*پہلا دن ۸ ذی الحجہ*
آج طلوع آفتاب کے بعد حالتِ احرام میں سب حجاج کو منی جانا ہے ۔ مفرد ( حج افراد کر نے والا ) جس کا احرام حج کا ہے اور قارن یعنی حجِ قران کرنے والا ، جس کا احرام حج و عمرہ دونوں کا ہے، ان کے احرام تو پہلے سے بندھے ہو ئے ہیں، البتہ متمتع یعنی حجِ تمتع کر نے والا، جس نے عمرہ کر کے احرام کھول دیا تھا اور اسی طرح اہل حرم آج حج کا احرام باندھیں ، سنت کے مطابق غسل کر کے احرام کی چادریں پہن لیں، احرام کیلئے دو رکعت پڑھیں، اور حج کی نیت کر کے تلبیہ پڑھیں ، تلبیہ پڑھتے ہی احرام شروع ہو گیا اور احرام کی تمام مذکورہ پابندیاں لازم ہو گئیں ، اس کے بعد منی کو روانہ ہوجا ئیں ۔
منی مکہ مکرمہ سے تین میل کے فاصلے پر دو طرفہ پہاڑوں کے درمیان ایک بہت بڑا میدان ہے، آٹھویں تاریخ کی ظہر سے نویں تاریخ کی صبح تک منی میں پانچ نمازیں پڑھنا ، اور رات کو منی میں قیام کرنا سنت ہے اگر اس رات کو مکہ مکرمہ میں رہا یا عرفات میں پہنچ گیا تو مکروہ ہے ۔
*☆دوسرا دن ۹ ذی الحجہ*
آج حج کا سب سے بڑا رکن یعنی ‘‘ وقوف عرفہ ’’ ادا کرنا ہے جس کے بغیر حج نہیں ہو تا ، طلوع آفتاب کےٍ بعد جب کچھ دھوپ پھیل جائے منی سے عرفات کیلئے روانہ ہو جائے جو منی سے تقریبا چھ میل ہے ، جب جبل رحمت پر نظر پڑے *( میدان عرفات میں ایک پہاڑ ہے )*
تو تسبیح و تہلیل و تکبیر کہے اور جو چاہے دعا مانگے ، خواہ یہ دعا مانگ لے :اللهم إليك توجهت و عليك توكلت و وجهك أردت اللهم اغفرلي و تب علي واعطني سؤلي و وجه لي الخير حيث توجهت , سبحان الله و الحمد لله و لا إله إلا الله و الله أكبر.
ترجمہ : اے اللہ ! میں نے آپ ہی کی طرف توجہ کی اور آپ ہی پر بھروسہ کیا ، اور آپ ہی کی رضا کا ارادہ کیا ، اے اللہ ! میری مغفرت فرما اور میری تو بہ قبول فرما اور میرا سوال پورا فرما، اور خیر کو میرے لئے ادھر متوجہ فرما دے ۔ جدھر میری توجہ ہو، میں اللہ کی پاکی بیان کرتا ہو ں اور سب تعریف اللہ کے لئے ہے اور اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور اللہ سب سے بڑا ہے ۔
نویں ذی الحجہ کو زوال کے بعد سے صبح صادق تک کے درمیانی حصہ میں احرام حج کی حالت میں کسی قدر بھی عرفات میں ٹھہر جا ئے یا وہاں سے گزر جا ئے تو اس کا حج ہو جا ئے گا اگر اس وقت میں ذرا دیر کو بھی عرفات میں نہ پہونچا تو حج نہ ہوگا اور زوال کو بعد غروب آفتاب تک عرفات میں ٹھہرنا واجب ہے ۔
مستحب یہ ہے کہ زوال آفتاب کے بعد غسل کرلے ، اور اس کا موقع نہ ملے تو وضو ہی کر لے اور اول وقت نمازادا کر کے وقوف شروع کر دے ۔
