزور ہو جاتے ہیں۔ زمین کے مقابلے میں خلا میں ہڈیوں سے کیلشیم جیسے معدنیات تیزی سے کم ہو جاتے ہیں جس سے ہڈیوں کی کثافت اور پٹھوں کی طاقت کم ہوتی جاتی ہے۔


انڈیا کے شہر حیدرآباد کے یشودا ہسپتال کے سینیئر آرتھوپیڈک اور جوائنٹ ریپلیسمنٹ سرجن ڈاکٹر آر اے پورن چندر تیجاشوی نے بی بی سی کو بتایا تھا: ہمارے جسم میں خلیے اور عضلات کشش ثقل کی وجہ سے مسلسل ری سائیکل ہو رہے ہوتے ہیں۔ اگر یہ چھ ماہ سے زیادہ کشش ثقل کے اندر نہ رہیں تو ہڈیاں اور پٹھے کمزور ہو جاتے ہیں اور ہڈیوں کی کثافت 25-30 فیصد اور پٹھوں کی کثافت 50 فیصد تک کم ہو جاتی ہے۔


انھوں نے مزید کہا کہ اس کی وجہ سے خلابازوں کے لیے کچھ سرگرمیاں کرنا مشکل ہو سکتا ہے جیسے کہ لینڈنگ کے بعد ماڈیول سے باہر نکلنا۔ اس اثر کو کم کرنے کے لیے وہ باقاعدگی سے ورزش کرتے ہیں اور اپنے پٹھوں اور ہڈیوں کو مضبوط رکھتے ہیں۔


ڈاکٹر تیجسوی نے کہا تھا کہ اگر خلاباز چھ ماہ سے زیادہ خلا میں رہتے ہیں تو زمین پر واپس آنے پر ان کی ہڈیوں کے ٹوٹنے کا خطرہ ہوتا ہے۔ ان کی ہڈیوں کی کثافت کم ہونے سے کمر درد جیسے مسائل پیدا ہو سکتے ہیں۔ اس سے نمٹنے اور ہڈیوں کی مضبوطی کے لیے انھیں تین ماہ تک سپلیمنٹس دیے جاتے ہیں۔

Copied with thanks 

مقام ابرہیم



 سن 1954 میں، بادشاہ سعود نے علماء سعودی عرب کے

 اکثریت کی ایک فتویٰ کی بنیاد پر حضرت ابراہیم علیہ السلام کے مقام کو منتقل کرنے کا فیصلہ کیا تاکہ طواف کے راستے کو کشادہ کیا جا سکے جو کہ طواف کرنے والوں کے لیے تنگ ہو چکا تھا اور بھیڑ ایک مسئلہ بن گیا تھا۔


اس وقت، شیخ الشعراوی رحمہ اللہ، مکہ مکرمہ میں کلیۃ الشریعہ کے استاد تھے اور الازہر کی اس وفد کا حصہ تھے جو سعودی عرب بھیجی گئی تھی۔ اتفاقاً شیخ کو اس فیصلے کا علم ہوا جسے انہوں نے شریعت کے خلاف سمجھا، تو انہوں نے وفد کے کچھ اراکین سے مداخلت کرنے کا مشورہ دیا لیکن انہوں نے انکار کر دیا، یہ کہتے ہوئے کہ معاملہ اب ختم ہو چکا ہے، نئی عمارت پہلے ہی بن چکی ہے، اور مقام کی منتقلی میں صرف چار دن باقی ہیں۔ اور یہ کہ اس معاملے میں مداخلت کو ان کے داخلی معاملات میں دخل اندازی سمجھا جائے گا، اور یہ ہمارے لیے مسائل پیدا کر سکتا ہے۔


تاہم، شیخ نے اس پر اکتفا نہ کیا اور کچھ سعودی علماء، خصوصاً شیخ ابراہیم النوری اور اسحاق عزوز سے رابطہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ انہوں نے کوشش کی تھی لیکن اب یہ معاملہ ختم ہو چکا ہے، لہٰذا شیخ نے فیصلہ کیا کہ وہ خود اس کام کو کریں گے۔


شیخ الشعراوی نے بادشاہ سعود کو پانچ صفحات پر مشتمل ایک تار بھیجی، جس پر ان کی ساری تنخواہ خرچ ہو گئی۔ اس میں انہوں نے اس مسئلے کو تاریخی اور فقہی لحاظ سے پیش کیا اور کہا کہ یہ شریعت کے خلاف ہے۔ جو لوگ یہ دلیل دیتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مقام کو منتقل کیا تھا، وہ غلط ہیں کیونکہ رسول اللہ ایک قانون ساز ہیں اور یہ دلیل مقام کو رسول اللہ کے رکھے ہوئے مقام سے ہٹانے کے لیے کافی نہیں۔


نیز حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے بھی اس وقت ایسا نہیں کیا جب مشہور طوفان "ام نشهل" کے نام سے جانا جاتا ہے، مقام کو اپنی جگہ سے ہٹا کر دور لے گیا تھا۔ جب عمر کو اس کی خبر ہوئی، تو وہ مدینہ سے گھبرا کر آئے اور صحابہ کو جمع کیا اور کہا: "میں تمہیں اللہ کا واسطہ دے کر کہتا ہوں، تم میں سے کون جانتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں مقام کہاں تھا؟"


ایک شخص نے جواب دیا: "اے عمر! میں نے اس واقعہ کے لیے پہلے سے تیاری کی تھی اور مقام کی جگہ کو آس پاس کی چیزوں کے حساب سے ناپا تھا اور اس کے لیے رسّی کا استعمال کیا تھا، اور یہ رسّی ابھی موجود ہے جس میں ایک گرہ مقام کی صحیح جگہ کی نشاندہی کرتی ہے۔"


عمر رضی اللہ عنہ نے اس شخص کی بات کو فوراً تسلیم نہ کیا اور اس شخص کو اپنے پاس بٹھا کر کسی کو رسّی لانے بھیجا تاکہ اس کی بات کی تصدیق کر سکیں۔ رسّی لائی گئی اور اس کی بات کی تصدیق ہو گئی، اور مقام کو اپنی جگہ پر رکھا گیا۔


شیخ الشعراوی کا تار بادشاہ سعود تک پہنچا تو انہوں نے علماء کو جمع کر کے ان کے سامنے پیش کیا اور ان سے کہا کہ اس پر غور کر کے اپنی رائے اگلے دن تک بتائیں، یعنی مقام کی منتقلی سے 24 گھنٹے قبل۔


سعودی علماء نے تار میں دی گئی باتوں کی تائید کی اور کہا کہ یہ دلائل مضبوط ہیں۔ بادشاہ سعود نے ان کی رائے پر عمل کرتے ہوئے مقام کی منتقلی کو روکنے کا حکم جاری کیا اور اس نئی عمارت کو گرانے کا حکم دیا جس میں مقام منتقل کیا جانا تھا۔


اس کے علاوہ، شیخ الشعراوی کی طرف سے دی گئی تجاویز پر غور کرنے کا حکم دیا کہ طواف کی جگہ کو بغیر مقام کو چھیڑے کس طرح وسیع کیا جا سکتا ہے۔ شیخ نے کہا کہ مقام کی جگہ کو بڑا عمارت کا حصہ تنگ بناتا ہے۔ اس جگہ کو ہٹا کر مقام کو صرف ایک شفاف اور غیر ٹوٹنے والے شیشے کی گنبد میں رکھا جا سکتا ہے، جس سے مقام کو محفوظ رکھا جائے اور آیت "فيه آيات بينات مقام إبراهيم" کی حقانیت برقرار رکھی جا سکے۔ اس طرح لوگوں کی نظروں سے مقام کو چھپانے کی بجائے ظاہر رکھا جا سکتا ہے۔


بادشاہ نے شیخ کے مشورے پر عمل کیا۔


Copied 

Monday, November 4, 2024

T (Omeprazole)کے فائدے اور نقصانات؟


اومیپرازول معدے کے مسائل میں استمعال کی جانے والی ایک عام میڈیسن ہے، اور یہ تیزابیت کو کم کرتی ہیں۔

یہ PPI یعنی proton pump inhibitors والی میڈیسن کی کیٹیگری میں آتی ہے، اور بھی بہت قسم کی PPI والی میڈیسن مارکیٹ میں ہوتی ہیں ، جیسے کہ

Dexlansoprazole , Esomeprazole ,Lansoprazole

Pantoprazole , Rabeprazole

ان سب میڈیسن کو بہت سے کمپنیاں مختلف نام سے بناتی ہیں ، PPI یا اومیپرازول نامی میڈیسن ہمارے جسم میں جا کے hydrogen-potassium ATPase نامی pump کو irreversibly بلاک کرتی ہے ، جس کی وجہ سے تقریباً 70 پرسنٹ تیزاب (HCl) کو کم کرتی ہے ،اور مریض کو ڈکار بدہضمی ، معدے میں درد جیسی علامتوں سے فائدا ملتا ہے۔


👈؛ PPI یا اومیپرازول نامی میڈیسن کا استعمال

اس کا استعمال معدے کی بہت سی بیماریوں میں کیا جاتا ہے ، جیسے کہ

1:ایسڈ ریفلیکس اور GERD میں

۔GERD بھی ایک عام دائمی مسلئہ ہے جو اس وقت ہوتا ہے جب معدے کے تیزابی مواد غذائی نالی میں داخل ہوتے ہیں جس کی وجہ سے مریض کو سینے میں جلن,درد، چبھن، کھٹے ڈکار اور ریگریٹیشن جیسی علامات پیدا ہوتی ہیں۔

2: معدے میں ورم یا سوجن کا ہونا (Gastritis)

3:ایچ پیلوری انفیکشن میں بھی اس کو دوسری میڈیسن کے ساتھ استعمال کیا جاتا ہے۔

4: پیپٹک السر یعنی معدا، خوراک کی نالی اور چھوٹی آنت کے السر میں بھی اس کو استعمال کیا جاتا ہے

