مفتی شاکر سرکاری ریکارڈ کے مطابق مولوی رحمت اللہ کے ہاں 1969 میں ضلع کرک میں پیدا ہوئے۔ جبکہ دیگر ذرائع کے مطابق وہ کرم ایجنسی کے گاوں مخی زئی میں پیدا ہوئےتھے وہاں کے ہائی سکول سے پڑھا والد اسی سکول میں معلم دینیات رہے تھےاور اسی گاوں میں پیش امام تھے)۔۔۔بقو شبیر احمد خٹک صاحب مفتی شاکر کچھ عرصہ ضلع ہنگو کربوغہ شریف میں بھی درس وتدریس کیا ہے،کربوغہ شریف کا مشہور عالم مولانا سید مختار الدین شاہ ان کے کزن تھے۔۔۔
۔کرم سے اکر خیبر کے تحصیل باڑہ میں رہنے لگا۔2004 میں لشکر اسلام بنائی ۔ دیوبند مسلک کے ذیلی شاخ،پنج پیر کے نمائیدہ رہا،"اشاعت توحید"میں عہدہ دار بھی رہا، 6/7 سال پہلے "اشاعت توحید" کے ساتھ شدید اختلافات پیدا ہوئے تونہ صرف سیاسی جماعتی طور علحدہ ہوا،بلکہ "اہل قران" والوں کا منہج اختیار کیا اور اہل سنت کا مشہور،یا جمہور کا مسلک بھی چھوڑا،۔ اور اس حوالے سے "البرھان علی من اعراض عن القران "، "الفرقان بین عبادالرحمن" " الفرقان بین دین الرحمان ودین ایران " اور "کیا ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کوجادوگر نے شکست دی"جیسے کتب لکھ کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ ایران والوں نے جعلی احادیث اہل سنت کے اہم کتابوں (جیسے بخاری مسلم)میں داخل کرکے دین کو بدل دیا ہے،جبکہ دین دراصل وہ ہے جو قران مجید بیان کرتا ہے، ۔۔۔۔۔
() 2004 میں لشکر اسلام کے نام سےایک تنظیم بنائی، اور باڑہ میں ایف ایم ریڈیو کے ذریعے اپنے خیالات کا پرچار کرنے لگا۔۔۔اس دوران پیر سیفور الرحمان بن قاری سرفراز( پیدائش 10 اگست 1925، وفات 27 جون 2010)جو 1980 میں افغانستان سے ائے تھے اور باڑہ میں مقیم تھے کے ساتھ اختلافات پیدا ہوئے ۔۔۔ہیر سیفور الرحمان نے مقابلے میں 2005 کو ایف ایم ریڈیو سٹیشن قائم کیا۔۔۔اورانصار الاسلام کے نام سے گروپ قائم بنایا جس کی زیادہ تر سرگرمیاں خیبر ایجنسی کی تیراہ وادی میں تھیں۔
دونوں کے درمیان مسلحہ تصادم بھی ہوا ۔29 مارچ 2006 کو مفتی شاکر نے ان پر بڑے حملے کی تیاری کی۔۔۔دونوں کے تصادم سے علاقے میں بڑا امن وامان کا مسئلہ بنا تو 6 ماہ بعد قومی جرگے اور پولیٹیکل انتظامیہ نے فروری 2006 میں مفتی شاکر اور پیرسیفور الرحمن باڑا سے نکالا۔۔۔پیر سیف الرحمن لاہور منتقل ہوئے
۔لشکر اسلام کے سربراہ منگل باغ بنے تھے،پھر 2008 میں لشکر اسلام پر پابندی لگی۔۔۔۔ 2006 تک مفتی شاکر لشکر اسلام کے سربراہ تھے،پھر 2021 تک منگل باغ رہے اور اب ذیلا خان سربراہ ہے۔۔۔۔جبکہ انصار اسلام گروپ کی قیادت اب مولانا غازی محبوب الحق کے ہاتھ میں ہے۔ گزشتہ چند سالوں میں دونوں گروپوں میں جاری لڑائی کے نتیجے میں سینکڑوں افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔۔۔۔۔۔اس علاقے میں ان دونوں شدت پسند گروپوں کے علاوہ، توحیدالاسلام ، ، حاجی نامدار گروپ اور عبد اللہ اعزام گروپ بھی متحرک ہیں۔۔
۔ان کے والد کے بقول مفتی شاکر کو کراچی ائیرپورٹ اٹھا لیا گیاتھا جو کہ دو سال سے لاپتہ تھا۔۔۔۔۔مفتی شاکر کا انداز بڑا ،بے باک اور ،جارحانہ تھا، اور اس وجہ سے ہزاروں لوگ ہم خیال بھی تھے،اور بہت سے مخالف بھی،فیس بک چھایا ہوا تھا۔۔۔۔جب" اشاعت" سے منسلک تھے،تو توحید،پیری مریدی،منکرحدیث، زیارت،اسخات جیسے مسائل کے حوالے سے مناظرے،بیانات کرتے تھے،تصنیف کرتا تھے۔۔۔۔اخری سالوں میں اس کے برعکس موقف اختیار کیا تھا۔۔۔۔۔اس کے ساتھ ریاستی جبر،پشتونوں کے ساتھ زیادتی،دھشت گردی جنگ کے سخت مخالف بنا تھا ،پی ٹی ایم کے جرگوں میں شرکت کی،11 اکتوبر 2024 پشتون جرگے میں بڑھے دبنگ انداز میں حصہ لیا،یہ نڈر، بھادر،بے باک اورباحوصلہ شخص اج بروز ھفتہ،15 مارچ 2025،بمطابق،14 رمضان،1446 ھجری کو رمضان کے مقدس مہینہ اور مقدس مقام مسجد کے اندر ایک دھماکے میں جانبحق ہوا ۔دھماکہ ان کے مسجد،مدرسہ بقام کیچوڑئ اُرمڑ،پشاور کے دروازے کے سامنے عصر کو ہوا۔۔ ۔عبدالرحمان،عبداللہ بیٹے ہیں۔( ڈاکٹر زاھد شاہ)
No comments:
Post a Comment