سنت طریقہ یہ ہے کہ ظہر اور عصر کی نماز اکٹھی امیر حج کی اقتداء میں پڑھی جائے یعنی عصر کو بھی ظہر کے وقت میں ہی پڑھ لے ، وہاں جو بڑی مسجد ہے جس کو مسجد نمرہ کہتے ہیں اس میں امام دونوں نمازیں اکٹھی پڑھا تا ہے ، لیکن چونکہ ہر شخص وہاں پہنچ نہیں سکتا اور سب حاجی اس میں سما بھی نہیں سکتے اوربغیر امیر حج کی اقتداء کے دونوں نمازوں کو عرفات میں جمع کرنا حدیث شریف سے ثابت بھی نہیں ہے ، اور امام کے مقیم یا مسافر ہو نے کا یقینی طور پر علم بھی نہیں ہو تا ، اس لئے ہندوستان ، پاکستان ، بنگلہ دیش اور افغانستان وغیرہ کے حنفی علماء کرام حاجیوں کو یہی فتوی دیتے ہیں کہ اپنے اپنے خیموں میں نماز پڑھنے والے ظہر کی نماز ظہر کے وقت میں اور عصر کی نماز عصر کے وقت میں باجماعت پڑھیں اور نمازوں کے علاوہ جو وقت ہے اسے ذکر اور دعاء اور تلبیہ میں صرف کریں ۔ اجتہادی مسائل میں شدت پسندی جائز نہیں ۔ آپ اپنے مذہب کے مطابق عمل کریں دو سروں پر اعتراض نہ کریں
*☆وقوف عرفات کا مسنون طریقہ*
زوال آفتاب کے بعد سے غروب آفتاب تک پورے میدان عرفات میں جہاں چاہے وقوف کر سکتا ہے مگر افضل یہ ہے کہ جبلِ رحمت جو عرفات کا مشہور پہاڑ ہے اس کے قریب جس جگہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا موقف ہے اس جگہ وقوف کر ے ، بالکل اس جگہ نہ ہو تو جس قدر اس کے قریب ہو بہتر ہٍے ، لیکن اگر جبل رحمت کے پاس جانے میں دشواری ہو یا واپسی کے وقت اپنا خیمہ تلاش کرنا مشکل ہو جیساکہ آجکل عموما پیش آتا ہے، تو اپنے خیمے میں ہی وقوف کرے ، خود کو تکلیف میں نہ ڈالے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ پورے عرفات میں کہیں بھی وقوف کیا جاسکتا ہے ۔
افضل اور اعلی تو یہ ہے کہ قبلہ رخ کھڑا ہو کر مغرب تک وقوف کرے اور ہاتھ اٹھا کر دعائیں کرتا رہے ، اگر پورے وقت کھڑا نہ ہو سکے تو جس قدر کھڑا ہو سکتا ہو کھڑا رہے پھر بیٹھ جائے پھر جب قوت ہو کھڑا ہو جائے ، اور پورے وقت میں خشوع و خضوع اورگریہ و زاری کے ساتھ ذکر اللہ ، تلاوت اور درود شریف و استغفار میں مشغول رہے اور تھوڑی تھوڑی دیر میں تلبیہ پڑھتا رہے اور دینی اور دنیوی مقاصد کے لئے اپنے واسطے اور اپنے متعلقین و احباب کے واسطے خاص کر ان لوگوں کیلئے جنہوں نے دعاؤں کی درخواست کی ہو اور تمام مسلمانوں کے واسطے دعائیں مانگتا رہے ، یہ وقت مقبولیت دعاء کا خاص وقت ہے اس دن بلاضرورت آپس کی جائز گفتگو سے بھی پرہیز کرے ، پورے وقت کو دعا ؤں اور ذکر اللہ میں صرف کرے ۔
عرفات کی دعائیں
ترمذی شریف میں ہے کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ سب سے زیادہ بہتر دعا عرفہ کےد ن کی دعا ہے ، اور سب سے بہتر جو میں نے اور مجھ سے پہلے نبیوں نے کہا وہ یہ ہے : لا إله إلا الله وحده لا شريك له له الملك و له الحمد و هو على كل شيء قدير.