5:اور اس کو zollinger-ellison syndrome میں بھی اس کو استعمال کیا جاتا ہے۔

6: مزید اومیپرازول نامی میڈیسن کو درد کم کرنے والی میڈیسن جیسے ڈکلوفینک اور سٹیرائڈز کے ساتھ اس کو استعمال کیا جاتا ہے تا کہ مریض کو معدے کے السر سے بچایا جا سکے، 

اور اس کو ڈیپریشن ، سٹریس کے مریضوں میں بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔ جیسے کہ فنکشنل ڈسپیپسیا کے مسئلے میں،

اور کچھ ڈاکٹرز اومیپرازول کو کسی انفیکشنز کی صورت میں اینٹی بائیوٹک کے ساتھ اومیپرازول کو دے دیتے ہیں تا کہ مریض کو معدے والے سائیڈ ایفیکٹ سے بچایا جا سکے۔


👈 اومیپرازول نامی میڈیسن کے سائیڈ ایفیکٹ یا نقصانات 

ڈاکٹر کے مشورے سے کچھ دن یا ہفتے اس کو استعمال کرنے سے کوئی سیریس سائیڈ ایفیکٹ نہیں ہوتے ، لیکن اس کو مہنوں یا سالوں استعمال کرنے سے سیریس سائیڈ ایفیکٹ ہو سکتے ہیں۔

عام سائیڈ ایفیکٹ : جیسے موشن ، گیس، سر درد، قبض، تھکاوٹ اور الرجی ہو سکتی ہے، 

کچھ لوگوں میں اس کے سنجیدہ سائیڈ ایفیکٹ ہو سکتے ہیں جو سالوں اومیپرازول نامی میڈیسن استعمال کرتے ہیں۔

جیسے کہ وٹامن بی 12 کی کمی ، آئرن ، کیلشیم اور میگنیشم کی کمی ،نمونیا ، آنتوں کے انفیکشنز ، مردانہ ہارمونز کی کمی , گردوں اور جگر کا مسلئہ ہو سکتا ہے،

(نوٹ:یہ سائیڈ ایفیکٹ ہزاروں میں کچھ افراد کو ہوتے ہیں)


Regards Dr Akhtar Malik

Saturday, October 26, 2024

Peg سور کی تاریخ

 

*ہر مسلمان کے لئے یہ پڑھنا بہت ضروری ہے


*یورپ سمیت تقریبا تمام امریکی ممالک میں گوشت کے لئے بنیادی انتخاب سور ہے۔ اس جانور کو پالنے کے لئے ان ممالک میں بہت سے فارم ہیں۔ صرف فرانس میں ، پگ فارمز کا حصہ 42،000 سے زیادہ ہے*۔

*کسی بھی جانور کے مقابلے میں سور میں زیادہ مقدار میں FAT ہوتی ہے۔ لیکن یورپی و امریکی اس مہلک چربی سے بچنے کی کوشش کرتے ہیں۔*

*اس چربی کو ٹھکانے لگانا ان ممالک کے محکمہ خوراک کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ اس چربی کو ختم کرنا محکمہ خوراک کا بہت بڑا سردرد تھا۔*

*اسے ختم کرنے کے لیئے باضابطہ طور پر اسے جلایا گیا، لگ بھگ 60 سال بعد انہوں نے پھر اس کے استعمال کے بارے میں سوچا تاکہ پیسے بھی کمائے جا سکیں۔ صابن بنانے میں اس کا تجربہ کامیاب رہا۔*

*شروع میں سور کی چربی سے بنی مصنوعات پر contents کی تفصیل میں pig fat واضح طور پر لیبل پر درج کیا جاتا تھا۔*

*چونکہ ان کی مصنوعات کے بڑے خرہدار مسلمان ممالک ہیں اور ان ممالک کی طرف سے ان مصنوعات پر پابندی عائد کر دی گئی، جس سے ان کو تجارتی خسارہ ہوا۔ 1857 میں اس وقت رائفل کی یورپ میں بنی گولیوں کو برصغیر میں سمندر کے راستے پہنچایا گیا۔ سمندر کی نمی کی وجہ سے اس میں موجود گن پاؤڈر خراب ہوگیا اور گولیاں ضایع ہو گئیں۔*

*اس کے بعد وہ سور کی چربی کی پرت گولیاں پر لگانے لگے۔ گولیوں کو استعمال کرنے سے پہلے دانتوں سے اس چربی کی پرت کو نوچنا پڑتا تھا۔ جب یہ بات پھیل گئی کہ ان گولیوں میں سور کی چربی کا استعمال ہوا ہے تو فوجیوں نے جن میں زیادہ تر مسلمان اور کچھ سبزی خور ہندو تھے نے لڑنے سے انکار کردیا ، جو آخر کار خانہ جنگی کا باعث بنا۔ یورپی باشندوں نے ان *حقائق کو پہچان لیا اور PIG FAT لکھنے کے بجائےانہوں نے FIM لکھنا شروع کر دیا*

P

*1970کے بعد سے یورپ میں رہنے والے تمام لوگ حقیقت کو جانتے ہیں کہ جب ان کمپنیوں سے مسلمان ممالک نے پوچھا کہ یہ کیا ان اشیا کی تیاری میں جانوروں کی چربی استعمال کی گئی ھے اور اگر ھے تو کون سی ہے...؟* *تو انہیں بتایا گیا کہ ان میں گائے اور بھیڑ کی چربی ہے۔ یہاں پھر ایک اور سوال اٹھایا گیا ، کہ اگر یہ گائے یا بھیڑ کی چربی ہے تو پھر بھی یہ مسلمانوں کے لئے حرام ہے، کیونکہ ان جانوروں کو اسلامی حلال طریقے سے ذبح نہیں کیا گیا تھا۔*

*اس طرح ان پر دوبارہ پابندی عائد کردی گئی۔ اب ان کثیر القومی کمپنیوں کو ایک بار پھر کا نقصان کاسامنا کرنا پڑا۔۔۔!*

*آخر کار انہوں نے کوڈڈ زبان استعمال کرنے کا فیصلہ کیا ، تاکہ صرف ان کے اپنےمحکمہ فوڈ کی ایڈمنسٹریشن کو ہی پتہ چل سکے کہ وہ کیا* *استعمال کر رہے ہیں اور عام آدمی اندھیرے میں ہی رہے۔ اس طرح انہوں نے ای کوڈز کا آغاز کیا۔ یوں اجکل یہ E-INGREDIENTS کی شکل میں کثیر القومی کمپنیوں کی مصنوعات پر لیبل کے اوپر لکھی جاتی ہیں*، 


*ان مصنوعات میں*

*دانتوں کی پیسٹ، ببل گم، چاکلیٹ، ہر قسم کی سوئٹس ، بسکٹ،کارن فلاکس،ٹافیاں*

*کینڈیڈ فوڈز ملٹی وٹامنز اور بہت سی ادویات شامل ہیں* *چونکہ یہ سارا سامان تمام مسلمان ممالک میں اندھا دھند استعمال کیا جارہا ہے۔*

 *سور کے اجزاء کے استعمال سے ہمارے معاشرے میں بے شرمی، بے رحمی اور جنسی استحصال کے رحجان میں بے پناہ اضافہ دیکھنے کو مل رہا ھے۔*

*لہذا تمام مسلمانوں اور سور کے گوشت سے اجتناب کرنے والوں سے درخواست ھے کہ وہ روزانہ استعمال ہونے والے ITEMS کی خریداری کرتے وقت ان کے content کی* *فہرست کو لازمی چیک کرلیا کریں اور ای کوڈز کی مندرجہ ذیل فہرست کے ساتھ ملائیں۔ اگر نیچے دیئے گئے اجزاء میں سے کوئی بھی پایا جاتا ہو تو پھر اس سے یقینی طور پر بچیں،* *کیونکہ اس میں سور کی چربی کسی نہ کسی حالت میں شامل ہے۔*

 *E100 ، E110 ، E120 ، E140 ، E141 ، E153 ، E210 ، E213 ، E214 ، E216 ، E234 ، E252 ، E270 ، E280 ، E325 ، E326 ، E 327 ، E334 ، E335 ، E336 ، E337 ، E422 ، E41 ، E431 ، E432 ، E433 ، E434 ، E435 ، E436 ، E440 ، E470 ، E471 ، E472 ، E473 ، E474 ، E475 ، E476 ، E477 ، E478 ، E481 ، E482 ، E483 ، E491 ، E492 ، E493 ، E494 ، E549 ، E542 E572 ، E621 ، E631 ، E635 ، E904*


*ڈاکٹر ایم امجد خان*

*میڈیکل ریسرچ انسٹیٹیوٹ ، ریاستہائے متحدہ

Thursday, October 24, 2024

منی Semin کیا ہے۔۔۔۔؟؟؟

 

بلوغت کے بعد خصیئوں میں مسلسل بننے والی رطوبت کو منی یا سیمن کہا جاتا ہے۔ یہ پیدا ہوکر سیمینل ویسلز seminal vessels میں جمع ہوتی رہتی ہے اور بوقت انزال خارج ہوجاتی ہے۔ 

یہ ایک سفیدی مائل گاڑھی رطوبت ہے اس کی مخصوص بو ہوتی ہے جسے seminal odour کہتے ہیں۔ یہ رطوبت ہلکی الکلائین ہوتی ہے۔ اس رطوبت کے دو حصے ہوتے ہیں۔ 

اول سیال مواد۔ liqour seminalis یہ انڈے کی سفیدی کی طرح شفاف ہوتی ہے۔ 

دوئم۔ دانے دار مواد۔ granules seminal  یہ چھوٹے چھوٹے دانے نما ذرات ہوتے ہیں۔ ان کے اندر کرم منی پائے جاتے ہیں۔

انزال کے وقت ایک تندرست مرد کی منی دو سے پانچ ملی لیٹر ہوتی ہے۔ مادہ تولید میں۔ درجہ ذیل اجزاء پائے جاتے ہیں۔ 

1۔  سیرم

2۔  البیومن

3۔ گلیسیتھن

4۔  کولیسٹرین

5۔  البیومی نینیٹ

6۔  روغنی اجزاء۔ 


مادہ تولید میں سب سے اہم جزو حونیات منی sperms ہے۔ 


منی کی اقسام۔۔۔۔۔

مباشرت کے دوران خارج ہونے والی رطوبت کو چار اقسام میں تقسیم کیا گیا ہے۔ 


1۔  ناقص منی۔

اس میں گاڑھا پن اور حونیات منی کم ہوتے ہیں۔ ایسی منی کپڑے پر خشک ہونے کے بعد اکڑاو پیدا نہیں کرتی۔ 


2۔  خون آمیز منی۔

اس منی میں ہلکی سرخی پائی جاتی ہے۔ منی میں خون شامل ہونے کی وجہ احتلام۔ جلن۔ اغلام بازی۔ اور کثرت مباشرت کی وجہ سے متعلقہ اعضاء اور نالیوں کی سوزش و ورم ہونا ہے۔ کثرت مباشرت سے منی کی تھیلی منی سے خالی ہوجاتی ہے۔ اور خصیئوں کو منی تیار کرنے کا وقت نہیں ملتا تو منی کے ساتھ خون خارج ہونے لگتا ہے۔ 

3۔  بیکار منی۔ 

یہ منی پتلی۔ پانی جیسی اور کپڑے پر فورا خشک ہوجاتی پے۔ اس منی میں پس سیلز بھی پائے جاتے ہیں۔ 


بہترین منی۔ 

یہ منی کی وہ قسم ہے جو ایک تندرست انسان کے عضو سے خارج ہوتی ہے۔ ایسی منی کپڑے پر دیر سے خشک ہوتی ہے۔ اور گاڑھی ہوتی ہے۔ یہ کپڑے کو اکڑا دیتی ہے۔ 


چند غلط فہمیوں کا ازالہ


عموما نوجوان منی سے متعلق کچھ مغالطوں کا شکار رہتے ہیں۔ ذیل میں چند عام غلط فہمیاں اور ان کی حقیقت پیش کی جاتی ہے۔ 


1۔  ایک صحت مند مرد کا مادہ تولید کپڑے پر گرنے کے بعد دیر سے خشک ہوتا ہے اور کپڑے میں سختی پیدا کرتا ہے۔ 


2۔  اخراج منی کی مقدار اور گاڑھے پن کا عضو تناسل کی ایستادگی پر قطعا کوئی اثر نہیں ہوتا۔ 


3۔  عموما لوگوں کو مغالطہ ہے کہ منی کا ایک قطرہ خون کے ستر یا سو قطروں کے برابر ہوتا ہے۔ یہ قیاس بےبنیاد ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ منی کی قدر و قیمت اتنی ہی ہے جتنی کہ لعاب دہن کی۔ دونوں کا بدل فوری طور پر پیدا ہوجاتا ہے۔ 


4۔  کچھ لوگ کہتے ہیں کہ جماع کے بعد عورت کے اندر منی ٹھہرتی نہیں اور خارج ہوجاتی ہے جبکہ جماع کے بعد عضو تناسل کو باہر نکالا جائے تو فرج vegina کی اگلی پچھلی دیواریں ملنے سے منی کی کچھ مقدار فرج سے باہر نکل آتی ہے لیکن فرج کے بالائی حصے میں پہنچی ہوئی منی اندر ہی چپک جاتی ہے۔


5۔  پروسٹیٹ گلینڈ کے آپریشن کے بعد کچھ لوگ خیال کرتے ہیں کہ جماع کے بعد منی مثانے میں چلی جاتی ہے۔ ایسے مریضوں میں یہ کیفیت retrograde ejaculation کہلاتی ہے۔ جو کہ عموما آپریشن کے بعد پیدا ہوتی ہے۔ دراصل آپریشن کے دوران پیشاب کی نالی کے پچھلے حصے کا اندرونی عضلہ internal sphincter مجروح ہوجاتا ہے۔ جس کی وجہ سے منی کی تھیلیوں سے آنے والی اخراجی نالیوں کا رخ پیشاب کی نالی کے بیرونی سوراخ کی سمت ہونے کے بجائے مثانے کی طرف ہوجاتا ہے۔ ایسی صورت میں جنسی تعلق برقرار رکھنے سے خارج شدہ منی مثانے سے پیشاب کرتے وقت باہر خارج ہوجاتی ہے۔ 


کرم منی۔۔۔ Spermmatozoa


کرم منی یا سپرم 0.05cm لمبا ہوتا ہے۔ یہ تولیدی خلیات منی کے اندر پائے جاتے ہیں۔ اور منی کا دانے دار حصہ ہوتے ہیں۔ یہ خصیئوں میں پیدا ہوتے ہیں۔ اس نطفے یا کرم کی شکل مینڈک کے لاروا سے بہت ملتی ہے۔ یہ نطفے اس قدر چھوٹے ہوتے ہیں کہ اگر 500 ملین سپرمز کو ایک قطار میں سر اور دم ملا کر کھڑا کردیا جائے تو صرف ایک انچ لمبی لکیر بنتی ہے۔ یہ بلوغت کی عمر سے بننا شروع ہوتے ہیں۔ اور مرتے دم تک بنتے رہتے ہیں۔ سپرم فیرس ٹیوبلز میں پیدا ہوتے ہیں ان کے پیدا ہونے کا عمل follicle stimulating harmone اور testosterone کے زیر اثر تکمیل پاتا ہے۔ سپرم جب تیار ہوجاتے ہیں۔ تو انزال کی صورت خارج ہوجاتے ہیں۔ اگر سپرم خارج نہ ہوں تو دوبارہ ری جنریٹ ہوکر جسم میں تونائی کا باعث بنتے ہیں۔ مرد کے مباشرت کرنے سے یہ بڑی تعداد میں خارج ہوجاتے ہیں ایک وقت کے انزال میں ان کی تعداد دو سے پانچ سو ملین ہوتی ہے۔

 ہر سپرم کے تین حصے ہوتے ہیں۔ 

1۔  سر Head اس کی مدد سے سپرم بیضہ میں داخل ہونے کیلیئے راستہ بناتا ہے۔ اس کا سر نیزے کی شکل کا ہوتا ہے

2۔   جسم۔ body

یہ سپرم کا درمیانی حصہ ہے جو جسم کہلاتا ہے۔ اس حصے سے حاصل کردہ توانائی کی وجہ سے سپرم کی دم حرکت کرتی ہے۔ اور سپرم تیزی سے آگے بڑھتا ہے۔ 

3۔  دم۔ Tail

دم کی حرکت سے سپرم تیرتا ہے اور بیضہ میں چھید کرنے میں کامیاب ہوجاتا ہے۔ 


کرم منی sperm کے افعال۔۔۔۔

1۔   یہ اندام نہانی میں خارج ہونے کے ڈیڑھ منٹ بعد رحم تک پہنچ جاتے ہیں۔ 

2۔   سپرم کی نارمل رفتار دو سے تین ملی میٹر فی منٹ ہوتی ہے۔ 

3۔   یہ عورت کے بیضہ سے مل کر زائیگوٹ بناتے ہیں۔ اور حمل قرار پاتا ہے۔ 

4۔   سپرم کو پختہ ہونے میں تقریبا دس ہفتے لگ جاتے ہیں۔ 

5۔   ہر جرثومہ میں 23 کروموسومز پائے جاتے ہیں مگر صرف ایک جرثومہ بچہ بناتا ہے۔

6۔   ایک خصیئہ 1500 سپرمز فی سیکنڈ پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ ذہنی پریشانی اور ٹینشن کا شکار شخص میں یہ شرح نہایت کم ہوجاتی ہے۔ 

7۔   ایک صحت مند بالغ مرد ایک دن میں تقریبا 500 ملین سپرمز پیدا کرتا ہے۔ 

8۔   سپرمز کی زندگی تقرئبا 72 گھنٹے ہوتی ہے۔ اگر اندام نہانی کا ماحول تیزابی ہوتو اس کی زندگی فقط چھے گھنٹے رہ جاتی ہے۔ 


مرد کے کرم منی sperms کا صحت مند ہونا صحت مند اولاد کی بنیادی شرط ہے۔ اگر مرد تمباکو نوشی شراب نوشی۔ تھکن کا شکار۔ وائرسی امراض میں مبتلاء ہوتو سپرمز نہایت کمزور ہوتے ہیں۔ تحقیق سے یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ قدرتی اور تازہ غذائیں کھانے والے جوڑوں کے ہاں پیدا ہونے والے بچے ذہنی اور جسمانی لحاظ سے تندرست اور توانا پائے گئے ہیں۔ بچے کی پلاننگ کیلیئے یہ بھی ضروری ہے کہ والدین کیفین ملے مشروبات اور ایسی چیزیں نہ کھائیں پیئیں جو جسمانی اور ذہنی طور پر ضرر رسان اثرات کی حامل ہوں۔ خیال رہے کہ کرم منی مرد کی صحت کا آئینہ ہوتا ہے۔ صحت اچھی ہوگی تو کرم منی بھی صحت مند و تندرست ہونگے۔ کیفین ملی اشیاء کا استعمال سپرمز کو کمزور کردیتا ہے۔ 


منی کا لیبارٹری تجزیہ۔۔۔۔

Semen Analysis


سیمن اینالائسز یعنی منی کا لیبارٹری تجزیہ مردانہ بانجھ پن کا پتہ لگانے والا بنیادی ٹیسٹ ہے۔ کسی تشخیص سے پہلے یہ ٹیسٹ کرلینا ضروری ہے۔ اس ٹیسٹ کیلیئے مرد کو ہاتھ کے زریعے اپنا مادہ منویہ نکالنا پڑتا ہے اس مادے کا آدھے گھنٹے کے اندر اندر لیبارٹری ٹیسٹ کرلیا جاتا ہے۔ ایک نوجوان مرد کی منی کے سپرمز کی طبعی مقدار و تعداد ذیل ہوگی۔ ۔۔


منی کی طبعی مقدار Normal values... 