ترجمہ :اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں وہ تنہا ہے اس کا کوئی شریک نہیں اسی کے لئے ملک ہے اور اسی کے لئے حمد ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے ۔ ( رواہ الترمذی )
*مناسک ملا علی قاری رحمہ اللہ* تعالی میں طبرانی سےنقل کیا ہے کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی عرفات کی دعاؤں میں یہ دعا ءبھی تھی : اللَّهُمَّ إِنَّكَ تَرَى مَكَانِي ، وَتَسْمَعُ كَلامِي ، وَتَعْلَمُ سِرِّي وَعَلانِيَتِي ، لا يَخْفَى عَلَيْكَ شَيْءٌ مِنْ أَمْرِي ، أَنَا الْبَائِسُ الْفَقِيرُ ، الْمُسْتَغِيثُ الْمُسْتَجِيرُ ، الْوَجِلُ الْمُشْفِقُ ، الْمُقِرُّ الْمُعْتَرِفُ بِذَنَبِهِ ، أَسْأَلُكَ مَسْأَلَةَ الْمِسْكِينِ ، وَأَبْتَهِلُ إِلَيْكَ ابْتِهَالَ الْمُذْنِبِ الذَّلِيلِ ، وَأَدْعُوكَ دُعَاءَ الْخَائِفِ الضَّرِيرِ ، مَنْ خَضَعَتْ لَكَ رَقَبَتُهُ ، وَ فَاضَتْ ٍ لَکَ عَيْنهُ وَ نَحَلَ لَكَ جَسَدُهُ ، وَرَغِمَ لَكَ أَنْفُهُ ، اللَّهُمَّ لا تَجْعَلْنِي بِدُعَائِكَ شَقِيًّا ، وَكُنْ بِى رَءُوفًا رَحِيمًا ، يَا خَيْرَ الْمَسْئُولِينَ ، وَيَا خَيْرَ الْمُعْطِينَ.
*ترجمہ :اے اللہ بے شک تو میرے وقوف کی جگہ کو دیکھ رہا ہے اور میری بات کو سن رہا ہے اور میرا ظاہر و باطن سب جانتا ہے اور میرے امور میں سے تجھ پر کوئی چیز پوشیدہ نہیں ہے ، اور میں سختی میں مبتلا ہو ں محتاج ہوں فریادی ہوں پناہ کا طلبگار ہو ں خوفزدہ ہوں گناہوں کا اقراری ہوں اور اعتراف کرتا ہو ں میں تجھ سٍے سوال کرتا ہوں مسکین کی طرح اور تیرے سامنے گڑگڑا تا ہوں شرمندہ گنہگار کی طرح اور میں تجھ کو پکارتاہوں جیساکہ خوفزدہ مصیبت زدہ پکارتا ہے اور جیسا کہ وہ شخص پکارتا ہے جس کی تیرے سامنے گردن جھک گئی اور جسکے آنسو جاری ہو گئے اور جسکا جسم تیرے خوف سے دبلا ہو ا اور جسکی ناک تیرے لئے خاک آلود ہوئی، اے میرے رب ! مجھے محروم نہ فرما اور میرے لئے بڑا مہربان اور بڑا رحیم ہو جا اے وہ ذات پاک جو ان میں سب سے بہتر ہے جن سے سوال کیا گیا اور اے وہ ذات پاک جو سب سے بڑھکر عطا فرمانے والے ہے ۔**
*امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ نے شعب الایمان میں حضرت جابر رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کیا ہے کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو بھی کوئی مسلمان عرفہ کے دن زوال کے بعد عرفات میں قبلہ رخ ہوکر سو مرتبہ ۔ لا إله إلا الله وحده لا شريك له له الملك و له الحمد و هو على كل شيء قدير.پڑھے پھر سو مرتبہ قل ہو اللہ احد ( پوری سورہ اخلاص ) پڑھے، پھر سو مرتبہ مندرجہ ذیل درود پڑھے ۔ اللهم صل على محمد و على آل محمد كما صليت على إبراهيم و على آل إبراهيم إنك حميد مجيد و علينا معهم .**
تو اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ اے میرے فرشتو! میرے اس بندہ کی کیا جزا ہے ، اس نے میری تسبیح و تہلیل(یعنی میری توحیدبیان کی) کی اور میری بڑائی اور عظمت بیان کی اور میری معرفت حاصل کی اور میری شان بیان کی اور میرے نبی پر درود بھیجا ، اے میرے فرشتو! تم گواہ رہو میں نے اس کو بخش دیا اور اس کی جان کے بارے میں اس کی سفارش قبول کی ، اور اگر میرا بندہ مجھ سے تمام عرفات والوں کیلئے سفارش کرے تو اس کی سفارش ان سب کے حق میں قبول کروں گا ۔ ( رواہ البیہقی فی شعب الایمان من جابر رضی اللہ تعالی عنہ )