1۔  مقدار volume

اس کی نارمل مقدار 1.5 سے 5 ملی لیٹر تک ہوتی ہے۔ نارمل سے زیادہ یا کم مقدار اثرانداز ہوتی ہے۔ 


2۔   لیس دار viscosity

نارمل منی انڈیلی جائے تو قطرہ قطرہ گرتی ہے۔ زیادہ گاڑھی یا پتلی منی نامل تصور نہیں کی جاتی۔ 


3۔   مائع حالت۔ liquification

تازہ منی دس سے پندرہ منٹ میں مائع حالت میں تبدیل ہوجاتی ہے یا زیادہ سے زیادہ تیس منٹ تک منی کو مائع میں تبدیل ہوجانا چاہیئے۔ 


4۔   مائیکروسکوپک معائنہ Microscopic Exam

اس معائنہ میں سپرم کی تعداد اور حرکت نوٹ کی جاتی ہے۔ جو کہ درج زیل ہے۔

تعداد. Sperm count

نارمل سپرم کی تعداد 60 تا 120 ملین فی ملی لیٹر ہوتی ہے اس سے کم سپرم کی تعداد ہو تو اولیگو سپرمیا oligospermia کہتے ہیں جبکہ سپرم کی تعداد سرے سے موجود ہی نہ ہو تو ایزو سپرمیا azoospermia کہا جاتا ہے


طبعی حرکت.. motality

نارمل حالت میں سپرم کا حرکت کرنا ضروری ہوتا ہے عمومی طور پر 60 تا80 فیصد سپرم حرکت کرنے چاہیے اگر سپرم کی حرکت 60 فیصد سے کم ہو تو یہ صحت مندی کی علامت نہیں ہے


طبعی شکل..  shape

نارمل منی میں 20 تا 30فیصد سے کم سپرم کی شکل نارمل سے مختلف ہوتی ہے اس سے زیادہ مقدار میں نارمل سے مختلف شکلیں بانجھ پن کا باعث ہو سکتی ہیں۔ 


خون کے سفید و سرخ زرات. WBC & RBC.......

نارمل منی میں خون کے سفید و سرخ زرات موجود نہین ہوتے اگر یہ موجود ہوں تو انفیکشن  کی نشانی ہے۔ ایسی صورت میں حسب علامات سوزش و ورم کے لئے ادویہ کا استمعال ضروری ہوتا ہے۔ 


عموما شادی کے ایک دو سال بعد تک حمل نہ ٹھہرے تو میاں بیوی دونوں کے ٹیسٹ کرا لینے چاہیئے  تاکہ کسی کمی کمزوری کے ظاہر ہونے پر فوری علاج کرایا جا سکے اکثر مرد اپنا ٹیسٹ کرانے سے کتراتے ہیں حالانکہ مردانہ ٹیسٹ نہایت آسان ہوتا ہے عمومی طور پر منی کا تجزیہ درج ذیل کفیات مین معاون ثابت ہوتا ہے..

Saturday, October 19, 2024

(Signs of IBS/سنگرہنی کی علامات/پرہیز کیا ہیں؟



آج کے دور میں یہ بھی پیٹ کا  ایک عام مسلئہ بن چکا ہے

آئی بی ایس یعنی (Irritable Bowel Syndrome) ایک دائمی، غیر سوزش اور تکلیف دہ بیماری ہے, جو کسی وجہ سے جیساکہ غیر متوازن غذا،ڈیپریشن، سٹرس، تنائو، انزائٹی، غلط عادات، نیند کی کمی، اور  پیٹ کے انفیکشنز وغیرہ سے ہو سکتی ہے۔ پاکستان میں لاکھوں افراد IBS کے مرض میں مبتلا ہیں۔ آئی بی ایس کو لوگ  سنگرہنی ، گیس یا آپھارا کا مسلئہ بھی کہتے ہیں۔

باقی آی بی ایس کی علامتیں ہر مریض میں کچھ مختلف ہو سکتی ہیں ۔مریض میں آی بی ایس کی علامتیں آتی ہیں پھر چلی جاتی ہیں،کبھی قبض توکبھی لوز موشن،تو کبھی مریض نارمل محسوس کرتا ہے۔ کبھی آی بی ایس کی علامتیں کچھ دن رہتی ہیں تو کبھی مہینوں سالوں چلتی ہیں۔

1:کھانے کے بعد فوری پاخانہ انا 

2: پیٹ میں درد ، مروڑ کا ہونا کبھی کچھ دن کے لیے 

  توکبھی مہینوں تک ،

3:تیزابیت، جلن کا ھونا اور اس کی وجہ سے منہ میں چھالےبھی  پڑ جاتے ہیں، 

4:معدے میں درد ھونا 

5:اپھارہ۔یا پیٹ میں گیس بھرنا

6:متلی ھونا 

7:معدے سکڑتا ھوا محسوس ھونا 

8:الٹی یا قے انا ،بد ہضمی کا ہونا 

9؛دائمی قبض کی صورت میں بواسیر بھی ہو سکتی ہے۔

10: کبھی قبض ھونا تو کبھی موشن ہونا 

11:موشن ۔ڈاٸریا ۔پتلے پاخانے انا 

12:روزنہ تین چار بار یا اس سے زیادہ پاخانہ انا 

13: بھوک نہ لگنا یا کم بھوک لگنا

14:بدبودار اور مختلف رنگوں میں پاخانہ انا 

15:کچھ ٹھوس اور کچھ نرم پاخانہ انا 

16:جل کر پاخانہ ھونا  اور پاخانے میں بلغم کا ہونا 

17:ایسا محسوس کرنا جیسے آنتوں کی حرکت نے آنتوں کو مکمل طور پر خالی نہیں کیا ، مطلب ، ٹوائلٹ کی حاجت ٹوائلٹ سے فارغ ہونے کے بعد بھی رہنا۔

18:بار بار آنتوں کو خالی کرنے کی فوری ضرورت کا سامنا کرنا ۔

19:وزن کا کم ہونا خصوصاً زیادہ موشن کی وجہ سے ،

20: مزید آی بی ایس کے مریضوں میں ڈیپریشن انزائٹی کی علامتیں بھی ہو سکتی ہے ۔ جیسا کہ نیند کا مسلئہ ، ڈر خوف اور گھبراہٹ کا ہونا ، موت کا ڈر لگنا،کسی کام کو کرنے کا دل نہ کرنا، ہر ٹائم کمزوری تھکاوٹ محسوس کرنا۔ منفی سوچ اور خودکشی کے خیالات کا آنا، نفسیاتی مردانہ کمزوری کا ہونا ، چڑچڑاپن وغیرہ وغیرہ 


 ۔IBS کی تشخیص و علاج ؟

آئی بی ایس کی تشخیص کے لیے کوئی عام سپیشل ٹیسٹ نہیں ہوتا , لیکن پھر بھی کچھ ضروری ٹیسٹ کیے جاتے ہیں۔ تا کہ مریض کو کوئی اور بیماری یا مسلئہ تو نہیں 

کیونکہ یہی آئی بی ایس کی علامتیں اور بھی بہت سی بیماریوں میں ہو سکتی ہیں۔ ڈاکٹر عموماً آئی بی ایس کی کلینیکل تشخیص کرتے ہیں۔ 

باقی اٸی بی ایس ایک سینڈروم ہے جو لمبے عرصے  تک رہتا ہے۔اور  اسکی تشخیص کے بعد مریض کو ہر اس چیز سے مکمل پرہیز کرنی چاہیے،جس سے IBS کی علامتوں میں اضافہ ہوتا ہے۔ خصوصاً دودھ سے بنی ہوئی ہر چیز سے، چائے،کافی سے ،تمام بوتلوں سے، میٹھی اشیاء سے، کھٹی اور زیادہ مرچ مسالے والی چیزوں سے پرہیز کرنی چاہیے،اور مزید سٹرس،تنائو کو بھی کم کرنا چاہیے ۔ آئ بی ایس کے کافی مریض تو بس پرہیز سے نارمل زندگی گزار سکتے ہیں، یاد رکھیں اس میں مستقل پرہیز کرنی ہوتی ہے، اور آپ پراپر کسی Dietitian یعنی ماہر غذائیت سے بھی  مدد لے سکتے ہیں، 

جس مریض کو آئی بی ایس کا زیادہ مسلئہ ہو تو پھر اس کو پراپر میڈیکل علاج کےلئے ڈاکٹر سے رجوع کرنا چاہیے۔ اور میڈیسن باقاعدگی سے استعمال کرنا چاہیے۔

باقی  یاد رکھیں, اگر پرہیز نہیں کرو گے تو پھر میڈیسن لینے سے بھی زیادہ فائدا نہیں ہونا۔لہذا پرہیز لازمی کریں, شکریہ 

Regards: DrAkhtar Malik


Tuesday, October 15, 2024

Turbela تربیلا ڈیم کے بارے میں اھم معلومات ۔۔

  

تربیلہ جھیل کی نذر ہونے والی بستیوں پر ایک نظر:*

تحریر و تحقیق :

محمد آصف خان.  

ملک پاکستان کی ترقی میں متاثرین تربیلہ ڈیم کی قربانیوں کو سنہری حروف میں لکھا جائے تو بھی کم ہے، اپنے آباؤ اجداد کی قبروں تک قربانی دینی پڑی اور اپنے آبائی علاقوں کو چھوڑ کر در بدر ہوئے مگر ملک کو روشن اور سر سبز بنایا۔

خیر، تربیلہ ڈیم کی تعمیر کی سکیم پر 1960 کی دہائی میں آغاز ہوا. تربیلہ ڈیم (مٹی سے بنائے گے بند) کی تعمیرات کے آغاز سے پہلے کچھ رہائشیں اور دفاتر بنانے ضروری تھے۔ عین تربیلہ بند سے جڑی بستیاں، دریا کے رائیٹ بنک (مغربی کنارہ) اور لیفٹ بنک (مشرقی کنارہ) کو انخلاء کروایا گیا اور ان کی متبادل رہائش کے لیے ٹاؤن شپ تیار کئے گئے. لیفٹ بنک پر غازی ہملٹ جس میں موضع صوبڑہ، ڈل اور موہٹ کے لیے تین سیکٹر اور رائیٹ بنک پر گلہ ہملٹ نزد ٹوپی برائے موضع کیہارہ، باڑہ، پیہور اور سمبل کے لیے بنائے گئے. 

17 نومبر 1967 کو لینڈ ایکوزیشن ایکٹ کے تحت سیکشن 4 کا نوٹیفکیشن جاری ہوا تو زرعی و سکنی جائیداد کے انتقالات اور خرید و فروخت بند ہو گئے اور زمینوں کے ریٹ اس سے پچھلے پانچ سالہ اوسط کے مطابق لگائے گئے جبکہ زیادہ تر ایوارڈز 71-1970 میں ہوئے اور جولائی 1974 میں جھیل میں پانی بھر گیا تھا تمام لوگوں کو با امر مجبوری انخلاء کرنا حالانکہ متبادل آباد کاری ہونی باقی تھی مگر کیا کرتے پانی چڑھ دوڑا تھا۔

سب سے پہلے تربیلہ ڈیم سکیم کے تحت 1968 میں صوبڑہ گاؤں متاثر ہوا اور اس کے باسیوں کو انخلاء نقل مکانی کرنی پڑی۔ اس کے ساتھ ککڑ چوہاء، گڑھی میرا اور پہرواسہ کے گاؤں جزوی متاثر ہوئے البتہ ان کی آبادیاں بچ گئی تھیں. 

صوبڑہ گاؤں (لیفٹ بنک) کو سب سے پہلے خالی کر کے تربیلہ ڈیم انتظامیہ کے لیے دفاتر، رہائشی کالونیاں، بنک، سیکورٹی، تھانہ، اسپتال، گیسٹ ہاوسز،، گالف گراؤنڈ، کرکٹ سٹیڈیم، آرمی پبلک سکول، سکولز، مساجد اور چرچ وغیرہ تعمیر ہوئے. اس کے علاوہ ریلوے اسٹیشن اور ریل گاڑی کا سپیشل ریلوے ٹریک بچھایا گیا. اسی  طرح موضع ڈل اور رائیٹ بنک پر پیہور کو بھی انخلا کرنا پڑا تھا جہاں ڈیم کی بنیادیں رکھی گئیں تھیں۔

اسی سال، 1968 میں تربیلہ ڈیم کے بند کی تعمیر کے لیے گدون: گندف سے مٹی اور بیسک سے مخصوص قسم کی ریت حاصل کرنے کے لیے زمین حاصل کی گئی. جو کنویئر بیلٹ کے ذریعے لائی جانی شروع ہوئیں. اس مخصوص ریت سے کنکریٹ کی جاتی اور مٹی سے بند کی بھرائی کی جاتی. 

تربیلہ ڈیم کا بند موضع پیہور (رائیٹ بنک) اور موضع ڈل (لیفت بنک) پر تیار کیا گیا. پاور ہاؤس پیہور کے مقام پر بنایا گیا. ڈل گاؤں کا کچھ قبرستان اور کسی بزرگ اللہ کے ولی رحمت اللہ کا مزار اب بھی تربیلہ بند کے درمیانی قدرتی پہاڑی پر آج بھی موجود ہے. 

آج کے آرٹیکل میں تربیلہ ڈیم کی متاثرہ بستیوں کا ذکر ہو گا. 

اس آرٹیکل میں متاثرہ بستیوں کا ذکر تربیلہ ڈیم سے شروع کر کے دریائے سندھ کے ساتھ ساتھ شمال کو سفر کرتے ہوئے کریں گے اور پھر دریائے سرن کے ساتھ ساتھ مغرب سے مشرق اور پھر شمال کو سفر کریں گے. اسی طرح دریائے دوڑ کے ساتھ ساتھ مشرق سے مغرب اور جنوب میں سفر کریں گے. ان بستیوں کو دریاؤں کے آمنے سامنے (آر-پار) کلسٹرز وائز، پہلے رائیٹ بنک پھر لیفٹ بنک کا ذکر کیا جائے گا. (رائیٹ بنک دریا کے بہاؤ کی طرف منہ کر کے دیکھا جاتا ہے ظاہر ہے رائیٹ بنک دائیں اور لیفٹ بنک پانی کے بہاؤ کے بائیں ہاتھ پر واقع ہوتا ہے). 

تربیلہ جھیل کی نذر ہونے والی متاثرہ بستیاں، دریائے سندھ کے رائیٹ بنک: 

1 پیہور، 2 باڑہ، 3 کیہارہ (یہ تین بستیاں ٹوپی صوابی کی متاثر ہوئیں). 4 سمبل، 5 پھنیاں، 6 بُرج پھنیاں، 7 نوچھی، 8 شگئی، 9 گِدر بانڈی، 10 کھبل زریں، 11 کھبل بالا 12 کیاء زریں. 13 کیاء بالا، 14 گلی سیداں، 15 کالی شیرا، 16 منڈی سیداں، 17 گڑھی ستھانہ. (علاقہ اتمان بالا ہری پور ہزارہ کا اختتام ہوا اور اب ہم سابقہ امب سٹیٹ کے علاقہ میں داخل ہونے جا رہے ہیں) 

18 ڈب ڈھیری، 19 رڑ، 20 عشراہ، 21 کنیرڑی 22 لگڑاہ، 23 امب زریں، 24 امب بالا، 25 بیسگ، 26. سنگا (رائیٹ بنک امب سٹیٹ کا اختتام ہوا اور علاقہ کالا ڈھاکہ/طور غر شروع ہونے جار ہے). 27 کیاں سیداں، 28 لکوال، 29 مہابڑا زریں، 30  مہابڑا بالا.31 برنجل (زمین متاثر ہوئی)، 32 بھوکاڑا (زمین متاثر ہوئی) 33 گٹہ (زمین متاثر ہوئی)۔ 34 نادرے (زمین متاثر ہوئی)۔ 35 مریڑ، 36 گھڑی (زمین متاثر ہوئی)۔ 37 نیو کلے (زمین متاثر ہوئی)۔ 38 پلوسہ, 39 کرنا (جزوی آبادی متاثر ہوئی). 

(رائیٹ بنک کالا ڈھاکہ کا اختتام ہوا اور ضلع شانگلا سوات کا متاثرہ علاقہ شروع ہونے جا رہا ہے)۔ 40 ڈب کلے دیدل، 41 والی سوات قلعہ دیدل، 42 دیدل, 43 کماچ، 44 بھڑ کماچ، 45 بانڈہ کماچ، 46 بیاڑ کماچ, 47 کابل گرام شانگلہ(زمین متاثر ہوئی)۔ دریا سندھ رائیٹ بنک آباد متاثرہ بستیوں اور جھیل کا اختتام ہوا۔

آئیے، اب دوبارہ تربیلہ ڈیم سے دریا سندھ کے لیفٹ بنک سے بطرف شمال دریائے سندھ کے ساتھ ساتھ چلتے ہیں:

48 سوبڑا، 49  بھرواسہ (جزوی)، 50 گڑھی میرا (جزوی) ، 51 ککڑ چوآ (جزوی)، 52 ڈل، 53 موہٹ، 54 تُرپکھی، 55 جھاڑ پھر تربیلہ جو کہ ایک ٹاؤن تھا جس میں: (56 جٹو، 57 گوجرہ، 58 لقمانیہ، 59 گِدر بانڈی، 60 ٹاہلی) شامل تھے.61. بانڈہ ملاح ڈھیری، 62 ڈھیری، 63 موزاء بنگ، 64 بنگ، 65 خانپور، 66 توی، 67 باندہ ملاح زریں، 68 باندہ ملاح بالا (انھیں بانڈہ بسنت بھی کہا جاتا ہے)، 69 نواں گراں، 70 کھرکوٹ، 71. انورہ، 72. لالوگلی، 73 پلابنڑیں، 74 دیرہ، 75 کرپلیاں، 76 میرا خیرو، 77 میرا سیداں. 

(لیفٹ بنک, سابقہ امب سٹیٹ کا علاقہ شروع ہونے جا رہا ہے) 78 ابی بینڑں، 79 دکانی زریں، 80 دربند، 81 فرید آباد، 82 گمٹی، 83 ہوتر، 84 میرا اور 85 تیربٹ. 86 چھپر اور 87 بروٹی جزوی متاثر ہوئے. 

(اب لیفٹ بنک پر علاقہ کالاڈھاکہ/طور غر شروع ہونے جا رہا ہے). 88 میاں بیلہ، 89 ڈبرئی، 90 کنڈر، 91 طوارہ، 92 کوٹکے، 93 کنہار شریف, 94 غازی کوٹ، 95 ڈاڈم (زمین متاثر ہوئی)، 96 بکرئی(زمین متاثر ہوئی)۔ 97 مچھرا (زمین متاثر ہوئی)، 98 بیمبل (زمین متاثر ہوئی) 99 بلیانی زریں، 100 بلیانی بالا، 101 سورمل (زمین متاثر ہوئی) 102 کوٹلئی، (زمین متاثر ہوئی)۔ 103 جدباء،(زمین متاثر ہوئی)۔ 104 شگئی (زمین متاثر ہوئی)۔ یہاں تربیلہ جھیل کی آخری حد ہے. 

(تربیلہ ڈیم سے شگئی کالا ڈھاکہ جھیل کی لمبائی 97 کلومیٹر ہے اور شگئی سے تھاکوٹ بٹگرام 30 کلومیٹر ہے). 