*حضرت علی مرتضی کرم اللہ وجہہ سے روایت ہے کہ حضورِ اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ عرفات میں میری اور مجھ سے پہلے نبیوں کی اکثر دعا یہ ہے :۔**
لاَ إِلَه إِلاَّ اللَّهُ وَحْدَهُ لاَ شَرِيكَ لَهُ لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَىْءٍ قَدِيرٌ اللَّهُمَّ اجْعَلْ فِى قَلْبِى نُورًا وَفِى سَمْعِى نُورًا وَفِى بَصَرِى نُورًا اللَّهُمَّ اشْرَحْ لِى صَدْرِى وَيَسِّرْ لِى أَمْرِى وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ وَسْوَاسِ الصَّدْرِ وَشَتَاتِ الأَمْرِ وَفِتْنَةِ الْقَبْرِ اللَّهُمَّ إِنِّى أَعُوذُ بِكَ مِنْ شَرِّ مَا يَلِجُ فِى اللَّيْلِ وَشَرِّ مَا يَلِجُ فِى النَّهَارِ وَشَرِّ مَا تَهُبُّ بِهِ الرِّيَاحُ وَمِنْ شَرِّ بَوَائِقِ الدَّهْرِ۔
*ترجمہ : اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں وہ تنہا ہے اس کا کوئی شریک نہیں اسی کے لئے ملک ہے اور اسی کے لئے حمد ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے ،اے اللہ میرے دل میں نور کردے اور میرے کانوں میں نور کر دے ، اور میرے آنکھوں میں نور کر دے ،اے اللہ ! میرا سینہ کھول دے اور میرے کاموں کو آسان فرمادے اور میں سینے کے وسوسوں سے اور کاموں کے بگڑنے سے اور قبر کے فتنہ سے تیری پناہ چاہتاہوں ، اے اللہ ! میں تیری پناہ چاہتاہوں اس چیز کے شر سے جو رات میں داخل ہو تی ہے اور اس کے شر سے جو دن میں داخل ہو تی ہے اور اس چیز کے شر سے جس سے ہوا لے کر چلتی ہے اور زمانہ میں پیدا ہو نے والی* مصیبتوں سے ۔ (مصنف ابن ابی شیبہ )
حضرت عبد اللہ ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہما سے منقول ہے کہ وہ عرفات میں عصر کی نماز سے فارغ ہو کر ہاتھ اٹھا کر وقوف میں مشغول ہو جاتے تھے اور اللَّهُ أَكْبَرُ وَلِلَّهِ الْحَمْدُ ، لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ. پڑھ کریہ دعا پڑھتےتھے۔ اللَّهُمَّ اهْدِنِي بِالْهُدَى ، وَنقِنِی بِالتَّقْوَى ، وَاغْفِرْ لِی فِی الآخِرَةِ وَالأُولَى.(حصن حصین)
اس کے بعد ہاتھ نیچے کر لیتے تھے اور جتنی دیر میں سورہ فاتحہ پڑھی جاتی ہے اتنی دیر خاموش رہ کر پھر ہاتھ اٹھا تے تھے اور اسی طرح دعا کرتے تھے جس طرح اوپر بیان ہوئی۔
مذکورہ بالا دعاؤں کے علاوہ اور جو چاہے اور جس زبان میں چاہے دعا کرے اور دل خوب حاضر کر کے خشوع و خضوع کے ساتھ دعا مانگے کیونکہ حقیقی معنی میں دعاو ہی ہے ، جو دل سے نکلے ، جو دعائیں اس موقع سے متعلق روایات حدیث سے ثابت ہیں ان کا خاص اہتمام کرنا چاہئے جو اوپر لکھدی گئیں ہیں ، دعاؤں کے درمیان بار بار تلبیہ بھی پڑھتا رہے ۔
حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم سے بٍے شمار جامع دعائیں منقول ہیں جو کسی وقت یا مقام کے ساتھ مخصوص نہیں وہ دعائیں ہر وقت مانگی جاسکتی ہیں اور ان دعاؤں کو الحزب الاعظم اور مناجا ت مقبول میں جمع کردیا گیا ہے عرفات میں ان کتابوں میں سے جس قدر چاہے دعائیں پڑھ لے ۔ بہت لمبا وقت ہو تا ہے اس میں بہت کچھ پڑھ سکتے ہیں اور مانگ سکتے ہیں ۔
No comments:
Post a Comment