دریائے سندھ کے بعد اب معاون دریا، دریائے سرن جو تربیلہ گاؤں میں دریائے سندھ میں مشرق سے مغرب بہتا ہوا، دریائے سندھ جو شمالاً جنوباً بہتا تھا میں شامل ہوتا تھا اور سنگم (T کی شکل) بناتا تھا اور اس مقام کو سِر مُنہ کہا جاتا تھا یہ جگہ تربیلہ اور کھبل کے درمیان کشتیوں کا مرکزی گَدر تھا. اب معاون دریا، دریائے سرن کے ساتھ ساتھ مشرق کو چلتے ہیں. رائیٹ بنک پر ڈھیری کی بستی واقع تھی جو پہلے شمار ہو چکی ہے، 105 ترناوا، 106 میرا، 107 کنڈ، 108 مورتی، 109 ڈب، 110 سانجی کسی، 111 کندریالہ، 112 جھنگ، 113 گھوڑا، 114 نوازگاہ، 115 لنگر، 116 مرادپور اور 117 سیدپور (جم)

اور، اب واپس دریا سرن کے لیفٹ بنک سے دوبارہ چلیں گے، تربیلہ (جٹو، گوجرہ، لقمانیہ، گِدربانڈی اور ٹاہلی کا شمار پہلے دریاۂے سندھ کے ساتھ بھی ہو چکا ہے لہزا ان کو دوبارہ نمبر شمار نہیں دیا گیا)، 118 تندولہ، 119 گرہان (جزوی متاثرہ) 120 ہروڑہ، 121 تھپلہ، 122 نڈی بستی، 123 کوٹ، 124 بانڈہ ککڑچوآ، 125 کرہیڑیاں، 126 اچہ بیلہ، 127 پنڈ خانخیل، 128 چریاں، 129 کچھی، 130 سوہا اور 131بیڑی اور 132 بیڑ (جزوی متاثرہ). یہ ہوا دریائے سرن کا علاقہ۔ 

 اب چلتے ہیں دریائے دوڑ کے علاقہ کی متاثرہ بستیوں کی طرف. 

دریائے دوڑ جو تھپلہ پل کے پاس دریائے سرن میں شامل ہو کر سنگم (Y کی شکل) بناتا تھا. اس کے رائیٹ بنک کی متاثرہ بستیاں: 133 پکا پنیالہ، 134 پہارُو، 135 پھولدہار، 136 درگڑی، 137 جوڑاپنڈ، 138 دروازہ (جزوی متاثرہ گاؤں بچ گیا زمین زیر آب آئی)، 139 کاگ (جزوی متاثرہ زمین اور گاؤں متاثر ہوا کچھ اراضی بچ گئی جس پر دوبارہ آبادی کی گئی)، 140 جبہ، 141 بصیرہ، 142 جامعہ اُتمان (جزوی متاثر گاؤں اور کچھ زمین جھیل سے باہر بچ گئی) اور اب دریائے دوڑ کے لیفٹ بنک چلتے ہیں. 143 داڑی، 144 ناڑہ (ناڑہ کی اراضی متاثر ہوئی جبکہ گاؤں بچ گیا) 145 بِڑیاں، 146 ممائیہ، 147 باہدو، 148 ڈانڑاں، 149 کھیوہ، 150 جاگل (اس گاؤں کی داخلیاں دھمکار کالونی، بھورا بانڈہ اور بسومیرا غیر متاثرہ رقبے ہیں) 151 کھلابٹ، 152 کانڈل، 153 پڈھانہ (پڈہانہ کچھ رقبہ پانی سے باہر بچ گیا تھا جہاں یہ گاؤں دوبارہ آباد ہوا) 154 ڈھینڈہ، 155 پنیاں اور 156 بھیرہ کا جزوی رقبہ متاثر ہوا جبکہ گاؤں محفوظ ہیں.

اس کے علاوہ کھلابٹ ٹاؤن شپ متاثرین کی آباد کاری سکیم کے تحت 157 قاضیاں، 158 چک سکندرپور، 159 ملکیار، 160 چھوہر شریف اور 161 کالس کا رقبہ متاثر ہوا. 

کانگرہ کالونی کے لیے 162 کانگرہ گاؤں کا رقبہ متاثر ہوا. 

غازی ہملٹ کے لیے 163 پپلیالہ اور  164 گھاڑا کا رقبہ متاثر ہوا. 165 موضع غازی کا رقبہ تربیلہ ڈیم کی تربیلہ ریسٹلمنٹ آرگنائزیشن کے دفاتر کے لیے حاصل کیا گیا جہاں کلکٹرز حصول اراضی کے دفاٹر بنائے گئے. آج کل ان میں تحصیل غازی کے دفاتر اور عدالتیں وغیرہ ہیں اور مختلف محکمے موجود ہیں۔

گلہ ہملٹ کے لیے 166 گلہ (ٹوپی) کا رقبہ متاثر ہوا. اور، نیو دربند ٹاون کے لیے 167 چوئیاں گھاڑا کا رقبہ متاثر ہوا نیز 168 گندف اور 169 بیسگ (گدون) کا جزوی رقبہ بسلسلہ تعمیر تربیلہ ڈیم اور حصول میٹیریل متاثر ہوا تھا۔ 

زہے نصیب، تربیلہ جھیل کی 90 فیصد بستیاں جو جھیل کی نذر ہوئیں وہ بستیاں وادیوں، زرخیز زمینوں اور باغات پر مشتمل تھیں۔زمینیں اور آبادیاں ڈوب گیئں مگر ان آبادیوں کی ملکیتی قیمتی پہاڑ، وسائل اور معدنیات بلا معاوضہ ویسے ہی جھیل کے کنارے بے کار اور بے یار و مدد گار پڑے رہ گئے ہیں۔

 آبادیاں اور زمینیں جھیل کی نذر ہو گئیں اور ہزاروں ایکڑ انتہائی قیمتی ملکیتی پہاڑ خواہ مخواہ ناقابل استعمال اور غرق ہو گئے۔

آرٹیکل کا اختتام اختر انصاری کے اشعار پر کیا جاتا ہے:

یاد کے تند و تیز جھونکے سے 

آج ہر داغ جل اٹھا میرا

یاد ماضی عذاب ہے یا رب

چھین لے مجھ سے حافظہ میرا

Friday, October 11, 2024

نبض دیکھنے کا آسان طریقہ اور صحت والی نبضوں کی پہچان اور علاج*

 

جہاں پر کلائی کی ہڈی ختم ہوتی ہے وہاں سے آپ نے اپنی چار اُنگلیاں بلکل برابر رکھنی ہیں اور آپ شہادت والی اُنگلی انگوٹھے کی طرف ہو اب جس اُنگلی پر نبض کا پہلا احساس ہو گا وہی آپ کی نبض شمار ہو گی اور اسی کے مطابق آپ اپنا یا کسی کا علاج معالجہ کریں گے تو آپ کو ضرور کامیابی ملے گی مٽلاً اگر آپ نے چار اُنگلیاں جب کلائی پر رکھیں اگر کچھ محسوس نہ ہو آپ نے آہستہ آہستہ دباؤ دینا ہے یہ نبض بلکل نیچے محسوس ہو گی یہ نبض اعصابی غدی یعنی (ترگرم )یا(خام بلغم )نبض ہے اس کے بعد ہم آتے ہیں اعصابی عضلاتی یعنی (خشک سرد )یا (پختہ بلغم )کی طرف یہ نبض پہلی اُنگلی پر بغیر دباو دینے پر بلکل اُوپر ہی محسوس ہو گی اس طرح اعصاب کی دو نبضیں مکمل ہو گیں۔ 


اب آتے ہیں خشکی والی دو نبضوں کی طرف (خام سودا اور پختہ سودا)


عضلاتی اعصابی یعنی (خشک سرد )یا (خام سودا)اس نبض میں دو اُنگلیوں پر اُوپر ہی پہلا احساس ہو گا تو یہ عضلاتی اعصابی نبض ہے 


عضلاتی غدی یعنی (خشک گرم) یا (پختہ سودا)اس نبض میں پہلی تین اُنگلیوں پر اُوپر ہی پہلا احساس ہو گا تو یہ عضلاتی غدی نبض ہے اس طرح خشکی والی دو نبضیں مکمل ہو گی


 گرمی والی دو نبضوں کی طرف (خام صفرا اور پختہ صفرا)


غدی عضلاتی یعنی (گرم خشک) یا (خام صفرا )یہ نبض چار اُنگلیوں پر ہلکا سا دباؤ دینے پر محسوس ہو گی یعنی درمیان میں محسوس ہو گی تو یہ غدی عضلاتی نبض ہے 


غدی اعصابی یعنی (گرم تر)یا(پختہ صفرا)یہ نبض درمیان والی دو اُنگلیوں پر پہلا احساس ہو گا یعنی شہادت والی اُنگلی پر بھی یہ محسوس نہیں ہو گی اور چھوٹی اُنگلی پر بھی محسوس نہیں ہو گی صرف درمیان والی دو اُنگلیوں 

پر ہی محسوس ہو گی اس طرح گرمی والی دو نبضیں مکمل ہو گیں


اگر ہم اس ترتیب کو مدِنظر رکھیں گے تو علاج معالجے میں کبھی ناکام نہیں ہو گے 


اگر نبض قوی پن میں ہے تو یہ مرض کا پہلا درجہ ہے پہلے درجے کی ابتداء لذت اور انتہا حبس ہے اس مقام پر ہم نے محرک اور محرک 

شدید دوا اور غذا کااستمعال کرنا ہےاور جب نبض تیزی میں ہوگی اور باریک ہو گی یعنی پتلی ہو جائے گی تو یہ مرض دوسرا درجہ ہے جس کی ابتدا قبض اور انتہاء سوزش ہے اس مقام پر ہم نے ملین اور مسہل دوا اور غذا کا استمعال کرنا ہے جب اس مقام پر بھی مرض کا علاج 

معالجہ نہ ہوا تو مرض تیسرے درجے میں داخل ہو جائے گا اور نبض میں 

ضعف آ جائے گا جس کی ابتداء ورم اور انتہاء ضعف ہے اس مقام پر ہم نے اکسیر اور مقوی ادویات کا استمعال کرنا ہے یاد رکھیں ہر اکسیر دوا زہر ہے اس کا استمعال انتہائی سوج سمجھ کر کرنا چائیے چند خوراکیں اور قلیل عرصے کے لیے دینی چائیے مقویات کا استمعال دیر تک کیا جا سکتا ہے اس سے فائدہ ہو گا نقصان نہیں

اگر نبض پہلے درجے میں ہے یعنی قوی پن میں ہے تو صرف اگلی نبض کو تحریک دینی ہے مٽلاً عضلاتی غدی نبض اگر قوی پن میں ہے تو ہم نے غدی عضلاتی نبض کو ہی تحریک دینی ہے


جسا کہ میں نے اُوپر ذکر کیا ہے کہ غذا بھی محرک، شدید، ملین اور مسہل ہونی چائیے اس کی وضاحت کر دیتا ہوں کوئی بھی چیز اگر آگ پر بھون کر پکائیں گے تو یہ غذا محرک کا درجہ رکھتی ہے مٽلاً گوشت کو اگر آگ پر بھون کر پکائیں گے تو یہ محرک ہے اور اگر اسی گوشت کو سالن میں بھون کر بغیر شوربے کے پکائیں تو یہ شدید کا درجہ رکھتا ہے 

اور اسی گوشت کا شوربہ بنا دیں تو یہ ملین کا درجہ رکھتی ہے اور اگر اسی گوشت کی یخنی بنا دیں اور گوشت بلکل گل جائے اور سوپ کی شکل اختیار کر لے تو یہ مسہل کا درجہ رکھتا ہے کوئی بھی غذا اکسیر اور 

مقوی نہیں ہے تمام پھل اور بیج مقویات کا درجہ رکھتے ہیں


*علاج-


6)اعصابی غدی:- (چھوٹے بچے کی صحت والی نبض) (دودھ کا زمانہ)

شہادت والی اُنگلی پر دباوء دینے سے محسوس ہو گی 

اب چھوٹے بچے کے علاوہ یہ بگڑی ہوئی نبض ہے اس کا علاج ایک نمبر اور دو نمبر ہے یعنی اعصابی عضلاتی اور عضلاتی اعصابی ہے 


اس نبض کا ایک خاصہ ہے علاج معالجہ کے بعد یہ غدی عضلاتی بھی ہو سکتی ہے (بوجہ ارتقائی صورت) اور اگر مکمل اعصابی غدی ہوئی تو پھر اعصابی عضلاتی سے عضلاتی اعصابی تک جا سکتی ہے 


1)اعصابی عضلاتی:- (دودھ کے بعد کا زمانہ) صحت والی نبض شہادت والی اُنگلی کے نیچے بغیر دباوء دینے سے محسوس ہو گی

 یہ بچے کے دودھ پینےکے بعدوالے زمانے کی صحت والی نبض ہےاسکے علاوہ 

یہ بگڑی ہوئی نبض ہے اس کا علاج دو نمبر اور تین نمبر ہے یعنی عضلاتی اعصابی سے عضلاتی غدی ہے اور جب نبض ورمی ہو جائے 


یعنی ارتقائی تور پر آگے چلی جائے اس کی پہچان یہ ہے کہ نبض باریک ہو جاتی ہے اَسی صورت میں تین اور چار نمبر یعنی عضلاتی غدی سے 

غدی عضلاتی ادویات اور خوراک کا استمعال کرنا ہے


2)عضلاتی اعصابی :-

 (بڑھاپے کی اور پانچ سال سے بالغ ہونے تک کی صحت والی نبض)

دو انگلیوں پر اُوپر ہی محسوس ہو گی


(60سے65 سال عمر کا زمانہ 


اس کے علاوہ اگر کسی کی یہ نبض ہے تو یہ بگڑی ہوئی نبض ہے 


اس نبض میں ہم نے تین اور چار نمبر یعنی عضلاتی غدی اور غدی عضلاتی ادویات اور غذا کا استمعال کر نا ہے اور آگر یہ ہی نبض ارتقائی صورت میں آگے چلی جائے تو پھر ہم نے چار اور پانچ نمبر  

یعنی غدی عضلاتی اور غدی اعصابی ادوایات اور غذا کا استمعال کرنا ہے


3)عضلاتی غدی:-(نوجوان مرد کی صحت والی نبض)


تین اُنگلیوں تک اُوپر ہی محسوس ہو گی


اگر نوجوان مرد کے علاوہ اگر یہ کسی کی یہ نبض ہے تو یہ بگڑی ہوئی نبض ہے اس کا علاج ہم نے چار اور پانچ نمبر یعنی غدی عضلاتی اور غدی 

اعصابی ادویات اور غذا سے کرنا ہے اور اگر یہی نبض ارتقائی صورت میں آگے چلی جائے تو پھر اس کا علاج پانچ نمبر اور چھ نمبر یعنی غدی اعصابی اور اعصابی غدی ادویات اور غذا کا استمعال کر نا ہے


4)غدی عضلاتی:-(نوجوان عورت کی صحت والی نبض)


چار اُنگلیوں تک ہلکا دباوء سے محسوس ہو گی

یہ نبض نوجوان عورت کی صحت والی نبض ہے اس کے علاوہ یہ بگڑی ہوئی نبض ہے اس کا علاج پانچ اور چھ نمبر یعنی غدی اعصابی اور 

اعصابی غدی ادویات اور غذا کا استمعال کرنا ہے اور اگر یہی نبض ارتقائی صورت میں آگے چلی جائے تو اس کا علاج چھ نمبر اور ایک 

نمبر یعنی اعصابی غدی اور اعصابی عضلاتی ادویات اور غذا سے کرنا ہے


5)غدی اعصابی :- (زمانہِ حیض اور زمانہِ ولادت کی صحت والی نبض)

درمیان والی دو اُنگلیوں کے نیچے محسوس ہو گی

یہ نبض عورت کے زمانہ حیض اور زمانہ ولادت کی صحت والی نبض ہے 

اس کے علاوہ یہ بگڑی ہوئی نبض ہے اس کا علاج چھ نمبر اور ایک نمبر یعنی اعصابی غدی اور اعصابی عضلاتی ادویات اور غذا سے کرنا 

ہے اور اگر ارتقائی صورت میں آگے چلی جائے تو پھر کا علاج ایک نمبر اور دو نمبر یعنی اعصابی عضلاتی اور عضلاتی اعصابی ادویات اور غذا سے کرنا ہے


تحریک تسکین اور تحلیل پر غور و فکر ضرور کریں 

ہم نے تسکین والے مقام کو ادویات اور غذا سے تحریک دینی ہے 


نبض بگڑنے کی دو ہی صورتیں ہیں یا تو وہ صحت والے مقام سے آگے جائے گی یا پھر صحت والے مقام سے پیچھے رہ جائے گی 


ان دو ہی صورتوں کی وجہ سے بیماری ہے 


جب نبض اپنے صحت والے مقام پر آئے گی تو تمام بیماریاں خود بخود ختم ہو جائیں گی


اس لیے مزاج کو سمجھنا بہت ضروری ہے 


اگر مزاج کو سمجھ کر دال بھی کھائیں گے تو وہ سونا ہے


اور مزاج کو سمجھے بغیر سونے جیسی چیز بھی کھائیں گے تو وہ زہر ہے.

Friday, October 4, 2024

Dengue ڈینگی کی علامات


ڈینگی کی علامات عموماً بیمار ہونے کے بعد 4 سے 6 دن میں ظاہر ہوتی ہیں اور اکثر 10 دن تک برقرار رہتی ہیں۔


ان علامات میں اچانک تیز بخار، شدید سردرد، آنکھوں کے پیچھے درد، جوڑوں اور مسلز میں شدید تکلیف، تھکاوٹ، قے، متلی، جلد پر خارش (جو بخار ہونے کے بعد 2 سے 5 دن میں ہوتی ہے) خون کا معمولی اخراج (ناک، مسوڑوں سے یا آسانی سے خراشیں پڑنا) قابل ذکر ہیں۔


اکثر اوقات علامات کی شدت معمولی ہوتی ہے اور انہیں فلو یا کسی اور وائرل انفیکشن کا نتیجہ بھی سمجھ لیا جاتا ہے۔


چھوٹے بچوں اور ایسے افراد جو پہلے ڈینگی سے متاثر نہ ہوئے ہوں، ان میں بیماری کی شدت زیادہ عمر کے بچوں اور بالغ افراد کے مقابلے میں معمولی ہوتی ہے۔


مگر سنگین مسائل کا خطرہ ہر مریض میں ہوسکتا ہے جیسے ڈینگی ہیمرج بخار جو بہت تیز بخار کی ایک پیچیدگی ہے، لمفی اور خون کی شریانوں کو نقصان پہنچنا، ناک اور مسوڑوں سے خون بہنا، جگر بڑھ جانا اور گردشی نظام فیل ہونا۔


سنگین علامات کے نتیجے میں خون کا اخراج بہت زیادہ بڑھ سکتا ہے اور موت کا خطرہ بھی بڑھتا ہے۔


کمزور مدافعتی نظام کے مالک افراد یا دوسری یا کئی بار ڈینگی کا سامنا کرنے والے لوگوں میں ڈینگی ہیمرج بخار کا خطرہ بہت زیادہ ہوتا ہے۔


ڈینگی کی تشخیص اور علاج

ڈاکٹر ڈینگی کی تشخیص ایک بلڈ ٹیسٹ سے کرسکتے ہیں۔


ابھی ڈینگی انفیکشن کے علاج کے لیے کوئی مخصوص دوا موجود نہیں اور اگر آپ کو لگتا ہے کہ آپ کو ڈینگی ہے درد کش ادویات جیسے پیراسیٹامول استعمال کرسکتے ہیں مگر اسپرین سے گریز کرنا ضروری ہے، کیونکہ وہ خون کا اخراج بدتر کرسکتی ہے۔


مریضوں کو آرام، زیادہ پانی پینے اور ڈاکٹر سے رجوع کرنا چاہیے اور اگر بخار کم ہونے کے بعد اولین 24 گھنٹوں میں حالت زیادہ خراب محسوس ہو تو فوری ہسپتال جاکر معائنہ کرانا چاہیے۔


احتیاطی تدابیر

ڈینگی سے بچاؤ کے لیے ابھی کوئی ویکسین دستیاب نہیں تو اپنے تحفظ کے لیے موسکیٹو ریپیلنٹس کا استعمال کریں چاہے گھر یا دفتر سے باہر ہو یا چار دیواری کے اندر، گھر سے آستینوں والی قمیض اور پیروں میں جرابیں پہنے، گھر میں اے سی ہو تو اسے چلائیں، کھڑکیاں اور دروازوں میں مچھروں کی آمد روکنا یقینی بنائیں، اے سی نہیں تو مچھروں سے بچاؤ کے نیٹ استعمال کریں۔


اسی طرح مچھروں کی آبادی کم کرنے کے لیے ان کی افزائش کی روک تھام کی تدابیر پر عمل کریں جیسے پرانے ٹائروں، گلدان اور دیگر میں پانی اکٹھا نہ ہونے دیں۔

Sunday, September 22, 2024

Ashob e Chashm: Causes, Symptoms, and Treatment



Ashob e Chashm also known as pink eye, or conjunctivitis in English, is an eye infection that can lead to redness, itching, and discomfort. If you have pink eye, consulting a healthcare expert for a diagnosis and suitable treatment is necessary. However, some remedies can be used at home to manage cases of pink eye.


Table of Contents


What is Ashob e Chashm?

Ashob e Chashm Types

1. Viral Conjunctivitis:

2. Bacterial Conjunctivitis:

3. Allergic Conjunctivitis:

What Causes Ashob e Chashm?

Ashob e Chashm Symptoms

1. Viral Conjunctivitis Symptoms

2. Bacterial Conjunctivitis Symptoms

3. Allergic Conjunctivitis Symptoms

Home Remedies For Ashob e Chashm

1. Honey

2. Hydration

3. Rest

4. Aloe Vera

5. Saltwater Rinse

6. Cucumber Slices

7. Potato Slices

8. Herbal Eyewash

9. Turmeric and Milk

10. Neem

11. Eyebright

12. Tea Bags

13. Green Tea

Tips To Prevent The Spread Of Ashob e Chashm

1. Sharing of Items

2. Eye Hygiene

3. Hand Hygiene

Conclusion

What is Ashob e Chashm?

“Ashob-e-Chashm” is an infection or inflammation of the thin layer or membrane (conjunctiva) that lines the inside of your eyelid and the white part of the eye. It is sometimes referred to as “pink eye” because it often causes the white part of the eye to turn into a pink or reddish color due to inflammation.


Ashob e Chashm Types

First, it is important to understand the types of Ashob e Chashm and what causes them. Conjunctivitis can be classified into three types:


1. Viral Conjunctivitis:

This type is commonly caused by viruses similar to catching a cold. It spreads easily. Usually, it starts in one eye before affecting the other. Symptoms include redness, watery discharge, and itching.


2. Bacterial Conjunctivitis:

Bacterial conjunctivitis occurs as a result of infections. It often leads to a green discharge and can impact one or both eyes. Bacterial pink eye is highly contagious.


3. Allergic Conjunctivitis:

Allergic conjunctivitis is not contagious. It develops due to allergens like pollen or pet dander. It typically affects both eyes simultaneously. It causes itching, redness, and excessive tearing.


What Causes Ashob e Chashm?

Ashob e Chashm or pink eye can be caused by a number of factors including viruses, bacteria (Staphylococcus aureus, Pseudomonas aeruginosa, Streptococcus pneumonia, and Haemophilus influenzae), allergens like molds, pollen, dust mites, and pet dander, a foreign object in the eye, irritants such as cosmetics, chemicals, smoke, dust, fumes, wearing contact lenses, or blocked tear ducts in babies.


Ashob e Chashm Symptoms

The symptoms of Ashob e Chashm or pink eye are as follows:


Itching or burning in eyes

Developing a pink or reddish tinge in the white part of the eye

Eye discharge which may be pus or mucous

An intense urge to rub the eyes

Crusting of the eyelids or eye lashes

Conjunctiva swelling or redness

Increased tearing

Feeling like something is stuck in the eyes

Light sensitivity (Photophobia)

Affected individuals may also develop additional symptoms based on the type of conjunctivitis:


1. Viral Conjunctivitis Symptoms

Watery discharge from the eyes

An infection that usually spreads from one eye to the other after some days

Developing cold or flu-like symptoms

2. Bacterial Conjunctivitis Symptoms

Thick discharge (pus) from the eyes that may cause the eyelids to stick together

May occur together with an ear infection (Conjunctivitis-Otitis Syndrome)

3. Allergic Conjunctivitis Symptoms

Itching and swelling

Increased tear shedding or production

Developing allergy symptoms; sneezing, itchy nose, asthma, etc.

Home Remedies For Ashob e Chashm

Now that we have a grasp of pink eye delve into different home remedies that can assist in easing its symptoms and facilitate the healing process. Before attempting any of these remedies, consult your doctor to ensure they are suitable for your situation. You can reduce the discomfort of pink eye and regain clear and healthy eyesight.


Here are some simple and effective methods to alleviate discomfort caused by pink eye;


1. Honey

Honey possesses properties that can combat bacteria and reduce inflammation, making it a possible solution for conjunctivitis. Combine a teaspoon of raw, unpasteurized honey with one cup of water. Administer a drop or two of the mixture into the eye using an eyedropper throughout the day. Ensure that the honey is pure and does not contain any additives.


2. Hydration

Staying hydrated by drinking a good amount of water is beneficial for eliminating toxins from your body and supporting the healing process. Additionally, it helps prevent dehydration, which can exacerbate the symptoms of pink eye.


3. Rest

Getting rest is important for your body’s healing process. It’s important to have sleep and relaxation to support your system in combating infections like Ashob e Chashm.


4. Aloe Vera

Aloe vera is a plant that has many different health benefits. You can take the gel from an aloe leaf and gently put it on your eye if it’s bothering you. Aloe vera possesses a sensation that can assist in reducing redness and alleviating any discomfort you may experience. It is important, however, to use aloe vera gel without any chemicals or fragrances.


5. Saltwater Rinse

A saline solution is one way to find relief from pink eye. Mix a quarter teaspoon of salt into a cup of boiled water. Let it cool down. Then, use an eyedropper to put a drop into the eye. This will help cleanse the eye and may alleviate any irritation you’re experiencing.


6. Cucumber Slices

Cucumber slices have benefits beyond being used in spa treatments. They can also offer relief for pink eye. Refrigerate the cucumber slices and place them gently over your eyes. The coolness of the cucumber can help alleviate inflammation and reduce itching sensations.


7. Potato Slices

Using cucumber slices, you can place chilled potato slices on your eyes to help reduce inflammation and find relief from the symptoms of pink eye. Keep them on for a few minutes. See if it brings any comfort.


8. Herbal Eyewash

You can find eyewashes made from ingredients such as goldenseal, eyebright, or calendula at health stores. These natural remedies are known to provide relief and promote healing for the eye. It’s important to follow the instructions provided by the manufacturer when using them.


9. Turmeric and Milk

Turmeric is famous for its inflammatory properties and ability to combat bacterial infections. Mix one teaspoon of powder with a cup of milk to make an eyewash solution. Use an eyedropper to apply a drop of this mixture onto the eye.


10. Neem

Neem oil possesses properties that make it suitable for use as an eyewash. Simply boil leaves in water, strain the resulting solution, and let it cool down. Apply this solution as an eyewash to alleviate symptoms of pink eye.


11. Eyebright

Eyebright is a known herb traditionally used to address eye conditions. If you visit a health store, you’ll likely come across eyebright eyewash solutions designed to provide relief and cleansing for your eyes. Just follow the instructions provided and enjoy the soothing benefits it offers.


12. Tea Bags

You can find relief when you have pink eye by placing cooled tea bags on your eyelids. Tea contains tannins that can help reduce inflammation and provide soothing comfort for your eyes.


13. Green Tea

Green tea is rich in antioxidants. It has the potential to serve as an eyewash. Prepare a cup of green tea, allow it to cool, and gently apply it onto your eyes using a cloth as a compress.


Tips To Prevent The Spread Of Ashob e Chashm

1. Sharing of Items

To avoid transmitting pink eye, avoiding sharing items such as towels, pillows, or eye cosmetics is essential. Only using your personal belongings and avoiding shared items minimizes the chances of spreading the infection to others.


2. Eye Hygiene

Taking care of your eyes regularly can be beneficial in preventing pink eye. Make sure to clean your eyelids and lashes daily using a baby shampoo that’s tear-free and diluted with warm water. This will help remove dirt, debris, or secretions and lower the chances of infection while promoting overall eye health.


3. Hand Hygiene

Ashob e Chashm (conjunctivitis), is extremely contagious. It’s important to maintain hand hygiene by frequently washing your hands to prevent its spread. Also, refrain from touching or rubbing your eyes as a precaution.


Conclusion

Ashob e Chashm can cause significant discomfort and disrupt your daily routine. While certain home remedies can provide relief and help speed up the healing process, you should consult an eye specialist to ensure the proper management and treatment of the infection. Remember to prioritize hygiene and cleanliness to prevent spreading of pink eye infection.


Disclaimer: The contents of this article are intended to raise awareness about common health issues and should not be viewed as sound medical advice for your specific condition. You should always consult with a licensed medical practitioner prior to following any suggestions outlined in this article or adopting any treatment protocol based on the contents of this article.

Popular Posts